مولانا محمد سعد کاندھلوی کے بعض غلط نظریات و افکار کے سلسلہ میں دارالعلوم دیوبند کا متفقہ موقف
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Dawah--Tableeg/147286
یہ اپیل رائونڈ مشورہ کے عمل درامد کے سلسلے میں حضرت مولانا سعد دامت برکاتہم سےکی جا رہی ہے۔
یہ اپیل انسے دارالعلوم دیوبند(اپنے فتوی میں ) سمیت تمام علما کرام و اکابرین کی درخواست کے سلسلے کو آگےبڑھاتےہویے ہے ۔
امت کا بہت نقصان ہو چکا ہے۔
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Dawah--Tableeg/147286
یہ اپیل رائونڈ مشورہ کے عمل درامد کے سلسلے میں حضرت مولانا سعد دامت برکاتہم سےکی جا رہی ہے۔
یہ اپیل انسے دارالعلوم دیوبند(اپنے فتوی میں ) سمیت تمام علما کرام و اکابرین کی درخواست کے سلسلے کو آگےبڑھاتےہویے ہے ۔
امت کا بہت نقصان ہو چکا ہے۔
اللہ تعالی امت کے حال پر رحم فرمائے۔
۔ یہ امت کی امانت ہے ۔ یہ "تبلیغ جماعت " نہیں
حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ ایک موقعہ پر فرماتے ہیں ”یہ امت اس طرح بنی تھی کہ ان کا کوئی آدمی اپنے خاندان، اپنی برادری، اپنی پارٹی، اپنی قوم، اپنے وطن اور اپنی زبان کا حامی نہ تھا، مال و جائیداد اور بیوی بچوں کی طرف دیکھنے والا بھی نہ تھا بلکہ ہر آدمی صرف یہ دیکھتا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کیا فرماتے ہیں؟
حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ ایک موقعہ پر فرماتے ہیں ”یہ امت اس طرح بنی تھی کہ ان کا کوئی آدمی اپنے خاندان، اپنی برادری، اپنی پارٹی، اپنی قوم، اپنے وطن اور اپنی زبان کا حامی نہ تھا، مال و جائیداد اور بیوی بچوں کی طرف دیکھنے والا بھی نہ تھا بلکہ ہر آدمی صرف یہ دیکھتا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کیا فرماتے ہیں؟
دینی اداروں ، تنظیموں اور جماعتوں میں اختلافات اسباب اور حل
Taken with Jazakallah o khair from http://baseeratonline.com/26700
مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی
تعمیر مشکل ہوتی ہے اور تخریب آسان ، گھر بنانے اور بسانے میں مدت لگ جاتی ہے ؛ لیکن گرانے اور اُجاڑنے میں وقت نہیں لگتا ، اُن کاشتکاروں کا درد دل پوچھئے ، جو موسم سرما کی ٹھنڈک ، موسم گرما کی شعلہ ریز دھوپ اور برسات کی رم جھم بارش کے درمیان دن رات ایک کرکے کھیت بوتے ہیں ، درخت لگاتے ہیں ، اسے سیراب کرتے ہیں اور اس کی حفاظت و نگرانی کے لئے ہر طرح کی مشقت گوارہ کرتے ہیں ؛ لیکن سیلاب کی موج بلا خیز چند گھنٹوں میں ان سب کو روند ڈالتی ہے اور ساری محنت چند لمحوں میں تخت و تاراج ہوکر رہ جاتی ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو اسی نظام پر بنایا ہے ؛ کہ کسی چیز کے اوج کمال پر پہنچ نے میں دیر لگتی ہے ؛ لیکن اس کے بکھرنے اور ٹوٹنے پھوٹنے میں دیر نہیں لگتی ، انسان کے اپنی پیدائش سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے تک پہنچنے میں کتنا سارا وقت لگ جاتا ہے ؛ لیکن جب موت کا فرشتہ آدھمکتا ہے تو دنیا سے آخرت کا سفر لمحوں میں طے ہوجاتا ہے ۔قدرت کا یہ نظام جیسے کائنات میں پھیلی ہوئی چیزوں اور انسانوں کے بارے میں ہے ، اسی طرح قوموں ، جماعتوں اور گروہوں کے سلسلہ میں بھی ہے ، کوئی بھی گروہ اپنا اجتماعی ڈھانچہ برسوں میں تیار کر پاتا ہے ، جیسے پرندے تنکے چن چن کر آشیانے بناتے ہیں ، ایسے ہی اس اجتماعیت سے جوڑنے کے لئے ایک ایک فرد پر محنت کی جاتی ہے ، تب جاکر کہیں ایک آشیانہ تیار ہوتا ہے ؛ لیکن پھر بھی وہ طوفانوں کی زد میں رہتا ہے ، اگر اس کے بنانے والوں اور بسنے والوں نے اس کو بچاکر نہ رکھا اور اس کے تنکے نوچنے شروع کردیئے تو بکھرنے میں دیر نہیں لگتی ، اس اجتماعیت کو وجود میں لانے کے لئے شروع میں ایک طویل اور پرمشقت راستہ طے کیا جاتا ہے ، مخالفتوں سے گذرنا پڑتا ہے ، جان و مال اور عزت و آبرو کی قربانی دینی پڑتی ہے ، لوگوں کی خوشا مد کی جاتی ہے ، پھر ایک وقت آتا ہے کہ اس سے تعلق وجہ اعزاز بن جاتا ہے اور اس کا اکرام ہوتا ہے ، یا تو کانٹوں کے بستر تھے ، یا اب پھولوں کی سیج بچھائی جاتی ہے ، اس وقت وہ لوگ گذرچکے ہوتے ہیں ، جنھوںنے اس کو سینچا تھا ، اب یہ سرمایہ جن لوگوں کے ہاتھوں میں آتا ہے ، اگر انھوںنے اپنے سلف کے راستہ کو بھلا دیا ، قربانی کے بجائے آسانی کا اور اتحاد و یکجہتی کے بجائے اپنی رائے پر اصرار اوراپنے رفقاء سے بے نیازی کا طریقہ اختیار کرلیا تو اللہ کی مدد اُٹھ جاتی ہے ؛ کیوںکہ اللہ تعالیٰ کی مدد اجتماعیت کے ساتھ ہے ، رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا : ’’ ید اﷲ علی الجماعۃ‘‘ ( سنن نسائی ، حدیث نمبر : ۴۰۲۰) آپ انے اس حقیقت کو ایک مثال دے کر واضح فرمایا کہ بکریوں کا ریور اگر ایک ساتھ چلتا رہے تو کمزور و نازک اندام جانور ہونے کے باوجود اس کی حفاظت ہوتی ہے ، اور اگر کوئی بکری ریوڑ سے بچھڑ جائے تو بھیڑیا اس کو اپنا شکار بنالیتا ہے ۔ (سنن ابی داؤد ، حدیث نمبر : ۵۴۷)
بھیڑیا ایک تشبیہ ہے ، یعنی ایک باہری طاقت ، جو اسلام کا دشمن ہو ، وہ افراد ملت کو اپنا شکار بنالیتا ہے ، افراد کو شکار کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ اس کو آلۂ کار بنالیا جائے ، اُمت محمدیہ کی تاریخ پر نظر ڈالئے تو اُمت کے کھلے ہوئے دشمنوں سے اس درجہ نقصان نہیں پہنچا ، جتنا نقصان ان دشمنوں سے پہنچا ، جو حقیقت میں بھیڑیئے تھے ؛ لیکن انھوںنے بکریوں کی کھال پہن رکھی تھی ، یہ ایک سازش پر مبنی عمل ہوتا ہے ، کچھ لوگ تو واقعی اپنے مفادات کے لئے سوچ سمجھ کر دشمن کے آلۂ کار بنتے ہیں اور بڑی تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے ، جو سادہ لوحی اور بے شعوری میں اس سازش کے آلۂ کار بن جاتے ہیں ؛ حالاںکہ وہ مخلص ہوتے ہیں ، ان کو غلط راستہ پر ڈالنے کے لئے ان کے مذہبی جذبات کا استحصال کیا جاتا ہے ، انھیں باور کرایا جاتا ہے کہ تم جو کچھ کررہے ہو ، وہ حق کو نافذ کرنے اور باطل کو ختم کرنے کی کوشش ہے ؛ لیکن حقیقت میں ان کا یہ عمل باطل کو تقویت پہنچاتا ہے اور حق و سچائی کو کمزور کر دیتا ہے ، اس کی ایک واضح مثال ’داعش ‘ ہے ، جن کا خون بہایا جارہا ہے ، وہ بھی مسلمان ہیں اور جو لوگ خون بہارہے ہیں یا بہانے میں شامل ہیں ، وہ بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور بمقابلہ دوسرے مسلمانوں کے بہ ظاہر اسلام پر زیادہ کاربند نظر آتے ہیں ؛ لیکن یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ وہ ان دشمنانِ اسلام کے آلہ کار ہیں ، جو چاہتے ہیں کہ مسلمان برادرکشی میں مبتلا ہوجائیں ؛ تاکہ اختلاف وانتشار ان کو کمزور سے کمزور تر کردے اور اسلام کی شبیہ کو خراب کرنا آسان ہوجائے ۔
غور کیا جائے تو یہ سلسلہ محمد رسول اللہ اکی حیات ِطیبہ سے ہی شروع ہوچکا تھا ، مدینہ منورہ میں ایک عمارت مسجد کے نام سے بنائی گئی ؛ تاکہ وہاں بیٹھ کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کی جائیں ، اگر قرآن مجید نے اس سازش سے پردہ نہ اُٹھادیا ہوتا تو یقینا سیدھے سادھے مسلمان اس کو دین کی ایک خدمت ہی تصور کرتے اور وہاں ان کی آمد و رفت شروع ہوجاتی ؛ لیکن قرآن نے اس کو ’ مسجد ضرار ‘ قرار دے کر منہدم کرنے کا حکم دیا ، ( تفسیر ابن کثیر : ۴؍۲۱۲) اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ پر منافقین نے بے بنیاد تہمت لگائی اور انھوںنے اس جھوٹ کو ٹھیک اسی طرح پھیلایا جیسے آج کل میڈیا جھوٹ کو سچ بنانے کی فکر کرتا ہے ، آخر کچھ سادہ لوح سیدھے سادے مسلمان بھی اس سازش کا شکار ہوگئے ، یہاں تک کہ جب بعض مخلص مسلمانوں نے اس فتنہ کے سرچشمہ عبد اللہ بن اُبی کو قتل کردینے کا ارادہ کیا تو اندیشہ پیدا ہوگیا کہ کہیں اوس و خزرج کی لڑائی نہ بھڑک اُٹھے ، ( صحیح بخاری ، حدیث نمبر : ۲۶۶۱) اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت عائشہؓ کی برأت کا صاف صاف اعلان نہ ہوجاتا تو یہ اسلام کی دعوتی کوششوں کے لئے ایک زبردست دھکا ثابت ہوتا ۔
پھر عہد صحابہ میں دیکھئے ! سیدنا حضرت عثمان غنیؓ نے اسلام کے لئے جو قربانیاں دیں ، خود رسول اللہ انے اس کی مدح فرمائی ہے، آپ ا کی دو دو صاحبزادیاں ان کے نکاح میں رہیں ، حضرت عثمانؓ کے قبیلہ کی غالب اکثریت فتح مکہ تک اسلام کی مخالفت میں پیش پیش رہی اور غزوۂ اُحد اورغزوۂ خندق کی قیادت کی ؛ لیکن حضرت عثمانؓ نے اپنے قبیلہ کے فکری رجحان اور عملی رویہ کے برخلاف بالکل ابتداء میں اسلام قبول کرلیا اوراسلام کے راستہ میں مشقتیں اُٹھائیں ، اپنے عہد خلافت میں جمع قرآن مجید کی خدمت انجام دی ، ان سب کے باوجود ایک یہودی ’ عبد اللہ ابن سبا ‘ نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ایسی سازش رچی ، جو خلیفہ مظلوم کی شہادت کا باعث بن گئی ، اور بہت سے سیدھے سادے مسلمان اور اکابر صحابہ کی اولاد بھی اس سازش کا شکار ہوگئے ، اور انھوںنے سب کچھ یہ سمجھ کر کیا کہ نعوذ باللہ یہ ظالم حکمراں کے خلاف جدوجہد ہے ، حضرت عثمان غنیؓ نے اس وقت ایک تاریخی بات ارشاد فرمائی :
فو اﷲ لئن قتلتمونی لا تتحابون بعدی أبدا ، ولا تصلون بعدی جمیعا أبدا ، ولا تقاتلون بعدی عدوا جمیعا أبدا ۔ (الطبقات الکبریٰ : ۳؍۷۱)
خدا کی قسم ! اگر تم نے مجھے قتل کیا تو میرے بعد کبھی تم میں محبت باقی نہیں رہے گی ، میرے بعد ایک ساتھ نماز نہیں پڑھوگے ، میرے بعد ایک ساتھ دشمن سے جنگ نہیں کروگے ۔
آہ ، اور سوبار آہ ، کہ آج حضرت عثمان غنیؓ کی اس بددُعا کو سر کی آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے ، مسلمانوں کے دل ایک دوسرے سے پھٹے ہوئے ہیں ، یہاں تک کہ جو لوگ اسٹیج پر اتحاد و اتفاق کی باتیں کرتے ہیں ، وہی اسٹیج سے نیچے اُترنے کے بعد اپنے متبعین کو نفرت پر اُکساتے ہیں ، ہماری نمازیں ایک مسجد میں نہیں ہوتیں ، ہر فرقہ کی الگ الگ مسجدیں ہیں ، جن میں ان کے سوا دوسرے لوگ نماز نہیں پڑسکتے ، دشمن سامنے کھڑا ہے ، لیکن ہمارا اختلاف ہے کہ کم ہی نہیں ہوتا ؛ چہ جائیکہ ہم مل جل کر ان کا مقابلہ کریں — یہ ایک ایسی سازش تھی ، جس نے مستقبل کی تاریخ پر نہایت افسوس ناک اثر ڈالا ، مسلمان دو حصوں میں تقسیم ہوگئے اور نہ صرف یہ واقعہ بالآخر خلافت راشدہ کے ختم ہونے کا سبب بنا ؛ بلکہ مستقبل میں مذہبی قیادت اور سیاسی قیادت بھی الگ الگ ہوگئی اور صدیوں ایک ایسا بادشاہی نظام پروان چڑھتا رہا ، جو زیادہ تر دینی اقدار سے خالی ہی رہتا تھا ، پھر عہد صحابہ میں ہی ایک وقت ایسا آیا کہ توقع قائم ہوگئی تھی کہ خلیفہ راشد حضرت علیؓ اور شام کے فرمانروا حضرت معاویہؓ کے درمیان صلح ہوجائے گی ؛ لیکن کچھ عجمی نزاد لوگوں کی سازشوں سے یہ صلح بکھر کر رہ گئی اور ایک ایسا گروہ پیدا ہوگیا ، جو ایک مستقل اعتقادی مکتب ِفکر بن گیا اور ہمیشہ کے لئے اُمت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ، دشمنانِ اسلام نے ہمیشہ اس تقسیم سے فائدہ اُٹھایا ، اور آج بھی اُٹھارہے ہیں ۔
پھر تاریخ کے ہر موڑ پر مسلمانوں کے زوال اور ہزیمت کا بنیادی سبب یہی بنا کہ مسلمانوں کا ایک گروہ دشمنوں کا آلہ کار بن گیا ، تاتاریوں کے ہاتھ بغداد کی اینٹ سے اینٹ بج گئی اور خلافت عباسی کا محل زمین بوس ہوگیا ، پھر عثمانی ترکوں نے پانچ سو سال سے زیادہ اسلامی مقدسات اور عالم اسلام کی سرحدوں کی حفاظت کی ؛ لیکن بعض عرب اور ترک ضمیر فروشوں نے وطنی تعصب کے جھنڈے بلند کئے اور سادہ لوح عرب اورترک مسلمانوں کا جم غفیر ان کے ساتھ ہوگیا ، آخر خلافت عثمانیہ کا چراغ بجھ گیا اور مسلمانوں کی وحدت کی ایک علامت — جو اعداء اسلام کی آنکھوں میں چبھتی تھی — ختم ہوگئی ، خود ہمارے ملک ہندوستان کی تاریخ بھی یہی رہی ہے کہ قریب قریب ساری مسلم حکومتیں مسلمانوں میں پائے جانے واے ایک منافق گروہ اور عام مسلمانوں کے ان کے جھنڈے نیچے جمع ہوجانے کی وجہ سے ختم ہوئیں اور یہ سب کچھ ان لوگوں کے اشارہ پر ہوا ، جو اسلام اور مسلمانوں کے دشمن تھے ، اس لئے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اس اُمت کو نقصان پہنچانے کی سازش ہمیشہ دشمنانِ اسلام کی طرف سے ہوتی رہی ہے ، انھوںنے ہمیشہ اس کے لئے مسلمانوں ہی کی صفوں میں گھسے ہوئے لوگوں کا استعمال کیا ہے اور اس صفائی سے کیا ہے کہ کچھ لوگوںنے ایک کارِثواب اور دینی خدمت سمجھ کر وہ حرکتیں کیں ، جو مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والی اور اسلام کو کمزور کرنے والی تھیں ۔
جو لوگ دینی کاموں کو انجام دیتے ہیں اور اچھے جذبہ سے انجام دیتے ہیں ، انھیں مطمئن نہ ہوجانا چاہئے کہ انھیں ان کی دین داری کی وجہ سے کوئی دھوکہ نہیں دے سکتا ؛ کیوںکہ ڈاکو اسی گھر میں ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے ، جس میں دولت ہو ، اسی طرح دشمنانِ اسلام کی طرف سے ہمیشہ اسی گروہ کو شکار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، جو اسلام سے گہری وابستگی رکھتا ہو ، دوسرے لوگوں کے بارے میں شیطان سوچتا ہے کہ یہ تو پہلے ہی سے ہمارا کام کررہا ہے ؛ اس لئے ان کے کام میں خلل ڈالنے کی ضرورت نہیں ، دینی اداروں ، درسگاہوں اور جماعتوں کو ہمیشہ اس پہلو سے اپنا جائزہ لیتے رہنا اور چوکنا رہنا چاہئے ، برصغیر میں اگر پچھلے تین دہوں کی تاریخ دیکھی جائے تو بعض بڑی بڑی درسگاہوں کے ٹکڑے ہوگئے ، بعض بہت ہی فعال تنظیمیں تقسیم درتقسیم کا شکار ہوگئیں ، اس کے نتیجہ میں ان کا وقار و اعتبار متاثر ہوا ، مسلمانوں کی معتبر ترین شخصیتیں جن کو مسلمانوں کی وحدت کی علامت سمجھا جاتا تھا ، بے وزن ہوگئیں ، اس بکھراؤ نے کام کو متاثر کیا ، مسلمانوں کی آپسی محبت نفرت میں تبدیل ہوگئی ، مسلم مخالف طاقتوں پر جو بھرم قائم تھا ، وہ ختم ہوگیا اور انھیں اس اختلاف سے فائدہ اُٹھانے کا موقع ملا ، اس لئے ہمیں ضرور اپنے زوال و نقصان کی اس تاریخ سے سبق لینا چاہئے ، جو مریض اپنی بیماری کو جاننے اور اس کا علاج کرنے کے لئے تیار نہ ہو ، وہ کبھی صحت یاب نہیں ہوسکتا ، اس بیمار سے بڑھ کر کوئی کم نصیب نہیں ، جو خود اپنی بیماری کا احساس نہ کرسکے ۔
اداروں ، تنظیموں اور اجتماعی کاموں میں اختلافات کیوں پیدا ہوتے ہیں ؟ — ان پر گہرائی کے ساتھ غور کرنے اور آپ اپنا احتساب کرنے کی ضرورت ہے ، سیاست سے وابستہ تنظیموں میں زیادہ تر سیاسی مفادات اختلافات کی بنیاد بنتے ہیں ، جو ادارے تجارتی نوعیت کے ہیں ، ان میں معاشی مفادات کی وجہ سے اختلاف ہوتا ہے ؛ لیکن مذہبی اداروں ، تنظیموں اور جماعتوں میں بنیادی طورپر دو باتیں اختلاف کا سبب بنتی ہیں ، ایک : عہدہ و جاہ کی طلب ، دوسرے : اپنی رائے پر اصرار ، کتنی ہی دینی درسگاہیں ہیں ، جہاں صدر ، سکریٹری یہاں تک کہ شیخ الحدیث کے لئے بھی جھگڑے ہوتے ہیں اور بڑے بڑے اصحاب علم و فضل کھلے طورپر مطالبہ کرتے ہیں کہ مجھے بخاری شریف پڑھانے کا موقع دیا جائے ؛ حالاںکہ ایسا نہیں ہے کہ بخاری شریف پڑھانے ہی سے نجات متعلق ہو ، اگر کوئی شخص نورانی قاعدہ اور قاعدۂ بغدادی اخلاص کے ساتھ پڑھائے تو عجب نہیں کہ قیامت کے دن جنت میں جانے والے خوش نصیب قافلہ میں وہ آگے آگے ہو اور بخاری پڑھانے والے اضطراب و بے چینی کے ساتھ اپنی باری کے منتظر ہوں ۔
یہی بات دینی تنظیموں کی قیادت کے بارے میں کہی جاسکتی ہے ، ایسا نہیں ہے کہ کسی تنظیم یا جماعت کے سربراہ بننے یا اس کی منتظمہ کے رکن بننے میں خصوصی اجر و ثواب ہو ، اجر و ثواب کے زیادہ مستحق تو وہ گمنام لوگ ہیں ، جو گرد کارواں کی طرح پیچھے پیچھے رہتے ہیں ؛ لیکن اللہ کی رضا کے جذبہ سے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں ، نہ شہرت و نام وری کے طلب گار ہیں اور نہ کسی صلہ کے خواستگار ، دینی کاموں سے وابستہ لوگوں میں اس جذبہ کو پیدا کرنے کی ضرورت ہے ، انھیں سمجھنا چاہئے کہ عمارت کی اساس ان گنبدوں اور میناروں پر نہیں ہوتی ، جو دُور سے نظر آتے ہیں ؛ بلکہ ان بنیادوں پر ہوتی ہے ، جو زمین میں دفن ہوتی ہیں اور جن کو کوئی دیکھ نہیں پاتا ، دینی کام کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو بنیاد کا پتھر بنانے کی کوشش کریں ۔
اس جذبہ پر قابو پانے کے لئے رسول اللہ ا نے عہدہ کی طلب سے منع فرمایا ، یہاں تک کہ ارشاد ہوا کہ جو شخص کسی عہدہ کا طالب ہو ، اسے وہ عہدہ نہ دیا جائے ، خلفاء راشدین کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ ان میں سے کسی نے بھی عہدہ طلب نہیں کیا ؛ بلکہ مسلمانوں نے ان کو اپنا سربراہ منتخب کیا ؛ اسی لئے اللہ کی نصرت ان کے ہم رکاب رہی ، بعد کو پوری اُمت میں فتنہ کا دور شروع ہوا ، خاندانی بادشاہتیں قائم ہوئیں ، لوگ عہدے طلب کرنے لگے ، یہاں تک کہ اس کے لئے قتل و قتال تک کی نوبت آنے لگی ، تو پھر مسلمانوں سے اللہ تعالیٰ کی مدد روٹھ گئی اور آہستہ آہستہ وہ عزت و سربلندی کی چوٹی سے ذلت و نکبت کی پستی میں جاگرے ۔
اسلام کا تصور یہ ہے کہ عہدہ و منصب اعزاز کی چیز نہیں ہے ؛ بلکہ یہ ذمہ داری ہے ، آپ ا نے فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص اپنے اپنے دائرہ میں ذمہ دار ہے ، اور اپنی ذمہ داری میں آنے والے لوگوں کے بارے میں جواب دہ بھی ہے : ’’ کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ‘‘ (صحیح بخاری ، حدیث نمبر : ۸۵۳) یہ احساس ذمہ داری جتنا بڑھے گا ، عہدوں کی طلب کم ہوگی ، اور اگر اسے اعزاز سمجھا جائے گا تو عہدوں کی پیاس بڑھے گی اور چوںکہ عہدے محدود ہیں ؛ اس لئے ٹکڑاؤ پیدا ہوگا ، اور اگر نظر کام پر رہے گی تو چوںکہ کام کا میدان وسیع ہے ؛ اس لئے اس میں شامل ہونے والوں کی کثرت تقویت کا باعث ہوگی نہ کہ ٹکڑاؤ کا ۔
دوسرا سبب یہ ہے کہ عام طورپر لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ قربانی کے دو ہی محل ہیں ، ایک : جان ، دوسرے : مال ؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قربانی کی ایک اور قسم ہے ، اور وہ ہے رائے کی قربانی ، اکثر ملی اختلافات کو حل کرنے میں اس قربانی کا بہت اہم رول ہوتا ہے ، بعض لوگ اپنے نقطۂ نظر پر اس درجہ اصرار کرنے لگتے ہیں کہ دوسرے نقطۂ نظر کو سننا ہی نہیں چاہتے ، وہ چاہتے ہیں کہ فیصلہ ہماری ہی رائے پر ہونا چاہئے ، یہ انداز فکر دین کے مزاج کے خلاف ہے ، رسول اللہ انے بعض مواقع پر اپنی رائے کے مقابلہ اپنے رفقاء کے مشورہ کو ترجیح دی ہے ، اس سلسلہ میں غزوۂ اُحد کا واقعہ مشہور ہے ، آپ اکی رائے تھی کہ مدینہ میں رہ کر دشمنوں کا مقابلہ کیا جائے ، کچھ نوجوان صحابہ — جو جذبۂ جہاد سے سرشار تھے — نے اس کو بزدلی خیال کرتے ہوئے رائے دی کہ باہر نکل کر دشمنوں کے حملہ کا جواب دیا جائے ، انھوںنے کسی حد تک اس پر اصرار بھی کیا ؛ چنانچہ آپ انے ان کی رائے قبول کرلی ، بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ رسول اللہ ا اور اکابر صحابہ کی رائے ہی درست تھی ؛ لیکن آپ ا کبھی اس بات کو اپنی زبان پر نہیں لائے اور نہیں فرمایا کہ فلاں حضرات کی رائے پر عمل کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کو اس قدر جانی نقصان اُٹھانا پڑا ، خلفاء راشدین اوربالخصوص حضرت عمرؓ نے کئی مواقع پر اپنے رفقاء کی رائے سن کر ان فیصلوں کو بدل دیا ، جو وہ کرچکے تھے ؛ اس لئے کبھی بھی اپنی رائے پر ایسا اصرار کہ گویا اسی میں خیر و بہتری ہے ، نہ گھریلو معاملات میں درست ہے اور نہ اجتماعی معاملات میں ، اکثر و بیشتر اپنی رائے پر اصرار ہی کی وجہ سے اجتماعی کاموں میں ٹوٹ پھوٹ پیدا ہوتی ہے اور
یہی انتشار کا سبب بنتا ہے
مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی
اجتماعی کاموں میں دو باتوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے : امارت اور شورائیت — امارت یہ ہے کہ کسی ایک شخص کو ادارہ یا تنظیم کا سربراہ اعلیٰ منتخب کرلیا گیا ہو ، امیر ادارۂ و تنظیم کا امین ہوتا ہے نہ کہ مالک ، وہ گویا گاڑی کا انجن ہوتا ہے ، پہئے کتنے ہی مضبوط ہوں ؛ جب تک کوئی کھینچنے والا انجن نہ ہو ، گاڑی آگے نہیں بڑھ سکتی ، اور انجن کتنا ہی طاقتور ہو ، اگر اس کو پہیوں کا ساتھ حاصل نہ ہو تو اس کی طاقت اس کو فائدہ نہیں پہنچاسکتی ؛ اسی لئے دونوں کی اہمیت ہے ، سربراہ کی بھی اور اس کے شرکاء کار کی بھی ، سربراہ سے تو لوگوں کا تعلق اطاعت و فرمانبرداری کا ہونا چاہئے ، سربراہ کا حکم چاہے طبیعت کے خلاف ہو ؛ لیکن عمل اسی پر کیا جائے گا ؛ بشرطیکہ اس کا حکم شریعت کے خلاف نہ ہو ، اور عام مسلمانوں کی کامیابی سربراہ کی اطاعت میں ہے ؛ اسی لئے حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ پورا پورا اسلام اسی وقت معاشرہ میں آسکتا ہے ، جب کہ مسلمانوں کا جماعتی نظام ہو اور یہ جماعتی نظام امیر کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا ، کسی سربراہ کے بغیر لوگوں کا اکٹھا ہوجانا بھیڑ تو کہلا سکتا ہے ، اسے جماعت نہیں کہا جاسکتا ، اور امیر کی امارت لوگوں کی اطاعت وفرمانبرداری ہی سے قائم ہوسکتی ہے نہ کہ طاقت و قوت سے : ’’ لا إسلام إلا بجماعۃ ولا جماعۃ إلا بإمارہ ولا إمارۃ إلا بطاعۃ‘‘ (سنن دارمی، حدیث نمبر :۲۵۳) — نظم امارت کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ آپ انے فرمایا : اگر سفر میں تین اشخاص جارہے ہوں توان میں بھی کسی کو امیر بنالو ، (سنن ابی داؤد ، حدیث نمبر :۲۶۰۹) خود آپ ا کا معمول مبارک تھا کہ جب بھی مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تو مدینہ میں کسی کو والی یعنی عارضی امیر بناکر جاتے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ معیاری طریقہ تو یہی ہے کہ ایک شخص مستقل امیر ہو ؛ لیکن امارت کی مدت یا اس کے دائرہ کار کو محدود کیا جاسکتا ہے ، فقہی اعتبار سے اس کی اصل یہ ہے کہ امیر عام لوگوں کی طرف سے وکیل کی حیثیت رکھتا ہے اور وکیل بنانے والے کو اختیار حاصل ہے کہ وہ وکیل کے کام یا اس کے اختیارات کو محدود کردے ، پھر یہ بات ضروری نہیں ہے کہ ’ اصلح ‘ یعنی جماعت کا سب سے بہتر شخص ہی امیر ہو ، اس پر اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے ، رسول اللہ ا نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم پر کوئی ناک کٹا حبشی غلام بھی امیر بنادیا جائے تو اس کی اطاعت کرو : ’’ ولو کان عبداً حبشیاً مجدعا‘‘ (سنن ابن ماجہ ، حدیث نمبر :۲۸۶۲) اسی طرح آپ انے فرمایا کہ ظالم سربراہ کی اقتداء میں بھی جمعہ قائم کرتے رہو ، ( سنن ابن ماجہ ، حدیث نمبر :۱۰۸۱) نیز فقہاء نے لکھا ہے کہ جب تک کسی امیر سے کفر کا ارتکاب نہ ہو ، اس کی اطاعت واجب ہے : ’’ وأجمع اھل السنۃ والجماعۃ علی أن السلطان لا ینعزل بالفسق … فلو طرأ علیہ کفر … سقطت طاعتہ ‘‘ (شرح طیبی علی المشکوٰۃ : ۸؍۲۵۶۰) بلکہ اگر کوئی شخص زبردستی امیر بن جائے اور غلبہ حاصل کرلے تو اس کی بھی اطاعت واجب ہے : ’’ وقد اجمع الفقہاء علی وجوب طاعۃ السلطان المتغلب والجھاد معہ ‘‘ (نیل الاوطار : ۷؍۲۰۸) امیر کی اطاعت کا یہ حکم ظالموں کی مدد کی تلقین نہیں ہے ؛ بلکہ اس کا مقصد اُمت کی اجتماعیت کی حفاظت ہے ؛ اس لئے جو لوگ کسی ادارہ ، جماعت یا تنظیم سے وابستہ ہوں ، ان کو جائز باتوں میں بہر حال اپنے امیر و سربراہ کی اطاعت کرنی چاہئے ، چاہے وہ اس کے فیصلہ کو نتائج کے اعتبار سے غلط سمجھتے ہوں ۔
اجتماعی کاموں کے لئے دوسری اہم ضرورت ’ شورائیت ‘ ہے ، اللہ تعالیٰ نے انسان کے وجود کو صلاحیت کے اعتبار سے ایک ناقص وجود رکھا ہے ، اس لئے جب ایک فرد کسی کام کو نہیں کرپاتا ہے تو بہت سے افراد مل کر اس کو انجام دیتے ہیں اور اجتماعی قوت سے وہ کام ہوجاتا ہے ، ایک شخص ایک چٹان کو اپنی جگہ سے کھسکا نہیں سکتا ؛ لیکن جب لوگوں کا جم غفیر اپنا ہاتھ لگاتا ہے تو چٹان اپنی جگہ سے ہٹ جاتی ہے ، یہ اجتماعی کاموں کی ایک مثال ہے ، انسان جیسے اپنی جسمانی قوت کے اعتبار سے عاجز و نامکمل ہے ، اسے دُور تک دیکھنے کے لئے چشمہ کی ، آواز پہنچانے کے لئے مائیک کی اور فاصلہ طے کرنے کے لئے سواری کی ضرورت پڑتی ہے ، اسی طرح وہ عقل و فہم کے اعتبار سے بھی عاجز ہے ، اس کو کسی صحیح نتیجہ تک پہنچنے کے لئے بہت سے لوگوں کی مدد درکار رہتی ہے ؛ اس لئے اجتماعی کاموں میں خاص کر شورائیت ضروری ہے ، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ مسلمانوں کے اہم کام مشورہ ہی سے انجام پانے چاہئیں : ’’ وأمرھم شوریٰ بینھم‘‘ (شوریٰ : ۳۶) رسول اللہ ا کو حکم فرمایا گیا کہ آپ اہم مسائل میں اپنے رفقاء سے مشورہ کیا کیجئے : ’’ وشاورھم فی الأمر‘‘ (آل عمران : ۱۵۹) ؛ حالاںکہ رسول اللہ ا کو وحی جیسا ذریعہ علم حاصل تھا اور آپ کو بظاہر مشورہ کی ضرورت نہیں تھی ؛ لیکن پھر بھی آپ کو مشورہ کی تلقین فرمائی گئی ؛ تاکہ اُمت اس کو اپنے لئے اُسوہ بنائے ، خلفاء راشدین کے عہد میں بھی امیر کے ساتھ شوریٰ ہوا کرتی تھیں ، اور اس کو اس درجہ اہمیت حاصل تھی کہ جب عراق کی زمینیں مسلمانوں کے قبضہ میں آئیں اور ان زمینوں کے بارے میں اختلاف پیدا ہوا کہ ان کو مجاہدین میں تقسیم کردیا جائے یا بیت المال کی ملکیت بنالیا جائے تو تقریباً ایک ماہ تک مباحثہ و مناقشہ کا سلسلہ جاری رہا اور اس کے بعد فیصلہ ہوا ۔
رسول اللہ انے نئے پیش آنے والے شرعی مسائل کے بارے میں حکم فرمایا کہ جب کوئی اہم اور نیا مسئلہ پیش آئے تو اہل علم و فضل کو جمع کرو ، ان سے مشورہ کرو اور تنہا اپنی رائے پر فیصلہ نہ کرو : ’’ تشاورون الفقھاء والعابدین ولا تمضوا فیہ رأی خاصۃ‘‘ (المعجم الاوسط للطبرانی ، حدیث نمبر : ۱۶۱۸) اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آپ انے یہ ہدایت سیدنا حضرت علیؓ کو دی ، جن کا تفقہ صحابہ کے درمیان بھی مسلّم ہے اور جن کو رسول اللہ انے اپنے رفقاء میں سب سے بڑھ کر قوتِ فیصلہ کا حامل قرار دیا : ’’ و أقضاھم علی بن ابی طالب‘‘ (سنن ابن ماجہ ، حدیث نمبر : ۱۵۴) ایک موقع پر آپ انے ارشاد فرمایا کہ جو مشورہ سے کام کرے گا ، اسے شرمندگی سے دوچار نہ ہونا پڑے گا : ’’ولا ندم من استشار‘‘ (المعجم الاوسط ، حدیث نمبر : ۶۶۲) ایک اور روایت میں ہے کہ جو کسی مسلمان سے مشورہ کرے گا ، اللہ تعالیٰ اس کو بہتر پہلو کی توفیق عطا فرمائیں گے : ’’ وفقہ اﷲ لأرشد أمورہ‘‘ ۔( المعجم الاوسط ، حدیث نمبر : ۸۳۳۳)
لیکن مشورہ کے سلسلہ میں دو باتیں اہمیت کی حامل ہیں : ایک یہ کہ مشورہ اہم اُمور میں ہو نہ کہ معمول کے کاموں میں ، دوسرے : یہ ضروری نہیں ہے کہ مشورہ دینے والوں کا ہر مشورہ مان لیا جائے ، مشورہ دینے والوں کو چاہئے کہ زیر مشورہ مسئلہ سے متعلق اللہ نے جو بات اس کے دل میں ڈالی ہے ، اس کو پیش کردے اور حسب ِضرورت اس کے اسباب ووجوہ کو واضح کردے ، پھر اگر مشورہ مان لیا جائے تو یہ احساس پیدا نہ ہوکہ میں بہت صائب الرائے شخصیت ہوں ؛ اسی لئے میری رائے مان لی گئی ہے ؛ بلکہ خیال کرے کہ اب یہ سبھوں کی مشترکہ رائے ہے اور دُعا کرے کہ اس کی رائے کسی نقصان کا باعث نہ بن جائے ، اور اگر رائے قبول نہ کی جائے تو برا نہ مانے اور اجتماعی رائے سے جو فیصلہ ہو ، اس پر ایسی خوش دلی کے ساتھ عمل کرے کہ گویا یہ اسی کی رائے تھی ، اجتماعی کاموں میں بعض دفعہ لوگوں کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ وہ زبان سے تو اپنی رائے کو مشورہ کہتے ہیں ؛ لیکن انداز ایسا اختیار کرتے ہیں کہ گویا یہی فیصلہ ہے ، یہ طریقہ درست نہیں ہے ، — امارت و شورائیت کے اسی متوازن امتزاج سے اسلام کے اجتماعی نظام کی تشکیل ہوتی ہے ، امارت ہو اور شورائیت نہ ہو تو انسان امیر کے بجائے آمر و ڈکٹیٹر بن جاتا ہے ، شورائیت ہو ؛ لیکن کوئی سربراہ نہ ہو تو اس کی مثال اس گاڑی کی ہے جس کو بیک وقت کئی ڈرائیور چلانے کی کوشش کریں ، اس سے قدم قدم پر اختلاف اور تضاد پیدا ہوگا اور کام میں ترقی نہیں ہوگی ۔
مذہبی گروہوں اور جماعتوں کے اختلافات کو حل کرنے کے لئے دو راستے ہیں ، ایک : صلح ، اور یہ سب سے بہتر راستہ ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’ الصلح خیر‘‘ (نساء : ۱۲۸) صلح میں تین پہلو اختیار کئے جاسکتے ہیں : ایک پہلو ایثار کا ، کہ کوئی ایک فریق اپنے دعویٰ سے دستبردار ہوجائے ، صلح نام ہی اسی کا ہے کہ نزاع کو ختم کرنے اور اختلاف کو دُور کرنے کے لئے کوئی فریق اپنا حق چھوڑنے یا اپنے حق کا کچھ حصہ چھوڑنے پر آمادہ ہوجائے ، اس کی بہترین مثال حضرت حسن بن علیؓ کا عمل ہے کہ رسول اللہ اکی پیشین گوئی کے اشارہ کے مطابق ان کی خلافت جائز تھی ، ان کو اکابر صحابہ کی تائید حاصل تھی ، اس کے باوجود انھوںنے خلافت سے دستبرداری کو قبول کرلیا اور مسلمانوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلاف کو ختم کردیا ، رسول اللہ انے بطور پیشین گوئی حضرت حسن ؓکے اس اعلیٰ کردار کی تعریف فرمائی تھی اور ان کی تحسین کی تھی ، حقیقت یہ ہے کہ ایثار سے آدمی چھوٹا نہیں ہوجاتا ؛ بلکہ بڑا بن جاتا ہے ، وہ عہدہ و منصب کو ہار جاتا ہے ؛ لیکن دلوں کو جیت لیتا ہے ۔
دوسرا پہلو انتظامی ڈھانچہ کی توسیع کا ہے ، عام طورپر ایسا ہوتا ہے کہ اگر کچھ لوگ انتظامی ڈھانچہ سے الگ کردیئے گئے اور نظم و نسق میں شامل نہیں رکھے گئے تو ان کو ناگواری ہوتی ہے ، اسی سے انتشار پیدا ہوتا ہے ، اگر ایسے لوگوں کو نظم کا حصہ بنا دیا جائے تو ان کی زبان بند ہوجاتی ہے اوراتفاق و اتحاد کی فضاء قائم ہوجاتی ہے ۔
تیسرا پہلو اختیارات کی تحدید کا ہے ، شریعت میں واضح طورپر امیر و شوریٰ کے دائرہ کار کی تحدید نہیں کی گئی ہے ، صحابہ کے دور میں اس کی بالکل حاجت نہیں تھی ؛ کیوںکہ ورع و تقویٰ کا غلبہ تھا ، مشورہ دینے والے اخلاص کے ساتھ اور خیر خواہی کے جذبہ سے مشورہ دیتے تھے ، انھیں اپنے مشورہ پر اصرار نہیں تھا اور امیر بھی فراخ دلی سے مشورہ کو قبول کرتا تھا ، اس کے سامنے اُمت کی بھلائی اور اللہ کی رضا جوئی کے سوا کوئی اورجذبہ نہیں ہوتا تھا ، اختلاف کو دُور کرنے کے لئے یہ ہوسکتا ہے کہ امیر کو کچھ حدود کا پابند بنا دیا جائے ، مثلاً یہ کہ فیصلہ میں کچھ لوگ اس کے ساتھ شامل کر دیئے جائیں ، یافیصلہ کو تنہا اس پر چھوڑنے کے بجائے غلبۂ آراء کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے ، جیساکہ بڑے بڑے دینی اداروں اور مذہبی تنظیموں کا عرف ہے ، پڑوسی ملک میں اکابر علماء نے سربراہ ملک کے لئے اس اُصول کو قبول کیا تھا کہ ان کی مدت محدود ہوگی اور وہ پارلیمنٹ کی اکثریتی رائے کو قبول کرنے کے پابند ہوں گے ، اس کی نظیر حضرت عمرؓ کی وفات کے بعد خلیفہ کے انتخاب کی ہے ، حضرت عمرؓ نے چھ آدمیوں کے بارے میں وصیت فرمادی تھی کہ ان میں سے کسی ایک کو خلیفہ بنادیا جائے اور اگر ایک نام پر اتفاق نہ ہوپائے تو غلبہ آراء پر فیصلہ کیا جائے ، اسی بنیاد پر حضرت عثمان غنیؓ کا انتخاب ہوا ؛ البتہ غلبہ آراء پر اتفاق کا فیصلہ ایسے انتظامی اُمور میں کیا جائے گا ، جن میں دونوں پہلو مباح ہوں ، جو بات شرعاً واجب یا ممنوع ہو ، اس میں غلبۂ آراء کا اعتبار نہیں ہوگا ، ان کے سلسلے میں تو قرآن وحدیث اور فقہاء کے اجتہاد کے مطابق ہی فیصلہ ہوگا ، خواہ اس رائے کے حاملین کی تعداد کم ہی کیوں نہ ہو ، غرض کہ صلح کی یہ تین بنیادیں ہوسکتی ہیں ، ایک یہ کہ کوئی ایک فریق پیچھے ہٹ جائے اور ایثار سے کام لے ، دوسرے : انتظامی ڈھانچہ جیسے شوریٰ میں ایسی توسیع کردی جائے کہ ہر فریق مطمئن ہوجائے ، تیسرے : امیر و سربراہ کے اختیارات کو محدود کردیا جائے اور وہ شوریٰ کی رائے کا پابند ہوکر کام کرے ۔
اختلافات کو حل کرنے کی دوسری صورت ’ تحکیم ‘ ہے ، قرآن مجید نے نزاعات کو حَکَم کے ذریعہ حل کرنے کی تلقین کی ہے ، (نساء : ۳۵) رسول اللہ ا نے نبی ہونے کے باوجود غزوہ بنو قریظہ کے موقع پر مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان حضرت سعد ابن معاذؓ کو حکم بنایا ، اسی طرح حضرت علیؓ اورحضرت معاویہؓ نے اختلافات کو حل کرنے کے لئے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ اور حضرت عمر وبن عاصؓ کو اپنا حکم تسلیم کیا ، نیز فقہاء نے نزاعات کے حل کے سلسلہ میں تحکیم کو ایک مستقل طریقہ مانتے ہوئے اس کے اُصول و ضوابط اور حدود و شرائط مقرر کئے ، اس لئے اختلاف کو دُور کرنے کا یہ ایک بہترین حل ہے کہ چند معتبر ، معروف ، احکام شریعت سے واقف اور غیر جانبدار اہل علم کی کمیٹی دی جائے ، جو مختلف حضرات کے نقطۂ نظر کو سنیں ، اس ادارہ یا تنظیم یا جماعت کی مصلحتوں کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرے اور فریقین اس فیصلہ کو تسلیم کرلیں ۔
بہر حال جو لوگ ملت کے اجتماعی کاموں سے مربوط ہوں ، ان کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ فرد سے زیادہ اہمیت اس ادارہ ، تنظیم اورجماعت کی ہے ، جس سے وہ وابستہ ہے ، اگر افراد کے مفادات مجروح ہوں تو اس کا نقصان انفرادی ہوگا ، اور اگر کسی ادارہ یا جماعت کا نقصان ہو تو اس کا نقصان ملی اور اجتماعی ہوگا ۔
ان سطورمیں جوکچھ عرض کیا گیاہے، اس کاخلاصہ یہ ہے کہ دینی اداروں اورجماعتوں میں اگراختلاف پیداہوجائے توان کوان امورپرتوجہ دینی چاہئے:
(۱) ذمہ داروں کواپنے گردوپیش کاجائزہ لینا چاہئے،کہیں ان کی صف میں ایسے لوگ توشامل نہیں ہیں،جودانستہ یانادانستہ دین سے یااس ادارہ یاجماعت سے بغض رکھنے والوں کے آلۂ کارہوں اوران کے لئے کام کررہے ہوں،ایسے لوگوں کوجلدسے جلدوہاں سے ہٹادیناچاہئے۔
(۲) ذمہ داروں کوخوداپنا احتساب کرنا چاہئے کہ عہدہ کوانہوں نے ایک اعزاز سمجھ رکھاہے یاذمہ داری؟اوران کواپنے دل کوٹٹولنا چاہئے کہ ان کے کام میں اخلاص کی قوت موجود ہے یانہیں؟اگرظاہری وسائل مہیاہوں؛لیکن جذبۂ اخلاص مفقود ہوتواس کی مثال اس گاڑی کی ہے جودیکھنے میں توبہت عمدہ اورسجی سجائی ہو؛لیکن اس کاانجن کام نہ کرتاہو،یہ دینی کاموں میں کامیابی اورفتنوں سے حفاظت کی کلیدہے۔
(۳) اجتماعی نظام کے قیام کی بنیادامارت پرہے،یعنی سب لوگ مل کرکسی کوامیرتسلیم کرلیں،خواہ وہ صلاحیت کے اعتبارسے ،عمرکے اعتبارسے اورمطلوبہ اوصاف کے اعتبارسے کم ہی درجہ کے ہوں؛کیوں کہ امیرکے لئے سب سے افضل ہونا ضروی نہیں ۔
(۴) انفرادی کمیوں کواجتماعی عمل کے ذریعہ دورکیاجاسکتاہے؛اس لئے یہ ہوسکتا ہے کہ امیرکے ساتھ ایک دوحضرات کومعاون کے طورپرشامل کرلیاجائے،کہ امیران کواعتمادمیں لے کر ہی فیصلہ کیاکرے،تنہافیصلہ نہ کرے۔
(۵) جوامورشوریٰ سے متعلق ہیں،ان میں امیرکوپابندکیاجائے کہ اختلاف رائے کی صورت میں وہ اس رائے پرفیصلہ اورعمل کرنے کاپابندہوگا،جواکثریت کی ہوگی۔
(۶) کام سے جڑے ہوئے مختلف حلقوں کی تشفی کے لئے شوریٰ میں ایسی توسیع کردی جائے کہ مختلف حلقوں اورعلاقوں کی نمانئدگی ہوجائے۔
(۷) اگرادارہ اورجماعت کےدائرہ میں موجودلوگوں کے ذریعہ اتفاق رائے نہ ہوسکے توتین ایسے بزرگ علماء کوحکم بنایاجائے، جومؤقراداروں اورتنظیموں کی نسبت سے امت میں معتمدسمجھے جاتے ہوں۔
خداکرے نقارخانہ میں طوطی کی یہ آواز سنی جائے اورمسئلہ کوحل کرنے میں معاون ثابت ہو،وباللہ التوفیق وھو المستعان
اجتماعی کاموں میں دو باتوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے : امارت اور شورائیت — امارت یہ ہے کہ کسی ایک شخص کو ادارہ یا تنظیم کا سربراہ اعلیٰ منتخب کرلیا گیا ہو ، امیر ادارۂ و تنظیم کا امین ہوتا ہے نہ کہ مالک ، وہ گویا گاڑی کا انجن ہوتا ہے ، پہئے کتنے ہی مضبوط ہوں ؛ جب تک کوئی کھینچنے والا انجن نہ ہو ، گاڑی آگے نہیں بڑھ سکتی ، اور انجن کتنا ہی طاقتور ہو ، اگر اس کو پہیوں کا ساتھ حاصل نہ ہو تو اس کی طاقت اس کو فائدہ نہیں پہنچاسکتی ؛ اسی لئے دونوں کی اہمیت ہے ، سربراہ کی بھی اور اس کے شرکاء کار کی بھی ، سربراہ سے تو لوگوں کا تعلق اطاعت و فرمانبرداری کا ہونا چاہئے ، سربراہ کا حکم چاہے طبیعت کے خلاف ہو ؛ لیکن عمل اسی پر کیا جائے گا ؛ بشرطیکہ اس کا حکم شریعت کے خلاف نہ ہو ، اور عام مسلمانوں کی کامیابی سربراہ کی اطاعت میں ہے ؛ اسی لئے حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ پورا پورا اسلام اسی وقت معاشرہ میں آسکتا ہے ، جب کہ مسلمانوں کا جماعتی نظام ہو اور یہ جماعتی نظام امیر کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا ، کسی سربراہ کے بغیر لوگوں کا اکٹھا ہوجانا بھیڑ تو کہلا سکتا ہے ، اسے جماعت نہیں کہا جاسکتا ، اور امیر کی امارت لوگوں کی اطاعت وفرمانبرداری ہی سے قائم ہوسکتی ہے نہ کہ طاقت و قوت سے : ’’ لا إسلام إلا بجماعۃ ولا جماعۃ إلا بإمارہ ولا إمارۃ إلا بطاعۃ‘‘ (سنن دارمی، حدیث نمبر :۲۵۳) — نظم امارت کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ آپ انے فرمایا : اگر سفر میں تین اشخاص جارہے ہوں توان میں بھی کسی کو امیر بنالو ، (سنن ابی داؤد ، حدیث نمبر :۲۶۰۹) خود آپ ا کا معمول مبارک تھا کہ جب بھی مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تو مدینہ میں کسی کو والی یعنی عارضی امیر بناکر جاتے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ معیاری طریقہ تو یہی ہے کہ ایک شخص مستقل امیر ہو ؛ لیکن امارت کی مدت یا اس کے دائرہ کار کو محدود کیا جاسکتا ہے ، فقہی اعتبار سے اس کی اصل یہ ہے کہ امیر عام لوگوں کی طرف سے وکیل کی حیثیت رکھتا ہے اور وکیل بنانے والے کو اختیار حاصل ہے کہ وہ وکیل کے کام یا اس کے اختیارات کو محدود کردے ، پھر یہ بات ضروری نہیں ہے کہ ’ اصلح ‘ یعنی جماعت کا سب سے بہتر شخص ہی امیر ہو ، اس پر اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے ، رسول اللہ ا نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم پر کوئی ناک کٹا حبشی غلام بھی امیر بنادیا جائے تو اس کی اطاعت کرو : ’’ ولو کان عبداً حبشیاً مجدعا‘‘ (سنن ابن ماجہ ، حدیث نمبر :۲۸۶۲) اسی طرح آپ انے فرمایا کہ ظالم سربراہ کی اقتداء میں بھی جمعہ قائم کرتے رہو ، ( سنن ابن ماجہ ، حدیث نمبر :۱۰۸۱) نیز فقہاء نے لکھا ہے کہ جب تک کسی امیر سے کفر کا ارتکاب نہ ہو ، اس کی اطاعت واجب ہے : ’’ وأجمع اھل السنۃ والجماعۃ علی أن السلطان لا ینعزل بالفسق … فلو طرأ علیہ کفر … سقطت طاعتہ ‘‘ (شرح طیبی علی المشکوٰۃ : ۸؍۲۵۶۰) بلکہ اگر کوئی شخص زبردستی امیر بن جائے اور غلبہ حاصل کرلے تو اس کی بھی اطاعت واجب ہے : ’’ وقد اجمع الفقہاء علی وجوب طاعۃ السلطان المتغلب والجھاد معہ ‘‘ (نیل الاوطار : ۷؍۲۰۸) امیر کی اطاعت کا یہ حکم ظالموں کی مدد کی تلقین نہیں ہے ؛ بلکہ اس کا مقصد اُمت کی اجتماعیت کی حفاظت ہے ؛ اس لئے جو لوگ کسی ادارہ ، جماعت یا تنظیم سے وابستہ ہوں ، ان کو جائز باتوں میں بہر حال اپنے امیر و سربراہ کی اطاعت کرنی چاہئے ، چاہے وہ اس کے فیصلہ کو نتائج کے اعتبار سے غلط سمجھتے ہوں ۔
اجتماعی کاموں کے لئے دوسری اہم ضرورت ’ شورائیت ‘ ہے ، اللہ تعالیٰ نے انسان کے وجود کو صلاحیت کے اعتبار سے ایک ناقص وجود رکھا ہے ، اس لئے جب ایک فرد کسی کام کو نہیں کرپاتا ہے تو بہت سے افراد مل کر اس کو انجام دیتے ہیں اور اجتماعی قوت سے وہ کام ہوجاتا ہے ، ایک شخص ایک چٹان کو اپنی جگہ سے کھسکا نہیں سکتا ؛ لیکن جب لوگوں کا جم غفیر اپنا ہاتھ لگاتا ہے تو چٹان اپنی جگہ سے ہٹ جاتی ہے ، یہ اجتماعی کاموں کی ایک مثال ہے ، انسان جیسے اپنی جسمانی قوت کے اعتبار سے عاجز و نامکمل ہے ، اسے دُور تک دیکھنے کے لئے چشمہ کی ، آواز پہنچانے کے لئے مائیک کی اور فاصلہ طے کرنے کے لئے سواری کی ضرورت پڑتی ہے ، اسی طرح وہ عقل و فہم کے اعتبار سے بھی عاجز ہے ، اس کو کسی صحیح نتیجہ تک پہنچنے کے لئے بہت سے لوگوں کی مدد درکار رہتی ہے ؛ اس لئے اجتماعی کاموں میں خاص کر شورائیت ضروری ہے ، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ مسلمانوں کے اہم کام مشورہ ہی سے انجام پانے چاہئیں : ’’ وأمرھم شوریٰ بینھم‘‘ (شوریٰ : ۳۶) رسول اللہ ا کو حکم فرمایا گیا کہ آپ اہم مسائل میں اپنے رفقاء سے مشورہ کیا کیجئے : ’’ وشاورھم فی الأمر‘‘ (آل عمران : ۱۵۹) ؛ حالاںکہ رسول اللہ ا کو وحی جیسا ذریعہ علم حاصل تھا اور آپ کو بظاہر مشورہ کی ضرورت نہیں تھی ؛ لیکن پھر بھی آپ کو مشورہ کی تلقین فرمائی گئی ؛ تاکہ اُمت اس کو اپنے لئے اُسوہ بنائے ، خلفاء راشدین کے عہد میں بھی امیر کے ساتھ شوریٰ ہوا کرتی تھیں ، اور اس کو اس درجہ اہمیت حاصل تھی کہ جب عراق کی زمینیں مسلمانوں کے قبضہ میں آئیں اور ان زمینوں کے بارے میں اختلاف پیدا ہوا کہ ان کو مجاہدین میں تقسیم کردیا جائے یا بیت المال کی ملکیت بنالیا جائے تو تقریباً ایک ماہ تک مباحثہ و مناقشہ کا سلسلہ جاری رہا اور اس کے بعد فیصلہ ہوا ۔
رسول اللہ انے نئے پیش آنے والے شرعی مسائل کے بارے میں حکم فرمایا کہ جب کوئی اہم اور نیا مسئلہ پیش آئے تو اہل علم و فضل کو جمع کرو ، ان سے مشورہ کرو اور تنہا اپنی رائے پر فیصلہ نہ کرو : ’’ تشاورون الفقھاء والعابدین ولا تمضوا فیہ رأی خاصۃ‘‘ (المعجم الاوسط للطبرانی ، حدیث نمبر : ۱۶۱۸) اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آپ انے یہ ہدایت سیدنا حضرت علیؓ کو دی ، جن کا تفقہ صحابہ کے درمیان بھی مسلّم ہے اور جن کو رسول اللہ انے اپنے رفقاء میں سب سے بڑھ کر قوتِ فیصلہ کا حامل قرار دیا : ’’ و أقضاھم علی بن ابی طالب‘‘ (سنن ابن ماجہ ، حدیث نمبر : ۱۵۴) ایک موقع پر آپ انے ارشاد فرمایا کہ جو مشورہ سے کام کرے گا ، اسے شرمندگی سے دوچار نہ ہونا پڑے گا : ’’ولا ندم من استشار‘‘ (المعجم الاوسط ، حدیث نمبر : ۶۶۲) ایک اور روایت میں ہے کہ جو کسی مسلمان سے مشورہ کرے گا ، اللہ تعالیٰ اس کو بہتر پہلو کی توفیق عطا فرمائیں گے : ’’ وفقہ اﷲ لأرشد أمورہ‘‘ ۔( المعجم الاوسط ، حدیث نمبر : ۸۳۳۳)
لیکن مشورہ کے سلسلہ میں دو باتیں اہمیت کی حامل ہیں : ایک یہ کہ مشورہ اہم اُمور میں ہو نہ کہ معمول کے کاموں میں ، دوسرے : یہ ضروری نہیں ہے کہ مشورہ دینے والوں کا ہر مشورہ مان لیا جائے ، مشورہ دینے والوں کو چاہئے کہ زیر مشورہ مسئلہ سے متعلق اللہ نے جو بات اس کے دل میں ڈالی ہے ، اس کو پیش کردے اور حسب ِضرورت اس کے اسباب ووجوہ کو واضح کردے ، پھر اگر مشورہ مان لیا جائے تو یہ احساس پیدا نہ ہوکہ میں بہت صائب الرائے شخصیت ہوں ؛ اسی لئے میری رائے مان لی گئی ہے ؛ بلکہ خیال کرے کہ اب یہ سبھوں کی مشترکہ رائے ہے اور دُعا کرے کہ اس کی رائے کسی نقصان کا باعث نہ بن جائے ، اور اگر رائے قبول نہ کی جائے تو برا نہ مانے اور اجتماعی رائے سے جو فیصلہ ہو ، اس پر ایسی خوش دلی کے ساتھ عمل کرے کہ گویا یہ اسی کی رائے تھی ، اجتماعی کاموں میں بعض دفعہ لوگوں کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ وہ زبان سے تو اپنی رائے کو مشورہ کہتے ہیں ؛ لیکن انداز ایسا اختیار کرتے ہیں کہ گویا یہی فیصلہ ہے ، یہ طریقہ درست نہیں ہے ، — امارت و شورائیت کے اسی متوازن امتزاج سے اسلام کے اجتماعی نظام کی تشکیل ہوتی ہے ، امارت ہو اور شورائیت نہ ہو تو انسان امیر کے بجائے آمر و ڈکٹیٹر بن جاتا ہے ، شورائیت ہو ؛ لیکن کوئی سربراہ نہ ہو تو اس کی مثال اس گاڑی کی ہے جس کو بیک وقت کئی ڈرائیور چلانے کی کوشش کریں ، اس سے قدم قدم پر اختلاف اور تضاد پیدا ہوگا اور کام میں ترقی نہیں ہوگی ۔
مذہبی گروہوں اور جماعتوں کے اختلافات کو حل کرنے کے لئے دو راستے ہیں ، ایک : صلح ، اور یہ سب سے بہتر راستہ ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’ الصلح خیر‘‘ (نساء : ۱۲۸) صلح میں تین پہلو اختیار کئے جاسکتے ہیں : ایک پہلو ایثار کا ، کہ کوئی ایک فریق اپنے دعویٰ سے دستبردار ہوجائے ، صلح نام ہی اسی کا ہے کہ نزاع کو ختم کرنے اور اختلاف کو دُور کرنے کے لئے کوئی فریق اپنا حق چھوڑنے یا اپنے حق کا کچھ حصہ چھوڑنے پر آمادہ ہوجائے ، اس کی بہترین مثال حضرت حسن بن علیؓ کا عمل ہے کہ رسول اللہ اکی پیشین گوئی کے اشارہ کے مطابق ان کی خلافت جائز تھی ، ان کو اکابر صحابہ کی تائید حاصل تھی ، اس کے باوجود انھوںنے خلافت سے دستبرداری کو قبول کرلیا اور مسلمانوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلاف کو ختم کردیا ، رسول اللہ انے بطور پیشین گوئی حضرت حسن ؓکے اس اعلیٰ کردار کی تعریف فرمائی تھی اور ان کی تحسین کی تھی ، حقیقت یہ ہے کہ ایثار سے آدمی چھوٹا نہیں ہوجاتا ؛ بلکہ بڑا بن جاتا ہے ، وہ عہدہ و منصب کو ہار جاتا ہے ؛ لیکن دلوں کو جیت لیتا ہے ۔
دوسرا پہلو انتظامی ڈھانچہ کی توسیع کا ہے ، عام طورپر ایسا ہوتا ہے کہ اگر کچھ لوگ انتظامی ڈھانچہ سے الگ کردیئے گئے اور نظم و نسق میں شامل نہیں رکھے گئے تو ان کو ناگواری ہوتی ہے ، اسی سے انتشار پیدا ہوتا ہے ، اگر ایسے لوگوں کو نظم کا حصہ بنا دیا جائے تو ان کی زبان بند ہوجاتی ہے اوراتفاق و اتحاد کی فضاء قائم ہوجاتی ہے ۔
تیسرا پہلو اختیارات کی تحدید کا ہے ، شریعت میں واضح طورپر امیر و شوریٰ کے دائرہ کار کی تحدید نہیں کی گئی ہے ، صحابہ کے دور میں اس کی بالکل حاجت نہیں تھی ؛ کیوںکہ ورع و تقویٰ کا غلبہ تھا ، مشورہ دینے والے اخلاص کے ساتھ اور خیر خواہی کے جذبہ سے مشورہ دیتے تھے ، انھیں اپنے مشورہ پر اصرار نہیں تھا اور امیر بھی فراخ دلی سے مشورہ کو قبول کرتا تھا ، اس کے سامنے اُمت کی بھلائی اور اللہ کی رضا جوئی کے سوا کوئی اورجذبہ نہیں ہوتا تھا ، اختلاف کو دُور کرنے کے لئے یہ ہوسکتا ہے کہ امیر کو کچھ حدود کا پابند بنا دیا جائے ، مثلاً یہ کہ فیصلہ میں کچھ لوگ اس کے ساتھ شامل کر دیئے جائیں ، یافیصلہ کو تنہا اس پر چھوڑنے کے بجائے غلبۂ آراء کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے ، جیساکہ بڑے بڑے دینی اداروں اور مذہبی تنظیموں کا عرف ہے ، پڑوسی ملک میں اکابر علماء نے سربراہ ملک کے لئے اس اُصول کو قبول کیا تھا کہ ان کی مدت محدود ہوگی اور وہ پارلیمنٹ کی اکثریتی رائے کو قبول کرنے کے پابند ہوں گے ، اس کی نظیر حضرت عمرؓ کی وفات کے بعد خلیفہ کے انتخاب کی ہے ، حضرت عمرؓ نے چھ آدمیوں کے بارے میں وصیت فرمادی تھی کہ ان میں سے کسی ایک کو خلیفہ بنادیا جائے اور اگر ایک نام پر اتفاق نہ ہوپائے تو غلبہ آراء پر فیصلہ کیا جائے ، اسی بنیاد پر حضرت عثمان غنیؓ کا انتخاب ہوا ؛ البتہ غلبہ آراء پر اتفاق کا فیصلہ ایسے انتظامی اُمور میں کیا جائے گا ، جن میں دونوں پہلو مباح ہوں ، جو بات شرعاً واجب یا ممنوع ہو ، اس میں غلبۂ آراء کا اعتبار نہیں ہوگا ، ان کے سلسلے میں تو قرآن وحدیث اور فقہاء کے اجتہاد کے مطابق ہی فیصلہ ہوگا ، خواہ اس رائے کے حاملین کی تعداد کم ہی کیوں نہ ہو ، غرض کہ صلح کی یہ تین بنیادیں ہوسکتی ہیں ، ایک یہ کہ کوئی ایک فریق پیچھے ہٹ جائے اور ایثار سے کام لے ، دوسرے : انتظامی ڈھانچہ جیسے شوریٰ میں ایسی توسیع کردی جائے کہ ہر فریق مطمئن ہوجائے ، تیسرے : امیر و سربراہ کے اختیارات کو محدود کردیا جائے اور وہ شوریٰ کی رائے کا پابند ہوکر کام کرے ۔
اختلافات کو حل کرنے کی دوسری صورت ’ تحکیم ‘ ہے ، قرآن مجید نے نزاعات کو حَکَم کے ذریعہ حل کرنے کی تلقین کی ہے ، (نساء : ۳۵) رسول اللہ ا نے نبی ہونے کے باوجود غزوہ بنو قریظہ کے موقع پر مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان حضرت سعد ابن معاذؓ کو حکم بنایا ، اسی طرح حضرت علیؓ اورحضرت معاویہؓ نے اختلافات کو حل کرنے کے لئے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ اور حضرت عمر وبن عاصؓ کو اپنا حکم تسلیم کیا ، نیز فقہاء نے نزاعات کے حل کے سلسلہ میں تحکیم کو ایک مستقل طریقہ مانتے ہوئے اس کے اُصول و ضوابط اور حدود و شرائط مقرر کئے ، اس لئے اختلاف کو دُور کرنے کا یہ ایک بہترین حل ہے کہ چند معتبر ، معروف ، احکام شریعت سے واقف اور غیر جانبدار اہل علم کی کمیٹی دی جائے ، جو مختلف حضرات کے نقطۂ نظر کو سنیں ، اس ادارہ یا تنظیم یا جماعت کی مصلحتوں کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرے اور فریقین اس فیصلہ کو تسلیم کرلیں ۔
بہر حال جو لوگ ملت کے اجتماعی کاموں سے مربوط ہوں ، ان کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ فرد سے زیادہ اہمیت اس ادارہ ، تنظیم اورجماعت کی ہے ، جس سے وہ وابستہ ہے ، اگر افراد کے مفادات مجروح ہوں تو اس کا نقصان انفرادی ہوگا ، اور اگر کسی ادارہ یا جماعت کا نقصان ہو تو اس کا نقصان ملی اور اجتماعی ہوگا ۔
ان سطورمیں جوکچھ عرض کیا گیاہے، اس کاخلاصہ یہ ہے کہ دینی اداروں اورجماعتوں میں اگراختلاف پیداہوجائے توان کوان امورپرتوجہ دینی چاہئے:
(۱) ذمہ داروں کواپنے گردوپیش کاجائزہ لینا چاہئے،کہیں ان کی صف میں ایسے لوگ توشامل نہیں ہیں،جودانستہ یانادانستہ دین سے یااس ادارہ یاجماعت سے بغض رکھنے والوں کے آلۂ کارہوں اوران کے لئے کام کررہے ہوں،ایسے لوگوں کوجلدسے جلدوہاں سے ہٹادیناچاہئے۔
(۲) ذمہ داروں کوخوداپنا احتساب کرنا چاہئے کہ عہدہ کوانہوں نے ایک اعزاز سمجھ رکھاہے یاذمہ داری؟اوران کواپنے دل کوٹٹولنا چاہئے کہ ان کے کام میں اخلاص کی قوت موجود ہے یانہیں؟اگرظاہری وسائل مہیاہوں؛لیکن جذبۂ اخلاص مفقود ہوتواس کی مثال اس گاڑی کی ہے جودیکھنے میں توبہت عمدہ اورسجی سجائی ہو؛لیکن اس کاانجن کام نہ کرتاہو،یہ دینی کاموں میں کامیابی اورفتنوں سے حفاظت کی کلیدہے۔
(۳) اجتماعی نظام کے قیام کی بنیادامارت پرہے،یعنی سب لوگ مل کرکسی کوامیرتسلیم کرلیں،خواہ وہ صلاحیت کے اعتبارسے ،عمرکے اعتبارسے اورمطلوبہ اوصاف کے اعتبارسے کم ہی درجہ کے ہوں؛کیوں کہ امیرکے لئے سب سے افضل ہونا ضروی نہیں ۔
(۴) انفرادی کمیوں کواجتماعی عمل کے ذریعہ دورکیاجاسکتاہے؛اس لئے یہ ہوسکتا ہے کہ امیرکے ساتھ ایک دوحضرات کومعاون کے طورپرشامل کرلیاجائے،کہ امیران کواعتمادمیں لے کر ہی فیصلہ کیاکرے،تنہافیصلہ نہ کرے۔
(۵) جوامورشوریٰ سے متعلق ہیں،ان میں امیرکوپابندکیاجائے کہ اختلاف رائے کی صورت میں وہ اس رائے پرفیصلہ اورعمل کرنے کاپابندہوگا،جواکثریت کی ہوگی۔
(۶) کام سے جڑے ہوئے مختلف حلقوں کی تشفی کے لئے شوریٰ میں ایسی توسیع کردی جائے کہ مختلف حلقوں اورعلاقوں کی نمانئدگی ہوجائے۔
(۷) اگرادارہ اورجماعت کےدائرہ میں موجودلوگوں کے ذریعہ اتفاق رائے نہ ہوسکے توتین ایسے بزرگ علماء کوحکم بنایاجائے، جومؤقراداروں اورتنظیموں کی نسبت سے امت میں معتمدسمجھے جاتے ہوں۔
خداکرے نقارخانہ میں طوطی کی یہ آواز سنی جائے اورمسئلہ کوحل کرنے میں معاون ثابت ہو،وباللہ التوفیق وھو المستعان