Pages

فضائلِ اعمال پر اعتراضات کا جواب


بسم اللہ الرحمن الرحیمبسم اللہ الرحمن الرحیم
فضائلِ اعمال پر اعتراضات کا جواب فضائلِ اعمال سے
          فضائلِ اعمال حضرت شیخ الحدیث کی لکھی ہوئی مختلف کتابوں کا مجموعہ ہے، جن میں حضرت شیخ الحدیثؒ کی تحقیق اور قرآن کریم  کی آیات کی تفسیر و احادیثِ شریفہ کی شرح موجود ہے۔ فضائلِ اعمال پر بعض احباب تنقید کرتے ہیں اور اس پر بہت سے اعتراضات کرتے ہیں جن کے جوابات بھی بہت سے دئے گئے ہیں۔ خود شیخ الحدیثؒ نے بھی بعض اعتراضات کے جوابات دئے ہیں جو کتابی شکل میں موجود ہے،
نیز  دارالعلوم دیوبند کے  شعبۂ تخصص فی الحدیث کے استاذ حضرت مولانا مفتی عبد اللہ معروفی صاحب دامت برکاتہم نے بھی ایک عمدہ کتاب "فضائلِ اعمال پر اعتراضات کا اصولی جائزہ" تحریر فرمائی۔
نیز اس سلسلہ کی سب سے اہم کاوش "تحقیق المقال فی تخریج احادیث  فضائل اعمال" جو عربی میں ہے اس کا اردو ترجمہ "تصحیح الخیال" کے نام سے شائع ہوا ہے۔ 
اعتراضات کے جوابات کی سب سے اہم کڑی اور سب سے اہم کام حضرت مولانا الیاس گھمن صاحب دامت برکاتہم عالیہ نے ویڈیو کی شکل میں دیا جس سے بہت سے اعتراضات کی ہوا نکل گئی۔
          ایک قاعدہ یاد رکھنا چاہئے کہ نفسِ اعتراض کرنا بری شئی نہیں ہے بلکہ اعتراض کا حق تو سب کو حاصل ہے لیکن اعتراض حسد اور تنقیص پر مبنی نہ ہو،  بلکہ جب اعتراض کا جواب مل جائے تو اسے قبول کرلینا چاہئے نہ کہ اسی پر اصرار کرنا چاہئے۔
          خیر! ہم ہمارے اس مضمون میں ان شاء اللہ فضائلِ اعمال پر جو اعتراضات کئے جاتے ہیں ان کا جواب فضائلِ اعمال سے ہی دیں گے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ غور سے تعصب کا چشمہ اتار کر اسے پڑھئے ان شاء اللہ اعتراضات دفع ہوجائیں گے۔
          بنیادی طور پر فضائلِ اعمال پر جتنے اعتراضات کئے جاتے ہیں ان کو ہم دو 
قسموں  میں تقسیم کرسکتے ہیں

۱۔ ضعیف و منگھڑت روایات
۲۔قصہ کہانیاں۔

۱۔ ضعیف و منگھڑت روایات:-  جہاں تک ضعیف اور منگھڑت روایات کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں قاری کو چاہئے کہ کوئی بھی اصول حدیث کی کتاب پہلے پڑھ کر سمجھ لے کہ ضعیف حدیث کیا ہوتی ہے اور منگھڑت(موضوع)  حدیث کیا ہوتی ہے۔ دونوں میں زمین آسمان کا فرق  آپ کو ملے گا۔
          فضائلِ اعمال میں احادیثِ صحیحہ کے ساتھ ساتھ احادیث ضعیفہ  بھی ان کے ضعف کی وضاحت کے ساتھ موجود  ہیں۔  سند پر تفصیلی کلام حضرت شیخ الحدیثؒ نے عربی میں کیا ہے جیسا کہ حضرتؒ نے خود اس کی  وضاحت فرمائی ہے۔
          فضائلِ نماز کے مقدمہ میں حضرت شیخ الحدیثؒ تحریر فرماتے ہیں:
"چونکہ نماز کی تبلیغ کرنے والے اکثر اہلِ علم بھی ہوتے ہیں اس لئے حدیث کا حوالہ اور اس کے متعلق جو مضامین اہلِ علم سے تعلق رکھتے تھے وہ عربی میں لکھ دئے گئے ہیں کہ عوام کو ان سے کچھ فائدہ نہیں ہے اور تبلیغ کرنے والے حضرات کو بسا اوقات ضرورت پڑ جاتی ہے اور ترجمہ و فوائد وغیرہ اردو میں لکھ دئے گئے ہیں۔ "(فضائل نماز مقدمہ ص 5)
          ایک جگہ چالیس احادیث کے جمع کرنے کی فضیلت پر کلام کرتے ہوئے فضائلِ قرآن مجید کے مقدمہ میں تحریر فرماتے ہیں:
          "مناوی کہتے ہیں میری امت پر محفوظ کرلینے سے مراد ان کی طرف نقل کرنا ہے۔ سند کے حوالے کے ساتھ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ مسلمانوں تک پہنچانا ہے اگرچہ وہ برزبان یاد نہ ہوں نہ ان کے معنی معلوم ہوں، اسی طرح چالیس حدیثیں بھی عام ہیں کہ سب صحیح ہوں یا حَسن یا معمولی درجہ کی ضعیف جن پر فضائل میں عمل جائز ہو۔ "(فضائلِ قرآن مجید  مقدمہ ص 4)
فضائلِ نماز کے بالکل اختتام پر حضرت شیخ الحدیثؒ متنبہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
          "اخیر میں اس امر پر تنبیہ بھی ضروری ہے کہ حضراتِ محدثین رضی اللہ عنہم اجمعین کے نزدیک فضائل کی روایات میں توسّع ہےا ور معمولی ضعف قابلِ تسامح (ہے)۔۔۔۔۔  "(فضائلِ نماز  آخری صفحہ)
ایک جگہ حدیث پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
          "محدثین کو اس کے بعض رواۃ میں کلام ہے لیکن اول تو فضائل میں اس قدر کلام قابل تحمل ہے۔ دوسرے اس کے اکثر مضامین کی دوسری روایات مؤید ہیں۔"(فضائل رمضان فصل اول حدیث نمبر ۱ فائدہ ص 5)
          اسی طرح اکثر جگہ آپ ضعیف حدیث کے متعلق فضائلِ اعمال میں محدثین کے ان اصول کی وضاحت پائیں گے اور جو حدیث صحیحین یعنی بخاری و مسلم کے علاوہ ہو اکثر جگہ حضرت شیخ الحدیثؒ کا  اس پر آپ کو عربی میں کلام ملے گا جیسا کہ حضرت نے وضاحت فرمادی تھی۔
          اب ان تصریحات کے بعد یہ اعتراض بالکل رفع ہوجاتا ہے کہ فضائلِ اعمال میں ضعیف و منگھڑت روایات موجود ہیں۔ کیوں کہ حضرت نے ضعیف احادیث فضائل میں لینے کے متعلق محدثین کی تصریحات بیان فرمادیں، اور منگھڑت روایات ہمارے علم میں تو فضائلِ اعمال میں نہیں ہے اگر کوئی اس کے منگھڑت ہونے کا دعویٰ کرے تو وہیں اس کا عربی متن دیکھ لیں ان شاء اللہ وضاحت مل جائے گی۔
۲۔ قصہ کہانیاں:- اب دوسرا اعتراض یہ رہ جاتا ہے کہ اس میں قصہ کہانیاں ہیں اور یہ کامک بک (Comic Book) ہے، اس میں ایسے واقعات ہیں جو ہماری عقل میں نہیں آتے، کیلکولیٹر(Calculator) کام کرنا بند کردیتے ہیں، بعض جگہ طنز کرتے ہوئے یہ کہنا کہ یہ تو ورلڈ ریکارڈ ہے وغیرہ وغیرہ۔
          یہ انداز دنیاداروں کا تو ہوسکتا ہے مگر اہلِ علم یا دینداروں کا نہیں ہوسکتا۔ آئیے اس سلسلہ میں بھی فضائلِ اعمال سے ہی ان واقعات کے متعلق چند تصریحات ناظرین کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
          حضرت شیخ الحدیثؒ نے واقعات کا ذکر فضائلِ اعمال میں کیوں کیا اس کی وضاحت کرتے ہوئے فضائلِ درود میں فرماتے ہیں:
"درود شریف کے بارے میں اللہ تعالیٰ شانہ کے حکم اور حضور اقدس ﷺ کے پاک ارشادات کے بعد حکایات کی کچھ زیادہ اہمیت نہیں رہتی۔ لیکن لوگوں کی عادت کچھ ایسی ہے کہ بزرگوں کے حالات سے ترغیب زیادہ ہوتی ہے، اسی لئے اکابر کا دستور اس ذیل میں کچھ حکایات لکھنے کا بھی چلا آرہا ہے۔"(فضائلِ درود پانچویں فصل ص 82)
صوفیائے کرام رحمہم اللہ کے واقعات کی حقیقت و درجہ بتاتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
          "اخیر میں اس امر پر تنبیہ بھی ضروری ہے کہ حضراتِ محدثین رضی اللہ عنہم اجمعین کے نزدیک فضائل کی روایات میں توسّع ہےا ور معمولی ضعف قابلِ تسامح،باقی صوفیائے کرام رحمہم اللہ کے واقعات تو تاریخی حیثیت رکھتے ہی ہیں اور ظاہر ہے کہ تاریخ  کا درجہ حدیث کے درجہ سے کہیں کم ہے۔  "(فضائلِ نماز  ص 88)
اسی طرح صوفیائے کرام رحمہم اللہ کے واقعات و کرامات پر جو عقل میں نہیں آتے کہا جاتا ہے اس کے متعلق بڑی ہی اہم بات حضرت شیخ الحدیثؒ نے تحریر فرمائی ہے:
"ساری رات کو بے چینی اور اضطراب یا شوق و اشتیاق میں جاگ کر گزار دینے کے واقعات کثرت سے ہیں کہ ان کا احاطہ ممکن نہیں۔ ہم اس لذّت سے اتنے دُور ہوگئے ہیں کہ ہم کو ان واقعات کی صحت میں بھی تردد ہونے لگا ، لیکن اوّل تو جس کثرت اور تواتر سے یہ واقعات نقل کئے گئے ہیں ان کی تردید میں ساری ہی تواریخ سے اعتماد اٹھتا ہے کہ واقعات کی صحت کثرتِ نقل ہی سے  ثابت ہوتی ہے۔ دوسرے ہم لوگ اپنی آنکھوں سے ایسے لوگوں کو آئے دن دیکھتے ہیں جو سینما اور تھیٹر میں ساری رات کھڑے کھڑے گزار دیتے ہیں کہ نہ ان کو تعب ہوتا ہے ، نہ نیند ستاتی ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ ہم ایسے معاصی کی لذّتوں کا یقین کرنے کے باوجود ان طاعات کی لذّتوں کا انکار کریں، حالانکہ طاعات میں اللہ تعالیٰ شانہ کی طرف سے قوت بھی عطا ہوتی ہے۔ ہمارے اس تردّد کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ ہم ان لذّتوں سے ناآشنا ہیں اور نابالغ  بلوغ کی لذّتوں  سے ناواقف ہوتا ہی ہے۔ حق تعالیٰ شانہ اس لذّت تک پہنچادیں تو زہے نصیب۔"(فضائلِ نماز ص 87)
حضرت شیخ الحدیثؒ کی ان تصریحات سے تمام اعتراضات رفع ہوجاتے ہیں کہ ان واقعات کی حقیقت و حیثیت تاریخی ہے اور وہ حدیث سے بہت زیادہ کم درجہ رکھتی ہے اور جو یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ عقل میں بات نہیں آتی وہ دنیا دار سینیما ، فون اور رات میں گپ شپ کرنے والوں کو دیکھ لیں کہ وہ نافرمانی کے کاموں  میں بشاشت کے ساتھ راتیں گذار دیتے  ہیں تو کیا اللہ کی اطاعات میں کوئی ایسا نہیں کرسکتا ؟
          ایسی تصریحات کو فضائلِ اعمال میں بہت سی جگہ ملے گی۔
اب ہمارے اس مضمون کو حضرت شیخ الحدیثؒ کی ہی تصریحات میں سے چند جو فضائلِ حج کے آخر میں مذکور ہیں سے کرتے ہیں:
          "عشاق اور مُخلصین کے  واقعات کی نہ کوئی حد ہے نہ انتہا، پورے  چودہ سو سال میں سے ہر سال میں کتنے عُشاق اور مُخلصین ایسے ہوں گے جن کے عجیب واقعات گذرے، کوئی لکھے تو کہا تک لکھے، ستر(70)  کا عدد احادیث میں بھی کثرت پر دلالت کرتا ہے، اس لئے اسی عدد پر اس سلسلہ کو ختم کرتا ہوں البتہ ان واقعات میں تین امر قابلِ لحاظ ہیں:-
(۱)اول یہ کہ یہ احوال اور واقعات جو گذرے ہیں وہ عشق اور محبت پر مبنی ہیں اور عشق کے قوانین عام قوانین سے بالاتر ہیں۔۔۔"(فضائل حج ص 287)
کچھ آگے چل کر تحریر فرماتے ہیں
"لہذا ان واقعات کو اسی عینک سے دیکھنے کی ضرورت ہے اور اس رنگ میں رنگے جانے کی کوشش کرنا چاہئے۔ لیکن جب تک عشق پیدا نہ ہو اس وقت تک نہ تو ان واقعات سے استدلال کرنا چاہئے اور نہ ان پر اعتراض کرنا چاہئے، اس لئے کہ وہ عشق کے غلبہ میں صادر ہوتے ہیں، امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ جو شخص محبت کا پیالہ پی لیتا ہے وہ مخمور ہوجاتا ہے اور جو مخمور ہوتا ہے اس کے کلام میں بھی وسعت آجاتی ہے، اگر اس کا وہ نشہ زائل ہو جائے تو وہ دیکھےکہ جو کچھ اس نے غلبہ میں کہا ہے وہ ایک حال ہے حقیقت نہیں اور عُشّاق کے کلام سے لذت توحاصل کی جاتی ہے اس پر اعتماد نہیں کیا جاتا۔(احیاء 3)
(۲) دوسرا یہ ہے کہ ان قِصّوں میں اکثر مواقع میں توکل کی وہ مثالیں گذری ہیں جو ہم جیسے نا اہلوں کے عمل تو درکنار ذہنوں سے بھی بالاتر ہیں،ا ن کے متعلق یہ بات ذہن میں رکھنا چاہئے کہ توکل کا مُنتہا یہی ہے جو ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے اور وہ پسندیدہ بھی ہے اور اس کے کمال پر پہنچنے کی سعی اور کم سے کم تمنا تو ہونا ہی چاہئے لیکن جب تک یہ درجہ حاصل نہ ہو اس وقت تک ترکِ اسباب نہ کرنا چاہئے۔"
پھر اس کی تشریح احادیث و علماء کے کلام سے فرمائی  اور مثالوں کا ذکر فرمایا اور ان پر جو اعتراضات ہوتے ہیں ان کو رفع کیا اور پھر ص 293 میں تیسری بات ذکر کی
(۳) تیسری بات جو ان واقعات میں قابلِ لحاظ ہے اور وہ  بھی حقیقت میں پہلے ہی بات پر مُتَفرّع ہے، وہ یہ ہے کہ بعض واقعات میں ایسی شِدت ملتی ہے جو سرسری نظر میں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے اور بظاہر یہ ناجائز معلوم ہوتا ہے، اس کے متعلق یہ بات ضرور سمجھ لینا چاہئے کہ یہ واقعات بمنزلہ دوا کے ہیں اور دوا میں طبیب حاذق(ماہر ڈاکڑ) بعض اوقات سنکھیا بھی استعمال کرایا کرتا ہے، لیکن اس کا استعمال طبیب کی رائے کے موافق ہو تو مناسب ہے، بلکہ بسا اوقات ضروری لیکن بدون اس کے مشورے کے ناجائز، اور مُوجبِ ہلاکت، اسی طرح ان واقعات میں جن حاذِق طبیبوں نے ان دواؤں کا استعمال کیا ہے ان پر اعتراض اپنی نادانی اور فن سے ناواقفیت پر مبنی ہے، لیکن جو خود طبیب نہ ہو اور کسی طبیب کا اس کو مشورہ حاصل نہ ہو اس کو ایسے امور جو شریعتِ مطہر ہ کے خلاف معلوم ہوتے ہوں اختیار کرناجائز نہیں ہیں، البتہ فن کے ائمہ پر قواعد سے واقف لوگوں پر اعتراض میں جلدی کرنا بالخصوص ایسے لوگوں کی طرف سے جو خود واقفیت نہ رکھتے ہوں غلط چیز ہے، اور ہلاکت میں اپنے آپ کو ڈالنا ہر حال میں ناجائز نہیں ہے،ا گر دینی مصلحت اس کی متقاضی ہو تو پھر مباح سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے۔"(فضائل حج باب ان واقعات کے متعلق ضروری تنبیہات  287 تا 294آخر)
          پھر  حضرت شیخ الحدیثؒ نے وہیں پر احادیث پیش کر کے اپنے اوپر کے کئے گئے بیان کی وضاحت کی ہے، صفحہ 287 سے آخر تک آپ غور سے پڑھ لیں گے تو بہت سی باتیں سمجھ آجائیں گی۔
          آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ دین کی صحیح فکر و سمجھ عطا فرمائے اور ہمارا ایمان پر خاتمہ فرمائے اور حضرت شیخ الحدیثؒ کے درجات کو بلند فرمائے اور قبر کو نور سے منور فرمائے۔
آمین!