جناب سرور کائنات خاتم النبین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات عالیہ میں حجة الوداع کا
خطبہ
بھی شامل ہے-
اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی ہدایات فرمائیں
یہ حجة الوداع کا خطبہ بیسیوں بلکہ اس سے بھی زیادہ سینکڑوں روایات میں نقل ہوا ہے-
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حج کیا` اسے دو حوالوں سے حجة الوداع کہتے ہیں- ایک کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری حج وہی کیا` اور اس حوالے سے بھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس خطبہ میں ارشاد فرمایا : لعلی لا القاکم بعد عامی ھذا- یہ میری تم سے آخری اجتماعی ملاقات ہے` شاید اس مقام پر اس کے بعد تم مجھ سے نہ مل سکو یہ حضور کی حیات مبارکہ میں صحابہ رض کا سب سے بڑا اجتماع تھا- اور پھر یہ کہ حضور نے خود اپنی زبان مبارک سے فرمایا کہ شاید یہ میری تمہاری آخری اجتماعی ملاقات ہو- پھر ایک بہت اہمیت والی بات یہ ہے کہ اس موقع پر ہی آیت تکمیل دین نازل ہوئی-
- گویا حضور خود بھی الوداع کہہ رہے تھے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
”لوگو! میری بات سن لو ! کیونکہ میں نہیں جانتا ، شاید اس سال کے بعد اس مقام پر میں تم سے کبھی نہ مل سکوں
۔تمہارا خون اور تمہارا مال ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہے جس طرح تمہارے آج کے دن کی، رواں مہینے کی، اور اس شہر کی حرمت ہے ۔سن لو ! جاہلیت کی ہر چیز میرے پاو ¿ں تلے روند دی گئی، جاہلیت کے خون بھی ختم کردئے گئے ، اور ہمارے خون میں سے پہلا خون جسے میں ختم کررہا ہوں ، وہ ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کے بیٹے کا خون ہے …. یہ بچہ بنو سعد میں دودھ پی رہا تھا کہ ان ہی ایام میں قبیلہ ہذیل نے اسے قتل کردیا ….
اور جاہلیت کا سود ختم کردیا گیا، اور ہمارے سود میں سے پہلا سود جسے میں ختم کررہا ہوں وہ عباس بن عبد المطلب کا سود ہے ۔ اب یہ سارے کا سارا سود ختم ہے
۔ہاں عورتوں کے بارے میں اﷲ سے ڈرو ، کیونکہ تم نے انہیں اﷲ کی امانت کے ساتھ لیا ہے ، اور اﷲ کے کلمے کے ذریعے حلال کیا ہے
۔ ان پر تمہارا یہ حق ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی ایسے شخص کو آنے نہ دیں جو تمہیں گوارا نہیں ، اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں مارسکتے ہو ، لیکن سخت مار نہ مارنا
، اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم انہیں معروف کے ساتھ کھلاو
۔اور میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے
پکڑے رکھا تو اس کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے ، اور وہ ہے اﷲ کی کتاب ۔“(مسلم )
”لوگو ! یاد رکھو! میرے بعد کوئی نبی نہیں، اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں، لہٰذا
اپنے رب کی عبادت کرنا، پانچ وقت کی نماز پڑھنا ، رمضان کے روزے رکھنا ، اور خوشی خوشی اپنے مال کی زکاة دینا ، اپنے پروردگار کے گھر کا حج کرنا اور اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرنا، ایسا کروگے تو اپنے پروردگار کی جنت میں داخل ہوگے۔“( ابن ماجہ، ابن عساکر ، رحمة للعالمین1/263)
”اور تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے، تو تم لوگ کیا کہوگے ؟ صحابہ ثنے کہا : ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ کردی، پیغام پہنچادیا اور خیر خواہی کا حق ادا فرمادیا۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگشتِ شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین بار فرمایا : ” اے اﷲ ! گواہ رہ “۔( مسلم )
• Sayyidina Ibn Abbas states that on the 10th Dhul Hijjah Nabi ﷺ delivered a sermon in which Nabi ﷺ constantly mentioned the sanctity of a Muslims honour, blood and property. And raising his head, he said:
‘O Allah be my witness, O Allah be my witness’. Then Nabi ﷺ told those that were present to preach the words they were hearing to those not present, and to not disbelieve after the passing of Nabiﷺ and begin to kill one another. (Sahih Bukhari)
Imam Tirmidi رحمه الله has narrated from Sayyidina Jabir ; he states: ‘I saw Nabi ﷺ in Hajj on the day of
Arafat, he was sat on a camel and he said: ‘O people! I am leaving with you such things that if you hold fast
to them you will never go astray, they are the book of Allah (Quran) and my Sunnah.’ (Jami Tirmidhi)
• Imam Ibn Majah رحمه الله related from Sayyidina Abdullah Ibn Masud : ‘In the plain of Arafat, Nabiﷺ
asked: which day is this? Which month is this? Which city is this? People replied; this is a sacred day, month and city…Nabiﷺ said: beware! The blood and property of the Muslim is sacred, just as this day, month and city are sacred.
And beware, I will reach the pond of Kawther before you and will be proud in front of the other nations because of you. So do not blacken my face, do not disgrace me. And beware, I will save some of you, and others will be far away from me…I will say; O my Lord these are my companions… Allah will say:
‘You are not aware of the fact that they made changes to that which you left with them.’
(Ibn Majah, Musnad Ahmad)