Pages

Daeef Hadith Imam Bukhari Position in Urdu weak Ahadith discussion


May Allah help Ummat to have faith on Quran and Hadith as explained and Practiced by Salafus Salehin Great Imams and Muhaddethin and help the present day general muslim and Islamic Scholars  mend their differences of opinion in that light. Only Allah can help and solve the Problems of Ummah.All are requested to Pray
امام بخاریکا موقف
علامہ جمال الدین قاسمی” صاحب قواعد التحدیث“ کے بقول بظاہر امام بخاری کا مذہب مطلقاً منع ہے اور یہ نتیجہ انہوں نے صحیح بخاری کی شرائط اور اس میں کسی ضعیف حدیث کو داخل کتاب نہ کرنے سے نکالا ہے‘ علامہ شیخ زاہد الکوثری نے بھی اپنے مقالات (ص:۵۴) میں یہی بات کہی ہے، لیکن یہ بات درست نہیں‘ بلکہ اس مسئلہ میں امام بخاری کا موقف بالکل جمہور کے موافق ہے۔
جہاں تک صحیح بخاری کا تعلق ہے تو اولاً: اس میں امام نے صرف صحیح حدیثوں کا التزام کیا ہے‘ لہذا اس میں کسی ضعیف حدیث کانہ ہونااس بات کو مستلزم نہیں کہ امام کے نزدیک ضعیف سرے سے ناقابل عمل ہے، جیساکہ کسی حدیث کا اس میں نہ ہونا اس بات کو مستلزم نہیں کہ وہ غیر صحیح ہے‘ چنانچہ خود آپ نے احادیث آداب واخلاق کا ایک گراں قدر مجموعہ ”الادب المفرد“مرتب فرمایا‘ جس کی شرط یقیناً ان کی جامع صحیح سے بہت فروتر ہے، حتی کہ عصر حاضر کے بعض علم برداران حفاظت سنت کو ”صحیح الادب المفرد“ اور ”ضعیف الادب المفرد“ کے جراحی عمل کی مشقت اٹھانی پڑی۔
اس کتاب میں امام بخاری نے ضعیف احادیث وآثار کی ایک بڑی مقدار تخریج کی ہے‘ بلکہ بعض ابواب تو آبادہی ضعیف سے ہیں ،اور آپ نے ان سے استدلال کیا ہے‘ چنانچہ اس کے رجال میں ضعیف‘ مجہول‘ منکر الحدیثاور متروک ہر طرح کے پائے جاتے ہیں‘ مثال کے طور علامہ شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ نے ”الادب المفرد“ کی شرح ”فضل اللہ الصمد“ سے بائیس احادیث وآثار اور ان کے رجال کے احوال نقل کئے ،ان میں سے بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
۱- اثر نمبر ۲۳ میں: علی بن الحسین بن واقد المروزی‘ ضعیف الحدیث۔
۲- حدیث نمبر :۴۳ میں محمد بن فلان بن طلحہ‘ مجہول‘ او ضعیف متروک۔
۳- اثر نمبر: ۴۵ میں عبید اللہ بن موہب‘ قال احمد: لایعرف۔
۴- اثر نمبر: ۵۱ ابو سعد سعید بن البرزبان البقال الاعور‘ ضعیف۔
۵- حدیث نمبر: ۶۳ میں سلیمان ابو اِدام یعنی سلیمان بن زید۔ضعیف لیس بثقة‘ کذاب‘ متروک الحدیث۔
۶- حدیث نمبر: ۱۱۱ میں لیث بن ابی سلیم القرشی ابوبکر: ضعیف۔
۷- حدیث نمبر :۱۱۲ میں عبد اللہ بن المساور: مجہول۔
۸- حدیث نمبر: ۱۳۷ میں یحی بن ابی سلیمان: قال البخاری: منکر الحدیث۔
شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ نے تقریب التہذیب سے الادب المفرد کے رجال کو کھنگالا تو مستورین کی تعداد: دو۔ ضعفاء کی تعداد: بائیس۔ اور مجہولین کی تعداد :اٹھائیس نکلی‘ مجموعہ باون رواة۔ اس جائزہ سے بخوبی واضح ہوگیا کہ فضائل کی حدیثوں کے تئیں امام بخاری کا مسلک وہی ہے جو جمہور کا ہے۔
صحیح بخاری میں متکلم فیہ رجال کی حدیثیں
ثانیا خود الجامع الصحیح میں ایسی مثالیں موجود ہیں جن کی روایت میں کوئی متکلم فیہ راوی موجود ہے، جس کی حدیثیں ،محدثین کے اصول پر کسی طرح حسن سے اوپر نہیں اٹھ سکتی‘ بلکہ بعض حدیثوں میں ضعیف راوی منفرد ہے‘ اور اس کو داخل صحیح کرنے کی اس کے علاوہ کوئی تاویل نہیں ہوسکتی کہ اس کا مضمون غیر احکام سے متعلق ہے‘ اور شارحین نے یہی تاویل کی بھی ہے۔ ملاحظہ ہوں چند مثالیں:۱- حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مقدمہ فتح الباری (ص:۶۱۵) میں محمد بن عبد الرحمن الطُفاوی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:
”قال ابو زرعة منکر الحدیث‘ واورد لہ ابن عدی عدة احادیث‘ قلت: لہ فی البخاری ثلاثة احادیث‘ لیس فیہا شئ مما استکرہ ابن عدی ․․․ ثالثہا فی الرقاق ”کن فی الدنیا کأنک غریب“ وہذا تفرد بہ الطفاوی‘ وہو من غرائب الصحیح‘ وکان البخاری لم یشدد فیہ، لکونہ من احادیث الترغیب والترہیب“۔
یہ حدیث صحیح بخاری کی غریب حدیثوں میں سے ہے۔

یعنی ”کن فی الدنیا کأنک غریب“ (بخاری کتاب الرقاق) حدیث کی روایت میں محمد بن عبد الرحمن الطفاوی منفرد ہے‘ حافظ فرماتے ہیں: شاید کہ امام بخاری نے اس کے ساتھ تساہل کا معاملہ صرف اس وجہ سے کیا ہے کہ یہ ترغیب وترہیب کی حدیثوں میں سے ہے۔
۲- عن ابی بن عباس بن سہل بن سعد‘ عن ابیہ عن جدہ قال: کان للنبی ا فی حائطنا فرس یقال لہ اللحیف“
(کتاب الجہاد باب اسم الفرس والحمار)
حافظ نے تہذیب التہذیب میں ابی بن عباس بن سہل کی بابت امام احمد، نسائی، ابن معیناور امام بخاری سے تضعیف کے جملے نقل کئے‘ عقیلی نے کہا :اس کی کئی حدیثیں ہیں اور کسی پر اس کی متابعت نہیں کی گئی ہے۔ پھر حافظ نے فرمایا کہ :مذکورہ حدیث پر اس کے بھائی عبد المہیمن بن عباس نے متابعت کی ہے‘ لیکن وہ بھی ضعیف ہے، ملاحظہ ہوں یہ الفاظ:
”وعبد المہیمن ایضاً فیہ ضعف‘ فاعتضد‘ وانضاف الی ذلک انہ لیس من احادیث الاحکام‘ فلہذہ الصورة المجموعة حکم البخاری بصحتہ“ انتہی۔
ابی بن عباس کے ضعف کی تلافی اس کے بھائی سے اس قدر نہیں ہوسکی کہ حدیث کو صحیح کا درجہ دیا جائے تو اس خلل کو اس پہلو سے پر کیا گیا کہ حدیث احکام سے متعلق نہیں ہے‘ اس لئے چل جائے گی۔
۳- محمد بن طلحة‘ عن طلحة‘ عن مصعب بن سعد قال: رای سعد ان لہ فضلاً علی من دونہ‘ فقال النبی ا” تنصرون وترزقون الا بضعفائکم“۔(کتاب الجہاد وباب من استعان بالضعفاء والصالحین فی الحرب)
محمد بن طلحة بن مصرف الکوفی ان کا سماع اپنے والد سے کم سنی میں ہوا تھا، امام نسائی، ابن معین، ابن سعد وغیرہ نے ان کو ضعیف کہاہے ،تقریب میں ہے: صدوق لہ اوہام‘ وانکروا سماعہ من ابیہ لصغرہ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مقدمہ (ص:۶۱۳) میں فرماتے ہیں۔
”صحیح بخاری میں ان کی تین حدیثیں ہیں‘ دو تو متابعت کی وجہ سے درجہ صحت کو پہنچ جاتی ہے‘ تیسری (مذکورہ بالا حدیث) ہے‘ اس کی روایت میں محمد بن طلحہ منفرد ہیں‘ مگر یہ ”فضائل اعمال“ سے متعلق ہے یعنی فضائل اعمال کی حدیث ہونے کی وجہ سے چشم پوشی کی گئی۔“
امام مسلم کا موقف
علامہ جمال الدین رحمہ اللہ نے امام مسلم کے متعلق دلیل یہ دی کہ انہوں نے مقدمہ میں ضعیف ومنکر احادیث کے روایت کرنے والوں کی سخت مذمت کی ہے اور اپنی صحیح میں ضعیف حدیث کا اخراج نہیں کیا ہے‘ لیکن امام مسلم کی اس تشنیع سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ ضعفاء سے روایت کرنا مطلقاً ناجائز ہے‘ انہوں نے تو صحیح حدیثوں کو جمع کرنے والے پر یہ بات ضروری قرار دی ہے کہ وہ مشہور ثقہ راویوں کی حدیثوں کو تلاش کرکے جمع کرے‘ ضعیف حدیث کے علی الاطلاق مردود ہونے پر ان سے کوئی صراحت منقول نہیں ہے۔تاہم امام مسلم نے بعض ضعفاء کی حدیثیں صحیح میں متابعات وشواہد کے طور پر اخراج کی ہیں، آپ نے مقدمہ میں حدیثوں کی تین قسمیں قرار دی ہیں۔
۱- وہ حدیثیں جو حفاظ متقنین کی روایت سے ہیں۔۲- وہ حدیثیں جو ایسے لوگوں کی روایت سے ہیں جو حفظ واتقان میں متوسط اور بظاہر جرح سے محفوظ ہیں۔۳- وہ حدیثیں جو ضعفاء ومتروکین کی روایت سے ہیں۔
امام مسلم کی اس صراحت اور صحیح میں ان کے طرز عمل کے درمیان تطبیق میں شراح نے مختلف باتیں کہی ہیں‘ قاضی عیاض نے جو توجیہ کی‘ علامہ ذہبی اور نووی نے ا س کو پسند کیا، ا س کا خلاصہ یہ ہے:
”امام مسلم نے جن تین طبقات کا ذکر کیا ہے ،ان میں سے آخری طبقہ ان رواة کا ہے جن کے متہم ہونے پر تمام یا اکثر علماء کا اتفاق ہے‘ اس سے پہلے ایک طبقہ ہے جس کا ذکر امام نے اپنی عبارت میں نہیں کیا ہے ‘ اور وہ ‘ وہ لوگ ہیں جن کو بعض تو متہم سمجھتے ہیں اور بعض صحیح الحدیث قرار دیتے ہیں۔ یہ کل چار طبقے ہوئے‘ میں نے امام مسلم کو پایا کہ وہ پہلے دونوں طبقوں کی حدیثیں لاتے ہیں، اس طرح کہ باب میں اولاً طبقہٴ اولیٰ کی حدیث تخریج کرتے ہیں پھر مزید تقویت کے لئے طبقہ ثانیہ کی حدیثیں ذکر کرتے ہیں اور جب کسی باب میں طبقہٴ اولیٰ سے کوئی حدیث ان کے پاس نہیں ہوتی تو ثانیہ ہی کی حدیث پر اکتفاء کرتے ہیں‘ پھر کچھ ایسے لوگوں کی حدیثیں بھی تخریج کرتے ہیں جن کی بعض نے تضعیف اور بعض نے توثیق کی ہوتی ہے‘رہے چوتھے طبقہ کے لوگ تو ان کو آپ نے ترک کردیا ہے۔“ (مقدمہ شرح نووی)
امام ذہبی فرماتے ہیں:
”میں کہتاہوں کہ طبقہٴ اولیٰ وثانیہ کی حدیثیں مساویانہ طور پر لیتے ہیں، ثانیہ کی معدود ے چند کو چھوڑ کر جس میں وہ کسی قسم کی نکارت سمجھتے ہیں‘ پھر متابعات وشواہد کے طور پر طبقہٴ ثالثہ کی حدیثیں لیتے ہیں ،جن کی تعداد بہت زیادہ نہیں‘ اصول میں تو ان کی حدیثیں شاید وباید ہی لیتے ہیں‘ یہ عطاء بن السائب‘ لیث بن ابی سلیم‘ یزید بن ابی زیاد‘ ابان بن صمعہ‘ محمد بن اسحاق اور محمد بن عمرو بن علقمہ اور ان کی حیثیت کے لوگ ہیں“۔ (سیر اعلاء مالنبلاء ۱۲/۵۷۵)
ایک غلط فہمی کا ازالہ
اوپر صحیحین کے تعلق سے جو کچھ عرض کیا گیا ،اس سے ممکن ہے بعض اہل علم کو شبہ ہو کہ پھر تو صحیحین سے اعتماد اٹھ جائے گا‘ اور نتیجتاً پوراذخیرہ حدیث مشکوک ہوجائے گا ،جب کہ صحیحین کا اصح الکتاب بعد کتاب اللہ ہونا مسلم‘ اور متفق علیہ ہے، کیونکہ جب صحیحین تک ضعیف حدیثوں سے محفوظ نہیں رہیں تو دوسری کتب حدیث تو بدرجہ اولیٰ محفوظ نہیں رہیں گی اور اس طرح پورا ذخیرہ حدیث مشکوک اور ناقابل اعتبار ہوجائے گا اور منکرین حدیث کو انکار حدیث کے لئے بہا نہ ملے گا۔
اس سلسلہ میں عرض ہے کہ ہم نے یہ کہا ہی کب ہے کہ صحیحین میں ضعیف حدیثیں بھی ہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ جمہور امت کے نزدیک حدیثوں میں صحت وحسن کا معیار مختلف ہوتا ہے‘ باب احکام (حلال وحرام) میں سخت ہوتا ہے تو فضائل وغیرہ میں نرم۔
چنانچہ ہم نے بخاری شریف سے جو مثالیں پیش کی ہیں ،وہ اپنی علتوں کے باوجود فضائل وآداب کے باب کے اعتبار سے یقینا صحیح ہیں‘ اگرچہ باب احکام میں جس درجہ کی صحت مطلوب ہوتی ہے ،وہ ان میں نہیں ہے‘ اسی لئے امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کو داخل صحیح کرلیا۔
اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے بعض حضرات ہرباب میں صحت وحسن کے اسی معیار کو استعمال کرنے لگتے ہیں جو باب احکام کے لئے مخصوص ہے‘ اور وہ بھی صرف اسنادی پہلو سے ،ا س لئے مناسب خیال کیا گیا کہ ضعیف اور متکلم فیہ رجال کی حدیثوں کی بابت صحیحین کے مصنفین کا اصل موقف واضح کردیا جائے ،تاکہ اس مغالطہ کی گنجائش باقی نہ رہے۔ ورنہ صحیحین کے متعلق جمہور امت کی جو رائے ہے، وہی ہمارا بھی مسلک ہے کہ یہ دونوں کتابیں صرف صحیح احادیث کا مجموعہ ہیں۔ علامہ شبیر احمد عثمانی نے مقدمہ ”فتح الملہم“ میں صحیحین کی حدیثوں کے مفید قطع ویقین ہونے کے نظریہ کی مدلل تردید کرنے کے بعد صحیحین کی عظمت ومقام کی بابت حضرت شاہ ولی اللہ کی عبارت نقل کی ہے‘ اس جگہ ہم بھی انہیں عبارات کو نقل کرنا مناسب سمجھتے ہیں‘ علامہ عثمانی فرماتے ہیں:
”لیس غرضنا مماکتبنا فی ہذا لبحث تہوین امر الصحیحین‘ او غیرہما من کتب الحدیث، بل المقصود نفی التعمق والغلو‘ ووضع کل شئ فی موضعہ‘ وتنویہ شانہ بما یستحقہ‘ ونحن بحمد اللّٰہ نعتقد فی ہٰذین الکتابین الجلیلین‘ ونقول بما قال شیخ شیوخنا ومقدم جماعتنا الشاہ ولی اللّٰہ الدہلوی فی حجة اللّٰہ البالغة“ وہذا لفظہ:
”اما الصحیحان: فقد اتفق المحدثون علی ان جمیع ما فیہما من المتصل المرفوع صحیح بالقطع (بالتفصیل الذی ذکرنا) وانہما متواتران الی مصنفیہما وانہ غیر سبیل المؤمنین“۔ اھ
ترجمہ:․․․”اس بحث میں جو کچھ ہم نے لکھا ،اس سے ہمارا مقصد معاذ اللہ! صحیحین‘ یا دوسری کتب حدیث کی کسر شان نہیں ہے‘ بلکہ ان کی بابت غلو کی تردید اور ہرچیز کو اس کے اصل مقام پر رکھنے اور اس کو اس کا واجبی حق دینے کی کوشش ہے‘ ورنہ ہم بحمد اللہ! ان دونوں عظیم الشان کتابوں کے متعلق وہی نظریہ رکھتے ہیں جو ہمارے شیخ الشیوخ اور مقتدا حضرات شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ”حجة اللّٰہ البالغہ“ میں فرمایا ہے۔
”رہیں صحیحین‘ تو محدثین اس پر متفق ہیں کہ ان میں جو کچھ مرفوع متصل کے قبیل سے ہے، وہ بالکل صحیح ہے اور ان کتابوں کا ثبوت ان کے مصنفین سے بطور تواتر ہے‘ بلاشبہ جو شخص بھی ان کی شان گھٹائے گا وہ بدعتی‘ گمراہ اور مسلمانوں کے راستے کے علاوہ راستہ کی پیروی کرنے والا ہوگا“۔ (مقدمہ فتح الملہم ص:۱۰۸)


یہ چند نمونے ہیں جو مشتے نمونہ از خردار ے پیش کئے گئے اور یہ بات اظہر من الشمس ہوگئی کہ بطور عمل متوارث حدیث ضعیف کا احترام ہوتا چلا آیا ہے‘ اس کے خلاف کو موقف ”اتباع غیر سبیل المؤمنین“ (جماعت مسلمین کے راستہ کو چھوڑنے کے مرادف ہے) خاص کر فضائل وغیرہ کے باب میں ضعیف حدیث کو بیان کرنا یا کسی کتاب میں شامل کرنا جرم نہیں ہے‘ ایسا کرنے والوں کی یہ ایک لمبی قطار ہے‘ ہم تو ان حضرات پر مکمل اعتماد کرتے ہیں‘ جو کچھ دینی وعلمی ورثہ ہم تک پہنچا وہ اسی قدسی صفت جماعت کا احسان ہے‘ البتہ لوگوں کو ان کے طرز عمل پر اعتراض ہے وہ جانیں کہ یہ لوگ مجرم ہیں یا نہیں؟شیخ نے بجا طور پر کہا اور کیا خوب کہا:
”اگر ان سب اکابر کی یہ ساری کتابیں غلط ہیں تو پھر فضائل حج کے غلط ہونے کا اس ناکارہ کو بھی قلق نہیں۔ (کتب فضائل پر اشکالات اور ان کے جوابات ص:۱۸۲)