By
This is being Reproduced here from
http://www.ownislam.com/articles/urdu-articles/1633-fazail-amaal-par-aitrazat-ka-elmi-jaiza
May
Allah help Ummat e Muslima to have faith on Quran and Hadith as explained and
Practiced by Salafus Salehin Great Imams and Muhaddethin and help the present
day general muslim and Islamic Scholars mend their differences of opinion
in that light.Only Allah can help and solve the Problems of Ummate Muslima.All
are requested to Pray
نحمده و نصلی علی رسوله الکریم
عر ض مرتب:
الحمداللہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا رحمہ اﷲ (۱) کی کتب فضائل صدقات کو اللہ تعالیٰ نے
شرفِ قبولیت سے نوازا ہے۔ يہ ان کتابوں کو پڑھا اور سنا جا رہا ہے۔(۲) اور بفضل اللہ تعالیٰ کی زبانوںمیں
ان کے ترجمے بھی ہو چکے ہیں۔ اس مختصر رسالہ میں ان سے جو قابل جواب اعتراضات کیے
گے ہیں ان میں سے جو قابل جواب اعتراضات تھے ان کا مدلل جواب دینے کی سعی کی گی
ہے۔ اللہ اسکو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرما کر باعث ہدایت اور اطمینان
بنائے۔ آمین
(۱) مشہور غیر مقلد عالم ارشاد الحق اثری صاحب نے حضرت شیخ رحمہ
اﷲکو القاب سے یاد کیا ہے۔
بقیة السف حجة الخف الشیخ العلامہ محمد زکریا
الکاندھلوی شیخ الحدیث رحمہ اﷲ۔
(امام بخاری رحمہ اﷲپر بعض اعتراضات کا جائزہ ص94)
(۲) اسکا اعتراف مشہور غیر مقلد عالم تابش مہدی کو بھی ہے۔ لکھتا
ہے۔
آپ ملک کی کسی بھی مسجد میں چلے جائیں وہاں لوگ
آپکو صبح و شا م تبلیغی نصاب ہی کی تلاوت کرتے ہوے ملیں گے۔
(تبلیغی نصاب ایک مطالعہ ص15)
(۱) اعتراض:
فضائل اعمال اس وقت لکھی گئی جب شیخ الہدیث صاحب
رحمہ اﷲکو ڈاکٹروں نے دماغی کام سے روک دیا تھا۔ حضرات شیخؒ خود لکھتے ہیں۔
’صفر1375 ہجری میں ایک مرض کی وجہ سے چند روز کیلئے دماغی کام سے روک دیا گیا تو
مجھے خیال ہوا کہ ان خالی ایام کو اس بابرکت مشغلہ میں گزاردوں۔
(فضائل اعمال ص 8 رسالہ حکایاتِ صحابہ رضی اﷲ عنہم)
جواب:۔
معترض
نے دجل و فریب سے کام لیتے ہوئے اس مذکورہ عبارت کو پوری کتاب پر چسپاں کرنے کی
ناکام کوشش کی ہے۔ حالانکہ فضائل اعمال مختلف رسائل کا مجوعہ ہے اور يہ رسائل
مختلف اوقات میں لکھے گئے۔ مثلاً
حکایاتِ صحابہ رضی اﷲ عنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شوال 1358ھ
فضائل قرآن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذی الحجہ1348ھ
فضائل نماز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محرم 1358ھ
فضائل ذکر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شوال 1358ھ
فضائل تبلیغ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صفر 1350ھ
فضائل رمضان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رمضان 1349ھ
حضرت
شیخؒ نے بیماری کی حالت میں صرف رسالہ حکایات صحابہ
لکھا تھا۔ باقی پانچ رسائل حالت صحت میں لکھے تھے۔ لیکن معترض نے دجل و فریب کا
مظاہرہ کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ تمام رسائل حالت بیماری میں لکھے
گئے ہیں اور بیماری بھی ایسی جسکا تعلق دماغ کے ساتھ تھا حالانکہ ایسا نہیں۔
حضرت
شیخ کا دماغ بالکل تندرست اور صحیح سالم تھا بیماری کچھ اور تھی جسکی طرف حضرت شیخ
کی اپنی یہ عبارت ’ایک مرض کی وجہ سے ‘ واضح اشارہ کررہی ہے۔ اب وہ مرض کونسا تھا
حضرت شیخ خود اسکی وضاحت فرماتے ہیں کہ وہ نکسیر کا مرض تھا دیکھئیے۔۔۔۔۔۔۔(آپ
بیتی ج 1ص 176ب فضائل پر اشکالات اور انکے جوابات ص 25) معترض سے ہم پوچھتے ہیں کہ
”رسالہ حکایات صحابہ رضی اﷲ عنہ“ میں کونسی
ایسی بات ہے جو قرآن و سنت کے خلاف ہو تو پھر وہ ہمارے حضرت شیخ کی کرامت کا
اعتراف کرے۔ کہ انہوں نے حالتِ بیماری میں اتنا عمدہ رسالہ لکھا ہے اگر تندرست
ہوتے تو پھر کیسا لکھتے۔
(۲) اعتراض:۔
فضائل اعمال اور فضائل صدقات میں کچھ حدیثیں ایسی بھی ہیں جن کا حضرت شیخ رحمہ اﷲ
نے کوئی حوالہ پیش نہیں کیا اور جو حدیث بغیر حوالہ کے ہودہ مضبوت نہیں ہوتی۔
جواب:
اسکا جواب حضرت شیخ نے خود ”فضائل قرآن“ کے شروع میں تحریر کیا
ہے۔ لکھتے ہیں!
اس
جگہ ایک ضروری امر پر متنبہ کرنا بھی لابدی ہے وہ یہ کہ میں نے احادیث کا حوالہ
دینے میں مشکوة، تنقیح الرواة، مرقاة اور احیاءالعلوم
کی شرح اور منذریؒ کی ترغیب پر اعتمادکیا ہے۔ارو کثرت ان سے لیا ہے۔ اس لیے
ین کے حوالے کی ضرورت نہیں سمجھی البتہ انکے علاوہ کہیں سے لےا ہے تو اسکا حوالہ
نقل کردیا ہے ۔۔۔۔۔ (فضائل اعمال ۔ ص 208)
حضرت شیخؒ کی عبارت بالکل واضح ہے کہ اعتراض کرنے والوں کو جس
حدیث کا حوالہ نہ ملے وہ ان مذکورہ پانچ کتابوں کی طرف مراجعت کریں اگر وہ حدیث
وہاں نہ ملے تو پھر حضرت شیخ کو قصوروار ٹھرائیں ورنہ بے اعتراضات سے گریز کریں
کیونکہ بے جا اعتراضات کرنا اخلاق حسنہ کے منافی ہیں۔
(۳) اعتراض:۔
حضرت شیخ نے حضرت حنظلہؓ کے واقعات میں تضاد بیان کیا ہے۔ ایک واقعہ میں
حضرت حنظلہؓ کے بیوی بچوں کا ذکرہے اور دوسرے واقعہ میں ذکر ہے کہ نئی شادی ہوئی
تھی غسل جنابت بھی نہ کر پائے تھے کہ شہید ہوگئے۔
جواب:۔
اعتراض کرنے والوں کا مطالعہ سطحی ہے ان کو يہ نہیں پتہ کہ ایک نام کے بہت سارے
لوگ ہوتے ہيں، اصل میں خنظلہؓ دو ہيں، ایک خنظلہ بن الربیعؓ جو کاتب وحی تھے اور
دوسرے خنظلہ بن مالکؓ ہیں جنکو فرشتوں نے غسل دیا تھا۔ دیکھیے۔
(مرقاة شرح مشکوة ج ۵ ص۰۶ الملا علی قاری حنفیؒ
، حاشیہ مشکوٰة ص ۷۹۱ ، الاصابہ لابن حجر
عسقلانیؒ ج ۱ ص ۹۵۳)
لٰہذا حضرت شیخ کے کلام میں کسی قسم کا کوئی تضاد نہیں ہے۔
(۴) اعتراض:۔
فضائل اعمال اور فضائل صدقات میں کچھ احادیث ضعیف بھی ہیں۔
جواب:۔
محدثین کا اصول ہے کہ ضعیف حدیث فضائل میں معتبر ہے۔
امام نووی شافعیؒ شارح مسلم فرماتے ہیں:
قال العلماء من المحدئین والفقهاء و غیر هم یحوز
ویسحت العمل فی الفضائل والترغیب و الترهیب بالحدیث الضعیف مالم یکن موضوعا (الاذکار ص7-8 طبع مصر) محدثین اور
فقہاءاور ان کے علاوہ علماءنے فرمايا ہے کہ ضعیف حدیث پر عمل کرنا فضائل اور ترغیب
اور ترہیب میں جائز اور مستحب ہے وہ حديث من گھڑت نہ ہو۔ اسی اصول کو مندرجہ ذیل
حضرات بھی لکھتے ہیں۔
ملا علی قاری حنفیؒ (موضوعات کبیر ص5 اور شرح
النقایہ ج 1 ص9)
امام حاکم ابو عبداللہ نیشاپوریؒ۔۔۔۔۔۔۔۔(مستدرک حاکم ج 1
ص490)
علامہ سخاویؒ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (القعل البدیع ص196)
حافظ ابن تیمیہ حنبلیؒ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (فتاویٰ ج1ص39)
غیر مقلد ین بنام اہلحدیث حضرات بھی اس اصول سے متفق ہیں
چنانچہ الکل میاں نذیر یہ حسین صاحب دہلویؒ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (
فتاویٰ نذیریہ ج1ص 265)
نواب صدیق حسن خان صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (دلےل الطالب علی المطالب ص
889)
(ان کا شمار غیر مقلدین کے اکابرین کے اکابر میں ہوتا ہےبحوالہ’ آپکے مسائل اور اُنکا حل قرآن و سنت کی روشنی میں ‘ تالیف
مبشر احمد ربانی ج2ص181)
مولانا ثناءاللہ امرتسریؒ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (اخبار الحدیث 15 شوال
1346ھ)
حافظ محمد لکھویؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (احوال الاخرص 6)
مولانا عبداللہ روپڑی صاحبؒ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (فتاویٰ اہلحدیث ج 2ص473)
حضرت شیخ رحمہ اﷲبھی اس اصول کو تحریر فرماتے ہيں
’ اخیر میں اس امر پر تنبيہ بھی ضروری ہے کہ حضرات محدیثن رضی
اللہ عنھم اجمعین کے نزديک فضائل کی روایات میں توسع ہے اور معمولی ضعف قابل تسامح
(ہے) باقی صوفیہ کرام رحہم اللہ کے واقعات تو تاریخی حیثیت رکھتے ہی ہیں اور ظاہر
ہے تاریخ کا درجہ حدیث کے درجہ سے کہيں کم ہے‘۔
(فضائل اعمال ص 384، رسالہ فضائل نماز باب
سوم، نحوہ کتب فضائل پر اشکالات اور انکے جواب نمبر 65، فضائل درود 65)
نوٹ
حضرت
شیخؒ نے اگر کوئی ضعیف حدیث نقل بھی کی ہے تو اس کے نقل کرنے کے بعد عربی میں ساتھ
ہی لکھ دیا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، حضرت شیخؒ نے تو بڑی حکمت اور بصیرت سے کام ليا
ہے اس لیے کہ کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف کہنایہ فن علماءکے متعلق ہے حضرت شیخؒ نے
(جس کا کام اسی کو ساجھے) پر عمل کرتے ہوئے اس کو عربی میں لکھا تاکہ عوام الناس
اس بحث میں دخل اندازی نہ کر سکے اور جو باتیں عوام کے متعلقہ تھیں ان کو حضرت
شیخؒ نے اردو میں لکھا تاکہ کسی کو سمجھنے میں دقت پیش نہ آئے اور یہ بھی ذہن نشین
رکھیں کہ حضرت شيخؒ کی مذکورہ بالا عبارت سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ حضرت شيخؒ
نے صرف نے معمولی ضعیف والی گنتی کی چند روايات نقل کی ہيں۔
(۵) اعتراض:۔
حدیث مندرجہ ذیل ہے۔ عن عمرقال رسول الله ﷺ لما اذنب ادم الذنب
الذی اذنبه رفع راسه الی السمآ فقال اسالک بحق محمد الاغفرت لی فاوحی اﷲ الیه من
محمد فقال تبارک اسمک لما خلقتنی رفعت راسی الی عرشک فاذا فیه مکتوب لا اله الا اﷲ
محمد رسول اﷲ فعلمت انه لیس احد اعظم عندک قدراً عمن ضعلت اسمه مع اسمک فاوحی اﷲ الیه
یا آدم انه اخرالنبیین من ذریتک ولولا هوما خلقتک۔
(اخرجہ الطبر انی فی الصغیر و الحاکم و ابو نعیم
و البیہقی کلاھما فی الدلائل وابن عسا کرفی الدروفی مجمع الزوائد کذافی فضائل
اعمال ص479)
حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے جب وہ
لغزش ہوگئی (جس کی وجہ سے جنت سے دُنیا میں بھیج دئیے گئے تو ہر وقت روتے تھے اور
دعا و استغفار کرتے رہتے تھے) ایک مرتبہ آسمان کی طرف منہ کيا اور عرض کیایا اللہ
محمد (ﷺ) کے وسیلہ سے تجھ سے مغرفت چاہتا ہوں وحی نازل ہوئی کہ محمدﷺ کون ہیں؟ (جن
کے واسطے سے تم نے استغفارکی) عرض کیا کہ جب آپ نے مجھے پیدا کیا تھا تو میں نے
عرش پر لکھا ہوا دیکھا تها لاَ اِله اِلاً اﷲ مُحَمًدُ رَسُولُ اﷲ تو میں سمجھ گیا تھا کہ محمدﷺ سے
اونچی ہستی کوئی نہیں ہے جس کا نام آپ نے اپنے نام کے ساتھ رکھا، وحی نازل ہوئی کہ
وہ خاتم النبیینﷺ ہیں تماری اولاد میں سے ہیں اگر وہ نہ ہوتے تو تم بھی پیدا نہ
کیے جاتے۔۔۔
اعتراض کی شقِ اول :
یہ روایت ضعیف بلکہ موضوع (من گھڑت) ہے۔
جواب:۔
یہ
روایت موضوع ہے اس کو تو ہم قطعاً تسلیم نہيں کرتے باقی رہا کہ یہ روایت ضعیف ایسا
نہیں کہ اس روایت کو فضائل میں بھی ذکر نہ کیا جائے جبکہ مندرجہ ذیل علماءکرام نے
اس حدیث کو قابل حجت قراردیا ہے۔
مندرجہ ذیل محدثین کرامؒ نے اس روایت کو صحیح لکھا ہے
٭ علامہ قسطلانیؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (المواھب اللدنیہ ج2 ص515)
٭امام بیہقی ؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (دلائل النبوة)
٭علامہ سبکیؒ ۔۔۔۔۔۔۔ (شفاءالسقام) (بحوالہ تحقیق مسئلہ تو سل
ص66)
اعتراض کی شق ثانی:
’ یہ حدیث قرآن کے خلاف ہے ‘ قرآن کريم سے ثابت ہے
کہ حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ کی طرف سے چند کلمات عطا کیے گئے جنکو انہوں نے
پڑھا تو اللہ نے ان کی توبہ کو قبول کرلیا (سورة البقرہ آیت نمبر 37) اور اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت
آدم ؑ نے حضورﷺ کا وسیلہ دیا پھر ان کی توبہ قبول ہوئی۔ لٰہذا یہ حدیث قرآن کے
خلاف ہے۔
جواب:۔
قرآن
کریم کو سمجھنے کیلئے ہم حضرت محمد ﷺ کے محتاج ہیں اور آپ ﷺ کا فرمان قرآن کے خلاف
نہيں ہو سکتا بلکہ قرآن کی تفسیر ہوتا ہے حضرت آدمؑ کو اللہ نے چند کلمات عطا کئے
اس کااعتراف معترض کو بھی ہے چند کلمات کا عطا ہونا یہ نعمت کسی عمل کے بدلہ میں
ملتی ہے سوال یہ ہے کہ یہ نعمت حضرت آدمؑ کو کسی عمل کے بدلے میں کوئی صراحت نہیں
البتہ اس حدیث میں اس عمل کی وضاحت ہے کہ حضرت آدم ؑ نے (رونے دھونے او ر توبہ
استغفار ) کے ساتھ ساتھ حضورﷺ کا وسیلہ بھی دیا تو پھر اللہ نے چند کلمات عطا کئے
جن کو انہوں نے پڑھا تو اللہ نے ان کی توبہ کو قبول کرلیا تو ثابت ہوا کہ یہ حدیث
قرآن کے خلاف نہيں بلکہ قرآن کی تفسیر ہے۔ اللہ کو فھم سلیم عطا فرمائے (آمین ثم
آمین)
(ملخص از تفسیر فتح العزیز ج ۱ ص 183، لشاہ عبدالعزیز
محدث دہلویؒ)
اس حدیث کو درج ذیل مفسرین کرامؒ نے مذکورہ آیت کی تفسیر میں
بیان کیا ہے
تفسیر درمنشور للسیوطی
تفسیر حقی
تفسیر
ثعالبی لابی زید عبدالرحمٰن بن محمد مخلوفؒ
تنبیہ:۔ اصل میں اس حدیث پر اعتراض وسیلہ کی
وجہ سے کیاگیا ہے۔ لٰہذامختصراً وسیلہ کی حقیقت بھی درج کی جاتی ہے۔
وسیلہ باالزات کا حکم
اور اسکی کی حقیقت!
حضرات
انبیاؑ اور اولیاءعظام اور صلحاءکرام کے وسیلہ سے اﷲ سے دعا مانگنا شرعاً جائز،
بلکہ قبولیتِ دعاکا ذریعہ ہونے کی وجہ سے مستحسن اورافضل ہے۔ قرآن کے اشارات،
احادیثِ مبارکہ کی تصریحات اور جمہور اہلسنت و الجمات خصوصاً اکابرین علماءدیوبند
کی عبارات سے اس قسم کا توسل کو موثر حقیقی بھی نہ سمجھا جائے کہ اس کے بغیر دعا
قبول ہی نہيں ہوتی۔ باقی توسل کا یہ مطلب بھی نہیں کہ انبیاءعلیھم السلام اور
اولیاءکرامؒ سے اپنی حاجتیں جائیں مانگی جائیں اور ان سے اسغفاثہ اور فرباد کی
جائے جیسا کہ بعض جاہل لوگوں کا طریقہ ہے کیونکہ یہ واقعی شرک ہے اور اس سے احتراز
ضروری ہے۔
وسیلہ باالزات کی حقیقت از حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ
توسل کی حقیقت یہ ہے کہ اے اﷲفلاں سخص میرے نزدیکا آپ کا مقبول
ہے اور مقبولین سے محبت رکھنے پر آپ کا وعدہ محبت ہے المرءمع من احب پس میں آپ سے
اس رحمت کو منگتا ہوں۔ پس توسل میں شخص اپنی محبت کو اولیاءاﷲ کے ساتھ ظاہر کرکے
اس محبت اولیاءاﷲ کا موجب رحمت اور ثواب ہونا نصوص سے ثابت ہے۔
(انفاس عیسیٰ بحوالہ تحقیق مسئلہ توسل ص7)
نيز فرماتے ہیں۔ والثالث دعاءاﷲ ببر کة هذضا المخلوق المقبول
وهذا قد جوزه الجمهور۔۔۔۔ الخ اور توسل کی تیسری صورت یہ ہے کہ کسی مقبول مخلوق کی
برکت کے ساتھ اﷲ سے منگے اور اسے جمہور علماءکرام نے جائز قراردیا ہے۔۔۔ (بوادر
النوادر ص۱۶۷)
جو شخصیت دنیا میں موجود نہیں اسکا وسیلہ دینا جائز ہونے کی دلیل
قرآن کریم سے
وَلَمًا جَاء هم کِتَابً مَن عِندِ اﷲ مُصَدِقً لِمَا مَعَهم
وَکَانُوا مِن قَبلُ یَستَفتحُونَ عَلٰی الَذِينَ کَفَرُوا۔۔۔۔۔ ترجمہ: اور جب پہنچی ان کے پاس
کتاب اﷲ کی طرف سے، جو سچابتاتی ہے اُس کے پاس ہے اور پہلے سے فتح مانگتے تھے
کافروں پر۔۔ (پارہ نمبر ۱ سورة البقرہ آیت 89)
حضرت علامہ سید محمود آلوسیؒ مفتی بغداد لکھتے ہیں:۔
نزلت فی قریظة والنصیر کانوا یستفتحون علی الاوس
والخزرج برسول اﷲﷺ قبل ابن عباسؓ وقتادہؒ ۔ الخ۔ ترجمہ:
یہ آیت کریمہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کے بارے میں نازل ہوئی ہے وہ اوس اور خزرج کے
خلاف آنحضرتﷺ کی بعثت سے پہلے آپﷺ کے وسیلہ سے فتح طلب کےا کرتے تھے جیسا کہ حضرت
ابن عباسؓ اور قتادہؒ فرماتے ہیں۔۔(تفسیر روح المانی ج1 ص203)
علامہ محلیؒ اس آیت کی تفسیر مین لکھتے ہیں:۔
آپﷺ کی بعثت سے پہلے یہود کافروں کے خلاف اﷲ سے مدد مانگتے تھے
اور یہ کہتے تھے یقولون اللهم انصرنا علیهم با البنی المبعوث اخرالزمان ۔ ترجمہ: اے اﷲ ہماری مدد کر دشمن کے
خلاف آخری نبی ﷺ کے واسطے سے۔۔۔۔۔۔۔ (تفسیر جلالین ص12)
يہی تفسیر مندرجہ ذیل کُتب میں بھی مذکور ہے
٭تفسیر کبیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ج 3 ص 180
٭تفسیر ابن جریرطبری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ج۱ ص455
٭تفسیر بغوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ج ۱ ص 58
٭تفسیر قرطبی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ج 2 ص 27
٭تفسیر البحراالمحیط ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ج ۱ ص 303
٭تفسیر ابن کثیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ج۱ ص 124
٭تفسیر ابی السعود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ج۱ ص 128
٭تفسیرمظہری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ج ۱ ص 94
٭تفسیر روح المانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ج ۱ ص 319
٭تفسیرابن عباسؓ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ص 13
٭تفسیر خازن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ج۱ ص 64
٭تفسیر مدارک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ج ۱ ص 32
٭تفسیر منثور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ج ۱ ص 88
٭تفسیر تبصیر الرحمٰن عربی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ج ۱ ص 52
٭تفسیرعزیزی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ص 329
٭تفسیر صفوة التفاسیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ج ۱ ص77
٭تفسیر موضح القرآن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ص 15
٭تفسیر معارف القرآن از مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلویؒ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ج ۱ ص177
٭تفسیر جواہر القرآن اذ مولانا غلام اللہ خان صاحبؒ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ص 49
٭بدائع الفوائد لابن قیم حنبلیؒ ۔۔۔۔۔۔۔ ج 4 ص 145
٭ المنحتہ الوھبیتہ لعلامہ داود بن سلیمان البغدادی الحقی ص 31
تنبیہ :۔ اصول فقہ میں یہ لکھا ہے کہ اللہ اور
جناب رسول کریمﷺ اگر پہلے لوگوں کی شریعتوں کو بلا انکار کے بیان کریں تو وہ ہم پر
بھی لازم ہیں۔۔ (نورالا نوار ص216)
(اس ضابطہ کو مولف تسکین القلوب نے ص 76 میں اور مولف ندائے حق نے ص 101 پر تسلیم کیا ہے)
تنبیہ :۔ حضورﷺ دنیا میں موجود نہیں تھے یہود
نے آپکا وسیلہ دیا جس کو اللہ نے بلا نکیر ذکر کیا اور رسول کریم ﷺ سے بھی اس
وسیلہ کا کہیں رد منقول نہیں ہیں لٰہذا اس آیت کی رو سے آپ ﷺ کا وسیلہ دینا اب بھی
جائز ہے۔
حضرت عثمان بن حنیفؓ سے وسیلہ کا جواز
ان رجلا کان یختلف الیٰ عثمان بن عفانؓ فی حاجة له فکان عثمانؓ لایلتف الیه ولا ینظر
فی حاجة فلقی ابن حنیف فشکی ذلک الیه فقال له عثمانؓ بن حنیف ايت المیضاة
فتوضاء ثم ایت المسجد فصل فیه رکعتين ثم قل اللهم انی اسلک واتوجه الیک بنبینا
محمدﷺ نبی الرحمة ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (معجم صغیر و شفاء
السقام ص124و125، وفاءالوفاء ج 2 ص420و421)
ترجمہ: ایک شخص حضرت عثمانؓ بن عفان کے پاس
ایک ضروری کام کے سلسلہ میں آیا جایا کرتا تھا اور حضرت عثمانؓ (غالباً بوجہ
مصروفیت ) نہ تو اس کی طرف توجہ فرماتے اور نہ اسکی حاجت براری کرتے وہ شحص عثمانؓ
بن حنیف سے ملا اور اس کی شکایت کی تو انہوں نے فرمایا کہ وضو کرو پھر مسجد مین جا
کر دو رکعت پڑھو پھر کہو اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور حضرت محمد ﷺ کے
وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں جو نبی الرحمة ہیں۔ اسی روایت کے آخر میں اس کی
تصریح ہے کہ اس شخص نے ایسا ہی کیا اور دعاءکی برکت سے حضرت عثمانؓ بن عفان نے اس
کی تعظیم و تکریم بھی کی اور اس کا کام بھی پورا کردیا۔
٭ امام طبرانیؒ فرماتے ہیں والحدیث صحیح کہ یہ حدیث صحیح
ہے۔۔۔۔۔۔ (معجم صغیر ص 104)
٭ علامہ منذری ؒ بھی انکی تائید کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔( التر غیب
والترھیب ج۱ ص242)
٭ علامہ ابن حجر مکیؒ فرماتے ہیں رواہ الطبرانی بسند جید
(حاشیہ ابن حجر مکیؒ علی الا یضاح فی مناسک الحج للنووی ص500 طبع مصر)
حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ اس روایت کہ نقل کرنے کے بعد لکھتے
ہیں
اس سے تو سل بعد الوفات بھی ثابت ہوا اور علاوہ ثبوت بالروایہ
کے درایہً بھی ثابت ہے کیونکہ روایت اول کے ذیل میں جو توسل کا حاصل بیان کیا گیا
ہے وہ دونوں حالتوںمیں مشترک ہے۔ ( نشر الطيب ص 1253) (اسی طرح کا مفہوم شفاءالسقام للسکبی
ص125 میں اور وفاءالوفاءللسمہودیؒ ج 2 ص420 میں بھی ہے)
مندرجہ ذیل علماءکرام بھی اس وسیلہ کو جائز قراردیتے ہیں
٭ علامہ سید سمہودیؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وفاءالوفاء ج2 ص422
٭ علامہ تاج الدین سبکی شافعیؒ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شفاءالسقام ص120
٭ علامہ آلوسی حنفیؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روح المعانی ج 6 ص128
٭ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حجة اللہ البالغہ
٭ شاہ محمد اسحق محدث دہلوی ؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مائة مسائل ص35
٭ شاہ محمد اسماعیل شہیدؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تقونتہ الایمان
ص95
٭ مولانا عبدالحی لکھنویؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجموعہ فتاویٰ ج3 ص23
٭ مولانا حسین علی صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلغتہ الحیران ص354
٭ مفتی عزیز الرحمٰنؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فتاویٰ دارالعلوم
ج5
ص441و424و423و431
٭ مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فتاویٰ رشیدیہ
ج1
ص78
٭ مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معارف القرآن ج
1ص44و42
٭ اکابر علمائے دیوبندؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ المھند علی المفند
تنبیہ:
جس طرح آنحضرت ﷺ کا توسل دینا جائز ہے چنانچہ امام ابو عبداللہ
محمد بن محمد العبدری الفاسی المالکی الشھیر بابن الحاج المتوفیؒ ۷۳۷ھ۔۔۔۔۔۔۔۔ (مدخل ج1ص255 طبع مصر)
٭ اور علامہ ابن حجر مکیؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (حاشیہ ابن حجر مکی
علی الایضاح فی مناسک الحج للنووی ص500 طبع مصر)
٭ علامہ آلوسیؒ (روح المانی ج6 ص128) میں اسکی صراحت فرماتے ہیں۔
حضرت تھانویؒ وسیلہ پر ایک اعتراض کا جواب دیتے ہیں
اس حدیث سے غیر نبی کے ساتھ بھی توسل جائز نکلا، جبکہ اس کو
نبی ﷺ سے کوئی تعلق ہو قرابتِ حسیہ کا، یا قرابتِ معنویہ کا، تو توسل بالنبیﷺ کی
ایک صورت يہ بھی نکلی اور اہل فہپ نے کہا ہے اس پر متنبہ کرنے کیلئے سیدنا عمرؓ نے
حضرت عباسؓ سے توسل کیا ہے نہ اس لیے کہ پغیمبرﷺ سے وفات کے بعد توسل جائز نہ تھا
جبکہ دوسری روایت سے اس کا جواز ثابت ہے اور چونکہ اس توسل پر کسی صحابیؓ سے نکیر
منقول نہیں اس لیے اس میں ” اجماع“ کے معنی آگئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (نشر الطیب ص302، 303)
مندرجہ ذیل علماءکرام بھی یہی فرماتے ہے:۔
٭ محدث کبیر علامہ ظفر احمد عثمانیؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (امداد
الا حکام ج1ص41)
٭ مولانا مفتی محمود حسن گنگوہیؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( فتاویٰ
محمودیہ ج 5 ص136، 137)
٭ مولانا خیر محمد جالندھریؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(خیر الفتاویٰ
ج1ص198)
امام المناظرین حضرت مولانا محمد امین اوکاڑویؒ کا ایک واقعہ
میں جن دنوں عمرے پر گیا تو وہاں دعا مانگ رہا تھا۔ ” اللهم انی اسئلک
بمحمد نبیک و رسولک و حبیبک“ کہ اے اللہ ! اپنے نبیﷺ کے وسیلے سے میری دعا قبول فرما، تو
ایك سپاہی وہاں کھڑا تھا (شرطہ) تو وہ مجھے کہنے لگا شرک۔۔۔۔۔۔۔شرک، میں نے کہا کہ
لیس
بشرک۔۔۔۔۔
توسل یہ شرک نہیں ہے بلکہ وسیلہ ہے۔۔ اس نے جواب میں کہا توسل باالا عمال لا
بالذات
توسل عملوں کے ساتھ ہوتا ہے کسی ذات کے ساتھ نہیں۔۔۔۔۔ یعنی کوئی نیک عمل کر کے
دعا مانگے کہ یا اللہ اس نیک عمل کی برکت سے میری دعا قبول فرما لا باالذات یعنی ذات سے نہیں کہ یا اللہ اس ولی
کی برکت سے میری دعا قبول فرما۔۔۔۔۔۔ ساتھ ہی وہ کہنے لگا الاعمال محبوب لا ذات
اعمال اللہ کو پیارے ہیں ذات اللہ کو پیاری نہیں میں نے جواب میں کہا یُحِبُهم وَ
یُحِبُونَه، (الایة) ذَوَات لاَ اَعمَال کہ اللہ تو یوں فرماتا ہے کہ یہ مجھ
سے محبت کرتے ہیں اور میں اُن سے محبت کرتا ہوں اس آیت میں تو دونوں طرف ذات ہے۔
تو اس نے جواب میں کہا کہ ذات پیاری نہیں ہوتی۔ اچھا ان لوگوں میں یہ ہے کہ وہ
قرآن سن کر خاموش ہوجاتے ہیں، چلاگیا، خاموش ہوگیا پھر جب جارہا تھا میں نے آوازدی
میں نے پوچھا باًی عمل اتوسًل بھائی میں کون سا عمل کرکے وسیلہ کروں؟ تو اس نے جواب دیا صل رکعتین ثم توسًل پہلے دو رکعت نفل پڑھو پھر دعا مانگو
اور توسل کرو۔ کہ یا اللہ ان دو رکعتوں کے وسیلہ سے میری دعا قبول فرما تو میں نے
جواب میں کہا تیری اور میری دورکعتیں تو ہوں اللہ کو پیاری اور اللہ کے نبی ﷺ اللہ
کو پیارے نہیں، عجیب بات ہے، پھر وہ چلا گیا۔ (ملخص یادگار خطبات)
(۶) اعتراض:۔
فضائل
اعمال کے ص 96 پر حضرت شیخ ؒ نے ایک ایسا واقعہ نقل کیا ہے جس سے آل رسولﷺ
کی تنقیص لازم آتی ہے۔ وہ ایسے کہ حضرت علیؓ کا جننتی ہونا یقینی اور قطعی ہے اور
عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ جب حجاج بن یوسف نے سعید بن جبیر ؒ سے پوچھا کہ حضرت علی ؓ
جنت میں ہیں یا جہنم میں، تو اس پر سعید بن جبیر ؒ نے فرمایا کہ اگر میں جنت میں
جا کر دیکھ لوں اور جہنم میں جا کر دیکھ لوں تو پھر بتا سکتا ہوں۔ لٰہذا جس کا
جنتی ہونا یقینی ہے اس کے بارے میں کیے گئے سوال پر ان مذکورہ الفاظ سے جواب دینے
سے آل رسولﷺ کی تنقیص لازم آتی ہے۔
جواب:۔
حضرت
سعید بن جبیرؒ حالت اضطراری میں تھے، حجاج بن یوسف چاہ رہا تھا کہ کسی طریقے سے
میں ان کو پھنساؤں اور جلاد کو حکم دوں کہ وہ ان کو قتل کردے۔ حجاج بن یوسف چونکہ
حضرت علی ؓ سے بغض رکھتا تھا لہٰذا اس نے سعید بن جبیرؒ سے ایسا سوال کیا جس سے وہ
پھنسیں۔ تاکہ مجھے موقع مل جائے ان کو قتل کروانے کا۔ اسی وجہ سے سعید بن جبیرؒ
بڑے احسن طریقے سے سوالات کے جوابات دے رہے تھے۔ سعید بن جبیرؒ نے جواب میں نہ کفر
اختیار کیا۔ بلکہ صرف جواب کا انداز بدلا۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ ؑ سے جب فرعون نے
پوچھا مَا بَالُ القُرُونِ الُا ولٰی کہ پہلی نا فرمان قوموں کا کیا انجام
ہوا۔ اسکا صاف جواب تو تھا کہ وہ جہنم میں ہیں لیکن حضرت موسیٰ ؑ چونکہ حالات
اضطراری میں تھے لٰہذا انہوں نے صرف جواب کا انداز بدلا ، تاکہ فرعون کو کسی قسم
کا موقع نہ ملے بات کو طول دینے کا اور نہ ہی ان کو قتل کرنے کا ۔ تو حضرت موسیٰ ؑ
نے جواب میں فرمایا!
عِلمُها عِندَ رَبِی کہ اسکا علم میرے رب کے پاس ہے۔
بالکل اسی طرح سعید بن جبیرؒ نے بھی صرف جواب کا انداز بدلا ہے۔ لٰہذا اس سے آل
رسولﷺ کی کسی قسم کی کوئی تنقیص لازم نہیں آتی۔
حالت اضطراری میں تو کلمہ کفر کہنا بھی جائز ہو جاتا ہے
حضرت عمار بن یاسرؓ کو ایک دن مشرکین عرب نے اس قدر پانی میں
غوطے دئیے کہ بلکل بدحواس ہو گئے اور مشرکین عرب نے جو کچھ چاہا ان سے اقرار کرا
لیا۔حضرت عمار کی جب ان سے جان چھوٹ گئی تو دربار ِ نبوت میں حاضر ہوئے تو آنکھوں
سے آنسو جاری تھے۔ آنحضرت ﷺ نے پوچھا، عمار کیا خبر ہے؟ عرض کیا! یا رسول اللہ ﷺ
نہایت ہی بری خبر ہے آج میری جان اس وقت تک نہ چھوٹی جب تک کہ میں نے آپ ﷺ کی شان
میں بُرے الفاظ اور ان کے معبود ین باطلہ کے حق میں اچھے الفاظ استعمال نہ کیے۔
آپ ﷺ نے فرمایا اے عمارؓ دل کی کیا کیفیت تھی، عرض کی دل ایمان
پر مطمئن ہے۔ سرورِ کائنات ﷺ نے نہایت سفقت کے ساتھ حضرت عمارؓ کی آنکھوں سے آنسوﺅں کے قطرے پونچھے۔فرمایا کچھ مضائقہ
نہیں ۔ اگر پھر بھی ایسا ہی کریں تو تم بھی ایسا ہی کرلینا۔ اس کے بعد قرآن کریم
کی یہ آیت نازل ہوئی جس کا ترجمہ ہے۔” جو شخص ایمان لانے کے بعد خدا کا انکار کرے مگر وہ جو
مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان سے مطمئن ہے“۔ (یعنی اس سے کوئی
مواخذہ نہیں ) سورہ النحل آیت ۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ماخوذاز طبقات ابن سعدؒ)
(۷) اعتراض:۔
حضرت
شیخؒ نے بعض صحابہؓ کی طرف نبی پاک ﷺ کے خون پینے کی نسبت کی ہے حالانکہ خون ناپاک
ہے؟
جواب:۔
حضرت
شیخؒ نے (فضائل اعمال ص 188) پر حضرت عبداللہ بن زبیرؓ اور حضرت
مالک بن سنانؓ کا واقعہ نقل کیا ہے جس میں ان حضرات کا حضورﷺ کے خون مبارک کو پینے
کا ذکر ہے۔
پہلی بات:۔
پہلی
بات تو اس جگہ پر قابل تحقیق یہ ہے کہ آیا یہ واقعات مستند بھی ہیں یا نہیں؟
جواب:۔
تو اسکا جواب یہ ہے کہ یہ واقعات مستند ہیں اور معتبر کتب کے اندر موجود
ہیں۔
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کا آنحضرت ﷺ کے
خون پینے کا واقعہ مندرجہ ذیل کتب میں ہے
مستدرک حاکم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ج 3 ص 553)
سنن الکبریٰ للبیہقی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ج7 ص67)
سیرا علام النبلاءللذھبی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ج 3 ص366)
مجمع الزوائد بروایت طبرانی وبزار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ج 8 ص 270)
کنزالعمال بروایت ابن عساکر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ( ج13 ص 469)
الخصائص الکبریٰ للسیوطیؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( ج 2 ص 252)
الا صابہ بروایت ابی یعلی والبیھقی فی الدلائل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ج
2 ص 310)
حلیتہ الاولیاء۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ج 1ص 330)
حافظ نور الدین الہیثمیؒ اس واقعہ کو حضورﷺ کی خصوصیات کے باب
میں نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔ یہ طبرانی ؒ اور بزار کی روایت ہے اور مسند بزار
کے تمام راوی صحیح کے راوی ہیں۔ سوائے ھنید بن القاسمؒ کے اور یہ بھی ثقہ ہے( مجمع
الزوائد ج8 ص 270)
امام بیقہیؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کا حضور ﷺ کے
خون کو پینا، یہ واقعہ حضرت اسماءبنت ابی بکر ؓ اور حضرت سلمان فارسی ؓ سے بھی
متعد سندوں سے مروی ہے۔ (سنن الکبریٰ اللبیہقی ج7 ص 67)
حافظ شمس الدین ذھبی ؒ فرماتے ہیں۔ اس روایت کو امام ابو یعلیؒ
نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے اور لکھا ہے میں نہیں جانتا ھنیدؒ راوی پر کسی کی
جرح کو ( سیر اعلام النبلاء ج 2 ص366)
علامہ علی متقی حنفیؒ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں
رجالت ثقات اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ ( کنز العمال ج13 ص469)
حضرت مالک بن سنانؓ کا آنحضرت ﷺ کے
خون پینے کا واقعہ مندرجہ ذیل کتب میں ہے
حافظ ابن حجر عسقلانی الشفعیؒ نے یہ واقعہ ابن ابی عاصم، بغوی،
صحیح ابن السکن اور سنن سعید بن منصور کے حوالے سے بھی نقل کیا ہے۔۔۔۔۔۔ (الا صابہ
ج 3
ص325
طبع مصر)
یہی واقعہ کتاب” مختصر سیرت رسولﷺ مﺅلفہ ابن عبدالوہاب نجدی ص402“ پر بھی موجود ہے۔
اس کتاب کا ناشر غیر مقلدین کا مشہور مدرسہ جامعتہ العلوم
الاثریہ جہلم ہے۔
خلاصہ کلام:۔
دونو ں واقعات مستند ہیں اور اکابر علماءکرام نے ان کو روایت
کیا ہے۔ لٰہذا بغیر دلیل کے ہم ان واقعات کا انکار نہیں کر سکتے۔
فائدہ:۔
مشہور مفسر علامہ قرطبیؒ لکھتے ”دم مسفوح والی آیت حجتہ الوادع
کے دن عرفہ میں نازل ہوئی“ (تفسیر قرطبی ج 2 ص216)
حافظ ابن عبدالبر مالکیؒ لکھتے ہیں۔
مالک بن سنان ؓ غزوہ احد میں شہید ہوئے تھے۔ (الاستعاب مع
الاصابہ ج3 ص 350)
دیکھئے احد میں شہید ہونے والے وہ بھی تھے جنہون نے شراب پی تھی کیونکہ ابھی شراب
کی حرمت نازل نہیں ہوئی تھی۔ بلکل اسی طرح دم مسفوح کی حرمت کا مسئلہ ہے۔ لٰہذا
اعتراض کرنے والے کے ذمہ ہے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ دم مسفوح کی حرمت کے نازل ہونے
کے بعد ان حضرتؓ نے خون پیا تھا۔
دوسری بات:۔
جمہورعلماءکرام کے نزدیک حضورﷺ کے فضلات پاک ہیں۔ لٰہذا کوئی
اشکال نہیں۔
(۸) اعتراض:۔
حضرت
شیخؒ نے فضائل اعمال میں لکھا ہے کہ حضورﷺکا بول و براز پاک ہے۔
جواب:۔
جمہور
علماءاس بات کے قائل ہیں کہ آپ ﷺ کے فضلات پاک ہیں۔
مفتی ہند مفتی محمد کفایت اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں
شوافعؒ میں بعض علماءمحققینؒ نے آنحضرت ﷺ کے بول و براز کی
طہارت کا حکم کیا ہے اور علماءحنفیہؒ نے اس کو نقل کرکے اس کے ساتھ اپنی موافقت
بیان کی ہے۔ اور بعض صحابہؓ اور صحابیاتؓ کے اس واقعہ سے کہ انہون نے حضورﷺ کا
پیشاب نادانستگی میں پی لیاتھا مگر حضورﷺ نے خبر پا کر ان کہ دعا دی اور انکار
نہیں فرمایا، طہارت پر استدلال کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( کفایت المفتی ج1 ص19)
ام ایمنؓ کا واقعہ درج ذیل کتب میں موجود ہے
مسند للحسن بن سفیان ، مسند ابی یعلیٰ، مستدرک حاکم، دار قطعی،
تاریخ ابی نعیم اصفحانی بحوالہ خصائص کبریٰ للسیوطیؒ ص112، الا صابہ لابن حجر
عسقلانی ص360 ج1، الاستعاب لابن عبدالبرمالکیؒ ص491 ج4، الشفاءللقاضی عیاض ص88۸۸، عمدة القاری للعلامتہ بدر الدین
عینی ص92
ج 4۔
مندرجہ ذیل علماءکرام حضورﷺ کے فضلات کو پاک لکھتے ہیں
حافظ ابن حجر عسقلانی شافعیؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( فتح
الباری ج1 ص272)
علامہ بدر الدین عینی حنفیؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (عمدة
القاری ج 1ص 35)
امام نووی شافعیؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( شرح مہذہب ج1ص234)
ملا علی قاری حنفیؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( جمع
الوسائل شروح الشمائل ج 2 ص2)
حافظ سیوطی شافعیؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (خصائص
الکبریٰ ج1ص71)
علامہ شامیؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( فتاویٰ شامی ج1ص318)
صاحب نہایت المحتاج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ج 1 ص242 فقہ شافعی کی مشہور کتاب)
مفتی المحتاج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( ج۱ ص79 فقہ شافعی کی مشہور کتاب )
شیخ محمد الحق محدث دہلویؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (مدارج
النبوت ج1ص 43)
مندرجہ ذیل علماءدیوبند بھی اس کے قائل ہیں
حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (نشر الطیب
ص135)
مفتی عزیز الرحمن صاحبؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (فتاویٰ
دارالعلوم دیوبند ج۱ ص85، 211)
شیخ الحدیث مولانا زکریاؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( فضائل
اعمال ص 188)
حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (معارف
السنن ج1ص98)
حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (آپکے
مسائل اور انکاحل ج9ص133)
ایک لطیف بحث:۔
وحید صاحب نے کہا کہ حضرت شیخ الحدیثؒ
نے تو تحریر کیا ہے کہ حضورﷺ کے فضلات پیشاب، پاخانہ وغیرہ سب پاک ہیں۔ میں نے کہا
فضلہ کا معنی بچاٰ ہوا پھوک ہے معدہ کھانے کو پکاتا ہے اس میں اصل قوت جگر کھینچ
لیتا ہےاور پھوک پاخانہ بن کر نکل جاتا ہے يہ معدے کا فضلہ ہے پھر جگر خون تیار
کرکے دل کو دیتا ہے اور جو پھوک رہ جاتا ہے وہ پیشاب بن کر خارج ہو جاتا ہے یہ جگر
کا فضلہ ہے۔ پھر وہ خون ایک ایک رگ کو سٹیم مہیا کرتا ہے اس خون سے جو فضلہ بچتا
ہے وہ مسامات میں پسینے کی شکل میں خارج ہو جاتا ہے۔ پھر جو خون جزو بدن اور گوشت
بن گیا اس کا پھوک میل کچیل کی شکل میں مسامات کے ذریعہ نکلتا ہے لیکن یہ تو
صراحتہ ثابت ہے کہ عوام کے میل کچیل پر مکھی بیٹھی ہے مگر آنحضرتﷺ کے جسد اطہر پر
مکھی نہیں بیتھی تھی اور یہ بھی متفق عیلہ حقیقت ہے کہ عوام کا پسینہ بد بودار
ہوتا ہے مگر آنحضرت ﷺ کا پسینہ مبارک دنیا کی اعلیٰ ترین خوشبوﺅں کو شرماتا تھا۔ آپﷺ کی نیند مبارک
کو بھی نیند ہی کہا جاتا تھامگر وہ نیند ہماری ہزار بیداریوں سے اعلیٰ وارفع تھی۔
آپ ﷺ کا خواب بھی وحی ہوتا تھا، آپﷺ کی نیند مبارک سے وضو نہیں ٹوٹتا تھا جیسے آپﷺ
کا پسینہ مبارک کو عام انسانوں جیسا سمجھا جائے وہ آپ ﷺ کیلئے پسینہ ہی تھا مگر
عشاق کیلئے بہترین خوشبو۔ بادام روغن نکالنے کے بعد جو بادام کا فضلہ بچتاہے وہ
بادام کا فضلہ ہی ہے مگر بنولہ کہے کہ میرے فضلہ جیسا ہے تو کوئی عقل مند اس کو
تسلیم نہیں کرے گا۔ آنحضرتﷺ بے شک انسان تھے لیکن آپ ﷺ کو جن خصائص سے اللہ نے
نوازا تھا ان خصائص کا انکار کیوں کیا جائے؟ ےاقوت بھی پتھر ہے،حجرا سود جنت سے
آیا ہوا ہے۔ حضرت انبیاءعلیہم السلام کے اجسام مطہرہ مقدسہ میں اللہ نے جنت کے
خوائص رکھ دئیے ہیں اسی لیے ان اجسام مطہرہ کو مٹی پر حرام کردیا گیاہے (کہ ان کو
کھائے)، ان اجسام مطہرہ کا پسینہ مثل جنت کے پسینہ کے خشبودار بنا دیا گیا۔ اسی
طرح دوسرے فضلات بھی اگر خصوصیت طہارت رکھتے ہوں تو اس میں کیا اشکال ہے ۔۔۔۔۔۔
(ماخوذاز تجلیاتِ صفدر ج1 ص481)
(۹) اعتراض:۔
فضائل
اعمال ( ص 267) پر اس آیت ولقد يسرنا القرآن للذ کر فهل من مد کر۔۔ کے ترجمہ میں تحریف کی گئی ہے۔
جواب:۔
اس
آیت کے معنیٰ میں مفسرین کرامؒ کے دوقول ہیں اور دونوں قول اپنی جگہ درست ہیں۔
پہلا قول: ہم نے قرآن کو حفظ
کیلئے آسان کردیا ہے۔
دوسرا قول:
ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کیلئے آسان کردیا ہے۔
مندرجہ ذیل مفسرین کرامؒ نے دونوں مذکورہ قول نقل کیے ہیں
تفسیر جلالین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ص441
تفسیر کشاف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ج4ص435
تفسیر ابن کثیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ج4 ص264
تفسیر البحر المحیط ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ج 8 ص 178
تفسیر روح المعانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ج 7ص84
تفسیر مظہری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ج 7 ص138
مندرجہ ذیل مفسرین کرام ؒ نے صرف ایک قول نقل کیا ہے
٭ زادالمسیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ج 8 ص94
٭ تفسیر قرطبی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ج 17 ص134
حضرت شیخ ؒ نے جس مفہوم کو ذکر کیا ہے
وہ مندرجہ ذیل مفسرین کرامؒ سے منقول ہے
حضرت عبداللہ ابن عباسؓ
امام مجاہدؒ
امام ضحاکؒ
امام سدیؒ
امام ابن شوذبؒ
امام مطر الوارقؒ
حضرت قتادہؒ
دیکھیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( تفسیر ابن کثیر ج4 ص 264) اور يہ ہی مفہوم حضرت سعید ابن جبیر ؓ
سے بھی منقول ہے۔
( زادا لمسیر ج8 ص94۔ 95، تفسیر قرطبی ج 17 ص134، تفسیر المحیط ج8 ص178)
لہٰذا اعتراض کرنے والوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کو تحریف نہیں
کہتے۔
اعتراض:۔
فضائل
اعمال اور فضائل صدقات میں کچھ واقعات ایسے ہیں جو ناممکنات میں سے ہیں اور ان سے
شرک و بدعات کا دروازہ کھلتا ہے؟
جواب:۔
جس
کام کو عام انسان ناممکن سمجھتا ہے اگر وہ کام کسی نبی علیہ السلام کے ہاتھ پر
ظاہر ہو تو اسکو معجزہ کہتے ہیں۔ مثلاً
صالح علیہ السلام کی اونٹنی کا پتھر سے پیدا
ہونا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لاٹھی کا اژدھا بننااور
ہاتھ مبارک کا روشن ہوتا اور ان کیلئے اور ان کی قوم کیلئے دریا میں راستوں کا
باننا۔
اسی طرح حضرت ابراہیم ؑ کیلئے آگ کا گل
گلزارہونا۔
حضرت عیسیٰ ؑ کے ہاتھ پر مردوں کا زندہ ہونااور
مریضوں کا تندرست ہونا وغیرہ۔
حضورﷺ کے ہاتھ مبارک پر چاند کا دو ٹکڑے ہونا۔
یہ سب چیزیں معجزات میں سے ہیں۔ اسکے علاوہ آپ ﷺ کے سینکڑوں
ہیں جن کا ذکر کتب حدیث میں موجود ہے اور ہمارے مولانا سعید سبحان الہندؒ نے
معجزات رسولﷺ میں بھی سینکڑوں معجزات ذکر کیے ہیں۔ اگر ایسا کام جس کو انسان
ناممکن سمجھتا ہے کسی ولی لے ہاتھ پر ظاہر ہو تو اس کو کرامت کہتے ہیں ۔ مثلاً
حضرت مریم ؑ کیلئے بند حجرہ میں بے موسمی پھلوں کا مہیا ہونا
وغیرہ اسی طرح اصحاب کہف کا۹۰۳ سال غار میں سونا۔ اس کے علاوہ کتب
حدیث و تاریخ میں سیکڑوں کرامات اولیاءموجود ہیں جن لا احاطہ اس مقام پر دشوار ہے۔
اعتراض کرنے والے جن واقعات کو ناممکن اور شرک وبدعات کا سبب سمجھتے ہیں وہ اسی
قبیل سے ہیں یا تو معجزات ہیں یا کرامات ہیں، اعتراض کرنے والوں سے ہماری گذارش ہے
کہ وہ ان واقعات کو جب پڑھیں تو مسلمانوں والے ذہن سے پڑھیں، عیسائیوں والے ذہن سے
نہ پڑھیں۔ اس لیے کہ جب عیسائی حضرت عیسیٰ ؑ کے واقعات کو پڑھتے ہیں تو وہ یہ
سمجھتے ہیں کہ اس حضرت عیسیٰ ؑ کا کمال ہے اور یہ کام حضرت عیسیٰ ؑ کی وجہ سے ہو
رہے ہیں۔ لیکن جب مسلمان ان واقعات کو پڑھتے ہیں تو وہ اس ذہن سے پڑھتے ہیں کہ ےہ
سب کام اللہ کی طرف سے ہورہے ہیں اور اس میں درحقیقت اللہ ہی قدرت کار فرماہے۔
لہٰذا ہماری گذارش ہے کہ جو بھی ان واقعات کو پڑھے تو وہ مسلمانوں والے ذہن سے
پڑھے۔ انشاءاللہ اسکو ان واقعات میں توحید نظر آئیگی ۔ اگر عیسائیوں والے ذہن سے
پڑھے گا تو لامحالہ اسکو ان واقعات میں شرک ہی نظر آئیگا۔
عقلی دلیل:۔
فرض
کریں کہ ایسے واقعات شرک و بدعات کا سبب ہیں، اس مطلب تو یہ ہوا کہ جو اس کتاب کو
زیادہ پڑھے گا وہ بڑا مشرک ہوگا حالانکہ ہمیں کوئی اللہ کا بندہ جس نے تبلیغ میں
سال ےا تین چلے لگائے ہوں نظر نہیں آیا جو شرک کرتا ہو۔
اعتراض کرنے والوں کو اگر ایسابندہ نظر آیا ہو تو ضرور مطلع
فرمائیں ورنہ عیسائیت والے ذہن سے ان کتابوں کو ہاتھ نہ لگائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (واللہ
اعلم با لصواب)
(۱۱) اعراض:۔
حضرت
شیخؒ کی کتابوں میں اولیاءاللہ کیلئے ایسی چیزوں کو ثابت کیا گیاہے جو انبیاءعلیہم
السلام اور صحابہ کرامؓ کیلئے بھی ظاہر نہ ہوئیں۔
جواب:۔
اس کا
جواب امام الماظرین حضرت مولانا محمد امین اوکاڑوی ؒ سے لکھتے ہیں۔
وحید صاحب نے کہا ایسے واقعات کو کیسے مان لیا جائے؟ ان میں ایسی باتوں کا ذکر ہے
جو انبیاءعلیہم السلام کیلئے بھی ظاہر نہیں ہوئیں، نبی علیہ السلام اور صحابہ ؓ کا
مقام تو ولی سے بہت بلند ہے۔ یہ بالکل ناممکن ہے کہ ایک خرق عادت نبی ؑ اور صحابیؓ
کے ہاتھ پر تو ظاہر نہ ہو اور کسی ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہو جائے ۔ میں نے کہا عجیب
بات ہے جہاں قیاس جائز ہوں وہاں تو آپ اس کو شرک کہتے ہیںاور (اب) خرق عادات قیاس
شروع کردیا ہے۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ کو خواب نظر آتے ہیں ےا نہیں؟ اس نے
کہا آتے ہیں۔ میں نے کہابالکل وہی جو انبیاءعلیہم السلام اور صحابہؓ کا کیا ذکر
اللہ جس کو خواب چاہیں دکھا دیں۔ میں نے کہا بعض اوقات ایک چھوٹے بچے کو خواب نظر
آتا ہے کہ صبح بتاتا ہے کہ آج خواب میں، میں نے دیکھاکہ نانا ابو آئے ہیں اور
واقعتاً وہ آبھی جاتے ہیں اوک خواب سچا ہوجاتا ہے۔ مگر اس خواب کا کوئی یہ کہہ کہ
انکار نہیں کرتا کہ گھر کے بڑوں کو یہ خواب نہیں آیا تو ہم کیسے مان لیں کہ بچے کو
خواب آگیا؟ دیکھو حضرت بی بی مریم ؑ ولیہ ہیں انکو بے موسم پھل مل رہے ہیں۔ مگر
حضرت زکریاؑ جو نبی ہیں انکو نہیں مل رہے، سیدہ عائشہ صدیقہؓ کو خاوند کے ہوتے
ہوئے لڑکی بھی نہیں دی اور بی بی مریم ؑ کو بغیر خاوند کے لڑکا عطا فرما دیا، حضرت
یعقوبؑ کے ہاتھ مبارک روزانہ منہ پر پھرتے ہیں مگر بینائی واپس نہیں آئی حضرت یوسف
ؑ کی صرف قمیض لگنے سے بینائی واپس آگئی، جو ہوا سلیمان ؑ کا تخت اٹھائے پھرتی تھی
اس ہوا کو یہ حکم نہیں ملاکہ سفر ہجرت میںآپﷺ کو ایک لمحہ میں مدینہ پہنچا دے،
حضرت سلیمانؑ نبی ہیں لیکن تخت بلقیس کا آنا ان کے صحابیؓ کی کرامت ہے تو بھئی یہ
اللہ کا اختیار ہے وہ چاہیں تو ہ ہزاروں میل دور بیت المقدس کا کشف ہوجائے، جنت
دوزخ کا کشف ہو جائے اور نہ چاہیں تو چند میل سے سیدنا عثمان ؓ کی شہادت کی غلط
خبر آئے اور بیعت لینا شروع کر دیں۔ وہ نہ چاہے تو کنعان کے کنوئیں میں یوسف ؑ کا
یعقوبؑ کو پتہ نہ چلے اور جب چاہے تو مصر سے یوسف ؑ کے کرتے کی خوشبو کنعان میں
سونگھا دے۔ میں نے کہا آپ جو ساری دنیا کو مشرک کہہ رہے ہیں اس پر نظر ثانی کریں
اور توبہ کریں“
حضرت مولانا الیاس گهمن دامت برکاتهم
Assalam o Alaikum