Pages

Allah Promise for helping Muslims and Allah criteria, Nusrat e Ilahi ka Wada aur uske Sharaet Surah Noor verse 55,Surah Fatah Ayat 22, Surah Room Ayat 27, Surah Munafiqoon Ayat 8 Arabic Text and Urdu Translation


مالک ارض وسماء جل وعلا کا سچا وعدہ ہے کہ روئے زمین کی بادشاہت وخلافت مومنوں کیلئے ہے۔
{وَعَدَ اﷲُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا مِنکُمْ وَ عَمِلُو الصّٰالِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ} (نور آیۂ: ۵۵)
اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اورعمل صالح کئے ان کو ضرور روئے زمین کا خلیفہ بنائے گا۔
اور یہ بھی اطمینان دلایا ہے کہ مومن ہمیشہ کفار پر غالب رہیں گے اورکافروں کا کوئی یارو مددگار نہ ہو گا۔
{وَلَوْ قٰتَلَکُمُ الذَّیْنَ کَفَرُوْ لَوَلَّوُ اُلْاَ دْباَرَ ثُمَ لاَ یَجِدُوْنَ وَلِیًّا وَّ لاَ نَصِیْرًا} (فتح آیہ: ۲۲)
اور اگر لوگ تم سے ،یہ کافر لڑتے تو ضرور پیٹھ پھیر کربھاگتے اور نہ پاتے کوئی یارو مدد گار۔
اور مومنون کی نصرف اور مدد اﷲ تعالیٰ کے ذمہ ہے اور وہی ہمیشہ سر بلند اورسرفراز رہیں گے
وَکَانَ حَقّاً عَلَیْنَا نَصْرُالْمُٔو مِنَیْنَ (روم آیۂ۴۷)
اور حق ہے ہم پر مدد ایمان والوں کی۔
{وَلَا تَہِنُوْ وَلَا تَحْزَنُوْ اْ وَاَنْتُمُ الْاَ عْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ} (آل عمران آیہ ۱۳۹)
اور تم ہمت ہارو اور رنج مت کرو اور تم ہی غالب رہوگے اگر تم پورے مومن رہے۔
{و لِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَ لِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤُمِنِیْنَ} (منا فقون آیہ ۸)
اللہ ہی ہے عزت اور اس کے رسول کی اورمسلمانوں کی۔
مذکورہ بالا ارشادات پر غور کرنے سے معلوم ہتا ہے کہ مسلمانوں کی عزت، شان وشوکت، سربلندی وسرفرازی اورہربرتری وخوبی ان کی صفت ایمان کے ساتھ وابستہ ہے اگر ان کا تعلق خدا اور رسول ﷺ کے ساتھ مستحکم ہے (جو ایمان کا مقصود ہے )تو سب کچھ انکار ہے اور اگر خدانحواستہ اس رابطہ اس رابطہ تعلق میں کمی اورکمزوری پیدا ہو گئی ہے اور پھر سراسر خسران اور ذلت وخواری ہے جیسا کے واضح طورپر بتلا دیا گیا ہے۔
{وَالْعَصْرِ اِنَّ ا لْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ اِلَّاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ وَ عَمِلُو الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَا صَوْ ا بِالْحَقِّ وَ تَوَا صَوْا بِالصَّبْر}
قسم ہے زمانہ کی انسان بڑے خسارے میں ہے مگر جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے اور ایک د سرے کو حق کی فہمائش کرتے رہے اور ایک دوسرے کو پابندی کی فہمائش کرتے رہے۔
ہمارے اسلاف عزت کے منتہا کو پہنچے ہوئے تھے اور ہم انتہائی ذلت وخواری میں مبتلا ہیں۔ پس معلوم ہو اکہ وہ کمال ایمان سے متصف تھے اور ہم اس نعمت عظمیٰ سے محروم ہیں جیساکہ مخبر صادق ﷺ نے خبردی ہے۔
سَیَأْتِی عَلَی النَّاسِ زَمَانُٗ لَا یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اِسْمُہُ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْآنِ اِلَّا رَسْمُہُ۔ (مشکوۃ)
قریب ہی ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ اسلام کا صرف نام باقی رہ جائیگا اور قرآن کے صرف نقوش رہ جائیں گے۔
اب غور طلب امر یہ ہے کہ اگر واقعی ہم اس حقیقی اسلام سے محروم ہو گئے ہیں جوخدا اور رسولﷺ کے یہاں مطلوب ہے اور جس کے ساتھ ہماری دین ونیا کی فلاح وبہبود وابستہ ہے تو کیا ذریعہ ہے جس سے وہ کھوئی ہوئی نعمت واپس آئے؟ اور وہ کیا اساب ہیں جن کی وجہ سے روح اسلام ہم سے نکال لی گئی اورہم جسد بے جان رہ گئے ۔
جب مصحف آسمانی کی تلاوت کی جاتی ہے اور ’’ امت محمدیہﷺ‘‘کی فضلیت اوربرتری کی علت وغایت ڈھونڈھی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس امت جو ایک اعلیٰ اوربرتر کام سپرد کیاگیا تھا جس کی وجہ سے ’’خیر الامم‘‘ کا معزز خطاب اس کو عطا کیا گیا ۔
دنیا کی پیدائش کا مقصد اصلی خدا وحدہ لا شریک لہٗ کی ذات وصفات کی معرفت ہے اوریہ اس وقت تک نا ممکن ہے کہ جب تک بنی نوع انسان کو برائیوں اور گندگیوں سے پاک کر کے بھلائیوںاور خوبیوں کے ساتھ آراستہ نہ کیا جائے۔ اسی مقصد کیلئے ہزاروں رسول اورنبی بھیجے گئے اور آخر میں اس مقصد کی تکمیل کیلئے سید الانبیاء والمرسلینﷺ کو مبعوث فرمایا اور الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی کا مژدہ سنایا گیا ۔
اب چونکہ مقصد کی تکمیل ہو چکی تھی، ہر بھلائی اوربرائی کو کھول کھول کر بیان کردیا گیا تھا، ایک مکمل نظام عمل دیا جا چکا تھا، اس لئے رسالت ونبوت کے سلسلہ کو ختم کر دیا گیا اور جو کام پہلے نبی اور رسول سے لیا جاتا تھا وہ قیامت تک ’’امت محمدیہﷺ‘‘ کے سپرد کر دیاگیا۔
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَر(آل عمران: آ یۂ ۱۱۰ )
اے امت محمدیہ! تم افضل امت ہو، تم کو لوگوں کے نفع کے لئے بھیجا گیا ہے، تم بھلی باتوں کو لوگوں میں پھیلاتے ہو اور بری باتوں سے ان کو روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃُٗ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ و یَأْ مُرُوْنَ بِا لْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اُولٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۔ٔ (آل عمران:
اور چا ہئے کہ تم میں ایسی جماعت ہو کہ لوگوں کو خیر کی طرف بلائے اور بھلی باتوں کا حکم کرے اور بری باتوں سے منع کرے اور وہی لوگ فلاح والے ہیںجو اس کام کو کرتے ہیں
پہلی آیت میں ’ خیر امم‘‘ ہو نے کی وجہ یہ بتلائی کہ تم بھلائی کو پھیلاتے ہو اور برائی سے روکتے ہو۔د وسری آیت میں حصر کے ساتھ فرمادیا کہ فلاح وبہبود صرف انہی لوگوں کے لئے ہے جو اس کام کو انجام دے رہے ہیں اسی پر بس نہیں بلکہ دوسری جگہ صاف طور پر بیان کر دیا گیا کہ اس کان کو انجام نہ دینا لعنت اور پھٹکار کا موجب ہے۔
لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ مِنْ بَّنِیْ اِسْرَائِیْلَ عَلَی لِسَانِ دَاوُدَ وَ عِیْسَی بْنِ مَرْیَمَ ذَلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ کَانُوْا لَا یَتَنَا ھَوْنَ عَنْ مُّنْکَرٍ فَعَلُوْہُ لَبِئْسَ مَا کَانُوْ یَفْعَلُوْنَ (مائدہ: ۷۹)
بنی اسرائیل میں جو لوگ کافر تھے ان پر لعنت کی گئی تھی داود اورعیسیٰ بن مریم کی زبان سے یہ لعنت اس سبب سے ہوئی کہ انہوں نے حکم کی مخالفت کی اور حد سے نکل گئے۔جو برا کام انہوں کر رکھا تھا اس سے باز نہ آتے تھے۔ واقعی ان کا یہ فعل بے شک برا تھا۔
اس آخری آیت کی مزید وضاحت احادیث ذیل سے ہوتی ہے۔
۱۔و فی السنن والمسند من حدیث عبد اﷲ بن مسعودؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ اِنَّ مَنْ کَانَ قَبلَکُمْ کَانَ اِذَا عَمِلَ الْعَا مِلُ فِیْھِمْ بِالْخَطِیْئَۃِ جَائَہُ النَّا ھِیُ تَغْزِیْرَاً فَقَالَ یَا ھَذٰا اِتَّقِ اﷲَ فَاِذَا کَانَ مِنالْغَدِ جَالِسَہُ وَ اٰکَلَہُ وَ شَارَبَہُ کَأَنَّہُ لَمْ یَرَہُ عَلَی خَطِیْئَۃٍ بِا لْاَمْسفَلَمَّا رَئٰ ی عَزَّ وَ جَلَّ ذٰلِکَ مِنْھُمْ ضَرَبَ قُلُوْبَ بَعْضِہِمْ عَلَی بَعْضٍ ثُمَّ لَعَنَہُمْ عَلَی لِسَانِ نَبِیِّہِمْ دَاوُدَ وَ عِیْسَی بْنِ مَرْ یَمَ ذَلِکَ بِمَاعَصَوْا وَّکَانُوْ یَعْتَدُوْنَ وَ الَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ لَتَأْمُرُنَّ بِا لْمَعْرُوْفَ وَ لَتَنْھَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ وَلَتَأخُذُنَّ عَلَی یَدِ السَّفِیْہِ وَ لَتَاطِرُنَّ عَلَی الْحَقِّ اَطْرَاً اَوْ لَیَضْرِبَنَّ اﷲُ قُلُوْبَ بَعْضِکُمْ عَلَی بَعْضٍ ثُمَّ یَلْعَنَکُمْ کَمَا لَعَنَہُمْ۔
حضرت عبد اﷲ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول خداﷺ نے ارشادفرمایا کہ تم سے پہلی امتوں میں جب کوئی خطا کرتا تو روکنے والا اس کو دھمکاتا اور کہتا کہ خدا سے ڈر، پھر اگلے ہی دن اس کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا، کھاتا پیتا گویا کل اس کو گناہ کرتے ہوئے دیکھا ہی نہیں۔ جب حق عزوجل نے ان کایہ برتاؤ دیکھا توبعض کے قلوب کو بعض کے ساتھ خلط کردیا اور ان کے نبی داؤد اورعیسیٰ بن مریم ں کی زبانی ان پر لعنت کی اوریہ اسلئے کہ انہوں نے خدا کی نافرمانی کی اورحد سے تجاوز کیا۔ قسم ہے اس ذات پاک کی جسکے قبضہ میں محمدﷺ کی جان ہے تم ضرور اچھی باتوں کا حکم کرواور برائی باتوں سے منع کرو اور چاہیے کہ بیوقوف نادان کا ہاتھ پکڑو اسکو حق بات پر مجبور کرو، ورنہ حق تعالیٰ تمہارے قلوب کو بھی خلط ملط کر دیں گے
اورپھر تم پر بھی لعنت ہوگی جیسا کہ پہلی امتوں پر لعنت ہوئی ۔
۲۔عَنْ جَرِیْرِ بْنِ عِبْدِاللّٰہِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ یَقُوْلُ مَا مِنْ رَّجُلٍ یَّکُوْنُ فِیْ قَوْمٍ یَعْمَلُ فِیْہِمْبِالْمَعَاصِیْ یَقْدِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْ یُّغَیْرُوْا عَلَیْہِ وَلاَ یُغَیِّرُوْنَ اِلآّ اَصَابَہُمُ اللّٰہُ بِعِقَابٍ قَبْلَ اَنْ یَّمُوْتُوْا۔ وفی سنن ابی داوود وابن ماجۃ
حضرت جریر ؓسے روایت ہے کہ سول خداﷺ نے ارشاد فمایا کہ اگر کسی جماعت اورقوم میں کوئی شخص گناہ کرتا ہے اور وہ قوم وجماعت باوجود قدرت کے اسکونہیں روکتی تو ان پر مرنے سے پہلے ہی حق تعالیٰ اپنی عذاب بھیج دیتے ہیں یعنی دنیا میں انکو طرح طرح کے مصائب میں مبتلا کردیاجاتا ہے۔
۳۔عَنْ انسٍؓ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ لاَ تَزَالُ لآَ اِلٰہَ اِلاَ اللّٰہُ تَنْفَعُ مَنْ قَالَہَا وَتَرُدُّ عَنْہُمُ الْعَذَابَوَالنِّقْمَۃَ مَالَمْ یَسْتَخِفُّوا بِحَقِّہَا قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَا الْاِسْتِخْفَافُبِحَقِّہَا قَالَ یَظْہَرُ الْعَمَلُ بِمَعَاصِی اللّٰہِ فَلاَیُنْکَرُ وَلاَ یُغَیَّرُ(ترغیب) وروی الاصبہان
حضرت انس ؓسے روا یت ہے کہ ر سولِ خداﷺنے ارشاد فرمایا کہ ہمیشہ کلمہ لا الٰہ الا اللہ اپنے پڑھنے والوں کو نفع دیتا ہے اور اس سے عذاب و بلا دور کرتاہے جب تک کہ اسکے حقوق سے بے پروائی نہ برتی جائے ۔ صحابہ نے عرض کیا اس سے بے پروائی کیا ہے؟ حضور ﷺ نے ارشادفرمایا کہ حق تعالیٰکی نا فرمانی کھلے طور پر کی جائے پھر نہ انکا انکار کیا جائے اور نہ انکے بند کرنے کوشش کی جائے۔
۴۔ عَنْ عَائِشَۃ قَالَتْ دَخَلَ عَلَیَّ النَّبِیْ فَعَرَفْتُ فِیْ وَجْہِہٖ اَنْ قَدْ حَضَرَہٗ شَیْئُ فَتَوَضَّأَ وَمَا کَلَّمَ اَحَدًا فَلَصِقْتُ بَالْحُجْرَۃِ اَسْتَمِعُ مَا یَقُوْلُ فَقَعَدَ عَلَی الْمِنْبَرِ فَحَمِدَ اللّٰہَ وَ اَثْنٰیَ عَلَیْہِ وَقَالَ یَآ اَیُّہَا النَّاسُ اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یَقُوْلُ لَکُمْ مُرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ قَبْلَ اَنْ تَدْعُوْا فَلَآ اُجِیْبَ لَکُمْ وَتَسْاَلُوْنِیْ فَلَآ اُعْطِیْکُمْ وَتَسْتَنْصِرُوْنِیْ فَلَآ اَنْصُرَکُمْ فَمَا زَادَ عَلَیْہِنَّ حَتَّی نَزَلَ۔ (ترغیب)
حضرت عائشہ ؓ فر ماتی ہیںکہ رسول خداﷺ میرے تشریف لائے تو میں نے چہرۂِ انور پر ایک خاص اثر دیکھ کر محسوس کیا کہ کوئی اہم بات پیش آئی ہے حضورﷺنے کسی سے کوئی بات نہیں کی اور وضوفرما کر مسجد میں تشریف لے گئے میں مسجد کی دیوار سے لگ گئی تاکہ سنوں حضورﷺ منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور حمدو ثنا کے بعد فرمایاـلوگو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ بھلی باتوں کا حکم کرو اور بُری باتوں سےمنع کرومبادا وہ وقت آجائے کہ تم دعامانگو میں اس کو قبول نہ کروں اورمجھ سے سوال کرواور میں اسکو پورا نہ کروںاور تم مجھ سے مدد چاہو اور میں تمہاری مدد نہ کروں۔حضور ﷺ نے صرف یہ کلمات ارشاد فرمائے اور منبرسے اُتر آئے۔
۵۔ عن ابی ھیریرہ قال رسول اللہ اذا عظّمت امتی الدنیانزعت منھاھیبۃُالاسلام و اذا ترکت الامر بالمعروف والنّھیعن المنکر حرمت برکۃالوحی و اذا تسابّت امتی سقطت من عین اللہ (کذافی الدرعن الحکیم الترمذی)
حضرت ابو ہریرہؓ سے رویت ہے کہ رسول خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب میری اُمت دنیا کو قابلِ وقعت و عظمت سمجھنے لگے گی تو اسلام کی وقعت و ہیبت اُن کے قلوب سے نکل جائے گی اور جب امر بالمعروف اور نہی عن ا لمنکر کو چھوڑ دے گی تو وحی کی برکات سے محروم ہو جائے گی اور جب آپسمیں ایک دوسرے کو شب و شتم کرنا اختیار کرے گی تو اللہ جل شانہ‘ کی نگاہ سے گر جائے گی۔
احادیث مذکورہ پرغور کرنے سے یہ بات معلوم ہوا کہ اَمر بالمعروف و نہی عن المنکرکو چھوڑنا خدا وحدہ‘ لا شریک لہ‘کی لعنت اور غضب کاباعث ہے اور جب امت محمدیہ اس کام کو چھوڑ دے گی تو مصائب و آلام اور ذلت و خواری میں مبتلا کر دی جا ئے گی اور ہر قسم کی غیبی نصرت و مدد سے محروم ہو جائے گی اور یہ سب کچھ اس لیے ہو گا کہ اس نے اپنے فرضِ منصبی کو پہچانا اور جس کام کی انجام دہی کی ذمہ داری تھی اس سے غافل رہی۔یہی وجہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے امر بالمعروف و نہی عن المنکرکو ایمان کا خاصہ اور جزو قرار دیا ہے اور اس کے چھڑنے کو ضعف و اضمحلال کی علامت بتلایا۔ حدیث ابو سعید خذریؓ میں ہے ۔
من راٰی منکم فلیغیرہ ُبیدہٖ فان لُم یستطع فبلسانہٖ فان لّم یستطع فبقلبہٖ و ذالک اضعفُ الایمان۔ (مسلم)
یعنی تم میں جب کوئی شخص برایء کو دیکھے تو چاہئے کہ اپنے ہا تھوں سے کام لے کراس کو دور کرے اور اگر اس کی طاقت نہ پائےتو زبان سے ۔ اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے اور یہ آخری صورت ایمان کی بڑی کمزوری کا درجہ ہے ۔
پس جس طرح آخری درجہ اضعف ایمان کا ہوا ،اسی طرح پہلا درجہ کمالِ ایمان کا ہوا ۔ اس سے بھی واضع تر حدیث ابن مسعودؓ کی ہے۔ ’’مَا مِنْ نَّبِیٍّ بَعَثَہُ اللّٰہُ قَبْلِیْ اِلَّا کَانَ لَہُ فِیْ اُمَّتِہٖ حَوَارِیُّوْنَ وَاَصْحَابُ یَأْخُذُوْنَ بِسُنَّتِہٖ وَیَقْتَدُوْنَ بِاَمْرِہٖ ثُمَّ اِنَّہَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِہِمْ خُلُوْفُیَّقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَ وَیَفْعَلُوْنَ مَالَا یُؤْمَرُوْنَ فَمَنْ جَاہَدَہُمْ بِیَدِہٖ فَہُوَ مُؤْمِنُ وَمَنْ جَاہَدَہُمْ بِلِسَانِہٖ فَہُوَ مُؤْمِنُ وَمَنْجَاہَدَہُمْ بِقَلْبِہٖ فَہُوَ مُؤْمِنُ وَلَیْسَ وَرَائَ ذَلِکَ مِنَ الْاِیْمَانِ حَبَّۃُخَرْدَلٍ۔ (مسلم)
یعنی سنت الٰہی یہ ہے کہ ہر نبی اپنے ساتھیوں اور تربیت یافتہ یاروںکی ایک جماعت چھڑ جاتا ہے ۔ یہ جماعت نبی کی سنت کو قائم رکھتی ہے اور ٹھیک ٹھیک اس کی پیروی کرتی ہے یعنی شریعت الٰہی کو جس حال اور جس شکل میں نبی چھوڑ گیا ہے اس کو بعینہٖ محفوظ رکھتے ہیں اور اس میں ذرا بھی فرق نہیں آنے دیتے لیکن اس کے بعد شروفتن کا دور آتا ہے اور ایسے لوگ پیدا ہوجاتے ہیںجو طریقہ نبی سے ہٹ جاتے ہیں۔ ان کا فعل ان کے دعوے کے خلاف ہوتا ہے اور ان کے کام ایسے ہوتے ہیں جن کے لئے شریعت نے حکم نہیں دیا ۔ سو ایسے لوگوں کے خلاف جس شخص نے قیام حق و سنت کی راہ میں اپنے ہاتھ سے کام لیا وہ مومن ہے ۔ اور جو ایسا نہ کر سکا مگر زبان سے کام لیا وہ بھی مومن ہے اور جس سے یہ بھی نہ ہو سکا اور دل کے اعتقاد اور نیت کے ثبات کو ان کے خلاف کام میں لایا وہ بھی مومن ہے لیکن اس آخری درجہ کے بعد ایمان کا کوئی درجہ نہی اس پر ایمان کی سرحد ختم ہو جاتی ہے حتیٰ کہ اب رائی کے دانے برابر بھی ایمان نہیں ہو سکتا۔
اس کام کی اہمیت اور ضرورت کو امام غزالیؒ نے اس طرح ظاہر فرمایا ہے ۔ـ ـاس میں کچھ شک نہیں کہ امر با لمعروف و نہی عن المنکردین کا ایسا زبردست رکن ہے جس سے دین کی تمام چیزیں وابستہ ہیں۔ اس کو انجام دینے کے لئے حق تعالیٰ نے تمام انبیائِ کرام کو مبعوث فرمایا۔اگر خدا نا خواستہ اس کو بالائے طا ق رکھ دیا جائے اور اس کے علم و عمل کو ترک کر دیا جائے تو العیاذباللہ نبوت کا بیکار ہونا لازم آئے گا ۔دیانت جو شرافت انسانی کا خاصہ ہے مضمحل اور افسردا ہو جائے گی۔کاہلی اور سستی عام ہو جائے گی گمراہی اور ضلالت کی شاہراہیںکھل جائیں گی جہالت عالمگیر ہو جائے گی تمام کاموں میں خرابی آجائے گی آپس میںپھوٹ پڑ جائے گی آبادیاں خراب ہو جائیں گی مخلوق تباہ و برباد ہو جائے گی اور بربادی کی اس وقت خبر ہو گی جب روز محشر خدائے بالاو برتر کے سامنے پیشی اور بازپپرس ہو گی ۔
افسوس صد افسوس جو خطرہ تھا سامنے آ گیا جو کھٹکا تھا آنکھوں نے دیکھ لیا:
کان امر اﷲ قدرا مّقدورا o فانّ اﷲ و انّا الیہ راجعون
اس سر سبز ستون کے علم و عمل کے نشانات مٹ چکے اس کی حقیقت و رسوم کی برکتیں نیست و نابود ہو گئیں لوگوں کی تحقیرو تذلیل کا سکہ قلوب پر جم گیا خدائے پاک کے ساتھ کا قلبی تعلق مٹ چکا اور نفسانی خواہشات کے اتباع میں جانوروں کی طرح بے باک ہو گئے روئے زمیں پر ایسے صادق مومن کا ملنا دشوار و کمیاب ہی نہیں بلکہ معدوم ہو گیا جو اظہار حق کی وجہ سے کسی کی ملامت گوارا کرے ۔
اگر کوئی مرد مومن اس تباہی اور بربادی کے ازالہ میں سعی کرے اور اس سنت کے احیاء میں کوشش کرے اور اس مبارک بوجھ کو لے کر کھڑا ہو اور آستینیں چڑھا کر اس سنت کے زندہ کرنے کے لئے میدان میں آئے تو یقینا وہ شخص تمام مخلوق میں ایک ممتاز اور نمایاں ہستی کا مالک ہو گا۔