مولف
شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب نوراﷲ مرقدہ
خطبہ و تمہید
بسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ،
نَحْمَدُہٗ وَنَشْکُرُہٗ وَنُصَلِّیْ وَ نُسَلِّمُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ الْکَرِیْمِ
وَعَلٰٓی اٰلِہٖ وَ صَحْبِہٖ وَاَتْبَاعِہٖ الْحُمَاۃِ لِلدِّیْنِ الْقَوِیْمِ
وَبَعْدُ فَھٰذِہٖ اَرْبَعُوْنَۃٌ فِیْ فَضَائِلِ الصَّلٰوۃِ جَمَعْتُھَا
اِمْتِثَالًا لِاَمْرِعَمِّیْ وَصِنْوِاَبِیْ رَقَاہُ اللّٰہُ اِلَی الْمَرَاتِبِ
الْعُلْیَا وَوَفَّقَنِیْ وَ اِیَّاہُ لِمَا یُحِبُّ وَیَرْضٰی۔
اَمَّابَعْد:اس زمانہ میں دین کی
طرف سے جتنی بے توجہی اور بے التفاتی کی جا رہی ہے وہ محتاج بیان نہیں حتیٰ کہ اہم
ترین عبادت نماز جو بالاتفاق سب کے نزدیک ایمان کے بعد تمام فرائض پر مقدم ہے اور
قیامت میں سب سے اوّل اسی کا مطالبہ ہوگا اس سے بھی نہایت غفلت اور لا پروائی ہے۔
اس سے بڑھ کر یہ کہ دین کی طرف متوجہ کرنے والی کوئی آواز کانوں تک نہیں پہنچتی۔
تبلیغ کی کوئی صورت بارآورنہیں ہوتی۔ تجربہ سے یہ بات خیال میں آئی ہے کہ نبی اکرم
ﷺ کے پاک ارشادات لوگوں تک پہنچانے کی سعی کی جائے۔ اگر چہ اس میں بھی
جو مزاحمتیں حائل ہیں وہ بھی مجھ سے بے بضاعت کیلئے کافی ہیں تاہم اُمید یہ ہے کہ
جو لوگ خالی الذہن ہیں اور دین کا مقابلہ نہیں کرتے ہیں یہ پاک الفاظ
انشا اللہ تعالیٰ اُن پر ضرور اثر کریں گے اور کلام و صاحب کلام کی برکت سے نفع کی
توقع ہے نیز دوسرے دوستوں کو اس میں کامیابی کی اُمیدیں زیادہ ہیں جن کی وجہ سے
مخلصین کا اصرار بھی ہے اس لئے اس رسالہ میں صرف نماز کے متعلق چند احادیث کا
ترجمہ پیش کرتا ہوں چونکہ نفس تبلیغ کے متعلق بندئہ ناچیز کا ایک مضمون رسالہ
فضائل تبلیغ کے نام سے شائع ہوچکا ہے اس وجہ سے ا س کو سلسلہ تبلیغ کا نمبر۲ قرار دیکر فضائل نماز کے نام سے
موسوم کرتا ہوں۔ وَمَا تَوْ فِیْقِیْ اِلَّا بِاللہ عَلَیْہِ
تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیْبُ۔
نماز کے بارے میں تین قسم کے
حضرات عام طور پر پائے جاتے ہیں۔
1. ایک جماعت وہ ہے جو سرے سے نماز ہی کی پرواہ نہیں کرتی،
2.بہت سے حضرات نماز پڑھتے ہیں لیکن جماعت کا اہتمام نہیں کرتے
3.بہت سے حضرات نماز بھی پڑھتے ہیں اور جماعت کا اہتمام بھی کرتے .ہیں مگر لا پروائی اور بری طرح سے پڑھتے ہیں
1. ایک جماعت وہ ہے جو سرے سے نماز ہی کی پرواہ نہیں کرتی،
2.بہت سے حضرات نماز پڑھتے ہیں لیکن جماعت کا اہتمام نہیں کرتے
3.بہت سے حضرات نماز بھی پڑھتے ہیں اور جماعت کا اہتمام بھی کرتے .ہیں مگر لا پروائی اور بری طرح سے پڑھتے ہیں
اسلئے اس رسالہ مین تینوں مضامین کی
مناسبت سے تین باب ذکر کئے گئے ہیں اور ہر باب میں نبی اکرمﷺ کے پاک ارشادات اور انکا ترجمہ
پیش کر دیا ہے۔ مگر ترجمہ میں وضاحت اور سہولت کا لحاظ کیا ہے، لفظی ترجمہ کی
زیادہ رعایت نہیں کی۔ چونکہ نماز کی تبلیغ کرنے والے اکثر اہل علم بھی ہوتے ہیں
اسلئے حدیث کا حوالہ اور اس کے متعلق جو مضامین اہل علم سے تعلق تھے وہ عربی میں
لکھ دیئے گئے ہیں کہ عوام کو اُن سے کچھ فائدہ نہیں ہے اور تبلیغ کرنے والے حضرات
کو بسا اوقات ضرورت پڑ جاتی ہے اور ترجمہ و فوائد وغیرہ اردو میں لکھ دیئے گئے
ہیں۔
باب اول
نماز کی اہمیت کے بیان میں
اس باب میں دو فصلیں ہیں۔ فصل
اوّل میں نماز کی فضیلت کا بیان ہے اور دوسری فصل میں نماز کے چھوڑنے پر جو وعید
اور عتاب حدیث میں آیا ہے اس کا بیان ہے۔
فصل اول
نماز کی فضیلت کے بیان میں
۱۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَؓ قَالَ
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ِ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہ وَسَلَّمَ بُنِیَ الْاِسْلَامُ
عَلٰي خَمْسٍ شَھَادَۃِ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا
عَبْدُ ْٗہٗ وَرَسُوْلُہٗ وَاِقامِ الصَّلوٰۃِ وَاِیْتاَئِ الذَّکَوٰۃِ وَالَحجِّ
وَصَوْمِ رَمضَانَ۔(متفق علیہ) (وقال المنذری فی الترغیب رواہ البخاری و مسلم ر
غیر ھما عن غیر واحد م الصحابۃ )
حضرت عبد بن عمر رضی اﷲ عنہ ،
نبی کریمﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر ہے سب سے اول
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کی گواہی دینا یعنی اس بات کا اقرار کرنا کہ اﷲ کے سوا
کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں اسکے بعد بماز کاقائم کرنا،
زکوۃ ادا کرنا، حج کرنا، رمضان المبارکے روزے رکھنا۔
ف: یہ پانچوں چیزیں ایمان کے بڑے
اصول اہم ارکان ہیں ۔ نبی اکرم ﷺ نے اس پاک حدیث میں بطورِ مثال کے اسلام کو ایک
خیمہ کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو پانچ ستونوں پر قائم ہوتا ہے پس کلمہ شہادت خیمہ کی
درمیانی لکڑی کی طرح ہے اور بقیہ چاروں ارکان بمنزلہ ان چار ستونوں کے ہیں جو
چاروں کونوں پر ہوں۔ اگر درمیانی لکڑی نہ ہو تو خیمہ کھڑا ہو ہی نہیں سکتا اور اگر
یہ لکڑی موجود ہو اور چاروں طرف کے کونوں میں کوئی سی لکڑی نہ ہو تو خیمہ قائم تو
ہو جائے گا لیکن جونسے کونے کی لکڑی نہیں ہوگی وہ جانب ناقص اور گری ہوئی ہوگی۔ اس
پاک ارشاد کے بعد اب ہم لوگوں کو اپنی حالت پر خود ہی غور کر لینا چاہیے کہ اسلام
کے اس خیمہ کو ہم نے کس درجہ تک قائم کر رکھا ہے۔ اور اسلام کا کونسا رکن ایسا ہے
جس کو ہم نے پورے طور پر سنبھال رکھا ہے۔ اسلام کے یہ پانچوں ارکان نہایت اہم ہیں
حتی کہ اسلام کی بنیاد انہی کو قرار دیا گیا ہے اور ایک مسلمان کیلئے بحیثیت
مسلمان ہونے کے ان سب کا اہتمام نہایت ضروری ہے۔ مگر ایمان کے بعد سب سے اہم چیز
نماز ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضورﷺسے دریافت کیا کہ اللہ
تعالیٰ شانہ‘ کے یہاں سب سے زیادہ محبوب عمل کونسا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ نماز۔ میں
نے عرض کیا اس کے بعد کیا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک۔ میں عرض
کیا اس کے بعد کونسا ہے۔ ارشاد فرمایا جہاد۔ ملاعلی قاری فرماتے ہیں کہ اس حدیث
میں علماء کے اس قول کی دلیل ہے کہ ایمان کے بعد سب سے مقدم نماز ہے۔ اس کی تائید
اس حدیث صحیح سے بھی ہوتی ہے جس میں اِرشاد ہے اَلصَّلوٰۃُ خَیْرُ مَو ضُوْعِ یعنی بہترین عمل جو اللہ تعالیٰ
نے بندوں کیلئے مقرر فرمایا وہ نماز ہے ۔آھ ۔ اور احادیث میں کثرت سے یہ مضمون
صاف اور صحیح حدیثوں میں نقل کی گیا ہے کہ تمہارے اعمال میں سب سے بہتر عمل نماز
ہے۔ چنانچہ جامِع صغیر میں حضرت ثوبانؔؓ ، ابن عمروؔؓ ، سلمہؔ ، ابو امامہؔ ،
عبادۃؔ رضی اﷲ عنہم پانچ صحابہؓ سے یہ حدیث نقل کی گئی ہے اور حضرت ابن مسعودؓ سے
اپنے وقت پر نماز کا پڑھنا افضل ترین عمل نقل کیا گیا ہے حضرت ابن عمرؓ اور ام
فروَہؓ سے اول وقت نماز پڑھنا نقل کیا گیا ہے۔ مقصد سب کا قریب قریب ایک ہی ہے
Taken with thanks Urdu unicode version in words from ownislam.com