تیسری وجہ یہ ہے کہ عوام و خواص،
عالم و جاہل ہر شخص اصلاح سے مایوس ہو گیا اور انھیں یقین ہو گیا کہ اب مسلمانوں
کی ترقی اور ان کا عروج نا ممکن اور دشوار ہے ۔
جب کسی شخص کے سامنے کوئی اصلاحی
نظام پیش کیا جاتا ہے تو جواب یہی ملتا ہے کہ مسلمانوں کی ترقی اب کیسے ہو سکتی ہے
جب کہ ان کے پاس نہ سلطنت و حکومت ہے، نہ مال و زر اور نہ سامانِ حرب اور نہ مرکزی
حیثیت،نہ قوت بازو اور نہ باہمی اتفاق و اتحاد۔
بالخصوص دیندار طبقہ تو بزعم خود
یہ طے کر چکا ہے کہ اب چودھویں صدی ہے زمانہ رسالت کو بعد ہو چکا ،اب اسلام اور
مسلمانوں کا انحطاط ایک لازمی شئے ہے پس اس کے لئے جدو جہد کرنا عبث اور بیکار
ہے ،یہ صحیح ہے کہ جس قدر مشکٰوۃ نبوت سے بعد ہوتا جائے گا حقیقی اسلام کی شعاعیں
ماند پڑتی جائیں گی لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بقائِ شریعت اور حفاظت دین محمدی کے لئے جدو
جہد اور سعی نہ کی جاے اس لئے کہ اگر ایسا ہوتا اور ہمارے اسلاف بھی خداناخواستہ
یہی سمجھ لیتے تو آج ہم تک اس دین کے پہنچنے کی کوئی سبیل نہ تھی البتہ جب کہ
زمانہ ناموافق ہے تو رفتار ِ زمانہ کو دیکھتے ہوئے زیادہ ہمت اور استقلال کے ساتھ
اس کام کو لے کر کھڑے ہونے کی ضرورت ہے ۔
تعجب ہے کہ جو مذہب سراسر عمل
اور جدو جہد پر مبنی تھا آج اس کے پیرو عمل سے یکسر خالی ہیں ، حلانکہ قرآنِ
مجید اور حدیث شریف میں جگہ جگہ عمل اور جہد کا سبق پڑھایا اور بتلایا ہے کہ ایک
عبادت گزار تمام رات نفل پڑھنے والا ،دن بھر روزہ رکھنے والا ،اللہ اللہ کرنے والا
ہرگز اس شخص کے برابر نہیں ہو سکتا جو دوسروں کی اصلاح اور ہدایت کی فکر میں بے
چین ہو۔
قرآن کریم نے جگہ جگہ جہاد فی
سبیل اللہ کی تاکید کی اور مجاہد کی فضیلت اور برتری کو نمایاں کیا۔
لا یستوی القاعدون من المؤمنین غیر اولی الضرر
والمجاہدون فی سبیل اللہ باموالھم و انفسھم ط فضل اﷲ المجاہدین واموالہم وانفسہم علی القعدین
درجۃ، وکلاًّ وعد اﷲ الحسنی ط وفضل اﷲ المجاہدین علی العقدین واجراً العظیما۔ درجبٍ منہ ومغفرۃ
ورحمۃ ط وکان اﷲغفورًا رحیما۔
برابررنہیں وہ مسلمان جو بلا کسی
عذر کے گھر میں بیٹھے ہیں اور وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں اپنے مال جان سے جہاد
کریں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کادرجہ بہت بلند کیا ہے جو اپنے مال و جان سے جہاد کرتے ہیں
بہ نسبت گھر بیٹھنے والوں کے۔ اور سب سے اللہ تعالیٰ اچھے گھر کا وعدہ کر رکھا ہے اور
اللہ تعالیٰ نے مجاہدین نے کو بمقابلہ گھر میں بیٹھنے والوں کے اجر عظیم دیا ہے
یعنی بہت سے درجے جو خدا کی طرف سے ملیں گے اور مغفرت اور رحم۔ اور اللہ بڑی
مغفرت ،رحمت والے ہیں۔
اگرچہ آیۃ میں جہاد سے مراد
کفار کے مقابلہ میں سینہ سپر ہونا ہے تا کہ اسلام کا بول بالا ہو اور کفر وشرک
مغلوب مقہور ہو لیکن اگر بد قسمتی سے آج ہم اس سعادت ِعظمیٰ سے محروم ہیں تو اس
مقصد کے لئے جس قدر جدوجہد ہماری مقدرت اور استطاعت میں ہے اس میں تو ہرگز کوتاہی نہ کرنی
چاہیے پھر ہماری یہی معمولی حرکت عمل اور جد و جہد ہمیں کشاں کشاں آگے بڑھاے گی ۔ والّذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا یعنی جو لوگ ہمارے دین کے لئے کوشش کرتے
ہیں ہم ان کے لئے اپنے راستے کھول دیتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ دین محمدیﷺ کی بقاء اور تحفظ کا حق تعالیٰ
نے وعدا کیا ہے لیکن اس کے عروج وترقی کے لئے ہمارا عمل اور سعی مطلوب ہے ۔صحابہ
کرامؓ نے اس کے لئے جس قدر انتھک کوشش کی اسی قدر ثمرات بھی مشاہدہ کیے اور غیبی
نصرت سے سرفراز ہوئے ۔ ہم بھی ان کے نام لیوا ہیںاگر اب بھی ہم ان کے نقش قدم پر
چلنے کی کوشش کریں اور اعلائِ کلمۃُاللہ اور اشاعت اسلام کے لئے کمر بسۃ ہو جائیں
تو یقیناہم بھی نصرت خدا وندی اور امداد غیبی سے سرفراز ہوں گے۔ ان تنصروا اللہ ینصرکم و یثبّت اقدامکم یعنی اگر تم خدا کے دین کی مددکے
لئے کھڑے ہو جائو گے تو خدا تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔