بسم اللہ الرحمن الرحیم
مرکزی ادارہ براے امور مسجد حرام و مسجد
نبوی
مملکت
عربیہ سعودیہ
(ڈاکٹر
عدنان حکیم کے سوالات کا جواب)
سب
تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے، میں درودوسلام
کہتا ہوں کہ محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر جو ہمارے آقا ہیں اور اس کے بندے اور
رسول نیز آپ کی آل پر اور تمام اصحاب پر ۔
سوال نمبر1۔ کیا صحابہ کرام، تابعین عظام، اور فقہاء امت کا
اجماع حجت شرعیہ ہے یا نہیں؟ اور کیا اجماع تشریع اسلامی کا تیسرا ماخذ ہے یا نہیں
؟ اجماع کے حجت ہونے کی کیا دلیل ہے ؟ اور بلکیہ اجماع کے منکر کا کیا حکم ہے ؟
جواب۔ باتفاق علماء صحابہ کرام
کا اجماع حجتِ شرعیہ ہے اسی طرح تابعین اور فقہا کا اجماع بھی حجت شرعیہ ہے البتہ
اس میں داؤد ظاہری نے اختلاف کیا ہے ان کی راے یہ ہے کہ غیر صحابہ کا اجماع حجت
شرعیہ نہیں لیکن حجت ہونے کا قول صحیح ہے کیونکہ حجیت اجماع کے دلائل عام ہیں ،
صحابہ رضی اللہ عنہ وغیر صحابہ سب کے اجماع کو شامل ہیں اس صرف صحابہ کرام کے
اجماع کو حجت کہنا سینہ زوری ہے ، اس پر کوئی دلیل قائم نہیں ! کتاب و سنت کے بعد
اجماع کو تشریع اسلامی کے مآخذ میں سے تیسرا ماخذ تسلیم کیا گیا ہے ۔
دلائل حجیت اجماع۔۔۔۔۔ جمہور علماء کے نزدیک اجماع حجت شرعیہ ہے
اس پر عمل کرنا واجب ہے اس پر کتاب و سنت کے بہت سے دلائل ہیں ہم ان میں سے چند
ایک ذکر کرتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔ فرمان خداوندی ہے "
وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ
غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ
وَسَاءتْ مَصِيراً
جو شخص ہدایت واضح ہو جانے کے بعد رسول کی
مخالفت کرتا ہے اور سبیل المومنین کے علاوہ کسی دوسرے راستہ پر چلتا ہے ہم اس کو
ادھر پھیر دیتے ہیں جدھر وہ پھرتا ہے اور ہم اس کو جہنم میں داخل کریں گے اور وہ
برا ٹھکانہ ہے ۔ (سورہ نساء115)۔
اللہ تعالیٰ نے سبیل المومنین کے ترک پر وعید فرمای ہے اگر یہ
حرام نہ ہوتا تو اس پر وعید نہ وارد ہوتی۔ اور اس وعید میں سبیل المومنین کے ترک
کو اور مخالفت رسول کو جو حرام ہے جمع نہ کیا جاتا اور جب غیر سبیل المومنین کی
اتباع حرام ہے تو سبیل المومنین کی اتباع واجب ہوگی اور اجماعی حکم سبیل المومنین
ہے لہذا اس کی اتباع واجب ہے ۔
۔ 2۔۔۔۔۔۔ اور سنت سے دلیل یہ ہے کہ حضرت انس
بن مالکؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے سنا
آپ نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ میری امت کو یافرمایا امت محمد صلیٰ اللہ علیہ
وسلم کو گمراہی پر جمع نہ کرے گا۔ (ترمذی) اور
حضرت ابن عمر رضی اللہ
عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ
میری امت کو گمراہی پر جمع نہ کرے گا اور اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور جماعت سے
کٹا وہ آگ میں پڑا۔ (ترمذی) ان سب احادیث کا اختلاف الفاظ کے باوجود مفہوم ایک ہے
۔
یعنی مجموعی طور پر امت کا خطا سے معصوم ہونا۔ اس سے ثابت ہوا
کہ علماء کا اجماع حجت شرعیہ ہے۔ ہمیشہ ان احادیث سے بغیر کسی رد وقدح کے پہلے
صحابہ کرام پھر ان کے بعد والے علماء عظام حجیت اجماع کو ثابت کرتے رہے ہیں۔ تاآنکہ
بعد میں مخالفینِ اجماع پیدا ہو گئے۔
منکرین اجماع کا حکم۔۔۔۔ اجماع قطعی کے منکر کے بارے میں علماء
کے تین قول ہیں۔
۔(1)۔ ۔مطلقاً اجماع قطعی کا انکار کفر ہے۔
۔(2)۔ مطلقاً اجماع قطعی کا انکار کفر نہیں۔
اگر اجماعی حکم کا دین میں سے ہونا امر قطعی ہو جیسے پانچ
نمازیں تو اس کا انکار کفر ہے اور اگر اس کا دین میں سے ہونا امر قطعی نہ ہو تو
اسکا انکار کفر نہیں۔تاہم اجماع کی مخالفت جایز نہیں جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ
اجماع حجت شرعیہ ہے اس پر عمل کرنا واجب ہے ۔
سوال نمبر 2۔۔۔۔۔۔ قیاس کی بنیاد ظن پر ہے اس جس چیز کی بنیاد
ظن پر ہو وہ ظنی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ظن کی اتباع سے منع فرمایا ہے۔ اللہ
تعالیٰ کا فرمان ہے اور اس چیز کے پیچھے مت چل جسکا تجھے علم نہیں" (الاسراء۔
36)لہذا قیاس کے ساتھ حکم بتانا درست نہیں کیونکہ یہ اتباعِ ظن ہے"۔
جواب۔۔۔۔۔ قیاس فقہ اسلامی
کے ماخذ میں سے چوتھا ماخذ ہے اور اس کی حجیت کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت ہے اس
پر صحابہ کرام، تابعین اور فقہا امت نے قرنہا قرن عمل کیا ہے ۔ جمہور علماء کے
نزدیک قیاس پر عمل کرنا واجب ہے جبکہ داؤد ظاہری اور ان کے پیروکاروں نے اس کا
انکار کیا ہے ، انہوں نے کہا کہ قیاس حجت شرعیہ نہیں ہے ، ان کے دلایل میں سے ایک
دلیل ہوی ہے جس کا آپ نے سوال میں ذکر کیا ہے ۔ علماء نے ان کے دلایل کے جوابات
بھی دیے ہیں ، ہم مختصر طور پر بعض جواب ذکر کرتے ہیں ۔ اور اگر آپ کو مزید وسعت
درکار ہو تو کتب اصول فقہ کی طرف مراجعت کیجیے۔ مثلاً علامہ جوینیؒ کی البرھان، امام رازیؒ کی المحصول، الاحکام للآمدییؒ، شروح مختصر ابن حاجبؒ، اصول سرخسیؒ، اور عبدالعزیز بخاریؒ کی کشف الاسرار ان کتابوں
میں منکرین قیاس کا تفصیلی رد ہے۔ بہرکیف وہ آیات جن میں اتباع ظن سے نہی کی گئی
ہے، ان کا قیاس شرعی سے کوئی تعلق نہیں نہ اس پر منطبق ہوتی ہیں کیونکہ ان آیات
میں چیز سے نہی کی گئی ہے وہ ہے ۔ عقائد میں ظن کی اتباع۔ رہے احکام عملیہ سو ان
کے اکثر دلائل ظنی ہیں اگر ہم اس شبہ کا اعتبار کر لیں تو ہمیں وہ تمام دلائلِ
شرعیہ ترک کرنے پڑیں گے جو ظنی الدالات ہیں اور یہ باطل ہے ۔ رہا ان کا اللہ
تعالیٰ کے فرمان ہے
وَلاَ
تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ (الإسراء: 36 "سے استدلال سو اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت سے مقصود نہی ہے اس
بات سے کہ کوئی انسان محلِ یقین میں امکانِ تیقن کے باوجود حصولِ یقین سے انحراف
کر کے ظن و تخمین پر اعتماد کرے پس یہ نہی قیاس شرعی کو شامل نہیں کیونکہ فرع واصل
کے درمیان علت جامعہ پاےئےجانے کی وجہ سے حکم کے اعتباد سے فرع کو اصل کے ساتھ
لاحق کرنا اس حکم کے قبیل سے نہیں جس سے آیت میں منع کیا گیا ہے ، یعنی بغٰر علم
کے قول کرنا، کیونکہ مجتہد اسی چیز کو اختیار کرتا ہے جو اس کے نزدیک راجح ہوتی ہے
اور اسکا اجتہاد اس تک پہنچتا ہے۔
سوال نمبر 3۔۔۔۔۔ قیاس شرعی کے حجت ہونے کی کیا دلیل ہے؟
جواب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علماء نے
قیاس کی حجیت کو کتاب و سنت اور اجماع سے نیز عقلی دلیل سے ثابت کیا ہے، ہم ان میں
سے بعض ذکر کرتے ہیں اور اگر مزید دلائل معلوم کرنے کا ارادہ ہو تو ان کتب اصول کی
طرف مراجعت کی جاے جن کا میں نے منکرین قیاس کے شبہات کے رد میں پہلے ذکر کیا ہے۔
کتاب اللہ سے دلیل فرمان الہیٰ ہے۔
هُوَ
الَّذِي أَخْرَجَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِنْ دِيَارِهِمْ
ِلأَوَّلِ الْحَشْرِ مَا ظَنَنْتُمْ أَنْ يَخْرُجُوا وَظَنُّوا أَنَّهُمْ
مَانِعَتُهُمْ حُصُونُهُمْ مِنْ اللَّهِ فَأَتَاهُمْ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ
يَحْتَسِبُوا وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمْ الرُّعْبَ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُمْ
بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِي الْمُؤْمِنِينَ فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الأَبْصَارِ (الحشر: 2
اللہ وہ ہے جس نے اہلِ
کتاب میں سے کافروں کو ان کے گھروں سے نکالا۔ پہلے حشر کے وقت تمہارا گمان نہیں
تھا کہ وہ نکلیں گے اور انہوں نے گمان کیا کہ ان کے قلعے ان کو اللہ کے عذاب سے
بچالیں گے سو ان پر اللہ کا عذاب ایسے طور پر آیا جس کا وہ گمان بھی نہیں رکھتے
تھے اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا گیا وہ گراتے تھے اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں
اور مومنین کے ہاتھوں، پس عبرت پکڑو اے ارباب بصیرت محل استدلال اللہ تعالیٰ کا
فرمان فاعتبروایااولی الابصار ہے ۔
وجہ استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب مسلمانوں کو اس عذاب کی خبر دی جو بنو
نصیر پر نازل ہوا تو ان کو حکم دیا کہ وہ عبرت پکڑیں اور الاعتبار
العبور سے مشتق ہے ۔ اور العبور کا معنی ہے المجاوزۃ یعنی گذرنا۔
مقصود یہ ہے کہ اپنے نفوس کو ان پر قیاس کرو کیونکہ تم بھی ان جیسے بشر ہو اگر تم
ان جیسے کام کرو گے تو تمہارے اوپر بھی وہی عذاب اتر پڑے گا جو ان پر اترا۔ پس یہ
آیت تمام انواعِ اعتبار کو شامل ہے اور جب قیاس میں فرع واصل کے درمیان موجود علت
جامعہ کی وجہ سے فرع سے اصل کی طرف مجاوزت ہوتی ہے تو یہ بھی اس اعتبار کے انواع
میں داخل ہو گا جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور
سنت سے دلیل یہ ہے کہ
حضرت معاذ بن جبلؓ سے
روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ان کویمن کی طرف قاضی بنا کر بھیجا
تو دریافت فرمایا کہ آپ کیسے فیصلہ کریں گے ؟ انہوں نے جواب دیا کتاب اللہ کے ساتھ
۔ فرمایا ! اگر کتاب اللہ میں نہ ہو تو؟ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب
دیا سنت رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فیصلہ کروں گا۔ آپ نے فرمایا اگر
آپ کو سنت رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم میں بھی نہ ملے تو پھر؟ کہنے لگے میں
اپنی رائےسے اجتہاد کروں گا۔ اور اسمیں کوتاہی نہ کروں گا رسول اللہ صلیٰ اللہ
علیہ وسلم نے ان کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا اللہ کا شکر ہے جس نے رسول اللہ
صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جس پر اللہ کا شکر ہے جس پر
اللہ کا رسول راضی ہے۔ (ابوداود۔ ترمذی، مسند
احمد، ابوداود طیالسی) اور اس کی بہت سے
محققین نے تصحیح کی ہے ) وجہ استدلال یہ ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ
کرنے میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے کتاب و سنت سے اجتہاد کی طرف منتقل ہونے کو
درست قراردیا ہے اور قیاس بھی اجتہاد کے انواع میں سے ایک نوع ہے۔ علاوہ ازیں عمل
بالقیاس پر صحابہ کرام کا اجماع ہے اور ہر وہ امر جس پر صحابہ کرام کا اجماع ہو وہ
حق ہے اس کا التزام واجب ہے،
اس کی مثالوں میں سے ایک
مثال یہ ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کی طرف اپنا مشہور حکمامہ تحریری طور پر بھیجا کہ اشباہ و نظایر کو
پہچانئے اور امور میں اپنی رائے کے ساتھ قیاس کیجیے (سنن کبریٰ بیہقی، الفقیہ والمتفقہ للخطیب)
عقلی دلیل یہ ہے کہ کتاب و سنت کی نصوص محدود
اور متناہی ہیں اور لوگوں کو درپیش مسایل غیر متناہی ہیں کیونکہ ہر زمان و مکان
میں نےء مسایل ظہور پذیر ہوتے ہیں سو اگر ان کے احکام معلوم کرنے کے لیے کتاب و
سنت کی نصوص پر قیاس نہ کریں تو وہ بغیر حکم شرعی کے باقی رہ جائیں گے اور یہ باطل ہے کیونکہ شریعت مقدسہ عام ہے
اور تمام نے پیش آمدہ مسائل کو شامل ہے: ہر ہر واقعہ کے لیے شریعت میں حکم موجود
ہے اور مجتہدین پر لازم ہے کہ وہ استنباط کے قواعد معروفہ کے موافق استنباط کریں۔
سوال نمبر 4۔۔۔۔۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ
علیہ وسلم کے اس فرمان کا کیا مطلب ہے جو درست اجتہاد کرے اس کے لیے دو اجر ہیں
اور جو غلط اجتہاد کرے اس کے لے ایک اجر ہے۔
جواب ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے مراد
حاکم یا قاضی یا عالم مجتہدہے ۔ جب اس نے اجتہاد کیا اور اپنی ممکنہ استطاعت کسی
مسلہ کے حکم معلوم کرنے میں صرف اس کے باوجود اس سے حکم میں غلطی ہو گئی تو وہ
گناہ گار نہ ہو گا بلکہ اپنے اجتہاد پر ماجور ہو گا اور اگر اس نے حق کو پالیا تو
اس کے لیے دو گنا اجر ہو گا ایک اجر اجتہاد پر دوسرا صابت حق پر: بشرطیکہ وہ شرائط
اجتہاد کا علم و حامل ہو اور اگر شرائط اجتہاد کا عالم و حامل نہ ہو اور محص تکلف
کر کے اجتہاد کرے اور علم کا دعویٰ کرے تو یہ حدیث اسکو شامل نہیں :
سوال نمبر 5۔۔۔۔۔۔۔۔ جب تمام فقہا
مجتہدین کی آراء کسی واقعہ کے ایک حکم پر متفق ہوں تو کیا وہ قانون شرعی ہو جاتا
ہے ؟ کیا اس کی اتباع واجب ہے ؟ یا اس کی مخالفت جائز ہے ؟
جواب۔۔۔۔ جب تمام فقہا
مجتہدین کسی واقعہ کے ایک حکم پر متفق ہو جائیں تو اس کو اجماع شمار کیا جاتا ہے
جس کی مخالفت ناجائز اور اتباع واجب ہے اور جو اس اجماع کی مخالفت کرتا ہے وہ اس
وعید کی زد میں آتا ہے جس کو ہم نے حجیت اجماع کے دلائل میں ذکر کیا ہے :۔
سوال نمبر 6۔۔۔۔۔۔ کیا احکامِ شرعیہ کے لیے قیاس کا چوتھے ماخذ
کے طور پر اعتبار کیا جاتا ہے ؟
جواب۔۔۔۔۔کتاب و سنت اور
اجماع کے بعد احکامِ شرعیہ معلوم کرنے کے لیے قیاس چوتھا ماخذ ہے۔ اس کے ذریعے
احکامِ شرعیہ معلوم کئے جاتے ہیں۔ علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں امام بخاریؒ نے کتاب الاعتصام بالکتاب والسنہ میں
فرمایا ہے، مطلب یہ ہے کسی کے لیے بچاؤ نہیں مگر کتاب اللہ میں یا سنت نبویہ میں
یا علماء کے اجماع میں جبکہ ان میں حکم موجود ہو پس اگر ان میں حکم موجود نہ ہو تو
پھر قیاس ہے ۔ اس پر امام بخاری نے ترجمۃ
الباب قائم کیا باب الاحکام التی تعرف
بادلایل وکیف معنی الدلالۃ و تفسیر ھا۔
یعنی یہ باب ہے ان احکام کے بیان میں جو دلایل سے معلوم کئے جاتے ہیں اور دلالت
کیسے ہوتی ہے اور اس کی کیا تفسیر ہے ؟
(احکام القرآن 7۔172)
سوال نمبر7۔۔۔۔۔۔۔ اس آدمی کا کیا حکم ہے جو کہتا ہے کہ سب سے
پہلے شیطان نے قیاس کیا ہے ؟
جواب۔۔۔۔۔ اگر قائل کی مراد "انا خیر منہ خلقتنی من نار وخلقتہ من طین" والا قیاس ہے تو قائل کا یہ قول درست ہے کیونکہ حضرت ابن عباس
رضی اللہ عنہ حسن بصری اور ابن سیرین سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا سب سے
پہلے شیطان نے قیاس کیا اور غلط قیاس کیا اور حکماء نے کہا ہے کہ اللہ کے دشمن نے
غلط کہا کیونکہ اس نے آگ کو مٹی پر فضیلت دی حالانکہ وہ دونوں ایک درجہ میں ہیں کہ
وہ دونوں بے جان مخلوق ہیں۔ اور اگر قائل کا مقصد قیاس شرعی کا انکار و رد ہے اور
اس پر طعن! تو یہ نا جایز ہے، کیونکہ ماہرین علماء کا اجماع ہے اخذ بالقیاس پر:
اور اجماع مخالفت حرام، جبکہ شاذ اقوال کا کوی اعتبار نہیں۔
سوال نمبر8۔۔۔۔۔ اسلامی شریعت میں ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک
امام کی تقلید (یعنی تقلید شخصی) کا کیا حکم ہے ؟
جواب۔۔۔۔۔ مسئلہ تقلید کے
اعتبار سے مسلمانوں کی دو قسمیں ہیں ۔
۔(ایک)۔ مجتہدین یعنی وہ علماء جو دلائل سے
مسائل مستنبط کرنے کی قدرت رکھتے ہیں ان کے لیے تقلید جائز نہیں بلکہ ان پر اجتہاد
واجب ہے ۔
(دو) عوام، یعنی وہ لوگ جو اجتہاد کی قدرت و اہلیت نہیں رکھتے ان
کے لیے آئمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید جائز ہے۔ اور تقلید سے مراد یہ ہے کہ
فقہی مسائل میں دلیل جانے بغیر مجتہد کے قول کی اتباع کرنا۔ اس پر دلیل اللہ
تعالیٰ کا یہ قول ہے۔
وَمَا
أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلاَّ رِجَالاً نُوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُوا أَهْلَ
الذِّكْرِ إِنْ كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ (الأنبياء:
پس پوچھو اہل علم سے اگر تم نہیں جانتے۔ (الانبیاء-7) اور
رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا فرمان زخمی
صحابی کے مشہور واقعہ میں کہ " جب وہ نہیں جانتے تھے تو انہوں نے پوچھ کیوں
نہ لیا: عاجز آدمی کے لیے بجز سوال کے کسی بات میں شفا نہیں"( ابوداؤد۔ ابن
ماجہ، احمد ، حاکم، طبرانی)اور عامۃ الناس کو اجتہاد کا مکلف بنانا متعدذ ہے،
کیونکہ اجتہاد کا تقاضا ہے کہ مجتہد میں خاص ذہنی صلاحیت ہو۔ علم میں پختگی ہو اور
لوگوں کے احوال اور وقایع کی معرفت اور طلب علم اور اس پر صبر کی عادت اور اگر سب
لوگ ان شرائط کو پورا کرنے کے لیے ان کے حصول میں مشغول ہو جائیں تو کاروبار معشیت
باطل ہو جائیں گے اور نظام دنیا درہم برہم ہو جاے گا ۔
سوال نمبر 9۔۔۔۔۔۔ کیا یہ آیت کریمہ
"اتخذو احبارھم ورھبانھم
اربابا من دون اللہ " آئمہ اربعہ یعنی
امام ابو حنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعی، امام احمد بن حنبلؒ کی تقلید پر منطبق
ہوتی ہے یا نہیں ؟
جواب۔۔۔۔۔
آیت سے مقصود یہ ہے کہ انہوں نے اپنے احبار کو ارباب کی طرح بنالیا کیونکہ انہوں
نے ان کی ہر چیز میں اطاعت کی چناچہ امام ترمذی نے عدی بن حاتم سے روایت نقل کی ہے
وہ فرماتے ہیں میں نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے پاس اس حالت میں آیا کہ میری گردن
میں سونے کی صلیب تھی آپ نے فرمایا اے عدی اس کو اتار پھینک۔ یہ بت ہے اور میں نے
آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے سورہ براءۃ کی یہ آیت تلاوت کی اتخذو احبارھم ورھبانھم اربابا من دون اللہ والمسیح بن مریم(توبہ۔31) پھر فرمایا خوب سن لو وہ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے ،
لیکن جب وہ کسی چیز کو حلال قرار دیتے یہ اس کو حلال سمجھتے اور جب وہ ان پر کویئ چیز
حرام کرتے تو یہ اس کو حرام سمجھتے۔ سو کہاں آئمہ اربعہ اور کہاں وہ احبار جو اللہ کی
حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور اللہ کی حلال ٹھہرائ ہوئ چیز کو حرام
ٹھہراتے ہیں ۔ اللہ کی پناہ اس بات سے کہ ائمہ اعلام کو ان احبار جیسا سمجھا جائے
کیونکہ ان ائمہ نے شریعت اسلامیہ کی خدمت میں اپنی پوری قوت صرف کی اور اس میں
اپنی زندگیاں لگا دیں ان کے درمیان جو مسائل میں اختلاف ہے وہ درحقیقت اختلاف
اجتہادات کی وجہ سے ہے ۔ ان کا یہ اختلاف باعث اجر ہے ۔ اور یہ کہنا کہ مذکورہ
بالا آیت ائمہ اربعہ کو بھی شامل ہے جھوٹ ہے ، بہتان ہے ۔ اسکا سبب جہالت عظیمہ ہے
۔
سوال نمبر 10۔۔۔۔۔۔ کیا ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید شرک
و کفر کے زمرہ میں داخل ہے ؟؟
جواب۔۔۔۔۔ ائمہ اربعہ کی
تقلید غیر مجتہد کے لیے جائز ہے اس کا کفر و شرک کے ساتھ کویئی تعلق نہں آئمہ
اربعہ حق اور دین کے داعی ہیں ۔ انہوں نے اپنے نفوس کو علم شریعت کے سیکھنے سکھانے
کے لیے وقف کر دیا۔ حتیٰ کہ اس علم کا بڑا حصہ پایا۔ جس کی وجہ سے ان میں اجتہاد
کی قدرت و صلاحیت پیدا ہو گیء۔ سو عامۃ المسلمین جو ان کے مقلد ہیں وہ راہِ ہدایت
اور راہِ نجات پر ہیں انشاللہ۔
سوال نمبر 11۔۔۔۔۔۔۔ اور جو شخص یہ
عقیدہ رکھتا ہے کہ مقلدین شرک اور کفر کرتے ہیں اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
جواب۔۔۔۔۔۔۔ جو شخص یہ عقیدہ
رکھتا ہے اس کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کا یہ عقیدہ غلط ہے اس کی قطعاً کوی بنیاد
نہیں اور یہ عقیدہ دلالت کرتا ہے شریعت اسلامیہ سے بڑی جہالت پر کیونکہ شریعت
اسلامیہ نے کفروایمان شرک وتوحید کے درمیان فرق کیا ہے ایسے شخص پر لازم ہے کہ وہ
دین کا اتنا حصہ ضرور سیکھے جس کے ساتھ وہ شرک و کفر اور اجتہاد کے درمیان فرق کر
سکے۔
سوال نمبر 12۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا لوگ ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام
کی تقلید کے محتاج ہیں یا نہیں؟ اور جس مسئلہ میں نص نہ ہو اس میں تقلید گمراہی ہے
یا نہیں ؟۔
جواب۔۔۔۔۔۔ اسکا جواب ویسا
ہی ہے جیسا ہم نے پہلے تفصیلاً لکھا ہے کہ غیر مجتہد محتاج ہے مجتہد کی تقلید کی
طرف اور مجتہد کی تقلید خواہ غیر منصوص مسئلہ میں ہو یا نص کے سمجھنے میں ہو جائزہے
یہ تقلید گمراہی کی طرف مفضی نہیں ہے بلکہ اسکا گمراہی سے کوی تعلق نہیں۔
اللہ تعالیٰ سے توفیق کا
سوال ہے ۔