سب سے اہم اور پہلی چیز یہ ہے کہ ہر مسلمان تمام اغراض و مقاصد ِ دنیوی سے قطع نظر کر کے اعلاء کلمۃ اللہ اور اشاعت اسلام اور احکام خدا وندی کے رواج اور سر سبزی کو اپنا نصب العین بنا دے
اور اس بات کا پختہ عہد کر کرے کہ حق تعالیٰ کے ہر حکم کو مانوں گا اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا اور کبھی خدا وند کریم کی نا فرمانی نہیں کروں گا اور اس نصب العین کی تکمیل کے لئے اس دستور العمل پر کار بندہو :۔
( ۱ ) کلمہ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کا صحت الفاظ کیساتھ یاد کرنا اور اسکے معنی اور مفہوم کو سمجھنا اور ذہن نشین کرنے کی کوشش کرنا اور اپنی پوری زندگی کو اسکے موافق بنانے کی فکر کرنا ۔
(۲) نماز کا پابند ہونا ، اس کے آداب و شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے خشوع اور خضوع کیساتھ ادا کرنا اور ہر ہر رکن میں خدا وند کریم کی عظمت و بزرگی اور اپنی بندگی اور بیچارگی کا دھیان کرنا۔ غرض اس کوشش میں لگے رہنا کہ نماز اس طرح ادا ہو جو اس ربّ العزت کی بار گاہ کی حاضری کے شیایان شان ہو۔ایسی نماز کی کوشش کرتے رہے اورحق تعالیٰ سے اسکی توفیق طلب کرے ۔اگر نماز کا طریقہ معلوم نہ ہو تو اسکو سیکھے اور نماز میں پڑھنے کی تمام چیزوں کو یاد کرے۔
(۳) قرآن کریم کے ساتھ وابستگی اور دل بستگی پیدا کرنا ، جس کے دو طریقے ہیں ۔
(الف)کچھ وقت روزانہ ادب و احترام کے ساتھ معنی و مفہوم کا دھیان کرتے ہوئے تلاوت کرنا۔ اگر عالم نہ ہو اور معنی اور مفہموم کو سمجھنے سے قاصر ہو تب بھی بغیر معنی سمجھے کلام ربانی کی تلاوت کرے ، اور سمجھے کہ میری فلاح و بہبود اسی میں مضمر ہے ۔ محض الفاظ کا پڑھنا بھی سعادت عظمیٰ ہے اور موجب خیرو برکت ہے اور اگر الفاظ بھی نہیں پڑھ سکتا تو تھوڑا وقت روزانہ قرآن مجید کی تعلیم میں صرف کرے ۔
(ب) اپنے بچوں اور محلہ اور گائوں کے لڑکوں اور لڑکیوں کی قرآن مجید اور مذہبی تعلیم کی فکر کرنا اور ہر کام پر اس کو مقدم رکھنا ۔
(۴) کچھ وقت یاد الٰہی اور ذکر و فکر میں گزارنا ۔پڑھنے کے لئے کوئی چیز کسی شیخ طریقت ، متّبع سنت سے دریافت کرنا ورنہ کلمہ سوئم ، سبحان اﷲ ولا الہ الا اﷲ واﷲ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیماور درود و استغفار کی تسبیح ایک صبح اور ایک شام معنی کا دھیان کرتے ہوئے جی لگا کر اطمینان قلب کے ساتھ پڑھے۔ حدیث میں اس کی بڑی فضیلت آئی ہے ۔
(۵) ہر مسلمان کو اپنا بھائی سمجھنا ، اس کے ساتھ ہمدردی اور غمگساری کا برتائو کرناصفت اسلام کی وجہ سے اس کا ادب و احترام کرنا ۔ ایسی باتوںسے بچنا جو کسی مسلمان بھائی کی تکلیف و اذیت کا باعث ہوں۔
ان باتوں کا خود بھی پابند ہو اور کوشش کرے کہ ہر مسلمان ان کا پابند بن جائے ، جس کا طریقہ یہ ہے کہ خود بھی اپنا کچھ وقت دین کی خدمت کے لئے فارغ کرے اور دوسروں کو بھی ترغیب دے کر دین کی خدمت اور اشاعت اسلام کے لئے آمادہ کرے ۔
جس دین کی اشاعت کے لئے انبیاء کرام نے مشقتیں برداشت کیں ۔ طرح طرح کے مصائب میں مبتلا ہوئے ۔ صحابہ کرام ؓ اور ہمارے اسلاف نے اپنی عمروں کو اس میں صرف کیا اور اس کی خاطر راہ خدا میں اپنی جانوں کو قربان کیا اس دین کی ترویج اور بقاء کے لئے تھوڑا وقت نہ نکالنا بڑی بد نصیبی اور خسران ہے اور یہی وہ اہم فریضہ ہے جس کو چھوڑ دینے کی وجہ سے آج ہم تباہ برباد ہو رہے ہیں۔
پہلے مسلمان ہونے کا مفہوم یہ سمجھا جاتا تھا کہ اپنا جان و مال ، عزت و آبرو ، اشاعت اسلام اور اعلاء کلمۃ اللہ کی راہ میں صرف کرے اور جو شخص اس میں کوتائی کرتا تھا وہ بڑا نادان سمجھا جاتا تھا ۔ لیکن افسوس کہ آج ہم مسلمان کہلاتے ہیں اور دین کی باتوں کو اپنی آنکھوں سے مٹتا ہوا دیکھ رہے ہیں ، پھر بھی اس دین کی ترویج اور بقاء کے لئے کوشش کرنے سے گریز کرتے ہیں غرض اعلاء کلمۃ اللہ اور اشاعت دین متین جو مسلمان کا مقصد اور زندگی اور اصلی کام تھا اور جس کے ساتھ ہماری دونوں جہان کی فلاح و ترقی وابسۃ تھی اور جس کو چھوڑ کر آج ہم ذلیل و خوار ہو رہے ہیں ۔ اب پھر ہمیں اپنے اصلی مقصد کو اختیار کرنا چاہیے اور اس کام کو اپنا جزو زندگی اور حقیقی مشغلہ بنانا چاہیے تاکہ پھر رحمت خدا وندی جوش میں آوے اور ہمیں دنیا اور آخرت کی سرخروئی اور شادابی نصیب ہو۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اپنا تمام کارو بار چھوڑ کر بالکل اس کام لگ جائے ، بلکہ مقصد یہ ہے کہ جیسا اور دنیوی ضروریات انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہیں اور ان کو انجام دیا جاتا ہے ، اس کام کو بھی ضروری اور اہم سمجھ کر اس کے واسطے وقت نکالا جائے جب چند آدمی اس مقصد کے لئے تیار ہو جائیں تو ہفتہ میں چند گھنٹے اپنے محلے ، اور مہینہ میں تین دن قر ب و جوار کے مواضعات میں، اور سال میں ایک چلہ دور کے مواضعات میں اس کام کو کریں کہ ہر مسلمان امیر ہو غریب تاجر ہو یا ملازم ، زمیندار ہو یا کاشتکار ، عالم ہو یا جاہل ، اس کام میں شریک ہو جائے ۔