ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 11، جلد: 98 ، محرم الحرام 1436 ہجری مطابق نومبر 2014ء
FOR DETAILS
تقلید کی شرعی حیثیت
افادات: شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی
جمع و ترتیب: محمد ارمغان ارمان
(فرقہٴ غیر مقلدین جو ”عمل بالحدیث“ کے دعوے دار اور ”اہلِ حدیث“ کے نام سے موسوم ہیں؛ مگر عملاً بہت سی صحیح احادیث کا انکار کرتے ہیں۔ تقلید کو شرک و حرام کہتے ہیں؛جبکہ خود اپنی جماعت کے نام نہاد علماء اور اُردو تراجمِ کتب کی تقلید کرتے نظر آتے ہیں۔ اپنے آپ کو ”سلفی“ کہلاتے ہیں؛ مگر اُمت کے اکابرو اسلاف یعنی ائمہٴ مجتہدین، فقہا، علماء، صوفیاء اور صالحین (حتیٰ کہ صحابہٴ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین) کی بے ادبی و گستاخی اور توہین و تذلیل کرتے ہوئے بھی نہیں شرماتے۔
عوام الناس کی سادہ لوحی و کم علمی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ”قرآن و حدیث“ کے نام پر اپنے آزاد مشرب و موقف کو رائج و عام کر رہے ہیں، اور لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ صرف اہلِ حدیث ہی راہِ حق پر ہیں، اس کے بر خلاف اہل السنة والجماعة یعنی ائمہٴ اربعہ اور ان کے مقلدین گمراہ اور مشرک ہیں۔ یوں اُمتِ مسلمہ میں اتفاق و اتحاد کے بجائے افتراق و انتشار اور لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔
الحمدللہ! مسئلہ ”تقلید و اجتہاد“ اور اس پر کیے گئے اعتراضات و شبہات کے جوابات پر بے شمار کتابیں مفصل و مدلل لکھی جا چکی ہیں، اُنھی میں سے ایک نمونہٴ اسلاف شیخ الاسلام فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم کی ”تقلید کی شرعی حیثیت“ بھی ہے جو کہ مختصر؛ مگر نہایت جامع، آسان زبان اور اکابر و اسلاف اہل السنة والجماعة کے موقف کی صحیح ترجمان ہے؛ اس لیے اس کتاب کا خلاصہ اِفادہٴ عام کی غرض سے پیش کیا جا رہا ہے؛ تاکہ تقلید کی حقیقت و ضرورت اور ترکِ تقلید کے نقصانات سے آگاہی ہو)
تقلید کی حقیقت
اس بات سے کسی مسلمان کو انکار نہیں ہو سکتا کہ دین کی اصل دعوت یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی جائے، یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی؛ اس لیے واجب ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل سے احکامِ الٰہی کی ترجمانی فرمائی ہے،کون سی چیز حلال ہے؟ کون سی چیز حرام؟ کیا جائز ہے؟ کیا ناجائز؟ ان تمام معاملات میں خالصةً اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنی ہے، اور جو شخص اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے کسی اور کی اطاعت کرنے کا قائل ہو اور اس کو مستقل بالذات مُطاع سمجھتا ہو، وہ یقینا دائرہٴ اسلام سے خارج ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن و سنت کے احکام کی اطاعت کرے۔
لیکن قرآن و سنت میں بعض احکام تو ایسے ہیں کہ جنھیں ہر معمولی لکھا پڑھا آدمی سمجھ سکتا ہے، ان میں کوئی اِجمال (اختصار)، اِبہام (غیر واضح) یا تعارض (مخالفت، باہمی ضد) نہیں ہے؛ بلکہ جو شخص بھی انھیں پڑھے گا وہ کسی اُلجھن کے بغیر اُن کا مطلب سمجھ لے گا۔ (ص:۷)
جیسے: پانچ نمازیں، زکوٰة، روزے اور حج وغیرہ کی فرضیت، اور زنا، لواطت، شراب نوشی، چوری اور قتل وغیرہ کی حرمت۔ قرآن و سنت کے ان متفقہ اور قطعی احکام میں کسی اجتہاد و تقلید کی ضرورت پیش نہیں آتی اور نہ ہی جائز ہے؛ کیونکہ اس میں کوئی پیچیدگی اور اشتباہ نہیں۔
اس کے برعکس قرآن و سنت کے بہت سے احکام وہ ہیں جن میں کوئی اِبہام یا اِجمال پایا جاتا ہے، اور کچھ ایسے بھی ہیں جو قرآن ہی کی کسی دوسری آیت یا آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی کسی دوسری حدیث سے متعارض معلوم ہوتے ہیں۔ (ص:۸) جیسے: عبادات اور معاملات وغیرہ کے فروعی مسائل، جن میں اجتہاد کیا جاتا ہے اور علماء کا اختلاف ہوتا ہے۔
اب قرآن و حدیث سے احکام کے مستنبط کرنے کی دو صورتیں ہیں:
ایک صورت تو یہ ہے کہ ہم اپنی فہم و بصیرت پر اعتماد کر کے اس قسم کے معاملات میں خود کوئی فیصلہ کر لیں اور اس پر عمل کریں۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ اس قسم کے معاملات میں از خود کوئی فیصلہ کرنے کے بجائے یہ دیکھیں کہ قرآن و سنت کے ان ارشادات سے ہمارے جلیل القدر اسلاف نے کیا سمجھا ہے؟ چنانچہ قرونِ اولیٰ کے جن
بزرگوں کو ہم علومِ قرآن و سنت کا زیادہ ماہر پائیں، ان کی فہم و بصیرت پر اعتماد کریں اور انھوں نے جو کچھ سمجھا ہے اس کے مطابق عمل کریں۔ (ص:۹،۱۰)
بزرگوں کو ہم علومِ قرآن و سنت کا زیادہ ماہر پائیں، ان کی فہم و بصیرت پر اعتماد کریں اور انھوں نے جو کچھ سمجھا ہے اس کے مطابق عمل کریں۔ (ص:۹،۱۰)
ان دونوں صورتوں میں سے پہلی صورت خاصی خطرناک ہے، اور دوسری صورت بہت محتاط۔ (چند وجوہات ذکر کرنے کے بعد فرمایا) ان تمام باتوں کا لحاذ کرتے ہوئے اگر ہم اپنی فہم پر اعتماد کرنے کے بجائے قرآن و سنت کے مختلف التعبیر پیچیدہ احکام میں اس مطلب کو اختیار کر لیں جو ہمارے اسلاف میں سے کسی عالم نے سمجھا ہے، تو کہا جائے گا کہ ”ہم نے فلاں عالم کی تقلید کی ہے“؛ یہ ہے تقلید کی حقیقت۔ (ص:۱۰)
یہ بات واضح ہو گئی کہ: کسی امام یا مجتہد کی تقلید صرف اس موقع پر کی جاتی ہے جہاں قرآن و سنت سے کسی حکم کے سمجھنے میں کوئی دُشواری ہو۔ (ص:۱۰)
کسی امام یا مجتہد کی تقلید کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اُسے بذاتِ خود واجب الاطاعت سمجھ کر اتباع کی جا رہی ہے، یا اُسے شارع (شریعت بنانے والا، قانون ساز) کا درجہ دے کر اس کی ہر بات کو واجب الاتباع سمجھا جا رہا ہے؛ بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ پیروی تو قرآن و سنت کی مقصود ہے؛ لیکن قرآن و سنت کی مراد کو سمجھنے کے لیے بحیثیت شارحِ قانون اُن کی بیان کی ہوئی تشریح و تعبیر پر اعتماد کیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن و سنت کے قطعی احکام میں کسی امام یا مجتہد کی تقلید ضروری نہیں سمجھی گئی؛ کیونکہ وہاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا اصل مقصد اس کے بغیر بآسانی حاصل ہو جاتا ہے۔ (ص:۱۳،۱۴)
مقلد اپنے امام کے قول کو مآخذِ شریعت نہیں سمجھتا؛ کیونکہ مآخذِ شریعت صرف قرآن و سنت (اور انہی کے ذیل میں اجماع و قیاس) ہیں؛ البتہ یہ سمجھ کر اس کے قول پر عمل کرتا ہے کہ چونکہ وہ قرآن و سنت کے علوم میں پوری بصیرت کا حامل ہے؛ اس لیے اس نے قرآن و سنت سے جو مطلب سمجھا ہے وہ میرے لیے زیادہ قابلِ اعتماد ہے (اور اسی اعتماد کا نام ”تقلید“ ہے)۔
اب آپ بہ نظرِ انصاف غور فرمائیے کہ اس عمل میں کون سی بات ایسی ہے جسے ’گناہ“ یا ”شرک“ کہا جا سکے؟ یاد رکھیے! جس طرح تقلید کی مخالفت اور شرعی مسائل میں خود رائی قابلِ ملامت ہے، اسی طرح تقلید میں جمود اور غلو بھی قابلِ مذمت ہے۔ (ص:۱۴،۱۵۶)
تقلید کی دو صورتیں
ایک یہ ہے کہ تقلید کے لیے کسی خاص امام و مجتہد کو معین نہ کیا جائے؛ بلکہ اگر ایک مسئلہ میں ایک عالم کا مسلک اختیار کیا گیا ہے تو دوسرے مسئلہ میں کسی دوسرے عالم کی رائے قبول کر لی جائے، اس کو ”تقلیدِ مطلق“ یا ”تقلیدِ عام“ یا ”تقلیدِ غیر شخصی“ کہا جاتا ہے۔
اور دوسری صورت یہ ہے کہ تقلید کے لیے کسی ایک مجتہد عالم (کے مکتبِ فکر) کو اختیار کیا جائے، اور ہر ایک مسئلہ میں اسی کا قول اختیار کیا جائے، اُسے ”تقلیدِ شخصی“ کہا جاتا ہے۔
تقلید کی ان دونوں قسموں کی حقیقت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ ایک شخص براہِ راست قرآن و سنت سے احکام مستنبط کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو وہ جس مجتہد کو قرآن و سنت کے علوم کا ماہر سمجھتا ہے اس کی فہم و بصیرت اور اس کے تفقہ پر اعتماد کر کے اس کی تشریحات کے مطابق عمل کرتا ہے، اور یہ وہ چیز ہے جس کا جواز؛ بلکہ وجوب قرآن و سنت کے بہت سے دلائل سے ثابت ہے۔ (ص:۱۵)
چنانچہ صحابہٴ کرام میں سے جو حضرات اپنے آپ کو اہلِ استنباط و اجتہاد نہیں سمجھتے تھے، وہ فقہاءِ صحابہ سے رجوع کرتے وقت اُن سے دلائل کی تحقیق نہیں فرماتے تھے؛ بلکہ اُن کے بتائے ہوئے مسائل پر اعتماد کر کے عمل فرماتے تھے۔ (ص:۳۴)
قرآن و سنت سے چند دلائل اور عہدِ صحابہ و تابعین میں تقلیدِ مطلق و تقلیدِ شخصی پر عمل کی چند مثالیں پیش کرنے کے بعد فرمایا کہ: غرض مندرجہ بالا روایات سے یہ بات پایہٴ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ تقلید کی دونوں قسموں (شخصی اور غیر شخصی) پر صحابہٴ کرام کے عہدِ مبارک میں عمل ہوتا رہا ہے، اور حقیقت یہی ہے کہ جو شخص قرآن و سنت سے براہِ راست احکام مستنبط کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، اصل کے اعتبار سے اس کے لیے تقلید کی دونوں قسمیں جائز اور درست تھیں۔ (ص:۵۹)
”تقلیدِ شخصی“ کی ضرورت
تقلید پر عمل کرنے کے لیے ”تقلیدِ مطلق“ یا ”تقلیدِ شخصی“ میں سے جس صورت پر بھی عمل کر لیا جائے، اصلاً جائز ہے؛ لیکن اللہ تعالیٰ رحمتیں نازل فرمائے ہمارے بعد کے فقہاء پر جو اپنے اپنے زمانے کے نبض شناس تھے اور جنہیں اللہ تعالیٰ نے زمانے کے بدلتے ہوئے حالات پر نگاہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائی تھی، انھوں نے بعد میں ایک زبردست انتظامی مصلحت کے تحت تقلید کی مذکورہ دونوں قسموں میں سے صرف ”تقلیدِ شخصی“ کو عمل کے لیے اختیار فرما لیا، اور یہ فتویٰ دے دیا کہ
اب لوگوں کو صرف تقلیدِ شخصی پر عمل کرنا چاہیے اور کبھی کسی امام کی تقلید کے بجائے کسی ایک مجتہد (کے مکتبِ فکر) کو متعین کر کے اسی کے مذہب کی پیروی کرنی چاہیے! (ص:۶۰،۶۱)
وہ زبر دست ”انتظامی مصلحت“ کیا تھی؟ بطورِ تمہید پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ ”خواہش پرستی“ وہ زبردست گمراہی ہے جو بسا اوقات انسان کو کفر تک پہنچادیتی ہے؛ اسی لیے قرآن و حدیث میں بے شمار مقامات پر خواہش پرستی کی مذمت اور اس سے دامن بچانے کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ خواہش پرستی کی دو صورتیں ہیں: ایک تو یہ ہے کہ انسان بُرے کام کو بُرا اور گناہ کو گناہ سمجھے؛ مگر اپنے نفس کی خواہشات سے مجبور ہو کر اس میں مبتلا ہو جائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ انسان اپنی نفسانی خواہشات کی غلامی میں اس حد تک پہنچ جائے کہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر ڈالے اور دین و شریعت کو کھلونا بنا دے۔
یہ دوسری صورت پہلی سے زیادہ سنگین، خطرناک اور تباہ کن ہے؛ کیونکہ پہلی صورت میں جرم پر نادم ہو کر توبہ کرنے کی اُمید رہتی ہے، اس کے برعکس دوسری صورت میں ایسا نہیں ہے۔
فقہاءِ کرام نے محسوس فرمایا کہ لوگوں میں دیانت کا معیار روز بروز گھٹ رہا ہے، احتیاط اور تقویٰ اُٹھتے جا رہے ہیں، ایسی صورت میں اگر تقلیدِ مطلق کا دروازہ چوپٹ کھلا رہا تو بہت سے لوگ جان بوجھ کر اور بہت سے غیر شعوری طور پر خواہش پرستی میں مبتلا ہو جائیں گے۔
مثلاً: ایک شخص کے سردی کے موسم میں خون نکل آیا، تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا وضو ٹوٹ گیا، اور امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہیں ٹوٹا، وہ اپنی تن آسانی کی وجہ سے اس وقت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کی تقلید کر کے بلا وضو نماز پڑھ لے گا۔ پھر اُس کے تھوڑی دیر بعد اگر اس نے کسی عورت کو چُھو لیا، تو امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا وضو جاتا رہا، اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک برقرار ہے، اس کی تن آسانی اس موقع پر اُسے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کی تقلید کا سبق دے گی، اور پھر وہ بلا وضو نماز کے لیے کھڑا ہو جائے گا۔
غرض جس امام کے قول میں اُسے آرام اور فائدہ نظر آئے گا اسے اختیار کرے گا، اور جس قول میں کوئی مضرت نظر آئے یا خواہشات کی قربانی دینی پڑے اُسے چھوڑ دے گا، اور ایسا بھی ہو گا کہ اس کا نفس اسی قول کی صحت کی دلیلیں سُجھائے گا جو اُس کے لیے زیادہ آسان ہے اور وہ بالکل غیر شعوری طور پر خواہش پرستی میں مبتلا ہو گا۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی باتوں کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ احکامِ شرعیہ نفسانی خواہشات کا ایک کھلونا بن کر رہ جائیں گے، اور یہ وہ چیز ہے جس کے حرامِ قطعی ہونے میں آج تک کسی مسلمان کا اختلاف نہیں ہوا۔ (ص:۶۱،۶۲)
اپنی خواہشاتِ نفس کے تابع ہو کر ایک چیز کو کبھی حلال اور کبھی حرام کرلینا اور جس مذہب میں نفسانی فائدہ نظر آئے اُسے اختیار کر لینا اتنا بڑا جرم ہے کہ وہ کسی کے نزدیک جائز نہیں۔ اس موضوع پر قرآن و حدیث کی نصوص اور علماءِ اُمت کی تصریحات بے شمار ہیں۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ یہ تسلیم فرماتے ہیں کہ اپنی خواہشات کے تابع ہو کر کبھی کسی کا اور کبھی کسی کا مذہب اختیار کرلینا بہ اجماعِ اُمت ناجائز ہے۔
صحابہ و تابعین کے زمانے میں؛ چونکہ خوفِ خدا اور فکرِ آخرت کا غلبہ تھا؛ اس لیے اُس دَور میں ”تقلیدِ مطلق“ سے یہ اندیشہ نہیں تھا کہ لوگ اپنی خواہشات کے تابع ہو کبھی کسی مجتہد کا اور کبھی کسی مجتہد کا قول اختیار کریں گے؛ اس لیے اُس دَور میں ”تقلیدِ مطلق“ پر بے روک ٹوک عمل ہوتا رہا اور اُس میں کوئی قباحت نہیں سمجھی گئی؛ لیکن بعد کے فقہاء نے جب یہ دیکھا کہ دیانت کا معیار روز بروز گھٹ رہا ہے اور لوگوں پر نفسانیت غالب آتی جا رہی ہے تو اس وقت انھوں نے مذکورہ بالا انتظامی مصلحت سے یہ فتویٰ دیا کہ اب لوگوں کو صرف تقلیدِ شخصی پر عمل کرنا چاہیے اور ”تقلیدِ مطلق“ کا طریقہ ترک کر دینا چاہیے، یہ کوئی شرعی حکم نہیں تھا؛بلکہ ایک انتظامی فتویٰ تھا۔ (ص:۶۵)
مختلف مذاہب سے آسانیاں تلاش کر کے اُن پر عمل کرنا کیوں ناجائز ہے؟ اس سے کیا کیا مفاسد پیدا ہوتے ہیں؟ اور تقلیدِ شخصی کے رواج کے اسباب کیا ہیں؟ تفصیل کتاب ھذا میں دیکھئے۔ (ص:۶۹،۷۰)
اگر تقلیدِ مطلق کی عام اجازت ہو اور ہر شخص کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ جس مسئلے میں جس فقیہ کی چاہے تقلید کر لے تو اس قسم کے اقوال کو جمع کر کے ایک ایسا مذہب تیار ہو سکتا ہے جس کا بانی نفس اور شیطان ہو گا، اور دین کو اس طرح خواہشات کا کھلونا بنا لینا کسی کے مذہب میں جائز نہیں ہے۔ اسی بناء پر بعد کے فقہاء نے یہ فرمایا کہ اب تقلیدِ شخصی کی پابندی ضروری ہے اور کسی ایک مجتہد (کے مکتبِ فکر) کو معین کر کے ہر مسئلے میں اسی کی پیروی کی جائے تاکہ نفسِ انسانی کو حلال و حرام کے مسائل میں شرارت کا موقع نہ مل سکے۔ (ص:۶۸)
خلاصہ یہ ہے کہ صحابہٴ کرام اور تابعین کے دَور میں دیانت عام تھی، جس پر اعتماد کیا جا سکتا تھا، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضِ صحبت سے اُن کی نفسانیت اس قدر مغلوب تھی کہ خاص طور سے شریعت کے احکام میں انھیں خواہشات کی پیروی کا خطرہ نہیں تھا؛ اس لیے ان حضرات کے دَور میں تقلیدِ مطلق اور تقلیدِ شخصی دونوں پر عمل ہوتا رہا، بعد میں جب یہ زبردست خطرہ سامنے آیا تو تقلید کو ”تقلیدِ شخصی“میں محصور کر دیا گیا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو احکامِ شریعت کے معاملہ میں جو افراتفری برپا ہوتی، اس کا تصور ہم مشکل ہی سے کر سکتے ہیں۔ (ص:۷۱)
چند شبہات کا ازالہ
تقلیدِ شخصی کی حقیقت و ضرورت واضح ہو جانے کے بعد دو مشہور شبہات کے جواب ملاحظہ ہوں:
(۱)․․․․جو چیز عہدِ صحابہ و تابعین میں ضروری نہ تھی، بعد میں کیسے ضروری قرار دے دی گئی؟
جواب: حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں جمعِ قرآن کا واقعہ ”تقلیدِ شخصی“ کے معاملے کی ایک واضح نظیر ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُمت کی جس اجتماعی مصلحت کی بناء پر ایسا کیا، وہی صورتِ حال تقلید کے معاملے میں بھی پیش آئی، لہٰذا اس عمل کو بدعت نہیں کہا جا سکتا۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ اگر اُمت کو کسی مقصد کے حصول کے لیے متعدد امور کا اختیار ملا ہو تو وہ زمانے کے فساد کے پیشِ نظر ان میں سے کسی ایک طریقے کو اختیار کر کے باقی طریقوں کو چھوڑ سکتی ہے، اور تقلیدِ شخصی کے معاملے میں اس سے زائد کچھ نہیں ہوا۔ (ص:۷۸)
(۲)․․․․․اگر کسی بھی ایک امام کو معین کر کے اس کی تقلید کرنا ٹھہرا، تو پھر صرف ان چار اماموں کی کیا خصوصیت ہے؟ اُمت کے دوسرے مجتہدین کی تقلید کیوں نہیں کی جاتی؟
جواب:ان حضرات کے فقہی مذاہب مدوّن شکل میں محفوظ نہیں رہ سکے، اگر ان حضرات کے مذاہب بھی اس طرح مدوّن ہوتے جس طرح ائمہ اربعہ کے مذاہب مدوّن ہیں تو بلاشبہ ان میں سے کسی کو بھی تقلید کے لیے اختیار کیا جا سکتا تھا؛ لیکن نہ تو ان حضرات کے مذاہب کی مفصل کتابیں مدوّن ہیں، نہ ان مذاہب کے علماء پائے جاتے ہیں، اس لیے اب ان کی تقلید کی کوئی صورت نہیں ہے۔ (ص:۷۹)
تقلید کے درجات اور اُن کے احکام
تقلید کرنے والے کے لحاظ سے تقلید کے چار مختلف درجات اور اُن کے احکام ہیں۔ ان درجات میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور غیر مقلدین کے بیشتر اعتراضات اسی فرقِ مراتب کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ ان چار درجات کا سمجھنا بہت ضروری ہے، وہ بالترتیب یہ ہیں:
(۱)عوام کی تقلید (۲)متبحر عالم کی تقلید
(۳)مجتہد فی المذب کی تقلید (۴)مجتہد مطلق کی تقلید۔
(۱)عوام کی تقلید:
”عوام“ سے ہماری مراد مندرجہٴ ذیل اقسام کے حضرات ہیں:
(۱)۔وہ حضرات جو عربی زبان اور اسلامی علوم سے بالکل ناواقف ہوں، خواہ وہ دوسرے فنون میں وہ کتنے ہی تعلیم یافتہ اور ماہر و محقق ہوں۔
(۲)۔وہ حضرات جو عربی زبان جانتے اور عربی کتابیں سمجھ سکتے ہوں؛ لیکن انھوں نے تفسیر، حدیث، فقہ اور متعلقہ دینی علوم کو باقاعدہ اساتذہ سے نہ پڑھا ہو۔
(۳)۔وہ حضرات جو رسمی طور پر اسلامی علوم سے فارغ التحصیل ہوں؛ لیکن تفسیر، حدیث، فقہ اور ان کے اصولوں میں اچھی استعداد اور بصیرت پیدا نہ ہوئی ہو۔
یہ تینوں قسم کے حضرات تقلید کے معاملے میں ”عوام“ ہی کی صف میں شمار ہوں گے، اور تینوں کا حکم ایک ہی ہے۔ اس قسم کے عوام کو ”تقلید محض“ کے سوا چارہ نہیں؛ کیونکہ ان میں اتنی استعداد اور صلاحیت نہیں ہے کہ وہ براہِ راست کتاب و سنت کو سمجھ سکیں، یا اس کے متعارض دلائل میں تطبیق و ترجیح کا فیصلہ کر سکیں۔ لہٰذا احکامِ شریعت پر عمل کرنے کے لیے ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ کسی مجتہد کا دامن پکڑیں اور اس سے مسائلِ شریعت معلوم کریں۔ (ص:۸۵،۸۶)
اس درجے کے مقلد کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ دلائل کی بحث میں اُلجھے اور یہ دیکھنے کی کوشش کرے کہ کون سے فقیہ و مجتہد کی دلیل زیادہ راجح ہے؟ اس کا کام صرف یہ ہے کہ وہ کسی مجتہد کو متعین کر کے ہر معاملے میں اسی قول کے پر اعتماد کرتا رہے؛ کیونکہ اس کے اندر اتنی استعداد موجود نہیں ہے کہ وہ دلائل کے راجح و مرجوح ہونے کا فیصلہ کر سکے؛ بلکہ ایسے شخص کو اگر اتفاقاً کوئی حدیث ایسی نظر آ جائے جو بظاہر اس کے امام مجتہد کے مسلک کے خلاف معلوم ہوتی ہو ، تب بھی اس کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے امام و مجتہد کے مسلک پر عمل کرے، اور حدیث کے بارے میں یہ اعتقاد رکھے کہ اس کا صحیح مطلب میں نہیں سمجھ سکا، یا یہ کہ امام مجتہد کے پاس اُس کے معارض کوئی قوی دلیل ہو گی۔
․․․․․․ اور اگر ایسے مقلد کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ کوئی حدیث اپنے امام کے مسلک کے خلاف پا کر امام کے مسلک کو چھوڑ سکتا ہے، تو اس کا نتیجہ شدید افراتفری اور سنگین گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہو گا؛ اس لیے کہ قرآن و حدیث سے مسائل کا استنباط ایک ایسا وسیع و عمیق فن ہے کہ اس میں عمریں کھپا کر بھی ہر شخص اس پر عبور حاصل نہیں کر سکتا۔ (ص:۸۷)
ایسی احادیث بیسیوں ہیں، جن کو قرآن و سنت کے علوم میں کافی مہارت کے بغیر انسان دیکھے گا تو لامحالہ غلط فہمیوں میں مبتلا ہو گا۔ اسی بناء پر علماء نے فرمایا ہے کہ جس شخص نے علمِ دین باقاعدہ حاصل نہ کیا ہو، اُسے قرآن و حدیث کا مطالعہ ماہر استاذ کی مدد کے بغیر نہیں کرنا چاہیے۔ (ص:۹۱)
ہمارے فقہاء نے اس بات کی تصریح فرمائی ہے کہ عوام کو براہِ راست قرآن و حدیث سے احکامِ شریعت معلوم کرنے کے بجائے علماء و فقہاء کی طرف رجوع کرنا چاہیے؛ بلکہ فقہاء نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر کسی عام آدمی کو کوئی مفتی غلط فتویٰ دے دے تو اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہو گا، عام آدمی کو معذور سمجھا جائے گا؛ لیکن اگر عام آدمی کوئی حدیث دیکھ کر اس کا مطلب غلط سمجھے اور اس پر عمل کر لے، تو وہ معذور نہیں ہے؛ کیونکہ اس کا کام کسی مفتی کی طرف رجوع کرنا تھا، خود قرآن و سنت سے مسائل کا استنباط اس کا کام نہ تھا۔ (ص:۹۲،۹۳)
(۲)متبحر عالم کی تقلید:
”متبحر عالم“ سے ہماری مراد ایسا شخص ہے جو اگرچہ رُتبہٴ اجتہاد تک نہ پہنچا ہو؛ لیکن اسلامی علوم کو باقاعدہ ماہر اساتذہ سے حاصل کرنے کے بعد انہی علوم کی تدریس و تصنیف کی خدمت میں اکابر علماء کے زیرِ نگرانی عرصہٴ دراز تک مشغول رہا ہو، تفسیر، حدیث، فقہ اور ان کے اصول اسے مستحضر ہوں، اور وہ کسی مسئلے کی تحقیق میں اسلاف کے افادات سے بخوبی فائدہ اُٹھا سکتا ہو، اور ان کے طرزِ تصنیف و استدلال کا مزاج شناس ہونے کی بناء پر ان کی صحیح مراد تک پہنچ سکتا ہو۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمة اللہ علیہ ایسے شخص کو ”متبحر فی المذہب“ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ایسا شخص بھی اگرچہ رُتبہٴ اجتہاد تک نہ پہنچنے کی وجہ سے مقلد ہی ہوتا ہے؛ لیکن وہ اپنے مذہب کا مفتی بن سکتا ہے، ایسے شخص کی تقلید عوام کی تقلید سے کچھ امور میں مختلف ہوتی ہے۔ (ص:۹۴،۹۵)
ایک متبحر عالم کن شرائط کے ساتھ حدیث ِصحیح کی بنیاد پر اپنے امام مجتہد کے قول کو چھوڑ سکتا ہے؟ علمائے اُصولِ فقہ کی کتب سے اُن شرائط کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ علمائے اُصول کی مذکورہ بالا تصریحات کی روشنی میں ایک متبحر عالم اگر کسی مسئلے کے تمام پہلووٴں اور ان کے دلائل کا احاطہ کرنے کے بعد کم از کم اُس مسئلہ میں اجتہاد کے درجہ تک پہنچ گیا ہو (خواہ وہ پوری شریعت میں مجتہد نہ ہو) تو وہ یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ میرے امام مجتہد کا مسلک فلاں حدیث ِصحیح کے خلاف ہے۔ ایسے موقع پر اس کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ امام کے قول کو چھوڑ کر حدیث پر عمل کرے۔ (ص:۱۰۴)
لیکن اس طرح جزوی طور پر اپنے امام سے اختلاف کرنے کے باوجود مجموعی طور پر اُسے مقلد ہی کہا اور سمجھا جاتا ہے؛ چنانچہ بہت سے فقہاءِ حنفیہ نے اسی بناء پر امام ابو حنیفہ کے قول کو ترک کر کے دوسرے ائمہ کے قول پر فتویٰ دیا ہے۔ (ص:۱۰۷)
تنبیہ: البتہ یہ مسئلہ انتہائی نازک ہے؛ اس لیے اس میں نہایت احتیاط کی ضرورت ہے، اور ہر شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو متبحر علماء کی صف میں شمار کر کے اس منصب پر فائز ہو جائے، اور اُوپر جو شرائط بیان کی گئی ہوں اُن کی رعایت رکھے بغیر احکامِ شرعیہ میں تصرف شروع کر دے۔ (ص:۱۰۸)
(۳)مجتہد فی المذہب کی تقلید:
”مجتہد فی المذہب“ اُن حضرات کو کہتے ہیں جو استدلال و استنباط کے بنیادی اُصولوں میں کسی مجتہد مطلق کے طریقے کے پابند ہوتے ہیں؛ لیکن اُن اصول و قواعد کے تحت جزوی مسائل کو براہِ راست قرآن و سنت اور آثارِ صحابہ وغیرہ سے مستنبط کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں؛ چنانچہ ایسے حضرات اپنے مجتہد مطلق سے بہت سے فروعی احکام میں اختلاف رکھتے ہیں، لیکن اصول کے لحاظ سے اس کے مقلد کہلاتے ہیں۔ مثلاً: فقہ حنفی میں امام ابو یوسف اور امام محمد، فقہ شافعی میں امام مزنی اور امام ابو ثور، فقہ مالکی میں سحنون اور ابن القاسم، اور فقہ حنبلی میں ابراہیم الحربی اور ابو بکر الاثرم (رحمہم اللہ تعالیٰ)۔ لہٰذا مجتہد فی المذہب اصول کے لحاظ سے مقلد اور فروع کے لحاظ سے مجتہد ہوتا ہے۔ (ص:۱۰۸،۱۰۹)
(۴)مجتہد مطلق کی تقلید:
”مجتہد مطلق“ وہ شخص ہے جس میں تمام شرائط اجتہاد پائی جاتی ہوں اور وہ اپنے علم و فہم کے ذریعہ اصولِ استدلال بھی خود قرآن و سنت سے وضع کرنے پر قادر ہواور ان اصول کے تحت تمام احکامِ شریعت کو قرآنِ کریم سے مستنبط بھی کر سکتا ہو، جیسے: امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد وغیرہ (رحمہم اللہ تعالیٰ)۔ یہ حضرات اگرچہ اصول اور فروع دونوں میں مجتہد ہوتے ہیں؛ لیکن ایک طرح کی تقلید ان کو بھی کرنی پڑتی ہے، اور وہ اس طرح کہ جن مسائل میں قرآنِ کریم یا سنت ِصحیحہ میں کوئی تصریح نہیں ہوتی، وہاں یہ حضرات اکثر و بیشتر اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ خالصةً اپنی رائے اور قیاس سے فیصلہ کرنے کے بجائے صحابہ و تابعین میں سے کسی کا کوئی قول یا فعل مل جائے؛ چنانچہ اگر ایسا کوئی قول و فعل مل جاتا ہے تو یہ حضرات بھی اس کی تقلید کرتے ہیں۔ (ص:۱۰۹،۱۱۰)
تمام ائمہ مجتہدین نے اجتہاد کی شرائط کو پورا کر کے قرآن و حدیث کی صحیح مراد معلوم کرنے کی کوشش کی ہے؛ اس لیے سب کے مذاہب برحق ہیں، اور اگر کسی سے اجتہادی غلطی ہوئی ہے تو اللہ کے نزدیک وہ نہ صرف معاف ہے؛ بلکہ اپنی کوشش صرف کرنے کی وجہ سے مجتہد کو ثواب ہو گا، جس کی تصریح احادیث میں موجود ہے؛ البتہ ایک مقلد یہ اعتقاد رکھ سکتا ہے کہ میرے امام کا مسلک صحیح ہے؛ مگر اس میں خطا کا بھی احتمال ہے، اور دوسرے مذاہب میں ائمہ سے اجتہادی خطا ہوئی ہے؛ لیکن ان میں صحت کا بھی احتمال ہے۔ (ص:۱۵۷)
فرقہٴ ناجیہ اہل السنة و الجماعة کی اتباع ہی میں نجات ہے:
امامِ ربّانی حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ تعالیٰ (م۱۰۲۴ھ) فرماتے ہیں کہ
”ان بزرگانِ دین کی اتباع کے بغیر نجات حاصل ہونا محال ہے، اور اگر بال برابر بھی ان کی مخالفت ہے تو خطرہ ہی خطرہ ہے، یہ بات صحیح کشف اور صریح الہام کے ساتھ بھی یقین کے درجہ کو پہنچ چکی ہے، اس میں کسی قسم کے اختلاف کا شبہ و گنجائش نہیں ہے۔
پس اس شخص کے لیے خوشخبری ہے جس کو ان کی پیروی کی توفیق حاصل ہوئی اور ان کی تقلید سے مشرف ہوا اور اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جس نے ان کی مخالفت کی اور ان سے منحرف ہو گیا اور ان کے اُصولوں سے رُوگردانی کی اور ان کے گروہ سے نکل گیا۔ لہٰذا وہ لوگ خود بھی گمراہ ہوئے اور انھوں نے دوسروں کو بھی گمراہ کیا“۔ (مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی:۱/۱۹۱، دفتر اوّل، مکتوب:۵۹)
دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو سمجھنے اور اس کی اتباع کی توفیق بخشے، باطل کو باطل قرار دینے اور اس سے اجتناب کی ہمت عطا کرے، اور ہم آپس کی خانہ جنگیوں کے بجائے دین کے بلند مقاصد کے لیے اپنی زندگیاں خرچ کر سکیں، آمین ثم آمین۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
IFADAH AAM KE LIYE BASHUKRIA YAHAN PESH KIYA JA RAHA HAI
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 11، جلد: 98 ، محرم الحرام 1436 ہجری مطابق نومبر 2014ء
FOR DETAILS