۲۔ عَنْ اَبِیْ ذَرِ اَنَّ
النَّبِیَّﷺ خَرَجَ فِی الشِّتَائِ
وَالْوَرَقُ یَتَہاَفَتُ فَاَخَذَبِغُصْنِ مِّنْ شَجَرَۃِ قَالَ فَجَعَلَ ذٰلِکَ
الْوَرَقُ یَتَہاَفَتُ فَقَالَ یَآاَباَذَرِ قُلْتُ لَبَّیْکَ یَا رَسُوْلَ
اللّٰہِ قَالَ اِنَّ الْعَبْدَالْمُسْلِمَ لَیُصَلِّی الصَّلوٰۃَ یُرِیْدُ بِہاَ
وَجْہَااللّٰہِ فَتَہاَفَتُ عَنْہ‘ ذُنُوْبَہ‘ کَماَ تَہاَفَتَ ھٰذَاالْوَرَقُ
عَنْ ھٰذِہِ الشَّجَرَۃِ۔
(رواہ احمدباسنادحسن کذا فی
الترغیب)
حضرت ابوذر ؓ فرماتے ہیں کہ ایک
مرتبہ نبی اکرم ﷺ سردی کے موسم میں باہر تشریف لائے اور پَتے درختوں پر سے گر رہے
تھے آپؐ نے ایک درخت کی ٹہنی ہاتھ میں لی اس کے پتّے اور بھی گرنے لگے آپﷺنے
فرمایا اے ابوذر مسلمان بندہ جب اخلاص سے اللہ کے لئے نماز پڑھتا ہے تو اس سے گناہ
ایسے ہی گرتے ہیں جیسے یہ پتے درخت سے گر رہے ہیں۔
ف: سردی کے موسم میں درختوں کے پتے
ایسی کثرت سے گرتے ہیں کہ بعضے درختوں پر ایک بھی پتہ نہیں رہتانبی اکرم ﷺ کا پاک
اِرشاد ہے کہ اخلاص سے نماز پڑھنے کا اثر بھی یہی ہے کہ سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں
ایک بھی نہیں رہتا۔ مگر ایک بات قابل لحاظ ہے عُلماء کی تحقیق آیات قرآنیّہ اور
احادیث نبویہ کی وجہ سے یہ ہے کہ نماز وغیرہ عبادات سے صرف گناہِ صغیرہ معاف ہوتے
ہیں، کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتا اس لئے نماز کے ساتھ توبہ و
اِسْتِغْفَار کا اہتمام بھی کرنا چاہیے۔ البتہ حق تعالیٰ شانہ‘ اپنے فضل سے کسی کے
گناہ کبیرہ بھی معاف فرمادیں تو دوسری بات ہے۔(جامع صغیر)