Pages

The Sprit of Deen and Islam among children of Sahabah Karam Raziallahu Anhu: FAZAIL E AMAAL HIKAYAT E SAHABA CHAPTER 11


گیارھواں باب
کم سن اور نو عمر بچوں میں جو دین کا جذبہ تھا وہ حقیقت میں بڑوں کی پرورش کا ثمرہ تھا ۔ اگر ماں باپ اور دوسرے اولیاء اولاد کو شفقت میں کھودینے اور ضائع کردینے کے بجائے شروع ہی سے ان کی دینی حالت کی خبر گیری اور اس پر تنبیہ رکھیں تو دین کے امور بچوں کے دلوں میں جگہ پکڑیں اور بڑی عمر میں جاکر وہ چیزیں ان کے لئے بمنزلہ عادت کے ہو جائیں لیکن ہم لوگ اس کے برخلاف بچے کی ہر بری بات پر بچہ سمجھ کر چشم پوشی کرتے ہیں بلکہ زیادہ محبت کا جوش ہوتا ہے تو اس پر خوش ہوتے ہیں اور دین میں جتنی کوتاہی دیکھتے ہیں اپنے دل کو یہ کہہ کر تسلی دیتے ہیں کہ بڑے ہو کر سب درست ہو جاوے گا ۔ حالانکہ بڑے ہو کر وہی عادات پکتی ہیں جن کا شروع میں بیج بو یا جا چکا ہے ۔آپ چاہتے ہیں کہ بیج چنے کا ڈالا جائے اور اس سے گیہوں پیدا ہو یہ مشکل ہے اگر آپ چاہتے ہیں کہ بچے میں اچھی عادتیں پیدا ہوں ، دین کا اہتمام ہو، دین پر عمل کرنے والا ہو تو بچپن ہی سے اس کو دین کے اہتمام کا عادی بنائیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بچپن سے ہی اپنی اولاد کی نگہداشت فرماتے تھے اور دینی امور کا اہتمام کراتے تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ایک شخص پکڑ کر لایا گیا جس نے رمضان میں شراب پی رکھی تھی اور روزہ سے نہیں تھا ۔ حضرت عمر ؓ نے ارشاد فرمایا کہ تیرا ناس ہو ہمارے تو بچے بھی روزہ دار ہیں ۔(بخاری)
ف: یعنی تو اتنا بڑا ہو کر بھی روزہ نہیں رکھتا اس کے بعد اس کے اسی ۸۰ کوڑے شراب کی سزا میںمارے اور مدینہ منورہ سے نکل جانے کا حکم فرما کر ملک شام کو چلتا کر دیا۔
۱۔بچوں کو روزہ رکھوانا
ربیع بنت معوذ جن کا قصہ پہلے باب کے اخیر میں گذرا ہے کہتی ہیں کہ حضورﷺنے ایک مرتبہ اعلان کرایا کہ آج عاشورہ کا دن ہے سب کے سب روزہ رکھیں ہم لوگ اس کے بعد سے ہمیشہ روزہ رکھتے رہے اور اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے تھے جب وہ بھوک کی وجہ سے رونے لگتے تو روئی کے گالے کے کھلونے بنا کر ان کو بہلایا کرتے تھے اور افطار کے وقت تک اسی طرح ان کو کھیل میںلگائے رکھتے تھے ۔(بخاری)
ف: بعض احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ مائیں دودھ پیتے بچوں کو دودھ نہیں پلاتی تھیں۔ اگرچہ اس وقت قویٰ نہایت قوی تھے اور اب بہت ضعیف، وہ لوگ اور وہ بچے اس کے متحمل تھے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جتنے کا اب تحمل ہے وہی کہا کیا جاتا ہے تحمل کا دیکھنا تو نہایت ضروری ہے مگر اب جس کا تحمل ہوا اس میں کوتاہی یقینا نا مناسب ہے ۔