صحابہ رضی اﷲ عنہ کی محبت کے متفرق قصے
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کسی
نے پوچھا span style= کہ اپ کو
حضور اقدس ﷺ سے کتنی محبت تھی آپ نے ارشاد فرمایا کہ خدائے پاک کی قسم حضورﷺ ہم
لوگوں کے نزدیک اپنے مالوں سے اور اپنی اولادوں سے اور اپنی مائوں سے اور سخت پیاس
کی حالت میں ٹھنڈے پانی سے زیادہ محبوب تھے۔
ف:سچ فرمایا درحقیقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہ
یہی حالت تھی اور کیوں نہ ہوتی جب کہ وہ حضرات کامل الایمان تھے اور اللہ جل شانہ
کا ارشاد ہے قُلْ اِنْ کَانَ اَبَائُکُمْ وَ اَبْنَائُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَ
اَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَتِجَارَۃً
تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسَاکِنَ تَرْضَوْنُھَا اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِنَ اﷲِ
وَرَسُوْلِہٖ وَجِھَادِ فِیْ سَبِیْلِہِ فَتَرَبَّصُوْا حَتَّی یَاتِیَ اﷲ
بِاَمْرِہٖ وَاﷲُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ
(ترجمہ) آپ ان سے کہہ دیجئے کہ
اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیبیاں اورتمہارا
کنبہ اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس میں نکاسی نہ ہونے کا تم کو اندیشہ
ہو اور وہ گھر جن کو تم پسند کرتے ہو (اگر یہ سب چیزیں ) تم کو اللہ سے اور اس کے رسولﷺ
سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیاری ہوں تو تم منتظر رہو یہاں تک کہ اللہ تعالی
اپنا حکم بھیجدیں اور اللہ تعالی بے حکمی کرنے والوں کو ان کے مقصود تک نہیں
پہنچاتا اس آیت شریفہ میں اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ کی
محبت کے ان سب چیزوں سے کم ہونے پر وعید ہے۔حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدسﷺ
کا ارشاد ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کو میری محبت اپنے
باپ اور اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ نہ ہوجائے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے بھی یہی
مضمون نقل کیا گیاہے علماء کا ارشاد ہے کہ ان احادیث میں محبت سے محبت اختیاری مراد ہے
غیر اختیاری یعنی طبعی اضطراری مراد نہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر محبت طبعی
مراد ہو تو پھر ایمان سے مراد کمال درجہ کاspan style=span style=/spanmso-spacerun:yesحضرت عمرؓ اور حضرت طلحہ رضی اﷲ
عنہ ایمان ہو جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا تھا حضرت انس رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ تین چیزیں ایسی ہیں کہ جس شخص میں وہ پائی جائیں ایمان کی حلاوت
اورایمان کا مزہ نصیب ہوجائے ایک یہ کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت ان کے ماسوا
سب سے زیادہ ہو ۔دوسرے یہ کہ جس کسی سے محبت کرے اللہ ہی کے واسطے کرے تیسرے یہ کہ
کفر کی طرف لوٹنا اس کو ایسا ہی گراں اور مشکل ہو جیسا کہ آگ میں گرنا ۔ حضرت عمر ؓ نے ایک مرتبہ
عرض کیا کہ یارسول اللہ مجھے اپنی جان کے علاوہ اور سب چیزوں سے آپ زیادہ محبوب
ہیں حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کوئی شخص مؤمن اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک اس کو
میری محبت اپنی جان سے بھی زیادہ نہ ہو حضرت عمرؓ نے عرض کیا یارسول اللہ اب آپ
مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں تو حضورﷺ نے ارشاد فرمایا الان یا عمر (اس
وقت اے عمر)علماء نے اس کے دو مطلب بتائے ہیں۔ایک یہ کہ اس وقت تمھارا ایمان کامل
ہوا ہے دوسرا یہ کہ تنبیہ ہے کہ اس وقت یہ بات پیدا ہوئی کہ میں تمھیں اپنے نفس سے زیادہ محبوب
ہوں حالانکہ یہ بات اول ہی سے ہونا چاہیے تھی سہیل تُسْتَری ؒ رحمتہ اﷲ علیہ کہتے ہیں کہ جو
شخص ہرحال میںحضورﷺ کو اپنا والی نہ جانے اور اپنے نفس کو اپنی ملک میں سمجھے وہ سنت کا مزہ نہیں چکھ
سکتا ۔ ایک صحابیؓ نے آکر حضوراقدسﷺسے عرض کیا کہ قیامت کب آئے گی ۔ حضوراقدسﷺ
نے فرمایا کہ قیامت کے لئے کیا تیار کررکھا ہے جس کی وجہ سے انتظار ہے۔ انہوں نے
عرض کیایارسول اللہﷺمیں نے بہت سی نمازیں اور روزے اور صدقے تو تیار کر
نہیں رکھے ہیں البتہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت میرے دل میں ہے حضوراقدسﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
قیامت میں تم اسی کے ساتھ ہوگے جس سے محبت رکھتے ہو۔ حضورﷺ کا یہ ارشاد کہ
آدمی کا حشر اسی کے ساتھ ہو گا جس سے اس کو محبت ہے کئی صحابہؓ نے نقل کیا ہے جن میں عبداللہ بن مسعودؓ،ابو موسٰی
اشعریؓ،صفوانؓ،ابوذرؓ وغیرہ حضرات ہیں ۔حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اﷲ
عنہم کو جس قدر خوشی اس ارشاد مبارک سے ہوئی ہے کسی چیز سے بھی اتنی خوشی
نہیں ہوئی اور ظاہر بات ہے ہونا بھی چاہیے تھی کہ حضوراقدسﷺ کی محبت تو ان کے رگ
وپے میں تھی پھر ان کو کیوں نہ خوشی ہوتی ۔ حضرت فاطمہؓ کا مکان شروع میں حضوراقدسﷺ سے ذرا دور تھا ۔ایک
مرتبہ حضوراقدسﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرا دل چاہتا تھا تمہارا مکان توقریب ہی
ہوجاتا ۔ حضرت فاطمہؓ نے عرض کیا کہ حارثہؓ کا مکان آپ کے مکان کے قریب ہے ان سے
فرماویں کہ وہ میرے مکان سے بدل لیں حضوراقدسﷺ نے فرمایا کہ ان سے پہلے بھی تبادلہ
ہوچکا ہے اب شرم آتی ہے حارثہؓ کو اس کی اطلاع ہوئی فورا حاضر خدمت ہوکر عرض کیا
یارسو ل اللہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ فاطمہؓ کا مکان اپنے قریب چاہتے ہیں یہ
میرے مکانات موجودہیں ان سے زیادہ قریب کوئی مکان نہیں جونسا پسند ہو بدل لیں
۔یارسول اللہ میں اور میرا مال تو اللہ اور اس کے رسول ہی کا ہے ۔یارسول اللہ خدا کی
قسم جو مال آپ لے لیں وہ مجھے زیادہ پسند ہے اس مال سے جو میرے پاس رہے ۔
حضوراقدسﷺنے ارشاد فرمایا سچ کہتے ہو ،اور برکت کی دعادی اور مکان بدل لیا ایک
صحابی رضی اﷲ عنہ حضوراقدسﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ کی
محبت مجھے میری جان ومال اور اہل وعیال سے زیادہ ہے میں اپنے گھر میں ہوتا ہوں اور آپ کا خیال آجاتا
ہے تو صبر نہیں آتا ۔یہاں تک کہ حاضر ہوں اور آکر زیارت نہ کر لوں مجھے یہ فکر
ہے کہ موت تو آپ کو بھی اوp class=span style=/spanFA lang=ر مجھے
بھی ضرور آنی ہی ہے اس کے بعد تو آپ انبیاء علیہ السلام کے درجہ پر چلے جائیں گے
تو مجھے یہ خوف رہتا ہے کہ پھر میں آپ کو نہیں دیکھ سکوں گا
حضوراقدسﷺ نے اس کے جواب میں سکوت فرمایا کہ حضرت جبرئیل علیہ
السلام تشریف لائے اور یہ آیت سنائی۔وَمَن یُطِعِ اللّٰہَ َوالرَّسُولَ فَاُولٰئِکَ مَعَ الَّذِینَ
اَنعَمَ اللّٰہُ عَلَیھِم مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّھَدَائِ
وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ اُولٰئِکَ رَفِیقًا۔ذٰلِکَ الفَضلُ مِنَ اللّٰہِ وَکَفٰی
بِاللّٰہِ عَلِیمًا
(ترجہ)’’جوشخص اللہ اور رسول کا
کہنا مان لے گا تو ایسے اشخاص بھی جنت میں ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر
اللہ نے انعام فرمایا یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صلحا ،اور یہ حضرات
بہت اچھے رفیق ہیں اور انکے ساتھ رفاقت محض اللہ کا فضل ہے اور اللہ تعالی خوب
جاننے والے ہیں ہرایک کے عمل کو‘‘ اس قسم کے واقعات بہت سے صحابہ رضی اﷲ عنہ کو
پیش آئے اور آنا ضروری تھے عشق است وہزار بدگمانی۔ حضوراقدسﷺ نے جواب میں یہی آیت سنائی چنانچہ ایک
صحابیؓ حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ مجھے آپ سے ایسی محبت ہے کہ جب خیال
آجاتا ہے اگر اس وقت میں آکر زیارت نہ کر لوں تو مجھے غالب گمان ہے کہ میری جان نکل جائے
۔مگر مجھے یہ خیال ہے کہ اگر میں جنت میںداخل بھی ہوگیا تب بھی آپ سے
تو نیچے درجہ میں ہوں گا ۔مجھے تو جنت میں بھی آپ کی زیارت بغیر بڑی مشقت
ہوگی ۔آپ ﷺ نے یہی آیت سنائی ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ ایک انصاریؓ حاضر
خدمت ہوئے اور نہایت غمگین تھے حضور اقدسﷺ نے فرمایا غمگین کیوں ہوعرض کیا یارسول
اللہ ایک سوچ میں ہوں ۔آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کیا سوچ ہے عرض کیا یارسول اللہ ہم صبح
وشام حاضر خدمت ہوتے ہیں آپﷺ کی زیارت سے محفوظ ہوتے ہیں آپ کی خدمت میں بیٹھتے ہیں ۔کل کو آپ تو انبیاء
ؑکے درجے پر پہنچ جائیں گے ہماری وہاں تک رسائی نہیں ہو گی حضوراقدسﷺ نے سکوت
فرمایا ،اور جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضوراقدسﷺ نے ان انصاریؓ کو بھی بلایا اور ان
کو اس کی بشارت دی ۔ایک حدیث میں آیا ہے کہ بہت سے صحابہؓ نے یہ
اشکال کیا ۔ حضوراقدسﷺ نے یہ آیت ان کو سنائی ایک حدیث میں ہے صحابہؓ نے عرض کیا یارسول
اللہ یہ تو ظاہر ہے کہ نبی کو امتی پر فضیلت ہے اور جنت میں اس کے درجہ اونچے ہوں گے تو پھر
اکٹھا ہونے کی کیا صورت ہو گی۔حضورﷺنے ارشاد فرمایا کہ اوپر کے درجہ والے نیچے کے
درجہ والوں کے پاس آئیں گے،ان کے پاس بیٹھیں گے بات چیت کریں گے (درمنثور)
حضورﷺکا ارشاد ہے کہ مجھ سے بہت محبت کرنے والے بعض ایسے لوگ ہوں گے جو میرے بعد
پیدا ہوں گے اور ان کی یہ تمنا ہو گی کہ کاش اپنے اہل وعیال اور مال کے بدلے میں وہ مجھے دیکھ لیتے۔خالدؓ کی بیٹی
عبدہ کہتی ہیں کہ میرے والد جب بھی سونے لیٹتے تو اتنے آنکھ نہ لگتی اور جاگتے
رہتے،حضورﷺکی یاد اور شوق واشتیاق میں لگے رہتے اور مہاجرین وانصار
صحابہؓ کا نام لے کر یاد کرتے رہتے اور یہ کہتے کہ یہی میرے اصول وفروع ہیں(یعنی
بڑے اور چھوٹے)اور ان کی طرف میرا دل کھنچا جا رہا ہے یا اللہ مجھے جلد ہی موت
دیدے کہ ان لوگوں سے جا کر ملوں اور یہی کہتے کہتے سو جاتے۔حضرت ابو بکر صدیقؓ نے
ایک مرتبہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ مجھے اپنے باپ کے مسلمان ہونے کی بہ نسبت آپ
کے چچا ابو طالب کے مسلمان ہو جانے کی زیادہ تمنا ہے اس لئے کہ اس سے آپ کو زیادہ
خوشی ہو گی۔حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ حضورؐ کے چچا حضرت عباسؓ سے عرض کیا کہ آپ کے
اسلام لانے کی مجھے زیادہ خوشی ہے،اپنے باپ کے مسلمان ہونے سے،اسلئے کہ آپ کا
اسلام حضورؐ کو زیادہ محبوب ہے۔حضرت عمرؓ ایک مرتبہ رات کو حفاظتی گشت فرما رہے
تھے کہ ایک گھر میں سے چراغ کی روشنی محسوس ہوئی اور ایک بڑھیا کی آواز کان میں پڑی جو اون کو دھنتی ہوئی اشعار
پڑھ رہی تھیں جن کا ترجمہ یہ ہے کہ محمدﷺ پر نیکوں کا درود پہنچے اور پاک صاف lang=/span
lang=#xa;color:#0070C0 #xa;150%;font-family:ف:mso-spacerun:yes/pآیا ہے کہ بہت سے صحابہؓ نے یہ
اشکال کیا ۔ حضوراقدسﷺ نے یہ آیت ان کو سنائی ایک حدیث لگے رہتے اور مہاجرین
وانصار صحابہؓ کا نام لے کر یاد کرتے رہتے اور یہ کہتے کہ یہی میرے اصول وفروع ہیں(یعنی
بڑے اور چھوٹے)اور ان کی طرف میرا دل کھنچا جا رہا ہے یا اللہ مجھے جلد ہی موت
دیدے کہ ان لوگوں سے جا کر ملوں اور یہی کہتے کہتے سو جاتے۔حضرت ابو بکر صدیقؓ نے
ایک مرتبہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ مجھے اپنے باپ کے مسلمان ہونے کی بہ نسبت آپ
کے چچا ابو طالب کے مسلمان ہو جانے کی زیادہ تمنا ہے اس لئے کہ اس سے آپ کو زیادہ
خوشی ہو گی۔حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ حضورؐ کے چچا حضرت عباسؓ سے عرض کیا کہ آپ کے
اسلام لانے کی مجھے زیادہ خوشی ہے،اپنے باپ کے مسلمان ہونے سے،اسلئے کہ آپ کا
اسلام حضورؐ کو زیادہ محبوب ہے۔حضرت عمرؓ ایک مرتبہ رات کو حفاظتی گشت فرما رہے
تھے کہ ایک گھر لوگوں کی طرف سے جو برگزیدہ ہوں ان کا درود پہنچے۔بیشک یا رسول
اللہ آپ راتوں کو عبادت کرنے والے تھے اور اخیر راتوں کو رونے والے تھے۔کاش مجھے
یہ معلوم ہو جاتا کہ میں اور میرا محبوب کبھی اکٹھے ہو سکتے ہیں یا نہیں۔اس لئے کہ موت مختلف
حالتوں میں آتی ہے نہ معلوم میری موت کس حالت میں آئے اور حضورﷺ سے مرنے کے بعد
ملنا ہو سکے یا نہ ہو سکے ۔حضرت عمرؓ بھی ان اشعار کو سن کر رونے بیٹھ گئے۔حضرت
بلالؓ کا قصہ مشہور ہے ہی کہ جب ان کے انتقال کا وقت ہوا تو ان کی بیوی جدائی پر
رنجیدہ ہو کر کہنے لگیں کہ ہائے افسوس،وہ کہنے لگے سبحان اللہ کیا مزے کی بات ہے
کہ کل کو محمدﷺ کی زیارت کریں گے اور ان کے صحابہؓ سے ملیں گے۔حضرت زیدؓ کا قصہ
باب۵ کے قصہ نمبر۹ میں گذر چکا ہے کہ جب ان کو سولی دی
جانے لگی تو ابو سفیان نے پوچھا کیا تجھے یہ گوارا ہے کہ ہم تجھے چھوڑ دیں اور
تیرے بجائے خدانخواستہ حضورﷺکے ساتھ یہ معاملہ کریں۔تو زیدؓ نے کہا خدا کی قسم
مجھے یہ بھی گوارا نہیں کہ حضورﷺ اپنے دولت کدہ پر تشریف فرماہوں اور وہاں ان کے
کانٹا چبھ جائے اور میں اپنے گھر آرام سے رہ سکوں۔ابو سفیان کہنے لگا کہ میں نے کبھی کسی کو کسی کے ساتھ اتنی
محبت کرتے نہیں دیکھا۔جتنی محمد(ﷺ)کی جماعت کو ان سے ہے۔
تنبیہ:علماء نے حضور اقدس ﷺکے ساتھ محبت کی مختلف
علامات لکھی ہیں۔قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ جو شخص کسی چیز کو محبوب رکھتا ہے اس کو
ماسوی پر ترجیح دیتا ہے یہی معنی محبت کے ہیں ورنہ محبت نہیں محض دعویٰ محبت ہے پس
حضور اقدس ﷺ کے ساتھ محبت کی علامات میں سب سے مہتم بالشان یہ ہے کہ
آپؐکے احکامات کی بجا آوری کرے اور آپؐ نے جن چیزوں سے روک دیا ہے،ان س پرہیز
کرے۔خوشی میں رنج میں تنگی میں وسعت میں ہر حال میں آپؐ کے طریقے پر چلے۔قرآن پاکمیں ارشاد ہے قُل اِن کُنتُم تُحِبُّونَ اللّٰہَ
فَاتَّبِعُونِیْ یُحبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغفِرلَکُم ذُنُوبَکُمط وَاللّٰہُ غَفُورٌ
رَّحِیمٌطترجمہ:۔آپ ان لوگوں سے کہہ
دیجئے کہ اگر تم خدا تعالی سے محبت رکھتے ہو تو تم میرا اتباع کرو،خدا تعالی تم سے
محبت کرنے لگیں گے اور تمہارے گناہوں کو معاف کر دیں گے۔اللہ تعالی بڑے معاف کرنے
والے ہیں بڑے رحم فرمانے والے ہیں۔