مولانا الیاسؒ نے کسی مسئلے پر کوئی
فتویٰ لکھا ہے اور نہ دوسری قسم کی کوئی رائے یا کتاب لکھی ہے ۔ حالانکہ اپنے
اخلاص وانابت الی اللہ ، تجدیدی کام اور اس کے اصولوں سے مناسبت اور دین کی جد
وجہد وقربانی کے لیے بہت ممتاز تھے، بقول منظور نعمانی ؒ ’’ ہم اور ہمارے بعض
دوسرے صاحبِ بصیرت احباب اس بارے میں ہم خیال ویک زبان تھے کہ اس زمانے میں ایسی
شخصیت اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ایک نشانی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک
معجزہ ہے ۔ جس کو دین کے زندۂ جاویدہونے اور دینی جنون وبیقراری اور اس دور کی
خصوصیات کاایک اندازہ کرنے کے لیے اس زمانے میں ظاہر کیا گیا ہے ۔ میرا جی چاہتا
تھا کہ ہمارے احباب اور معاصر اس بستی کو دیکھیں
جو قرون اولیٰ کے خزانہ عامرہ کا ایک بچا کچا موتی ہے ۔ لیکن کسی کو کسی پر اختیار
نہیں ۔
دوسری
جگہ مولانا منظور نعمان ؒ فرماتے ہیں کہ مرحوم اپنی تحریک کے بارے میں کبھی کبھی
فرماتے تھے یہ قرون اولیٰ کا ہیرا ہے مگر مجھے یہ کہنے میں کوئی مبالغہ محسوس نہیں
ہوتا کہ مولانا خود اس چودھویں صدی میں قرون اولیٰ کے خزانۂ عامرہ کا ایک موتی تھے
۔
بعض سلف کے متعلق
بہت سے چیزیں ہم کتابوں میں ایسی پڑھتے ہیں جن کوباور کرنے میں مادیت سے مغلوب
حلقوں پر بڑا بوجھ پڑتا ہے ، لیکن مرحوم کے اندر اس قسم کی چیزیں آنکھوں سے دیکھ
کر الحمد للہ ایسا انشراح واطمینان نصیب ہوا جو شاید صدہا دلیلوں سے نصیب نہیں
ہوتا۔
بقول علی میاں ؒ
:۔قرآن وحدیث کے فہم ، سیرت ، اور صحابہ کرام کے حالات وواقعات کے علم ، اصول دین
سے گہری واقفیت کے ماتحت انہوں نے کام کا ایک طرز پیش کیا ‘ ‘ (دینی دعوت، ص۳۲۷)
پروفیسر خلیق احمد
نظامی نے تاریخ مشائخ چشت میں لکھا ہے گذشتہ صدی میں کسی بزرگ نے چشتیہ سلسلہ کے
اصلاحی اصولوں کو اس طرح جذب نہیں کیا جس طرح مولانا الیاس ؒ نے کیاتھا۔ (ص۲۳۴)