Below article is an scholary discussion in the background of the criticism of Fazaile Amaal. The scholar has discussed ruling of science of Ahadith and what has been practice of salafus Salehin Ulema Karam and Aimma of Hadith. This has been written by Maulana Abdullah Maroofi Damat Barkatuhum Lecturer in hadith Darul Uloom Deoband.(Islamic University )U.P. India
This is being Reproduced here from http://www.ownislam.com/articles/urdu-articles/1529-fazail-amaal-par-aitrazat
This is also available on the official website of Darul Uloom Deoband.http://www.darululoom-deoband.com/urdu/current/fazail1.htm
May Allah help Ummat to have faith on Quran and Hadith as explained and Practiced by Salafus Salehin Great Imams and Muhaddethin and help the present day general muslim and Islamic Scholars mend their differences of opinion in that light. Only Allah can help and solve the Problems of Ummah.All are requested to Pray. ..
فضائل اعمال پر اعتراضات ایک اصولی جائزہ
فضائل اعمال پر اعتراضات ایک اصولی جائزہ
اللہ جل شانہ کے بے پایاں احسانات میں سے ایک
عظیم احسان یہ ہے کہ اس نے اس عاجز ہیچ مداں کو محض اپنے فضل سے شیخ الحدیث حضرت
مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ کے مجموعہ ”فضائل اعمال“ جیسی مقبول ترین کتاب پر ایک
بہانے سے کچھ لکھنے کی توفیق مرحمت فرمائی۔
” فالحمد للہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات“۔
ہوا یوں کہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کے ممتاز شاگرد اور متوسل ،عالم
اسلام کے نامور عالم اور محقق حضرت مولانا ڈاکٹر تقی الدین ندوی مظاہری مدظلہ نے
اپنے قائم کردہ ادارہ ”جامعہ اسلامیہ مظفر پور اعظم گڑھ“ میں حضرت شیخ الحدیث کی
شخصیت اور کارناموں پر ایک بین الاقوامی مذاکرہٴ علمی منعقد کرنے کا ارادہ فرمایا۔
مذاکرہ کی تاریخ ۱/۲/صفر ۱۴۲۵ھ مطابق ۲۴/۲۵ مارچ /۲۰۰۴ء طے پائی۔ مختلف عنوانات پر
ملک وبیرون کے علماء سے مقالہ نگاری کی فرمائش کی گئی‘ تمامتر علمی بے بضاعتی کے
باوجود ناکارہ راقم الحروف کو بھی حکم ملا کہ ”فضائل اعمال“ پر ناقدین کے اعتراضات
کے سلسلہ میں ایک دفاعی مضمون تجھے بھی لکھنا ہے‘ اور وقفہ وقفہ سے تقاضا بھی کیا
جاتا رہا۔ موضوع انتہائی مشکل بھی تھا اور نازک بھی‘ اللہ کا نام لے کر علوم
الحدیث کی مختلف کتابوں کی مدد سے لکھنے کا کام شروع کردیا گیا اور بفضلہ تعالیٰ
فل اسکیپ سائز کے پچیس صفحات پر مشتمل اصولی انداز کی ایک تحریر تیار ہوگئی‘ اور
یہ سوچ کر کہ ”مذاکرہ ٴ علمی“ چونکہ عالمی سطح کا ہے‘ ممکن ہے حاضرین میں عرب
علماء بھی ہوں بہ عجلت اس کا عربی ترجمہ بھی کرادیا گیا ہے‘ جسے عزیز محترم مولانا
عبد الرزاق امروہی نے بحسن وخوبی انجام دیا۔ مذاکرہ کی تاریخ آپہنچی‘ قلتِ وقت کی
بنا پر پورا مقالہ تو نہیں پڑھا جاسکا صرف منتخب اقتباسات ہی پیش کئے جاسکے‘ پھر
بھی توقع کے برخلاف حضرات علماء کرام نے پسندیدگی کا اظہار فرمایا‘ اللہ تعالیٰ کا
جس قدر بھی شکر ادا کیا جائے‘ کم ہے۔ پھر سہ ماہی مجلہ ”ترجمان الاسلام“ بنارس کے
مدیر محترم میرے مشفق وکرم فرما حضرت مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی مدظلہ نے از
راہ خورد نوازی جولائی تا ستمبر ۲۰۰۴ء کی اشاعت میں پورا مقالہ (جو ۴۸ صفحات میں
آیا) شائع فرمادیا‘ اور عربی ترجمہ دارالعلوم دیوبند کے مجلہ ”الداعی“ میں جمادی
الالیٰ تا شعبان (چار اشاعتوں) میں قسط وار شائع ہوا‘ اس طرح مقالہ کو اور بھی بہت
سے اہل علم کی نظروں سے گزرنے کی سعادت حاصل ہوگئی․․․․ حضرت مولانا برہان الدین صاحب سنبھلی
مدظلہ نے حوصلہ افزائی کا خط ارسال فرمایا: مخدوم محترم حضرت الاستاذ مولانا نعمت
اللہ صاحب اعظمی مدظلہ نے اس پر نظر ثانی فرماکر اپنے قیمتی مشوروں‘ استدراکات اور
ضروری تصحیحات سے نوازا‘ حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی صاحب بجنوری نے بھی اپنی
قیمتی آرا سے نوازا․․․ رمضان المبارک ۱۴۲۵ھ میں اصلاحی اور
دعوتی پروگرام کے تحت راقم الحروف کا آمبور تامل ناڈو کا سفر ہوا‘ دو عشرہ قیام
رہا‘ وہاں کی جامع مسجد کے خطیب وامام اور مجلس جامع الخیر کی روح رواں مولانا
مفتی صلاح الدین صاحب کے ذاتی کتب خانہ سے مستفید ہوتا رہا‘ ایک روز اچانک ایک
رسالہ پر نظر پڑ گئی‘ نام تھا ”مجالس مولانا محمد امین صفدر اکاڑوی“ الٹ پلٹ کر
دیکھنے لگا‘ ایک مضمون پر نظر مرکوز ہوگئی‘ اس مضمون کا بیشتر حصہ بھی ”فضائل
اعمال“ پر کئے جانے والے اعتراضات اور ان کے جوابات پر مشتمل تھا‘ مولانا اکاڑوی
رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ کی غیبی تائیدشامل تھی‘ مشکل سے مشکل علمی بحث کو آسان
سے آسان تمثیلی پیرایہ میں بیان کردینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ انداز بیان
دلکش اور مؤثر ہوتا ہے‘ چنانچہ اسی مجلس میں موضوع سے متعلق پورا حصہ پڑھ گیا۔ یہ
ایک مکالمہ ہے جو مولانا صفدر اکاڑوی
اور مرزا وحید بیگ نامی ایک صاحب کے درمیان ہوا۔ ”فضائل اعمال“ نے وحید بیگ صاحب
کی زندگی میں ایک صالح انقلاب پیدا کردیا تھا‘ وہ اس کے انتہائی گرویدہ تھے‘ لیکن
سوءِ اتفاق کہ بعض تشکیکی ذہنیت والوں کے ہتھے چڑھ گئے‘ انہوں نے ان کو کچھ ایسے مغالطے
دیئے کہ وہ ”فضائل اعمال“ سے نہ صرف برگشتہ ہوئے‘ بلکہ بھر پور مخالفت پر آمادہ
ہوگئے‘ اس مکالمہ میں انہوں نے مشہور اشکالات پیش کئے ہیں اور مولانا اکاڑوی نے مدلل اور برجستہ جوابات دیئے ہیں‘
مکالمہ انتہائی دلچسپ ہے‘ ہمارے مقالے میں مذکور بعض پہلوؤں کے علاوہ اس میں کچھ
مزید معلومات بھی ہیں‘ خیال ہوا کہ بطورضمیمہ یہ مضمون بھی شامل اشاعت کردیا جائے
تو بندگانِ خدا کو زیادہ نفع پہنچنے کی امید ہے۔ اس لئے یہ مضمون بھی مقالہ کے
ساتھ شائع کیا جارہاہے۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں مضامین کو قبولیت سے نوازے‘ جس طرح
ان کی اصل ”فضائل اعمال“ سے لاکھوں انسانوں کو راہ یابی اور کامیابی نصیب ہوئی اور
ہورہی ہے اللہ تعالیٰ ان مضامین کے ذریعہ بھی ان بندگانِ خدا کو نفع یاب فرمائے جو
کسی وجہ سے اصل کتاب ”فضائل اعمال“ کی بابت تشکیک کا شکار ہوئے یا ہورہے ہیں۔ آمین
یارب العالمین۔ شیخ الحدیث برکة العصر حضرت مولانا محمد زکریا
کاندھلوی برد اللہ مضجعہ کی شہرہٴ آفاق ومقبول ترین کتاب
”مجموعہ ٴ فضائل اعمال“ محتاج تعارف نہیں ہے‘ نو قیمتی کتابوں (حکایات صحابہ‘
فضائل نماز‘ فضائل تبلیغ‘ فضائل ذکر‘ فضائل قرآن مجید‘ فضائل رمضان‘ فضائل درود
شریف‘ فضائل صدقات‘ فضائل حج) کا یہ مجموعہ ایک گنجینہٴ علم معرفت اور مرقعہٴ درس
عبرت ہے‘ دلوں میں شریعت مقدسہ اور اس کے احکام کی عظمت کا سکہ بٹھانے میں ایک
لاجواب کتاب ہے‘ دعوتِ اسلامی کا فریضہ انجام دینے والے ہرعالم وغیر عالم کے ہاتھ
میں ایک روشن قندیل ہے‘ جس کی روشنی میں راستہ کے نشیب وفراز سے باخبر ہوکر دعوتی
سفر تیز رفتاری کے ساتھ طے کیا جاسکتا ہے‘ بالخصوص ایک عالم اور صاحب تحقیق کو تو
اس کتاب کے ذریعہ متعلقہ مضامین پر نصوص قرآن وحدیث اور اقوال وآثار کا ایک وافر
مواد ہاتھ آجانے کے علاوہ مشکل نصوص کے سمجھنے میں بے حد مدد ملتی ہے‘ کتاب کا ایک
ایک لفظ ‘ ایک ایک حرف نہ جانے اخلاص وللہیت کی کس چاشنی میں ڈبویا ہوا ہے کہ جس
نے بھی ایک بار چکھا دلدادہ وگرویدہ ہوئے بغیر نہ رہا‘ اور یہ امر واقعہ ہے کہ اس
کتاب نے لاکھوں انسانوں کے دلوں میں انقلاب پیدا کردیا ہے‘ اور بقول حضرت مولانا
سید ابو الحسن ندوی۔” ان (کتب فضائل) سے جو دینی وعلمی
نفع پہنچا اس کے بارے میں ایک ممتاز معاصر عالم کا یہ کہنا مبالغہ آمیز نہیں معلوم
ہوتا کہ: ان کتابوں کے ذریعہ ہزاروں بندگانِ خدا ولایت کے درجہ تک پہنچ گئے“۔
(ایک عالمی وبین الاقوامی کتاب فضائل اعمال از مولانا محمد
شاہد صاحب سہانپوری ص: ۱۴) آخر تو کوئی وجہ ہے کہ نو اعمال کے فضائل پر مشتمل یہ
مجموعہ۔
۱- آج دنیا کی اکتیس زبانوں میں اس کے ترجمے ہو چکے ہیں۔
۱- آج دنیا کی اکتیس زبانوں میں اس کے ترجمے ہو چکے ہیں۔
۲- سعودی عرب ‘ ہندوستان‘ پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ افغانستان‘
ایران‘ ازبکستان‘ برما‘ ملیشیا‘ انڈونیشیا‘ انگلینڈ‘ افریقہ‘ امریکہ‘ کنیڈا‘ ترکی
‘ جاپان‘ زامبیا‘ سری لنکا‘ فرانس‘ فلپائن‘ کمبوڈیا‘ کینیا‘ پرتگال جیسے تئیس
ممالک کے ایک سو پینتالیس محققین اور اہل علم ”فضائل اعمال“ کی علمی وتحقیقی خدمت
اور اس کو دیگر زبانوں میں منتقل کرنے میں مصروف کار ہیں ایضاً ص:۲۱)
۳- صرف ہندوپاک کی حد تک چوہتر (۷۴) اشاعتی ادارے اس کتاب کو
مسلسل شائع کررہے ہیں۔
۴- اس لئے بلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ مختلف زبانوں میں اس کے
نسخوں کی مجموعی تعداد کروڑوں میں کیا‘ شمار سے باہر ہے۔
کتب فضائل پر ایک تاریخی نظر
حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی اس کتاب کا موضوع کوئی نیا نہیں‘
بلکہ عام کتب حدیث کے علاوہ مستقل طور سے دوسری صدی ہجری ․․․جب کہ حدیث نبوی کی باضابطہ تدوین
ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی․․․
میں آداب واخلاق‘ زہد ورقاق اور فضائل وترغیب پر تصنیف کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا‘
اور آج تک قائم ہے‘ کچھ تصنیفات حسب ذیل ہیں:
۱- کتاب الزہد للامام عبد اللہ بن المبارک (ت ۱۸۱ھ)
۲- فضائل القرآن للامام الشافعی (ت-۲۰۴ھ)
۳- فضائل القرآن لأبی عبید (ت-۲۲۴ھ)
۴- کتاب الزہد للامام احمد بن حنبل (ت-۲۴۱ھ)
۵- الادب المفرد للامام البخاری (ت- ۲۵۶ھ)
۶- کتاب الآداب للامام البیہقی
۷- کتاب الزہد للامام البیہقی
۸- وفضائل الاوقات‘ للامام البیہقی (۴۵۸ھ)
۹- الترغیب والترہیب لابن شاہین (۳۸۵ھ)
۱۰- الترغیب والترہیب لأبی القاسم اسماعیل بن محمد الاصفہانی
(ت۵۳۵ھ)
۱۱- الترغیب والترہیب للحافظ عبد العظیم بن عبد القوی المنذری‘
(ت۶۵۶ھ)
اذکار اور دعاؤں میں:
۱۲- عمل الیوم واللیلة للنسائی (ت۳۰۳ھ)
۱۳- عمل الیوم واللیلة لابن السنی (ت۳۶۴)
۱۴- کتاب الدعاء للطبرانی (ت۳۶۰ھ)
۱۵- الدعوات الکبیر للبیہقی‘ الاذکار للنوی (ت۶۷۶ھ)
درود شریف اور اس کے مخصوص صیغوں کے فضائل پر حافظ شمس الدین
سخاوی (ت۹۰۲ھ) کی ”القول البدیع فی الصلوٰة علی الحبیب الشفیع“ وغیرہ زیادہ مشہور
ہیں۔
اسی سلسلة الذہب کی ایک نمایاں کڑی شیخ الحدیث رحمہ اللہ کا
مجموعہ ”فضائل اعمال“ ہے جو اردو زبان میں اس جامعیت اور شرح وبسط کے ساتھ منفرد
حیثیت رکھتا ہے۔
یہ پوری کتاب جو تبلیغی نصاب یا ”فضائل اعمال“ کے نام سے مشہور
ہے‘ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے کسی منظم پروگرام کے پیش نظر تالیف نہیں فرمائی
ہے‘ بلکہ مختلف ابواب وموضوعات پر یہ مختلف کتابیں ہیں جو مختلف اوقات میں مختلف
حضرات کے تقاضوں اور اصرار کے نتیجہ میں ترتیب دی گئی ہیں‘جماعتِ تبلیغ کے ذمہ
داران نے جماعتوں میں نکلنے والے احباب کی دینی تعلیم وتربیت کے
واسطے تجویز کردیا‘ اسی لئے اس مجموعہ کو بعض ناشرین نے” تبلیغی نصاب“ کے نام سے
شائع کردیا‘ بہت دنوں تک یہ نام چلتا رہا‘ بعد میں اصل موضوع کی رعایت سے ”فضائل
اعمال“ کے نام سے طبع ہونے لگا‘ نو کتابوں کے اس مجموعے کے مفردات کی تالیف اور
محرکات کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔
اوائل ذی الحجہ ۱۳۴۸ھ میں اس کی تالیف شروع ہوئی اور ۲۹/ذی
الحجہ ۱۳۴۸ھ کو مکمل ہوئی‘ حضرت اقدس مولانا رشید احمد گنگوہی کے ایک خلیفہ تھے شاہ یٰسین صاحب
نگینوی‘ انہیں کے ایماء اور خواہش پر یہ کتاب تصنیف فرمائی گئی۔
یہ کتاب حضرت نے اپنے چچا جان مولانا محمد الیاس رحمہ اللہ‘
بانی تحریک تبلیغ کی فرمائش پر رمضان ۱۳۴۹ھ میں تالیف فرمائی‘ اور تکمیل ۲۷/ رمضان
المبارک کو ہوئی۔
یہ بھی چچاجان نوراللہ مرقدہ کے ارشاد پر لکھی‘ اور ۵/صفر شب
دوشبنہ ۱۳۵۰ھ کو پوری ہوئی‘ اس کی تالیف میں چند روز لگے۔
صفر ۱۳۵۷ھ میں اجراڑہ جاتے ہوئے شیخ رحمہ اللہ کو میرٹھ میں
شدید نکسیر پھوٹی اور دوگھڑے خون بہہ گیا‘ ڈاکٹروں اور حکیموں نے آپ کو چند ماہ تک
دماغی کام کرنے سے بالکل منع کردیا‘ ادھر تقریباً چار برس سے حضرت شاہ عبد القادر
رائے پوری نور اللہ مرقدہ کی طرف سے ”حکایات صحابہ“ کی تالیف کا تقاضا تھا‘ شیخ
رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس بیماری کے زمانے کو غنیمت سمجھ کر تعمیل ارشاد میں پڑے
پڑے کچھ لکھتا رہا‘ اور ۱۲/شوال ۱۳۵۷ھ کو پوری ہوگئی۔
یہ بھی چچا جان نور اللہ مرقدہ کے حکم کی تعمیل میں لکھی گئی
اور ۷/محرم ۱۳۵۸ھ شب دوشنبہ کو پوری ہوئی۔
یہ بھی چچاجان قدس سرہ ہی کی تعمیل ارشاد میں لکھی گئی اور ۲۶/
شوال ۱۳۵۸ھ شب جمعہ میں پوری ہوئی۔
حضرت مولانا محمد یوسف صاحب علیہ الرحمة کے شدید اصرار اور
تقاضے پر یہ کتاب تالیف فرمائی‘ ۳/شوال ۱۳۶۶ھ کو اس کی ابتداء ہوئی اور ۱۴/جمادی
الاولیٰ ۱۳۶۷ھ بروز جمعہ اس سے فراغت ہوئی‘ اصل کتاب کی تالیف مرکز نظام الدین میں
ہی رہ کر ہوئی‘ کیونکہ سنہ ۴۷ء کے قیامت خیز ہنگامہ کی وجہ سے شیخ کو چار ماہ مرکز
نظام الدین میں محبوس ہونا پڑا تھا‘ شیخ فرماتے ہیں:”نفس رسالہ سے تو فراغت شوال
ہی میں ہوگئی تھی‘ لیکن کچھ حکایات کا اضافہ سہارن پور واپسی پر ہوا‘ اس رسالہ کی
مقبولیت وافادیت اتنی بڑھی کہ شیخ فرماتے ہیں“ ہزاروں خطوط اس نوع کے پہنچے کہ اس
رسالہ سے حج وزیارت میں بہت لطف آیا۔
۸- فضائل صدقات
حضرت مولانا محمد الیاس رحمہ اللہ کی جانب سے دو اور کتابوں کے
لکھنے کا تقاضا اور تاکید تھی‘ ایک فضائل زکوٰة‘ دوسری فضائل تجارت‘ چنانچہ فضائل
حج کی تکمیل کے بعد مرکز نظام الدین ہی میں شیخ نے فضائل صدقات کی بسم اللہ کردی
جو ۲۲/صفر ۱۳۶۸ھ کو سہارن پور میں مکمل ہوئی۔
۹-فضائل درود
فضائل کے سلسلہ کا یہ آخری رسالہ ہے اسے بھی شیخ نے شاہ یٰسین
صاحب نگینوی کی فرمائش اور خواہش کی تکمیل میں رقم فرمایا‘ شاہ صاحب کا انتقال تو
۳۰/شوال ۱۳۶۰ھ میں ہی ہوگیا تھا‘ لیکن آپ نے وصیت کی تھی کہ میرے انتقال کے بعد
بھی مولانا محمد زکریا سے اس کتاب کے لکھنے کا تقاضا جاری رکھا جائے‘ شیخ فرماتے
ہیں :
”مگر بداعمالیوں نے مہلت نہ دی‘ لیکن ۱۳۸۳ھ میں مدینہ پاک
حاضری پر شدت سے اس کا تقاضا شروع ہوا‘ واپسی پر بھی تساہل ہوتا رہا‘ اور ۲۵/رمضان
۱۳۸۴ھ کو بسم اللہ کر ہی دی‘ اور ۶/ذی الحجہ ۱۳۸۴ھ کو دفعتاً ختم کردی“۔ (آپ بیتی
نمبر ۲ص:۱۷۸)
اللہ تعالیٰ نے ان کتب فضائل کو وہ مقبولیت عطا فرمائی کہ
محتاج بیان نہیں‘ اور موافق ومخالف ہرایک کو تسلیم ہے کہ کوئی بھی دینی کتاب اس
کثرت سے نہیں پڑھی جاتی‘ جتنی کہ یہ رسائل پڑھے اور سنے جاتے ہیں ‘ جس کی کچھ
تفصیل اوپر گذر چکی ہے۔ دنیا کی روایت ہے کہ ہر پھل دار درخت پر ڈھیلے مارے جاتے
ہیں ‘ سورج جو اپنی بھر پور ضیا پاشی سے عالم کو منور کرتا ہے شپرہ چشم کو اس کی
تابانی یکسر ناقابل برداشت ہوتی ہے‘ چنانچہ اس کتاب پر بھی مختلف حلقوں کی جانب سے
اعتراضات کی بوچھاڑ ہوئی‘ طرح طرح کی نکتہ چینیاں کی گئیں‘ ہمیں اس حقیقت سے قطعاً
انکار نہیں کہ روے زمین پر خدا کی کتاب کے علاوہ کوئی کتاب نقص وخلل سے محفوظ
نہیں‘ بڑے بڑے اصحاب علم سے ان کی گراں قدر تصنیفات میں کچھ نہ کچھ فروگذاشتیں
ہوئی ہیں۔ جو کتاب کی گوناگوں خوبیوں کے بالمقابل نہ کچھ حیثیت رکھتی ہیں اور نہ
ہی علمی حلقوں نے کوئی حیثیت دی ہے۔
خلاصہ بحث
اس مقالہ میں اعتراضات کی بنیادی طور پر تین قسمیں قرار دی گئی
ہیں:
۱- اشکالات جو کسی طالب حق کو پیش آتے ہیں‘ اور اہل علم سے
رجوع کرنے پر تھوڑی بہت وضاحت سے ختم ہوجاتے ہیں‘ ظاہر ہے یہ اشکالات مستقل موضوع
بحث بنانے کے لائق نہیں اور نہ ہی ان اشکالات کا کوئی دیرپا اثر ہوتا ہے۔
۲- وہ اعتراضات جن کا تعلق اس عقلیت پسندانہ رجحان سے ہے جو
تمام ہی نصوص حدیث کو اپنی نام نہاد عقل سلیم کے خلاف قرار دے کر یا اپنی عقل
نارسا کے بموجب قرآن سے معارض قرار دیتے ہوئے ٹھکرا دینے کا قائل ہے‘ خواہ ثبوت
واستناد کے اعتبار سے ان کی حیثیت کتنی ہی مضبوط ہو‘ اور خواہ علماء امت نے اس کی
کتنی ہی معقول توجیہات کی ہوں‘ چنانچہ اس کی کئی ایک مثالیں دے کر اختصار کے ساتھ
مدلل طور سے اعتراض کو رفع کیا گیا ہے۔
۳- وہ تنقیدات جن کی حیثیت علمی ہے‘ اور ان میں بعض پہلوٴوں سے
وزن بھی محسوس کیا جاتاہے‘ ان تنقیدات کا محور یہ ہے کہ مجموعہٴ ”فضائل اعمال“ میں
شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے کثرت سے ضعیف بلکہ موضوع حدیثوں کو داخل کردیا ہے جس سے
اصل دین کی شبیہ مسخ ہوکر رہ گئی ہے۔
اس طرح کی تنقیدات کے جواب کو اصولی طور پر تین نکتوں پر تقسیم کیا گیا ہے:
اس طرح کی تنقیدات کے جواب کو اصولی طور پر تین نکتوں پر تقسیم کیا گیا ہے:
۱- مجموعہٴ فضائل اعمال کی معتبریت اس کے مصادر ومآخذ کے آئینے
میں کیا ہے؟
۲- حدیثوں سے استدلال واستشہاد کے وقت کیا اصطلاحی اعتبار سے
ان کا صحیح ہونا ضروری ہے یا اس سے کم تردرجہ کی حدیثیں بھی کافی ہیں؟ اگر ہیں تو
کس حد تک؟ علماء امت کا کیا معمول رہا ہے؟
۳- ترغیب وترہیب کے باب میں نصوص قرآن وسنت کے علاوہ بزرگوں کے
اقوال‘ افعال حکایات اور منامات ومبشرات کا سہارا لینا درست ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو
کس حد تک؟
پہلے نکتے میں ثابت کیا گیا ہے کہ شیخ رحمہ اللہ نے جن کتابوں
اور مآخذ کی مدد سے یہ رسائل مرتب فرمائے ہیں‘ وہ علاوہ چند ایک کے سب بجائے خود
قابل اعتماد اور اہل علم کے درمیان مقبول ومستند قرار دی جاتی رہی ہیں‘ اور جو
مآخذ غیر مستند ہیں‘ ان سے استفادہ کی نوعیت بھی واضح کردی گئی ہے جس سے ”فضائل
اعمال“ کی معتبریت متأثر نہیں ہوتی۔
دوسرے نکتے میں ٹھوس دلائل کی روشنی میں ثابت کیا گیا ہے کہ
حدیثوں سے استدلال کے لئے ان کا اصطلاحی اعتبار سے صحیح یا حسن ہونا ہی ضروری
نہیں‘ بلکہ ضعیف حدیث کافی ہوتی ہے‘ باب احکام میں بھی اور فضائل‘ مناقب سیر‘ اور
ترغیب وترہیب میں بھی‘ پھر باب احکام میں اس کا اعتبار کئے جانے پر چاروں مذاہب کے
فقہاء کرام‘ محدثین اور ظاہریہ سب کی تصریحات پیش کی گئی ہیں۔ باب احکام کے علاوہ
میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے اور بیان کرنے کے جواز پر امت کا اجماع اہل علم کی
عبارتوں اور ان کے طرزِ عمل سے ظاہر کیا گیا ہے‘ حتی کہ جن بڑے اہل علم کی جانب اس
سلسلہ میں اختلاف منسوب کیا جاتاہے‘ ان کی آراء بھی جمہور کے مطابق ہیں اور اس پر
مضبوط ثبوت پیش کئے گئے ہیں‘ مثلاً امام بخاری‘ امام مسلم‘ یحیی بن معین‘ ابوبکر بن
عربی ‘ ابوشامہ مقدسی‘ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور علامہ شوکانی رحمہم اللہ‘ ان
حضرات کا مذہب بھی جمہور کی طرح غیر احکام میں ضعیف حدیث کے قابل قبول ہونے کا ہے۔
خصوصیت سے امام بخاری ومسلم کے صحیحین میں ان کے طرزِ عمل سے بھی یہ حقیقت آشکارا
ہوتی ہے اور ا س کی مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں۔ اس ضمن میں ”فضائل اعمال“ میں ضعیف
حدیث سے استدلال وعمل کے شرائط پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور محدثین وفقہاء امت کے
طرزِ عمل سے واضح کیا گیا ہے کہ ضعیف حدیث کی استدلالی حیثیت پر گفتگو کے وقت
فضائل اعمال کا اطلاق یہ حضرات ایسے موقع پر کرتے ہیں جہاں کوئی مخصوص عمل کسی
دلیل صحیح یا حدیث حسن سے ثابت نہ ہو‘ بلکہ صرف کسی ضعیف حدیث میں اس کی فضیلت یا
ترغیب وارد ہوئی ہو‘ چنانچہ چند شرائط کے ساتھ اس عمل کو مستحب قرار دیتے ہیں اور
ترغیب وترہیب کا اطلاق ایسے موقع پر کرتے ہیں جہاں کوئی عمل پہلے سے دلیل صحیح سے
ثابت ہو‘ البتہ کسی ضعیف حدیث میں اس کی مخصوص فضیلت وغیرہ وارد ہوئی ہو تو اس میں ضعیف
سے ضعیف حدیث بیان کرنے میں حرج نہیں سمجھتے‘ بشرطیکہ موضوع نہ ہو۔ اس کے بعد باب
ترغیب وترہیب میں ضعیف ․․․․بلکہ
بعض وہ حدیثیں جن پر بعض حضرات نے موضوع تک کا حکم لگایا ہے․․․․ کے بیان کرنے اور استدلال کرنے کا
تعامل مشہور ائمہ ٴ محدثین اور ناقدین کے حوالہ سے دکھایا گیا ہے‘ ان میں خصوصیت
سے ابن جوزی‘ منذری‘ نووی‘ ذہبی‘ ابن حجر عسقلانی‘ سیوطی‘ ابن قیم رحمہم اللہ قابل
ذکر ہیں‘ جنہوں نے ترغیب وترہیب کے لئے انتہائی درجہ کی ضعیف حدیثوں کو اپنی
کتابوں میں بطور استدلال پیش کیا ہے‘ اس کی چند ایک مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں‘
لہذا اگر شیخ نے بھی انتہائی ضعیف حدیثیں اس مقصد کے لئے پیش کردیں تو طریقہٴ
محدثین سے جداگانہ کوئی طریقہ اختیار نہیں کیا۔ تیسرے نکتے میں واضح کیا گیا ہے کہ
عبرت پذیری کے لئے قصے کہانیوں کا بیان کرنا کوئی قبیح عمل نہیں ہے جس کے شیخ
مرتکب ہوئے ہوں‘ بلکہ شریعت ِ مطہرہ اور حدیث نبوی کی روشنی میں ان قصوں کا ذکر
کرنا دائرہ ٴ جواز میں آتا ہے‘ ضمناً بعض قصوں کے استبعادی پہلو پر بھی روشنی ڈالی
گئی ہے۔
اعتراضات اور ان کی حیثیت
اس کتاب پر جو اعتراضات ہوئے ان کی جزئیات میں جانے کا تو موقع
نہیں‘ اصولی طور سے کچھ معروضات پیشِ خدمت ہیں‘ ان اعتراضات کی تین قسمیں ہیں: ۱-
وہ اشکالات جو کسی طالبِ حق کو پیش آتے ہیں اور اس کا ذہن تھوڑی بہت وضاحت سے صاف
ہوجاتا ہے‘ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے وضاحتی خطوط کے مجموعہ ”کتب فضائل“ پر
اشکالات اور ان کے جوابات“ میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں‘ مثلاً دیکھئے مکتوب
نمبر ۱۱ جس میں حضرت امام شافعی
کے متعلق دن رات میں قرآن کریم کے ساٹھ ختم کرنے کی بات پر استبعاد کا جواب دیا
گیا ہے۔ اور مکتوب نمبر ۱۲ جس میں منبر نبوی کے متعلق اس استفسار کا جواب ہے کہ
آنحضرت ا کا منبر تین درجوں کا تھا یا اس سے کم وبیش کا؟
۲- وہ اعتراضات جن کا تعلق اس عقلیت پسندانہ رجحان سے ہے جو
تمام ہی نصوص حدیث کو اپنی نام نہاد عقل سلیم کے خلاف قرار دے کر یا اپنی عقل
نارسا کے بموجب قرآن سے معارض قرار دیتے ہوئے ٹھکرا دینے کا قائل ہے‘ خواہ ثبوت
واستناد کے اعتبار سے ان کی حیثیت کتنی ہی مضبوط ہو‘ اور خواہ علماء امت نے اس کی
کتنی ہی معقول توجیہات کی ہوں‘ جیسے:
۱- فضلاتِ نبی کی طہارت پر اعتراض جناب تابش مہدی صاحب نے
”تبلیغی نصاب ایک مطالعہ“ (ص:۳۵تا۳۹) میں حضرت عبد اللہ بن زبیر اور حضرت مالک بن سنان کے رسول اللہ کے نکلے ہوئے خون کو پینے یا چوسنے کے
واقعہ اور اس سے فضلات ِ نبی کی طہارت پر شیخ کے استدلال کا بڑے گھناؤنے انداز میں
مذاق اڑایا ہے‘ حالانکہ اولاً تو ثبوت کے اعتبار سے اس طرح کے واقعات میں شک کی
گنجائش نہیں ہے کہ حضرت ابن الزبیر
کا واقعہ متعدد سندوں سے مروی ہے۔ (دیکھئے مستدرک حاکم‘ج: ۳ص:۵۵۴ مجمع الزوائد‘ج:
۸ص:۲۷۰)
امام بیہقی نے سنن کبری‘ج: ۷ص:۶۷ میں فرمایا :
”وروی ذلک من اوجہ آخر عن اسماء بنت ابی بکر‘
وعن سلمان فی شرب ابن الزبیر دمہ “۔
حافظ ہیثمی نے فرمایا:
رواہ الطبرانی والبزار‘ ورجال البزار رجال
الصحیح غیر ہنید بن القاسم وہو ثقة“
حافظ شمس الدین ذہبی
نے بھی سیر اعلام النبلاء‘ج: ۳ص:۳۶۶ میں اس پر صحت کا حکم لگایا ہے۔
اسی طرح حضرت مالک بن سنان کا واقعہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے
الاصابہ ۳/۳۴۶ میں ابن ابی عاصم‘ صحیح ابن السکن اور سنن سعید بن منصور کے حوالے
سے نقل کیا ہے‘ لیکن بے چارے ناقد نے حکایات صحابہ میں صرف تاریخ الخمیس اور قرة
العیون کا حوالہ پاکر اس کو ”میلاد گوہر“ اور ”یوسف زلیخا“ جیسی کتاب کی روایت
قرار دے دیا۔ نیز آیت قرآنی: انما حرم علیکم المیتة والدم الخ“ کے منافی قرار دیتے ہوئے عقل صریح
کے بھی خلاف قرار دیا ہے‘ حالانکہ روایات کی قوت کو دیکھتے ہوئے مذاہب اربعہ کے
محققین نے اس کو آنحضرت ا کی خصوصیت قرار دیا ہے‘ آیت کریمہ کا سرے سے کوئی ٹکراؤ
ہی نہیں ہے‘ اس مسئلہ پر تفصیل ومحققانہ کلام کے لئے دیکھئے مضمون مولانا محمد
یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ ماہنامہ بینات کراچی بابت شوال ۱۴۰۹ھ۔
۲- مسئلہ توسل میں افراط وتفریط پایا جاتا ہے‘ ادلہ شرعیہ کی
روشنی میں علمائے دیوبند نے جو موقف اختیار کیا ہے وہ انتہائی معتدل ہے‘ حضرت رسول
پاک کے وسیلے سے دعاء کے جواز کے سلسلہ میں حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے ”فضائل
اعمال“ میں جو کچھ لکھا ہے‘ افراط وتفریط سے محفوظ اور مضبوط دلائل پر مبنی ہے‘
فضائل ذکر باب دوم کی فصل نمبر ۳ میں حدیث۔
”عن عمر قال قال رسول الله ا
لما اذنب آدم الذنب الذی اذنبہ‘ رفع راسہ الی السماء فقال: اسالک بحق محمد الا
غفرت لی فاوحی الله الیہ الخ“۔
متعدد کتب حدیث کے حوالے اور کئی ایک متابعات وشواہد کے ساتھ
درج ہے‘ جس سے مسئلہ ٴ توسل بخوبی ثابت ہوتا ہے‘ مگر کوئی صاحب غیظ وغضب میں بھر ہوا
خط شیخ کولکھتے ہیں کہ یہ حدیث سراسر موضوع ہے‘ قرآن کریم کی آیات :
وقال ربکم ادعونی استجب لکم الخ (مؤمن:۶۰)
واذا سألک عبادی عنی فانی قریب الخ“
وغیرہ کے منافی ہے اور عقل کے بھی خلاف ہے کہ اس دعاء سے اللہ
کے متعلق سوء ظن پیدا ہوتا ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔شیخ رحمہ اللہ نے نہایت ٹھنڈے انداز
میں تفصیلی جواب مرحمت فرمایا کہ:
” آپ کو تو قرآن وحدیث میں کھلا ہوا تعارض نظر آتا ہے اور مجھے
اس کا واہمہ بھی نہیں ہوتا۔ آپ نے لکھا کہ:یہ حدیث موضوع ہے۔ مجھے اب تک بھی اس
حدیث کا موضوع ہونا کہیں نہیں ملا۔مسئلہ کے متعلق مزید تسلی وتشفی کے لئے دیکھئے
وضاحتی خطوط کا مجموعہ۔“ (کتب فضائل پر اشکالات اور ان کے جوابات ص:۱۳۹تا ۱۵۴‘ نیز
ص:۱۷۰ تا ۱۸۴)
۳- وہ تنقیدات جن کی حیثیت علمی ہے اور ان میں بعض پہلوؤں سے
وزن بھی محسوس کیا جاتا ہے‘ ان تنقیدات کا محور مجموعہ فضائل اعمال کی حدیثوں کی
استنادی حیثیت ہے‘ یعنی ناقدین کے بقول شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے ان رسائل میں کثرت
سے ضعیف بلکہ موضوع حدیثوں کو داخل کردیا ہے جس سے دین کی اصل شبیہ مسخ ہوکر رہ
گئی ہے۔آخر الذکر دونوں قسم کی تنقیدات عموماً مخلصانہ تنقید کی بجائے ایسے لوگوں
کی جانب سے کی گئی ہیں جو مؤلف رحمہ اللہ سے مسلکی اختلاف رکھتے ہیں‘ چنانچہ ان کی
تنقیدات حد درجہ جارحانہ ہیں‘ اپنے نظریہ کے خلاف احادیث پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے
کے بجائے ان کی طرف سے مصنف اور کتاب سے استفادہ کرنے والوں پر کھل کر تہمتوں کی
بوچھاڑ کی گئی ہے۔
۱-ملاحظہ ہو‘ ایک ناقد صاحب کا لب
ولہجہ:
”واہم کتاب عند التبلیغین ”کتاب تبلیغی نصاب“
الذی الفہ احد رؤسائہم المسمی محمد زکریا الکاندھلوی ولہم عنایة شدیدة بہذا الکتاب
فہم یعظمونہ کما یعظم اہل السنة الصحیحین وغیرہما من الکتب‘ وقد جعل التبلیغیون
ہذا الکتیب عمدة ومرجعاً للہنود وغیرہم من الاعاجم التابعین لہم‘ وفیہ من
الشرکیات‘ والبدع والخرافات‘ والاحادیث المرضوعة والضعیفة شئ کثیر فہو فی الحقیقة
کتاب شروضلال وفتنة“۔ (حمود بن عبد اللہ التویجری فی کتابہ القول البلیغ فی
التحذیر من جماعة التبلیغ ص:۱۱)“۔
یعنی تبلیغی جماعت والوں کے نزدیک اہم ترین کتاب تبلیغی نصاب
(مجموعہٴ فضائل اعمال) ہے جس کو محمد زکریا نامی ان کے کسی پیشوا نے تالیف کیا ہے‘
یہ لوگ اس کتاب کی اسی طرح تعظیم کرتے ہیں جس طرح اہل سنت صحیحین وغیرہ کتب حدیث
کی کرتے ہیں‘ ان لوگوں نے اس کتاب کو ہندوستانیوں اور دوسرے عجمی وابستگان تبلیغ کے
حق میں اصل مدار اور مرجع کی حیثیت دے رکھی ہے‘ جبکہ ا س کتاب میں مشرکانہ اعمال‘
بدعات وخرافات اور ضعیف وموضوع حدیثوں کی ایک بڑی مقدار ہے‘ در حقیقت یہ کتاب
برائی‘ گمراہی اور فتنہ کا پلندہ ہے۔
۲- ملاحظہ ہو ایک اور صاحب کی گل
افشانی:
”یہودیوں کی سازش یہ رہی ہے کہ وہ عالمی سطح پر مسلمانوں کے
اندر سے روحِ جہاد ختم کردیں‘ اپنے اس مقصد کی تکمیل کے لئے یہودی مشن نے ہر دور
میں علماء اور مذہبی جماعتوں کو ہی استعمال کیا اور مسلمانوں کے اندر سے روح جہاد
کو ختم کرنے میں اب تک کے تمام لٹریچر میں تبلیغی نصاب کو نمایاں مقام حاصل ہے‘ یہ
اس لئے بھی کہ لوگ(اسے) حدیث کی کتاب کہنے لگے ہیں جبکہ حدیث نام کی کوئی چیز اس
میں مشکل ہی سے مل پاتی ہے“۔ (تابش مہدی تبلیغی نصاب ایک مطالعہ ص:۵۷)
۳- یہی صاحب ایک جگہ ارشاد فرماتے
ہیں:
”حضرت شیخ الحدیث صاحب نے اپنی اس کتاب میں بے سند اور دین سوز
روایتیں نقل کی ہیں‘ یا انہوں نے چند ایسے مشاغل دین میں شامل کئے ہیں جن کا ثبوت
نہ احادیث نبوی سے ملتا ہے اور نہ صحابہ کرام کی مقدس زندگیوں سے“۔ (ایضاً ص:۶۷)
۴- ایک ناقد صاحب قدرے ٹھنڈے لب ولہجہ
میں ناصحانہ تبصرہ یوں فرماتے ہیں:
”ایسی حدیثوں کو عوام کے سامنے پیش کرکے یہ تأثر دینا کہ یہ
ارشادات رسول ہیں‘ دین کے لئے کمزور بنیادیں تلاش کرنے اور لوگوں کی نظروں میں دین
کو مشتبہ بنا دینے کا باعث ہے‘ اس سے بدعات کی راہیں کھلتی ہیں‘ ملت کے اندر تفرقہ
بندی‘ اور طرح طرح کے فتنوں کا سامان ہوتا ہے“۔ (شمس پیرزادہ موضوع اور ضعیف
حدیثوں کا چلن ص:۲۰)
بات چاہے کتنی ہی غلط ہو‘ آج کی پُر آشوب دنیا پروپیگنڈے کے
زور سے غلط کو صحیح باور کرانے میں کسی نہ کسی حد تک کامیاب ہو ہی جاتی ہے‘ ہمارے
نزدیک ان تنقیدات کی حیثیت سوائے تشکیکات کے اور کچھ نہیں اور یہ تشکیکات عام قاری
کے سامعہ ودماغ میں جب تسلسل کے ساتھ پہنچتی ہیں تو وہ ایک حد تک ضرور متأثر اور
غلط فہمی کا شکار ہوتا ہے‘ اس لئے ہم اصولی طور سے کچھ غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے
کی کوشش کریں گے۔ہمارے سامنے غور وخوض کے تین نکتے ہیں:
۱- مجموعہ ”فضائل اعمال“ کی معتبریت اس کے مصادر ومآخذ کے
آئینے میں کیا ہے؟
۲- حدیثوں سے استدلال واستشہاد کے وقت کیا اصطلاحی اعتبار سے
ان کا صحیح ہونا ضروری ہے‘ یا اس سے کم تردرجہ کی حدیثیں بھی کافی ہیں؟ اگر ہیں تو
کس حد تک؟ علماء امت کا کیا معمول رہا ہے؟
۳- ترغیب وترہیب کے باب میں نصوص قرآن وسنت کے علاوہ بزرگوں کے
اقوال‘ افعال‘ حکایات اور منامات ومبشرات کا سہارا لینا درست ہے یا نہیں؟ اگر ہے
تو کس حد تک؟
پہلا نکتہ
پوری کتاب پر سرسری نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ براہ راست جن
مصادر ومآخذ سے حضرت شیخ
نے استفادہ کیا ہے ان کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز ہے‘ کسی بھی باب کاآغاز ان قرآنی
آیات سے فرماتے ہیں جن سے زیر بحث موضوع پر صراحتاً‘ دلالتاً‘ یا اشارتاً روشنی
پڑتی ہو‘ پھر مختلف کتب تفسیر وغیرہ کی ورق گردانی کے بعد ان کی مناسب تشریح
وتوضیح فرماتے ہیں‘ اس میں زیادہ تراعتماد تفسیر ابن کثیر اور حافظ سیوطی کی الدر
المنثور پر ہوتا ہے جو تفسیری روایات کے اہم ومستند مجموعے ہیں۔پھر احادیث کے
انتخاب میں عموماً درج ذیل کتابوں پر اعتماد فرماتے ہیں:
۱- الترغیب والترہیب للحافظ عبد العظیم بن عبد القوی المنذری
(ت:۶۵۶ھ) شروع سے آخر تک دیکھ لی جائے سب سے زیادہ حدیثیں اسی کتاب سے شیخ نے لی
ہیں‘ اس لئے ”فضائل اعمال“ کی کسی ایسی حدیث پر تنقید جو ترغیب منذری سے ماخوذ ہو‘
درحقیقت حافظ منذری رحمہ اللہ پر تنقیدہوگی۔
حافظ منذری کی حدیث میں مہارت تامہ کی تعریف حافظ ذہبی نے کی ہے‘ منذری کے شاگرد حافظ عز الدین الحسینی (ت:۶۹۵ھ) کی زبانی ان کے مقام ومرتبہ کو سنئے‘ فرماتے ہیں:
حافظ منذری کی حدیث میں مہارت تامہ کی تعریف حافظ ذہبی نے کی ہے‘ منذری کے شاگرد حافظ عز الدین الحسینی (ت:۶۹۵ھ) کی زبانی ان کے مقام ومرتبہ کو سنئے‘ فرماتے ہیں:
”کان عدیم النظیر فی معرفة علم الحدیث علی
اختلاف فنونہ‘ عالماً بصحیحہ‘ وسقیمہ‘ ومعلولہ‘ متبحراً فی معرفة احکامہ‘ ومعانیہ‘
ومشکلہ‘ قیماً بمعرفة غریبہ‘ واعرابہ‘ واختلاف الفاظہ‘ ماہراً فی معرفة رواتہ
وجرحہم وتعدیلہم‘ ووفیاتہم‘ وموالیدہم‘ واخبارہم اماماً‘ حجة‘ ثبتاً‘ ورعاً‘
متحریاً فیما یقولہ وینقلہ‘ متثبتا فیما یرویہ ویتحملہ‘ اھ“ (تقدمہ جواب الحافظ
المذری للاستاذ الشیخ ابو غدة ص:۲۹ نقلاً عن کتاب ”المنذری وکتابہ لوفیات
النقلہ للدکتور بشار عواد)
یعنی تمام علوم حدیث کی معرفت میں اپنی نظیر آپ تھے‘ حدیثوں
میں صحیح‘ ضعیف‘ معلل کے شناور تھے‘ حدیثوں کے معانی اور ان کے مدلول فقہی‘ مشکل
کلمات کے ضبط‘ متعارض ومختلف الفاظ حدیث میں تطبیق وترجیح کے ماہر‘ راویان حدیث کی
جرح وتعدیل‘ ان کے حالات ‘ ولادت ووفات کی معرفت تامہ رکھتے تھے‘ بذات خود ثقہ حجت
اور متقی تھے‘ جو کچھ نقل کرتے پوری چھان پھٹک کے بعد کرتے۔
ترغیب وترہیب میں مصنف نے (۳۰) امہات کتب حدیث سے انتخاب کیا
ہے جس میں صحیح‘ حسن‘ ضعیف‘ واہی ہرطرح کی حدیثیں جمع کی ہیں‘ بلکہ بعض حدیثوں پر
بعض حضرات نے وضع کا بھی حکم لگایاہے‘ یہ کتاب آپ نے اپنے بعض زاہد صفت اور عملی
ترقی کے خواہش مند طلبہ کے اصرار پر ان کے حسن نیت اور اخلاص کو دیکھتے ہوئے لکھی‘
اور انہیں خیال تک نہ گذرا کہ کہیں روح جہاد ان سے ختم نہ ہوجائے‘ ان کا عقیدہ
فاسد نہ ہوجائے اور یہ صرف مسجد کے لوٹے بن کر اپنا دین دنیا برباد نہ کر لیں۔
کتاب کے مشتملات کی استنادی حیثیت جاننے کے لئے مصنف کی درج
ذیل عبارت بغور پڑھئے:
”فان کان الحدیث صحیحاً‘ او حسناً‘ او
ماقاربہما صدرتہ بلفظہ عن‘ وکذلک ان کان مرسلاً‘ او منقطعاً‘ او معضلاً او فی
اسنادہ راوٍ مبہم‘ او ضعیف وثق‘ او ثقة ضعف‘ وبقیة رواة الاسناد ثقات اوفیہم کلام
لایضر‘ اور روی مرفوعاً‘ والصحیح وقفہ او متصلاً‘ والصحیح‘ ارسالہ‘ او کان اسنادہ
ضعیفاً‘ لکن صححہ او حسنہ بعض من خرجہ ثم اشیر الی ارسالہ او انقطاعہ او عضلہ او
ذلک الراوی المختلف فیہ‘ واذا کان فی الاسناد من قبل فیہ کذاب‘ او وضاع‘ اومتہم او
مجمع علی ترکہ او ضعفہ او ذاہب الحدیث او ہالک او ساقط او لیس بشئ او ضعیف جداً
اولم ارفیہ توثیقاً بحیث لایتطرق الیہ احتمال التحسین‘ صدرتہ بلفظہ روی‘ولا اذکر
ذلک الراوی ولاما قیل فیہ“۔
یعنی مصنف کے نزدیک جو حدیث صحیح‘ حسن یا ان دونوں کے قریب
ہوتی ہے اس کو تو ”عن“ کے ذریعہ شروع کرتے ہیں جو علامت ہے اس بات کی کہ حدیث قابل
عمل ہے۔
اسی طرح یہ علامت ان حدیثوں پر بھی لگاتے ہیں جن کی سند مرسل‘
منقطع یا معضل ہو‘ یا اس کا کوئی راوی نام کے بغیر مبہم طور سے مذکور ہو‘ یا جمہور
کے نزدیک ضعیف ہو‘ بعض نے اس کو ثقہ قرار دیا ہو‘ یا جمہور کے نزدیک ثقہ ہو بعض نے
اس کو ضعیف ٹھہرایا ہو‘ جبکہ سند کے بقیہ رجال ثقہ ہوں یا ان پر ایسا کلام ہو جو
مضر نہ ہو‘ ان تمام صورتوں میں حدیث کو ”عن“ سے شروع کرنے کے بعد ان کی علتیں ذکر
کرتے ہیں۔
اور اگر سند میں کوئی ایسا راوی ہو جس کو ائمہ جرح وتعدیل نے کذاب‘ وضاع‘ متہم یا متفقہ طور سے ضعیف یا متروک کہا ہو‘
اور اگر سند میں کوئی ایسا راوی ہو جس کو ائمہ جرح وتعدیل نے کذاب‘ وضاع‘ متہم یا متفقہ طور سے ضعیف یا متروک کہا ہو‘
یا ذاہب الحدیث ہالک‘ ساقط‘ لیس بشئ‘ ضعیف
جداً
وغیرہ کے الفاظ کہے ہوں‘ یا مصنف کے دیکھنے میں حدیث کی تحسین
کا کوئی امکان نہ ہو تو اس وقت اس حدیث کو ذکر کرتے وقت ”روی عن“ (صیغہٴ مجہول) سے
تعبیر کرتے ہیں اور کوئی تبصرہ نہیں کرتے‘ گویا ضعف کی دو علامتیں ہیں‘ ایک ”روی“
(صیغہٴ مجہول) کی تعبیر‘ دوسری مصنف کی خاموشی۔
دیکھئے اول الذکر صورتوں میں کئی ایک ضعف ہیں‘ لیکن حافظ منذری ترغیب وترہیب میں ان کو نقصان دہ نہیں مانتے اور مؤخر الذکر کو انتہائی ضعف کے باوجود ضعف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک حد تک باب ترغیب وترہیب میں مؤثر مان کر ذکر دیتے ہیں ۔ شیخ رحمہ اللہ بھی بالکل اسی نقش قدم پر چلتے ہوئے شدید ضعف والی حدیثوں کو ”روی عن“ سے تعبیر کرتے ہیں جیسے کہ مثال آرہی ہے:
دیکھئے اول الذکر صورتوں میں کئی ایک ضعف ہیں‘ لیکن حافظ منذری ترغیب وترہیب میں ان کو نقصان دہ نہیں مانتے اور مؤخر الذکر کو انتہائی ضعف کے باوجود ضعف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک حد تک باب ترغیب وترہیب میں مؤثر مان کر ذکر دیتے ہیں ۔ شیخ رحمہ اللہ بھی بالکل اسی نقش قدم پر چلتے ہوئے شدید ضعف والی حدیثوں کو ”روی عن“ سے تعبیر کرتے ہیں جیسے کہ مثال آرہی ہے:
شیخ محمد عبد الحئی الکتانی اپنے رسالہ ”الرحمة المرسلة فی شان
حدیث البسملة“ میں حافظ سیوطی کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ :
”اذا علمتم بالحدیث انہ فی تصانیف المنذری
صاحب الترغیب والترہیب فارووہ مطمئنین“ (کما فی تعلیق الشیخ ابوغدہ علی الاجوبة الفاضلة
ص:۹۱۲)
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ حافظ منذری اگر کسی حدیث پر اعتماد
کریں تو وہ قابل اعتماد ہے۔
۲- حافظ منذری نے اگر حاکم کا حوالہ دیا ہوتا ہے تو شیخ براہ
راست مستدرک اور اس پر حافظ ذہبی کا نوٹ بھی ملاحظہ فرماکر درج کرتے ہیں۔
۳- حافظ منذری کسی حدیث کو احمد ‘ طبرانی‘ ابو یعلیٰ‘ بزار‘ کے حوالہ سے اگر نقل کرتے ہیں تو شیخ اسی پر اکتفاء کرنے کے بجائے حافظ ہیثمی (ص:۸۰۷ھ) کی ”مجمع الزوائد“ کی طرف بھی مراجعت فرماتے ہیں‘ کیونکہ اس کتاب میں احمد‘ بزار ابویعلیٰ کے مسانید اور طبرانی کے معاجم ثلاثہ کے زوائد کو جمع کرنے کے ساتھ ان کی اسنادی حیثیت پر بھی کلام کیا گیا ہے ‘چنانچہ شیخ وہاں سے اختلاف الفاظ اور ہیثمی کا کلام نقل فرماتے ہیں۔
۳- حافظ منذری کسی حدیث کو احمد ‘ طبرانی‘ ابو یعلیٰ‘ بزار‘ کے حوالہ سے اگر نقل کرتے ہیں تو شیخ اسی پر اکتفاء کرنے کے بجائے حافظ ہیثمی (ص:۸۰۷ھ) کی ”مجمع الزوائد“ کی طرف بھی مراجعت فرماتے ہیں‘ کیونکہ اس کتاب میں احمد‘ بزار ابویعلیٰ کے مسانید اور طبرانی کے معاجم ثلاثہ کے زوائد کو جمع کرنے کے ساتھ ان کی اسنادی حیثیت پر بھی کلام کیا گیا ہے ‘چنانچہ شیخ وہاں سے اختلاف الفاظ اور ہیثمی کا کلام نقل فرماتے ہیں۔
۴- اسی طرح حافظ سیوطی کی جامع صغیر سے بکثرت نقل فرماتے ہیں
جو مختصر متون حدیث کا انتخاب صحیحین سمیت تقریباً تیس امہات کتاب سے کیا گیا ہے۔
اور حدیثوں کے درجات صحیح‘ حسن‘ ضعیف کی نشان دہی رموز کے ذریعہ کی گئی ہے‘ چنانچہ
شیخ اس سے نقل کرتے وقت ”ورقم لہ بالصحة“ وغیرہ کی تعبیر اختیار کرتے ہیں۔
۵-۶- کتب صحاح وسنن کا مشہور ومتداول مجموعہ مشکوٰة المصابیح اور جمع الفوائد (جو چودہ کتب حدیث کا مجموعہ ہے) سے بھی گاہ بگاہ انتخاب کرتے ہیں۔
۷۔ فضائل درود میں خاص طور سے زیادہ انحصار حافظ شمس الدین
سخاوی (ت:۹۰۲ھ) کی ”القول البدیع فی الصلاة علی الحبیب الشفیع“ پر ہے‘ اور حافظ
سخاوی اپنے ذوق تنقید‘ وسعت نظر اور اعتدال پسندی میں ممتاز ہیں‘ ان کی کتاب
”المقاصد الحسنہ“ لوگوں میں رائج اور زبان زد حدیثوں کی تحقیق میں مرجع نہیں‘ بلکہ
عمدة المراجع کی حیثیت رکھتی ہے۔
مذکورہ بالا معروضات سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی
کہ”مجموعہ فضائل اعمال“ اپنے حدیثی مآخذ کے اعتبار سے معتبر کتاب ہے۔
ایک خلجان
البتہ ایک خلجان ہنوز باقی ہے کہ حضرت شیخ رحمہ اللہ آیات
واحایث کی تشریح کے ذیل میں بکثرت ایسی کتابوں کے حوالے سے احادیث وآثار نقل کرتے
ہیں جن کی استنادی حیثیت کمزور ہے اور ان میں موضوعات کی کثرت ہے‘ نیز وہ حدیثیں
دوسری مستند کتب میں نہیں ملتیں‘ مثلاً:فقیہ ابو اللیث سمرقندی کی ”تنبیہ الغافلین“ (جس کے متعلق
حافظ ذہبی نے فرمایا : ”فیہ موضوعات کثیرة“ سیر اعلام النبلاء ۱۶/۳۲۳) یا جیسے
”قرة العیون“ (جس کو شیخ نے تو جگہ جگہ فقیہ ابو اللیث ہی کی طرف منسوب کیا ہے‘
لیکن مجھے کافی تلاش کے باوجود ان کی اس نام کی کوئی کتاب نہیں ملی‘ بلکہ یہ کتاب
درحقیقت شیخ ابوبکر الاحسائی کی ہے جو حافظ ابن الجوزی کی کتاب : ”التبصرة“ کی
تلخیص واختصار ہے۔ پورا نام ”قرة العیون المبصرة بتلخیص کتاب التبصرة“ ہے۔
بہرکیف اس میں بھی موضوعات کی تعداد خاصی ہے‘ یا جیسے امام
غزالی کی احیاء العلوم جس میں موضوعات کی
تعداد اتنی ہے کہ علامہ تاج الدین سبکی
طبقات الشافعیہ الکبریٰ (۴/۱۴۵) میں اس کی بے اصل روایات کو بیان کرنا شروع کیا تو
یہ سلسلہ اڑتیس صفحات تک پہنچ گیا یا جیسے ابن حجر عسقلانی سے منسوب ”المنبہات“ جس کا حافظ کی
طرف انتساب محتمل ہے ‘اس کتاب میں بھی موضوعات کی کثرت ہے‘ اس خلجان کا ازالہ اگلے
نکتہ میں خود بخود ہوجائے گا۔
مؤیدات وشواہد کا اہتمام
واضح رہے کہ روایت میں اگر ضعف ہوتا ہے تو کئی ایک مصادر کو کنگہال
کر اس کے شواہد ومؤیدات جمع کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،جن کی مجموعی حیثیت اس مضمون
کو وزنی بنادیتی ہے‘ مثلاً:
”روی انہ علیہ الصلاة والسلام: قال من ترک
الصلاة ‘ حتی مضی وقتہا‘ ثم قضی عذب فی النار حقباً والحقب ثمانون سنة‘ والسنة
ثلاث مائة وستون یوماً‘ کل یومٍ کان مقدارہ الف سنة کذا فی مجالس الابرار۔قلت لم
اجدہ فیما عندی من کتب الحدیث الا ان مجالس الابرار مدحہ شیخ مشائخنا الشاہ عبد
العزیز الدہلوی۔واخرج ابن کثیر‘ فی تفسیر قولہ تعالیٰ: ”فویل اللمصلین الذین ہم عن
صلاتہم ساہون“ عن ابن عباس ان فی جہنم لوادِ تستعیذ جہنم من ذلک الواد
فی کل یومٍ اربعمائة مرة اعد ذلک الوادی للمرائین من محمد ا ۔وذکر ابو اللیث
السمرقندی فی قرة العیون عن ابن عباس وہو مسکن من یوخر الصلاة عن وقتہا ۔وعن سعدبن
ابی وقاص مرفوعاً:” الذین ہم عن صلاتہم ساہون“قال:ہم الذین یؤخرون الصلاة عن
وقتہا‘ وصحح الحاکم والبیہقی وقفہ‘ واخرج الحاکم عن عبد اللہ فی جہنم بعید القعر‘
خبیث الطعم‘ وقال: صحیح الاسناد“۔
ہم نے اس مثال کو اس لئے اختیار کیا کہ یہ خاص طور سے ناقدین
کے نشانہ پررہی ہے‘ حضرت شیخ کی زندگی میں اور ان کے بعد بھی خوب اعتراضات ہوئے‘
اس کو نقل کرنے کے بعد شیخ نے خود لکھا کہ مجالس الابرار میں ایسے ہی ہے‘ مجھے
اپنے پاس موجود کتب میں نہیں ملی‘ ہاں مسند الہند شاہ عبد العزیز دہلوی رحمہ اللہ
نے اس کتاب کی تعریف کی ہے‘ اس کے باوجود شیخ جانتے ہیں کہ اتنی بات کافی نہیں اور
چونکہ مذکورہ حدیث کا مضمون نماز کو اپنے وقت سے مؤخر کرکے پڑھنے پر سخت وعید ہے‘
اس لئے:
۱- تفسیر ابن کثیر سے
”فویل للمصلین الذین ہم عن صلاتہم ساہون
الذین ہم یراؤن“
کی تفسیر میں حضرت ابن عباس کا اثر (جو حکماً مرفوع ہے) نقل کیا
کہ جہنم میں ایک وادی ہے جس سے جہنم ہر روز چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے جو امت کے
ان ریاکاروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔ ۲- پھر قرة العیون سے ابن عباس کا اثر نقل کیا کہ یہ وادی ان لوگوں
کا ٹھکانہ ہے جو نماز قضا کرکے پڑھتے ہیں۔
۳- اور یہی مضمون حضرت سعد بن ابی وقاص سے بھی مرفوعاً نقل کیا ہے اور حاکم وبیہقی نے اس کا موقوف ہونا ہی صحیح قرار دیا ہے۔
غور کیجئے مجموعی طور سے یہ معلوم ہوا کہ نماز میں غفلت کرنے اور قضا کرکے پڑھنے والے کی سزا جہنم میں سخت ترین رکھی گئی ہے‘ خواہ ایک حقب کی تعیین ثابت نہ ہو‘ اسی لئے جب بعض حضرات نے شیخ کو اس کے خارج کرنے کا مشورہ دیا تو شیخ نے جواب دیا کہ:”ابھی تک اس ناکارہ کی سمجھ میں اس حدیث کے نکالنے کی وجہ سمجھ میں نہآئی“۔ (کتب فضائل پر اشکالات ص:۱۳۱)
۳- اور یہی مضمون حضرت سعد بن ابی وقاص سے بھی مرفوعاً نقل کیا ہے اور حاکم وبیہقی نے اس کا موقوف ہونا ہی صحیح قرار دیا ہے۔
غور کیجئے مجموعی طور سے یہ معلوم ہوا کہ نماز میں غفلت کرنے اور قضا کرکے پڑھنے والے کی سزا جہنم میں سخت ترین رکھی گئی ہے‘ خواہ ایک حقب کی تعیین ثابت نہ ہو‘ اسی لئے جب بعض حضرات نے شیخ کو اس کے خارج کرنے کا مشورہ دیا تو شیخ نے جواب دیا کہ:”ابھی تک اس ناکارہ کی سمجھ میں اس حدیث کے نکالنے کی وجہ سمجھ میں نہآئی“۔ (کتب فضائل پر اشکالات ص:۱۳۱)
دوسرا نکتہ
اس میں شک نہیں کہ اصل کتابِ ہدایت قرآن کریم ہے ،حدیثِ نبوی
اس کی تفسیر وتشریح ہے، جس کو نظر انداز کرکے صرف قرآن کے ذریعہ راہ یاب نہیں ہوا
جاسکتا‘ جیساکہ قرآنی ارشاد اس پر صریح دلالت کررہا ہے:
”وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل
الیہم “
اور حدیث ایک اتھاہ سمندر ہے‘ سرکار دوعالم ا کی تئیس سالہ
زندگی میں آپ کے اقوال‘ افعال‘ تقریرات خلقی وخُلقی احوال کا مجموعہ جو دربار نبوی
کے حاضرباش صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذریعہ نقل در نقل ہوتا ہوا امت کوپہنچا
ہے، روایت وردایت کے اعتبار سے اس کی صحت وصداقت کو جانچنے کے لئے محدثین اور
فقہاء امت نے اس قدر ممکنہ تدابیر وقوانین اپنائے جو صرف اور صرف اسی امت محمدیہ
کی خصوصیت ہیں‘ ثبوت واستناد کے اعتبار سے حدیثوں کے مختلف درجات قائم کئے ،جن کو
صحیح‘ حسن‘ ضعیف وغیرہ سے جانا جاتا ہے ‘ چنانچہ عمل اور استدلال کے اعتبار سے بھی
ان میں فرق مراتب لابدی امر ہے۔
حدیث صحیح کی پانچ شرطیں ہیں: ۱:․․․سند کا اتصال۲:․․․ راویوں کی عدالت۳:․․․ ضبط ۴:․․․ شذوذ ۵:․․․علت قادحہ سے محفوظ ہونا۔
حدیث حسن بھی انہیں صفات کی حامل ہوتی ہے‘ البتہ اس کے کسی
راوی میں ضبط کے اعتبار سے معمولی کمی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اس کی حدیث نہ تو
صحیح کہی جاسکتی ہے اور نہ ہی ضعیف میں شمار ہوتی ہے۔
حسن کی ایک قسم وہ ضعیف ہے جو تعدد طرق کی وجہ سے قوت پاکر حسن
بن جاتی ہے اور جو حدیث اس سے بھی فروتر ہو وہ ضعیف کہلاتی ہے، جس کے مراتب مختلف
ہوتے ہیں، سب سے گھٹیا موضوع ہے۔
صحیح اور حسن کے تو قابل استدلال ہونے میں کوئی اختلاف نہیں
ہے۔ چنانچہ جمیع ابواب دین میں ان سے استدلال کیا جاتا ہے‘ البتہ ضعیف کے سلسلہ
میں علماء کا اختلاف ہے‘ جمہور کا خیال ہے کہ احکام یعنی حلال وحرام کے باب میں تو
ضعیف کو حجت نہیں بنایا جاسکتا ہے‘ البتہ ”فضائل اعمال“ ترغیب وترہیب‘ قصص‘ مغازی
وغیرہ میں اس کو دلیل بنایا جاسکتا ہے بشرطیکہ موضوع نہ ہو ‘ چنانچہ ابن مہدی‘ امام احمد وغیرہم سے منقول ہے:
”اذا روینا فی الحلال والحرام شددنا، واذا
روینا فی الفضائل ونحوہا تساہلنا“ (فتح المغیث‘ وظفر الامانی ص:۱۸۲ نقلاً عنہ)
بعض کے نزدیک باب احکام میں بھی حجت ہے، جبکہ دوسرے بعض کے
نزدیک سرے سے حجت نہیں۔
”قال العلامة اللکنوی بعد ذکرہ الآراء
الثلاثة فی المسئلة: ومنع ابن العربی العمل بالضعیف مطلقاً‘ ولکن قد حکی النووی فی
عدة من تصانیفہ اجماع اہل الحدیث وغیرہم علی العمل بہ فی فضائل الاعمال ونحوہا
خاصة ،فہذہ ثلاثة مذاہب“ اھ (الاجوبة الفاضلة)
اور جیساکہ آگے معلوم ہوگا کہ جمہور عملاً باب احکام میں بھی
ضعاف کو کسی نہ کسی وجہ میں قابل عمل مانتے ہیں۔
بدقسمتی سے آج بعض حلقوں کی جانب سے پوری شد ومد کے ساتھ یہ
غلط فہمی پھیلائی جارہی ہے کہ ضعیف حدیث قطعاً ناقابل اعتبار ہے‘ اس کا محل موضوع
کی طرح ردی کی ٹوکری ہے، حجت صرف صحیح حدیث ہے‘ صحیح کے مصداق میں کچھ باشعور
حضرات حسن کو تو شامل کر لیتے ہیں‘ ورنہ عام سطح کے لوگ اس کے بھی روادار نہیں
ہیں‘ اور بعض غلو پسند طبیعتیں تو صحیحین کو چھوڑ کر بقیہ کتب حدیث کو۔ ”صحیح
الکتاب الفلانی“ و”ضعیف الکتاب الفلانی“ جیسے عمل جراحی کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں‘
اور اپنے اجتہاد کے مطابق اہم کتب حدیث کی حدیثوں کو صحیح اور ضعیف دوخانوں میں
تقسیم کرکے شائع کیا جانے لگا ہے۔ فالی اللہ المشتکیٰ۔آیئے ضعیف حدیثوں کی
استدلالی حیثیت کا مختصراً جائزہ لیں۔
ضعیف حدیث باب احکام میں
جہاں تک احکامِ شرعیہ میں ضعیف حدیث کے استعمال کا تعلق ہے تو
جمہور محدثین وفقہاء کے طرز عمل سے صاف ظاہر ہے کہ ضعیف سے حکم شرعی پر استدلال
کیا جاسکتا ہے ،جبکہ ضعف شدید نہ ہو یعنی سند میں کوئی متہم یا کذاب راوی نہ ہو‘
ضعیف حدیث سے استدلال کی چند صورتیں ہیں۔
پہلی صورت
مسئلہ میں اس کے علاوہ کوئی مضبوط دلیل نہ ہو، مختلف مکاتب فکر
کے تعلق سے اس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
الف :۔ حنفیہ
امام ابوحنیفہ
کا ارشاد ہے:
”الخبر الضعیف عن رسول اللہ ا اولیٰ من
القیاس‘ ولایحل القیاس مع وجودہ“۔ (المحلیٰ لابن حزم ۳/۱۶۱)
یعنی باب میں اگر ضعیف حدیث بھی موجود ہو تو قیاس نہ کرکے اس
سے استدلال کیا جائے گا۔ چنانچہ:
۱-نماز میں قہقہہ سے نقض وضو والی حدیث بااتفاق محدثین ضعیف
ہے۔ آپ نے اس کو قیاس پر مقدم کیا۔
۲- ”اکثر الحیض عشرة ایام“ یہ حدیث بااتفاق محدثین ضعیف ہے‘
حنفیہ نے اس کو قیاس پر مقدم کیا۔
۳- ”لامہر اقل من عشرة دراہم“ اس کے ضعف پر محدثین متفق ہیں اور
حنفیہ نے قیاس نہ کرکے اس کو معمول بہ بنایا۔ (اعلام الموقعین ۱/۳۱‘۳۲)—
۲- محقق ابن الہام فرماتے
ہیں: ”الاستحباب یثبت بالضعیف غیر الموضوع“ ضعیف جو موضوع کی حد تک نہ پہنچی ہوئی
ہو، اس سے استحباب ثابت ہوتا ہے۔ (فتح القدیر باب النوفل ۲/۱۳۹)
مثلاً :۱ :۔حاشیة الطحطاوی علی المراتی وغیرہ میں مغرب کے بعد
چھ رکعات (جنہیں صلاة الاوابین کہتے ہیں) کو مستحب لکھا ہے ،دلیل حضرت ابوہریرہ کی
حدیث:
”من صلی بعد المغرب ست رکعات لم یتکلم فیما
بینہن بسوء عدلن لہ بعبادة ثنتی عشرة سنة“
امام ترمذی نے اس حدیث کو عمر بن ابی خثعم کے طریق سے روایت
کرکے فرمایا :
”حدیث ابی ہریرة حدیث غریب لانعرفہ الا من
حدیث زید بن الحباب عن عمر بن ابی خثعم“۔
امام بخاری
نے عمر کو منکر الحدیث کہا اور بہت ضعیف قرار دیا‘ حافظ ذہبی نے میزان میں فرمایا:
”لہ حدیث منکر ان من صلی بعد المغرب ست رکعات
ووہّاہ ابو زرعہ“۔
۲:۔ مردہ کو دفن کرتے وقت تین لپ مٹی ڈالنا‘ پہلی بار ”منہا خلقناکم “ دوسری بار ”فیہا نعیدکم“ اور تیسری بار ”ومنہا نخرجکم تارة اخریٰ“ پڑھنے کو(طحطاوی ص:۶۱۰) میں مستحب
لکھا ہے‘ دلیل حاکم واحمد کی حدیث بروایت ابو امامہ کہ جب حضرت ام کلثوم بنت النبی اکو قبر میں رکھا گیا تو
رسول اللہا نے پڑھا:
”منہا خلقناکم الخ آخر میں بسم اللّٰہ‘ وفی
سبیل اللّٰہ‘ وعلی ملة رسول اللّٰہ
کی زیادتی ہے‘ اس حدیث کی سند بہت ہی ضعیف ہے‘ ذہبی نے تلخیص میں کہا ہے
”وہو خبر واہ لان علی بن زید متروک“۔
ب:۔ مالکیہ
امام مالک
کے نزدیک مرسل بمعنی عام منقطع حجت ہے‘ جو جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے ،مالکیہ
کی معتمد ترین کتاب ”نشر النبود علی مراقی السعود“ میں ہے:’
’علم من احتجاج مالک بالمرسل ان کلاً من
المنقطع والمعضل حجة عندہم لصدق المرسل بالمعنی الاصولی علی کل منہا“ (۲/۶۳ کما فی
”التعریف باوہام من قسم السنن الی صحیح وضعیف للدکتور محمود سعید ممدوح)
ج:۔ شافعیہ
۱- مرسل حدیث امام شافعی کے نزدیک ضعیف ہے، لیکن اگر باب میں
صرف مرسل ہی ہو تو وہ اس سے احتجاج کرتے ہیں‘ حافظ سخاوی نے ماوردی کے حوالہ سے یہ بات فتح
المغیث میں نقل کی ہے۔ (۱/۲۷۰)
۲- حافظ ابن قیم نے نقل کیا ہے کہ امام شافعی کے نزدیک ضعیف حدیث قیاس پر مقدم ہے۔ چنانچہ انہوں نے صیدؤج( طائفہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے ‘ شوافع کے نزدیک وہاں شکار کرنا منع ہے)۔ کی حدیث کو ضعیف کے باوجود قیاس پر مقدم کیا۔ حرم مکی کے اندر اوقات مکروہہ میں نماز پڑھنے کے جواز والی حدیث کو ضعیف کے باوجود قیاس پر مقدم کیا۔
”من قاء اورعف: فلیتوضأ‘ ولیبن علی صلاتہ“
کو اپنے ایک قول کے مطابق باوجود ضعف کے قیاس پر ترجیح دی۔
(اعلام الموقعین ۱/۳۲)
د:۔حنابلہ
۱- ابن النجار حنبلی نے شرح الکوکب المنیر ۲/۵۷۳ میں امام احمد
کایہ قول نقل کیا ہے:
”لست اخالف ما ضعف من الحدیث اذا لم یکن فی
الباب ما یدفعہ“
یعنی باب میں ضعیف حدیث ،ہواور اس کے معارض کوئی دلیل نہ ہو تو
میں اس کو چھوڑ تا نہیں ہوں۔
۲- حافظ ہروی نے ذم الکلام میں امام عبد اللہ بن احمد سے نقل
کیا ہے کہ :”میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ ایک شخص کو مسئلہ درپیش ہے‘ اور شہر میں
ایک محدث ہے جو ضعیف ہے (ایک روایت میں‘ جو صحیح وسقیم میں تمیز نہیں کرپاتا) اور
ایک فقیہ ہے جو اہل رائے وقیاس میں سے ہے‘ وہ کس سے مسئلہ پوچھے؟ فرمایا: اہل رائے
سے تو پوچھے نہیں، کیونکہ ضعیف الحدیث ،قوی الرأے سے بہتر ہے۔ “ (ذم الکلام ۲/۱۷۹‘
۱۸۰)
۳- فقہ حنبلی کی مستند ترین کتاب ”المغنی“ میں ابن قدامہ نے لکھا کہ:
”النوافل الفضائل لایشترط صحة الحدیث فیہا“
نیز امام کے خطبہ کے دوران حاضرین کے احتباء (اس طرح بیٹھنا کہ
سرین زمین پر ہو‘ دونوں گھٹنے کھڑے ہوں اور دونوں بازؤں یا کسی کپڑے وغیرہ سے
انہیں باندھ لیا جائے) کی بابت لکھا کہ کوئی حرج نہیں،کیونکہ چند ایک صحابہ سے
مروی ہے، لیکن بہتر نہ کرنا ہے‘ کیونکہ حضور ا سے مروی ہے کہ آپ نے امام کے خطبہ
کے دوران حبوة سے منع فرمایا ہے‘ اس لئے اگرچہ حدیث ضعیف ہے ،افضل حبوة کا ترک ہی
ہے۔(المغنی ۲/۸۸‘۲۰۶)
ھ:۔ فقہاء محدثین
۱- حافظ ذہبی
نے امام اوزاعی کے متعلق لکھا کہ: ”وہ مقطوعات اور اہل شام کے مراسیل سے استدلال
کرتے تھے۔ “ (سیر اعلام النبلاء ۷/۱۱۴)
۲- امام ابوداود کے متعلق حافظ ابن مندہ نے کہا :
۲- امام ابوداود کے متعلق حافظ ابن مندہ نے کہا :
”ویخرج الاسناد الضعیف اذا لم یجد فی الباب
غیرہ لانہ اقوی عندہ من رأی الرجال“
یعنی امام ابوداود
کا مذہب ہے کہ جب کسی باب میں انہیں ضعیف حدیث کے علاوہ کوئی حدیث نہیں ملتی تو
اسی کا اخراج کر لیتے ہیں‘ کیونکہ ضعیف حدیث ان کے نزدیک قیاس سے قوی تر ہے۔
و:۔ ظاہریہ
ابومحمد ابن حزم ظاہری جن کا تشدد مشہور ہے، محلی ۳/۶۱ میں
رکوع سے پہلے قنوت پڑھنے سے متعلق حدیث بروایت حسن بن علی لائے‘ اور اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ:
یہ حدیث اگرچہ اس لائق نہیں کہ اس سے استدلال کیا جائے‘ لیکن چونکہ رسول اللہ ا سے
اس سلسلہ میں اور کوئی حدیث ہمیں نہیں ملی ،اس لئے ہم اسے اختیار کرتے ہیں۔
دوسری صورت
اگر ضعیف حدیث پر عمل کرنے میں احتیاط ہو تو اس کو تمام حضرات
اختیار کرتے ہیں‘ چنانچہ امام نووی
نے ”اذکار میں عمل بالضعیف کی استثنائی صورتوں کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
”الا ان یکون فی احتیاط فی شئ من ذلک کما اذا
ورد حدیث ضعیف بکراہة بعض البیوع والانکحة‘ فالمستحب ان یستزہ عنہ“
اس کی شرح میں ابن علان نے مثال دی کہ جیسے فقہاء کرام نے دھوپ
سے گرم کئے ہوئے پانی کے استعمال کو مکروہ لکھا ہے، حدیث حضرت عائشہ کی بناء پر جو ضعیف ہے۔ (شرح الاذکار
۱/۶۸‘ ۷۸- کما فی التعریف باوہام الخ)
تیسری صورت
اگر کسی آیت یا صحیح حدیث میں دو یا دو سے زائد معنوں کا
احتمال ہو اور کوئی ضعیف حدیث ان معانی میں سے کسی ایک معنی کو راجح قرار دیتی ہو،
یا دو یا چند حدیثیں متعارض ہوں اور کوئی حدیث ضعیف ان میں سے کسی ایک کو ترجیح
دیتی ہو تو علماء امت اس موقع پر ضعیف حدیث کی مدد سے ترجیح کا کام انجام دیتے
ہیں۔
کچھ اور صورتیں
اس کے علاوہ کسی ثابت شدہ حکم کی مصلحت وفائدہ معلوم کرنے کے سلسلہ
میں بھی ضعیف کا سہارا لیا جاتا ہے‘ نیز حدیث ضعیف اگر متلقی بالقبول ہوجائے اور
اس کے مطابق فقہاء یا عام امت کا عمل ہوجائے تو ضعیف، ضعیف ہی نہیں رہتی اور اس کے
ذریعہ وجوب اور سنیت تک کا ثبوت ہوتا ہے۔تفصیل کے لئے دیکھئے : ”اثر الحدیث الشریف
فی اختلاف الائمة الفقہاء للشیخ محمد عوامة“ اور ”الاجوبة الفاضلة“ کے آخر میں شیخ
حسین بن محسن کا مقالہ۔
سید احمد بن الصدیق الغماری المالکی رحمہ اللہ کی اس چشم کشا
عبارت کے ترجمہ پر اس کڑی کو یہیں ختم کیا جارہا ہے فرماتے ہیں:
”احکام شرعیہ میں ضعیف سے استدلال کوئی مالکیہ ہی کے ساتھ خاص نہیں‘ بلکہ تمام ائمہ استدلال کرتے ہیں ‘ اس لئے یہ جو مشہور ہے کہ” احکام کے باب میں ضعیف پر عمل نہیں کیا جائے گا“۔اپنے عموم واطلاق پر نہیں ہے، جیساکہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں‘ کیونکہ ہر مسلک کی ان احادیث احکام کا آپ جائزہ لیں ،جن سے سب نے یا بعض نے استدلال کیا ہے تو آپ کومجموعی طور سے ضعیف حدیثوں کی مقدار نصف یا اس سے بھی زائد ملے گی‘ ان میں ایک تعداد منکر‘ ساقط‘ اور قریب بموضوع کی بھی ملے گی‘ البتہ بعض کے متعلق وہ کہتے ہیں ”اس کو تلقی بالقبول حاصل ہے“ بعض کے متعلق ”اس کے مضمون پر اجماع منعقد ہے“ بعض کے متعلق ”یہ قیاس کے موافق ہے“ مگر ان سب کے علاوہ ایسی بہت سی حدیثیں بچیں گی جن سے ان کی تمام ترعلتوں کے باوجود استدلال کیا گیا ہے اور یہ قاعدہ کہ ”احکام میں ضعیف حدیث پر عمل نہیں کیا جائے گا“ یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے‘ کیونکہ شارع علیہ السلام سے جو کچھ منقول ہے ،اگرچہ اس کی سند ضعیف ہو ،اسے چھوڑ کر دوسری دلیل اختیار نہیں کی جاسکتی‘ اور ضعیف کے متعلق یہ قطعی نہیں کہاجا سکتا کہ یہ آں حضرت ا سے ثابت نہیں ہے، جبکہ وہ موضوع نہ ہو‘ یا اس سے قوی اصل شرعی سے معارض نہ‘ لہذا اقوی دلیل کی عدم موجودگی میں ضعیف سے استدلال کو ہمیں برا سمجھنے کی بجائے اولیٰ بلکہ واجب کہنا چاہئے‘ ہاں یہ بات ضرور بری ہے کہ اس کے تئیں یہ رویہ اپنائیں کہ پسندیدگی اور اپنے مذہب کے موافق ہونے کے وقت تو اس پر عمل کریں اور ناپسندیدگی یا اپنے مذہب کے خلاف ہونے پر ضعیف کہہ کرردکردیں انتہی۔“
(المثنونی والتبار: ۱/۱۸۰‘ ۱۸۱ کما فی التعریف)
”احکام شرعیہ میں ضعیف سے استدلال کوئی مالکیہ ہی کے ساتھ خاص نہیں‘ بلکہ تمام ائمہ استدلال کرتے ہیں ‘ اس لئے یہ جو مشہور ہے کہ” احکام کے باب میں ضعیف پر عمل نہیں کیا جائے گا“۔اپنے عموم واطلاق پر نہیں ہے، جیساکہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں‘ کیونکہ ہر مسلک کی ان احادیث احکام کا آپ جائزہ لیں ،جن سے سب نے یا بعض نے استدلال کیا ہے تو آپ کومجموعی طور سے ضعیف حدیثوں کی مقدار نصف یا اس سے بھی زائد ملے گی‘ ان میں ایک تعداد منکر‘ ساقط‘ اور قریب بموضوع کی بھی ملے گی‘ البتہ بعض کے متعلق وہ کہتے ہیں ”اس کو تلقی بالقبول حاصل ہے“ بعض کے متعلق ”اس کے مضمون پر اجماع منعقد ہے“ بعض کے متعلق ”یہ قیاس کے موافق ہے“ مگر ان سب کے علاوہ ایسی بہت سی حدیثیں بچیں گی جن سے ان کی تمام ترعلتوں کے باوجود استدلال کیا گیا ہے اور یہ قاعدہ کہ ”احکام میں ضعیف حدیث پر عمل نہیں کیا جائے گا“ یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے‘ کیونکہ شارع علیہ السلام سے جو کچھ منقول ہے ،اگرچہ اس کی سند ضعیف ہو ،اسے چھوڑ کر دوسری دلیل اختیار نہیں کی جاسکتی‘ اور ضعیف کے متعلق یہ قطعی نہیں کہاجا سکتا کہ یہ آں حضرت ا سے ثابت نہیں ہے، جبکہ وہ موضوع نہ ہو‘ یا اس سے قوی اصل شرعی سے معارض نہ‘ لہذا اقوی دلیل کی عدم موجودگی میں ضعیف سے استدلال کو ہمیں برا سمجھنے کی بجائے اولیٰ بلکہ واجب کہنا چاہئے‘ ہاں یہ بات ضرور بری ہے کہ اس کے تئیں یہ رویہ اپنائیں کہ پسندیدگی اور اپنے مذہب کے موافق ہونے کے وقت تو اس پر عمل کریں اور ناپسندیدگی یا اپنے مذہب کے خلاف ہونے پر ضعیف کہہ کرردکردیں انتہی۔“
(المثنونی والتبار: ۱/۱۸۰‘ ۱۸۱ کما فی التعریف)
خلاصہ کلام یہ کہ جب باب احکام میں ضعیف حدیث مقبول تو دیگر
ابواب میں بدرجہ اولیٰ مقبول ہوگی۔
ضعیف حدیث باب احکام کے علاوہ میں
جیساکہ عرض کیا گیا کہ ضعیف غیر موضوع عقائد واحکام کے علاوہ
جمہور کے نزدیک قابل عمل ہے، عقائد واحکام کے باب میں تشدد اور فضائل ‘ترغیب
وترہیب اور مناقب وغیرہ میں تساہل کی بات حافظ سخاوی نے امام احمد‘ ابن معین‘ ابن المبارک ،سفیان ثوری اورابن عینیہ سے نقل کی ہے۔
حافظ نووی نے تو اس پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے، اپنی کتاب ”جزء اباحة القیام لاہل الفضل“میں فرماتے ہیں۔
حافظ نووی نے تو اس پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے، اپنی کتاب ”جزء اباحة القیام لاہل الفضل“میں فرماتے ہیں۔
”اجمع اہل الحدیث وغیرہم علی العمل فی
الفضائل ونحوہا مما لیس فیہ حکم‘ ولاشئ من العقائد‘ وصفات اللّٰہ تعالیٰ بالحدیث
الضعیف“۔ (نقلاً عن التعریف باوہام․․․)
امام نووی کی ”الاربعین“ اور اس کی شرح ”فتح المبین“ لابن حجر
المکی الہیثمی کے الفاظ میں:
”قد اتفق العلماء علی جواز العمل بالحدیث فی
فضائل الاعمال ،لانہ ان کان صحیحاً فی نفس الامر‘ فقد اعطی حقہ، والا لم یترتب علی
العمل بہ مفسدة تحلیل ولاتحریم‘ ولاضیاع حق الغیر“۔ (الاجوبة الفاضلة ص:۴۳)
”یعنی فضائل اعمال“ میں ضعیف حدیث پر عمل کے بارے میں علماء کا
اتفاق ہے‘ کیونکہ اگر وہ واقعتاً صحیح تھی تو اس کا حق اس کو مل گیا‘ ورنہ اس پر
عمل کرنے سے نہ تو حرام کو حلال کرنا لازم آیا اور نہ اس کے برعکس اور نہ ہی کسی
غیر کا حق پامال کرنا“۔
معلوم ہوا کہ مسئلہ اجماعی ہے‘ اور کوئی بھی حدیث ضعیف کو
شجرہٴ ممنوعہ قرار نہیں دیتا‘ لیکن چند بڑے محدثین واساطین علم کے نام ذکر کئے
جاتے ہیں‘ جن کے متعلق یہ نقل کیا جاتا ہے کہ وہ فضائل میں بھی ضعیف حدیث پر عمل
کرنے کے قائل نہیں ہے۔ (قواعد التحدیث للشیخ جمال الدین القاسمی ص:۱۱۶)
ان اساطین میں امام بخاری،
مسلم، یحی بن معیناورابوبکر
بن العربی ہیں، بعض حضرات نے ابوشامہ مقدسی،
شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور علامہ
شوکانی کا نام بھی لیا ہے۔ تفصیل کا تو موقع
نہیں‘ آیئے ان حضرات کی آراء کے متعلق کچھ تحقیق کرلیں:
امام بخاریکا موقف
علامہ جمال الدین قاسمی” صاحب قواعد التحدیث“ کے بقول بظاہر
امام بخاری کا مذہب مطلقاً منع ہے اور یہ نتیجہ
انہوں نے صحیح بخاری کی شرائط اور اس میں کسی ضعیف حدیث کو داخل کتاب نہ کرنے سے
نکالا ہے‘ علامہ شیخ زاہد الکوثری
نے بھی اپنے مقالات (ص:۵۴) میں یہی بات کہی ہے، لیکن یہ بات درست نہیں‘ بلکہ اس
مسئلہ میں امام بخاری کا موقف بالکل جمہور کے موافق ہے۔
جہاں تک صحیح بخاری کا تعلق ہے تو اولاً: اس میں امام نے صرف
صحیح حدیثوں کا التزام کیا ہے‘ لہذا اس میں کسی ضعیف حدیث کانہ ہونااس بات کو
مستلزم نہیں کہ امام کے نزدیک ضعیف سرے سے ناقابل عمل ہے، جیساکہ کسی حدیث کا اس
میں نہ ہونا اس بات کو مستلزم نہیں کہ وہ غیر صحیح ہے‘ چنانچہ خود آپ نے احادیث
آداب واخلاق کا ایک گراں قدر مجموعہ ”الادب المفرد“مرتب فرمایا‘ جس کی شرط یقیناً
ان کی جامع صحیح سے بہت فروتر ہے، حتی کہ عصر حاضر کے بعض علم برداران حفاظت سنت
کو ”صحیح الادب المفرد“ اور ”ضعیف الادب المفرد“ کے جراحی عمل کی مشقت اٹھانی پڑی۔
اس کتاب میں امام بخاری نے ضعیف احادیث وآثار کی ایک بڑی مقدار تخریج کی ہے‘ بلکہ بعض ابواب تو آبادہی ضعیف سے ہیں ،اور آپ نے ان سے استدلال کیا ہے‘ چنانچہ اس کے رجال میں ضعیف‘ مجہول‘ منکر الحدیثاور متروک ہر طرح کے پائے جاتے ہیں‘ مثال کے طور علامہ شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ نے ”الادب المفرد“ کی شرح ”فضل اللہ الصمد“ سے بائیس احادیث وآثار اور ان کے رجال کے احوال نقل کئے ،ان میں سے بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
اس کتاب میں امام بخاری نے ضعیف احادیث وآثار کی ایک بڑی مقدار تخریج کی ہے‘ بلکہ بعض ابواب تو آبادہی ضعیف سے ہیں ،اور آپ نے ان سے استدلال کیا ہے‘ چنانچہ اس کے رجال میں ضعیف‘ مجہول‘ منکر الحدیثاور متروک ہر طرح کے پائے جاتے ہیں‘ مثال کے طور علامہ شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ نے ”الادب المفرد“ کی شرح ”فضل اللہ الصمد“ سے بائیس احادیث وآثار اور ان کے رجال کے احوال نقل کئے ،ان میں سے بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
۱- اثر نمبر ۲۳ میں: علی بن الحسین بن واقد المروزی‘ ضعیف
الحدیث۔
۲- حدیث نمبر :۴۳ میں محمد بن فلان بن طلحہ‘ مجہول‘ او ضعیف
متروک۔
۳- اثر نمبر: ۴۵ میں عبید اللہ بن موہب‘ قال احمد: لایعرف۔
۴- اثر نمبر: ۵۱ ابو سعد سعید بن البرزبان البقال الاعور‘
ضعیف۔
۵- حدیث نمبر: ۶۳ میں سلیمان ابو اِدام یعنی سلیمان بن
زید۔ضعیف لیس بثقة‘ کذاب‘ متروک الحدیث۔
۶- حدیث نمبر: ۱۱۱ میں لیث بن ابی سلیم القرشی ابوبکر: ضعیف۔
۷- حدیث نمبر :۱۱۲ میں عبد اللہ بن المساور: مجہول۔
۸- حدیث نمبر: ۱۳۷ میں یحی بن ابی سلیمان: قال البخاری: منکر
الحدیث۔
شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ نے تقریب التہذیب سے الادب
المفرد کے رجال کو کھنگالا تو مستورین کی تعداد: دو۔ ضعفاء کی تعداد: بائیس۔ اور
مجہولین کی تعداد :اٹھائیس نکلی‘ مجموعہ باون رواة۔ اس جائزہ سے بخوبی واضح ہوگیا
کہ فضائل کی حدیثوں کے تئیں امام بخاری
کا مسلک وہی ہے جو جمہور کا ہے۔
صحیح بخاری میں متکلم فیہ رجال کی حدیثیں
ثانیا خود الجامع الصحیح میں ایسی مثالیں موجود ہیں جن کی
روایت میں کوئی متکلم فیہ راوی موجود ہے، جس کی حدیثیں ،محدثین کے اصول پر کسی طرح
حسن سے اوپر نہیں اٹھ سکتی‘ بلکہ بعض حدیثوں میں ضعیف راوی منفرد ہے‘ اور اس کو
داخل صحیح کرنے کی اس کے علاوہ کوئی تاویل نہیں ہوسکتی کہ اس کا مضمون غیر احکام
سے متعلق ہے‘ اور شارحین نے یہی تاویل کی بھی ہے۔ ملاحظہ ہوں چند مثالیں:۱- حافظ
ابن حجر رحمہ اللہ نے مقدمہ فتح الباری (ص:۶۱۵) میں محمد بن عبد الرحمن الطُفاوی
کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:
”قال ابو زرعة منکر الحدیث‘ واورد لہ ابن عدی
عدة احادیث‘ قلت: لہ فی البخاری ثلاثة احادیث‘ لیس فیہا شئ مما استکرہ ابن عدی ․․․ ثالثہا فی الرقاق ”کن
فی الدنیا کأنک غریب“ وہذا تفرد بہ الطفاوی‘ وہو من غرائب الصحیح‘ وکان البخاری لم
یشدد فیہ، لکونہ من احادیث الترغیب والترہیب“۔
یہ حدیث صحیح بخاری کی غریب حدیثوں میں سے ہے۔
یعنی ”کن فی الدنیا کأنک غریب“ (بخاری کتاب الرقاق) حدیث کی روایت میں محمد بن عبد الرحمن الطفاوی منفرد ہے‘ حافظ فرماتے ہیں: شاید کہ امام بخاری نے اس کے ساتھ تساہل کا معاملہ صرف اس وجہ سے کیا ہے کہ یہ ترغیب وترہیب کی حدیثوں میں سے ہے۔
۲- عن ابی بن عباس بن سہل بن سعد‘ عن ابیہ عن
جدہ قال: کان للنبی ا فی حائطنا فرس یقال لہ اللحیف“
(کتاب الجہاد باب اسم الفرس والحمار)
حافظ
نے تہذیب التہذیب میں ابی بن عباس بن سہل کی بابت امام احمد، نسائی، ابن معیناور امام بخاری سے تضعیف کے جملے نقل کئے‘ عقیلی نے
کہا :اس کی کئی حدیثیں ہیں اور کسی پر اس کی متابعت نہیں کی گئی ہے۔ پھر حافظ نے فرمایا کہ :مذکورہ حدیث پر اس کے
بھائی عبد المہیمن بن عباس نے متابعت کی ہے‘ لیکن وہ بھی ضعیف ہے، ملاحظہ ہوں یہ
الفاظ:
”وعبد المہیمن ایضاً فیہ ضعف‘ فاعتضد‘ وانضاف
الی ذلک انہ لیس من احادیث الاحکام‘ فلہذہ الصورة المجموعة حکم البخاری بصحتہ“
انتہی۔
ابی بن عباس
کے ضعف کی تلافی اس کے بھائی سے اس قدر نہیں ہوسکی کہ حدیث کو صحیح کا درجہ دیا
جائے تو اس خلل کو اس پہلو سے پر کیا گیا کہ حدیث احکام سے متعلق نہیں ہے‘ اس لئے
چل جائے گی۔
۳- محمد بن طلحة‘ عن طلحة‘ عن مصعب بن سعد
قال: رای سعد ان لہ فضلاً علی من دونہ‘ فقال النبی ا” تنصرون وترزقون الا
بضعفائکم“۔(کتاب الجہاد وباب من استعان بالضعفاء والصالحین فی الحرب)
محمد بن طلحة بن مصرف الکوفی ان کا سماع اپنے والد سے کم سنی
میں ہوا تھا، امام نسائی،
ابن معین، ابن سعد وغیرہ نے ان کو ضعیف کہاہے ،تقریب
میں ہے: صدوق لہ اوہام‘ وانکروا سماعہ من ابیہ لصغرہ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ
مقدمہ (ص:۶۱۳) میں فرماتے ہیں۔
”صحیح بخاری میں ان کی تین حدیثیں ہیں‘ دو تو متابعت کی وجہ سے
درجہ صحت کو پہنچ جاتی ہے‘ تیسری (مذکورہ بالا حدیث) ہے‘ اس کی روایت میں محمد بن
طلحہ منفرد ہیں‘ مگر یہ ”فضائل اعمال“ سے متعلق ہے یعنی فضائل اعمال کی حدیث ہونے
کی وجہ سے چشم پوشی کی گئی۔“
امام مسلم کا موقف
علامہ جمال الدین رحمہ اللہ نے امام مسلم کے متعلق دلیل یہ دی
کہ انہوں نے مقدمہ میں ضعیف ومنکر احادیث کے روایت کرنے والوں کی سخت مذمت کی ہے
اور اپنی صحیح میں ضعیف حدیث کا اخراج نہیں کیا ہے‘ لیکن امام مسلم کی اس تشنیع سے
یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ ضعفاء سے روایت کرنا مطلقاً ناجائز ہے‘ انہوں نے تو صحیح
حدیثوں کو جمع کرنے والے پر یہ بات ضروری قرار دی ہے کہ وہ مشہور ثقہ راویوں کی
حدیثوں کو تلاش کرکے جمع کرے‘ ضعیف حدیث کے علی الاطلاق مردود ہونے پر ان سے کوئی
صراحت منقول نہیں ہے۔تاہم امام مسلم نے بعض ضعفاء کی حدیثیں صحیح میں متابعات
وشواہد کے طور پر اخراج کی ہیں، آپ نے مقدمہ میں حدیثوں کی تین قسمیں قرار دی ہیں۔
۱- وہ حدیثیں جو حفاظ متقنین کی روایت سے ہیں۔۲- وہ حدیثیں جو
ایسے لوگوں کی روایت سے ہیں جو حفظ واتقان میں متوسط اور بظاہر جرح سے محفوظ
ہیں۔۳- وہ حدیثیں جو ضعفاء ومتروکین کی روایت سے ہیں۔
امام مسلم کی اس صراحت اور صحیح میں ان کے طرز عمل کے درمیان
تطبیق میں شراح نے مختلف باتیں کہی ہیں‘ قاضی عیاض نے جو توجیہ کی‘ علامہ ذہبی اور نووی نے ا س کو پسند کیا، ا س کا خلاصہ یہ
ہے:
”امام مسلم نے جن تین طبقات کا ذکر کیا ہے ،ان میں سے آخری
طبقہ ان رواة کا ہے جن کے متہم ہونے پر تمام یا اکثر علماء کا اتفاق ہے‘ اس سے
پہلے ایک طبقہ ہے جس کا ذکر امام نے اپنی عبارت میں نہیں کیا ہے ‘ اور وہ ‘ وہ لوگ
ہیں جن کو بعض تو متہم سمجھتے ہیں اور بعض صحیح الحدیث قرار دیتے ہیں۔ یہ کل چار
طبقے ہوئے‘ میں نے امام مسلم کو پایا کہ وہ پہلے دونوں طبقوں کی حدیثیں لاتے ہیں،
اس طرح کہ باب میں اولاً طبقہٴ اولیٰ کی حدیث تخریج کرتے ہیں پھر مزید تقویت کے
لئے طبقہ ثانیہ کی حدیثیں ذکر کرتے ہیں اور جب کسی باب میں طبقہٴ اولیٰ سے کوئی
حدیث ان کے پاس نہیں ہوتی تو ثانیہ ہی کی حدیث پر اکتفاء کرتے ہیں‘ پھر کچھ ایسے
لوگوں کی حدیثیں بھی تخریج کرتے ہیں جن کی بعض نے تضعیف اور بعض نے توثیق کی ہوتی
ہے‘رہے چوتھے طبقہ کے لوگ تو ان کو آپ نے ترک کردیا ہے۔“ (مقدمہ شرح نووی)
امام ذہبی فرماتے ہیں:
”میں کہتاہوں کہ طبقہٴ اولیٰ وثانیہ کی حدیثیں مساویانہ طور پر
لیتے ہیں، ثانیہ کی معدود ے چند کو چھوڑ کر جس میں وہ کسی قسم کی نکارت سمجھتے
ہیں‘ پھر متابعات وشواہد کے طور پر طبقہٴ ثالثہ کی حدیثیں لیتے ہیں ،جن کی تعداد
بہت زیادہ نہیں‘ اصول میں تو ان کی حدیثیں شاید وباید ہی لیتے ہیں‘ یہ عطاء بن
السائب‘ لیث بن ابی سلیم‘ یزید بن ابی زیاد‘ ابان بن صمعہ‘ محمد بن اسحاق اور محمد
بن عمرو بن علقمہ اور ان کی حیثیت کے لوگ ہیں“۔ (سیر اعلاء مالنبلاء ۱۲/۵۷۵)
ایک غلط فہمی کا ازالہ
اوپر صحیحین کے تعلق سے جو کچھ عرض کیا گیا ،اس سے ممکن ہے بعض
اہل علم کو شبہ ہو کہ پھر تو صحیحین سے اعتماد اٹھ جائے گا‘ اور نتیجتاً پوراذخیرہ
حدیث مشکوک ہوجائے گا ،جب کہ صحیحین کا اصح الکتاب بعد کتاب اللہ ہونا مسلم‘ اور
متفق علیہ ہے، کیونکہ جب صحیحین تک ضعیف حدیثوں سے محفوظ نہیں رہیں تو دوسری کتب
حدیث تو بدرجہ اولیٰ محفوظ نہیں رہیں گی اور اس طرح پورا ذخیرہ حدیث مشکوک اور
ناقابل اعتبار ہوجائے گا اور منکرین حدیث کو انکار حدیث کے لئے بہا نہ ملے گا۔
اس سلسلہ میں عرض ہے کہ ہم نے یہ کہا ہی کب ہے کہ صحیحین میں
ضعیف حدیثیں بھی ہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ جمہور امت کے نزدیک حدیثوں میں صحت وحسن کا
معیار مختلف ہوتا ہے‘ باب احکام (حلال وحرام) میں سخت ہوتا ہے تو فضائل وغیرہ میں
نرم۔
چنانچہ ہم نے بخاری شریف سے جو مثالیں پیش کی ہیں ،وہ اپنی
علتوں کے باوجود فضائل وآداب کے باب کے اعتبار سے یقینا صحیح ہیں‘ اگرچہ باب احکام
میں جس درجہ کی صحت مطلوب ہوتی ہے ،وہ ان میں نہیں ہے‘ اسی لئے امام بخاری رحمہ
اللہ نے ان کو داخل صحیح کرلیا۔
اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے بعض حضرات ہرباب میں صحت وحسن
کے اسی معیار کو استعمال کرنے لگتے ہیں جو باب احکام کے لئے مخصوص ہے‘ اور وہ بھی
صرف اسنادی پہلو سے ،ا س لئے مناسب خیال کیا گیا کہ ضعیف اور متکلم فیہ رجال کی
حدیثوں کی بابت صحیحین کے مصنفین کا اصل موقف واضح کردیا جائے ،تاکہ اس مغالطہ کی
گنجائش باقی نہ رہے۔ ورنہ صحیحین کے متعلق جمہور امت کی جو رائے ہے، وہی ہمارا بھی
مسلک ہے کہ یہ دونوں کتابیں صرف صحیح احادیث کا مجموعہ ہیں۔ علامہ شبیر احمد
عثمانی نے مقدمہ ”فتح الملہم“ میں صحیحین کی
حدیثوں کے مفید قطع ویقین ہونے کے نظریہ کی مدلل تردید کرنے کے بعد صحیحین کی عظمت
ومقام کی بابت حضرت شاہ ولی اللہ کی عبارت نقل کی ہے‘ اس جگہ ہم بھی انہیں عبارات
کو نقل کرنا مناسب سمجھتے ہیں‘ علامہ عثمانی فرماتے ہیں:
”لیس غرضنا مماکتبنا فی ہذا لبحث تہوین امر
الصحیحین‘ او غیرہما من کتب الحدیث، بل المقصود نفی التعمق والغلو‘ ووضع کل شئ فی
موضعہ‘ وتنویہ شانہ بما یستحقہ‘ ونحن بحمد اللّٰہ نعتقد فی ہٰذین الکتابین
الجلیلین‘ ونقول بما قال شیخ شیوخنا ومقدم جماعتنا الشاہ ولی اللّٰہ الدہلوی فی
حجة اللّٰہ البالغة“ وہذا لفظہ:
”اما الصحیحان: فقد اتفق المحدثون علی ان جمیع ما فیہما من المتصل المرفوع صحیح بالقطع (بالتفصیل الذی ذکرنا) وانہما متواتران الی مصنفیہما وانہ غیر سبیل المؤمنین“۔ اھ
”اما الصحیحان: فقد اتفق المحدثون علی ان جمیع ما فیہما من المتصل المرفوع صحیح بالقطع (بالتفصیل الذی ذکرنا) وانہما متواتران الی مصنفیہما وانہ غیر سبیل المؤمنین“۔ اھ
ترجمہ:․․․”اس
بحث میں جو کچھ ہم نے لکھا ،اس سے ہمارا مقصد معاذ اللہ! صحیحین‘ یا دوسری کتب
حدیث کی کسر شان نہیں ہے‘ بلکہ ان کی بابت غلو کی تردید اور ہرچیز کو اس کے اصل
مقام پر رکھنے اور اس کو اس کا واجبی حق دینے کی کوشش ہے‘ ورنہ ہم بحمد اللہ! ان
دونوں عظیم الشان کتابوں کے متعلق وہی نظریہ رکھتے ہیں جو ہمارے شیخ الشیوخ اور
مقتدا حضرات شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ”حجة اللّٰہ البالغہ“ میں
فرمایا ہے۔
”رہیں صحیحین‘ تو محدثین اس پر متفق ہیں کہ ان میں جو کچھ مرفوع متصل کے قبیل سے ہے، وہ بالکل صحیح ہے اور ان کتابوں کا ثبوت ان کے مصنفین سے بطور تواتر ہے‘ بلاشبہ جو شخص بھی ان کی شان گھٹائے گا وہ بدعتی‘ گمراہ اور مسلمانوں کے راستے کے علاوہ راستہ کی پیروی کرنے والا ہوگا“۔ (مقدمہ فتح الملہم ص:۱۰۸)
”رہیں صحیحین‘ تو محدثین اس پر متفق ہیں کہ ان میں جو کچھ مرفوع متصل کے قبیل سے ہے، وہ بالکل صحیح ہے اور ان کتابوں کا ثبوت ان کے مصنفین سے بطور تواتر ہے‘ بلاشبہ جو شخص بھی ان کی شان گھٹائے گا وہ بدعتی‘ گمراہ اور مسلمانوں کے راستے کے علاوہ راستہ کی پیروی کرنے والا ہوگا“۔ (مقدمہ فتح الملہم ص:۱۰۸)
یحیٰ بن معین کا موقف
ابن سید الناس نے تو” عیون الاثر“ میں یحی بن معین کا مذہب مطلقاََردہی نقل کیا ہے اور
واقعہ یہ ہے کہ ان کا مذہب جمہور کے موافق ہے‘ شواہد درج ذیل ہیں:
۱- جیساکہ اوپر مذکور ہوا ،حافظ سخاوی نے” فتح المغیث“ میں جن چند لوگوں سے
(عقائد واحکام میں تشدد فضائل وغیرہ میں تساہل) نقل کیا ہے، ان میں ابن معین بھی ہیں۔ (فتح المغیث ۱/۴۹۷) ۲- شیخ
احمد محمد نور سیف نے ”مقدمہ تاریخ ابن معین“ میں لکھا کہ: یحیی بن معین کی محمد بن اسحاق کے متعلق جو رائیں
منقول ہیں ،ان سے قطعاً یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اس کی حدیثیں مطلقاً قابل ترک ہیں‘
چنانچہ فرمایا:
”ثقة‘ ولکن لیس بحجة“
ابن اسحاق کے شاگرد زیاد بن عبد اللہ البکائی“ کے متعلق فرمایا: ”لیس بشئ ‘ لابأس بہ فی المغازی‘
واما فی غیرہا‘ فلا“
معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک مغازی وغیرہ میں تو ابن اسحاق اور ان کے شاگرد مقبول
ہیں‘ احکام وغیرہ میں نہیں۔
۳- الکامل لابن عدی ۱/۶۶۶ میں ہے:
”عن ابن ابی مریم، قال سمعت ابن معین یقول:
ادریس بن سنان یکتب من حدیثہ الرقاق“
ابن معین کے نزدیک ادریس بن سنان کی حدیث رقاق (آداب وفضائل)
کے باب میں قابل قبول ہے‘ جبکہ یہ ضعیف ہیں۔
ابوبکر بن العربی کا موقف
یہ مالکی المسلک فقیہ ہیں‘ ان سے ایسی کوئی صراحت تو نہیں ملی
جس سے ثابت ہو کہ ان کے نزدیک فضائل اعمال میں ضعیف حدیث قابل عمل نہیں‘ البتہ اس
کے برعکس ثابت ہے۔ ۱- مرسل حدیث جوجمہور محدثین وشافعیہ کے نزدیک ضعیف ہے ،مالکیہ
کے نزدیک اس سے استدلال درست ہے، وہ خود اس بات کو نقل کرتے ہیں:
”المرسل عند نا حجة فی احکام الدین من
التحلیل والتحریم‘ وفی الفضائل‘ وثواب العبادات، وقد بینا ذلک فی اصول الفقہ“۔
(عارضة الاحوذی ۲/۲۳۷)
۲- ضعیف کے معمول بہ ہونے کی صراحت خود فرما تے ہیں:
”روی ابو عیسی حدیثاً مجہولاً: ان شئت شمتہ‘ وان
شئت فلا“ وہو ان کان مجہولاً ،فانہ یستحب العمل بہ ،لانہ دعاء بخیر‘ وصلة للجلیس‘
وتوددلہ“ اھ (عارضة ۱۰/۲۰۵)
یعنی اگرچہ یہ حدیث مجہول کی روایت سے ہے، لیکن اس پر عمل کرنا
مستحب ہے، کیونکہ اس میں خیر کی دعاء ہم نشین کی دل بستگی اور اس سے محبت کا اظہار
ہے۔
ابوشامة مقدسی کا موقف
محدث ابو شامہ مقدسی کی بات شیخ طاہر الجزائری نے توجیہ النظر ۲/۶۵۷ میں نقل کی ہے‘
انہوں نے اپنی کتاب ”الباعث علی انکار البدع والحوادث“ میں حافظ ابن عساکر دمشقی
کی ایک مجلس املاء کے حوالہ سے ماہ رجب کی فضیلت کے متعلق تین حدیثیں ذکر کیں۔ اس
کے بعد لکھا کہ:
”کنت اودّ ان الحافظ لم یذکر ذلک‘ فان فیہ
تقریراً لما فیہ من الاحادیث المنکرةفقدرہ کان اجل من ان یحدث عن رسول اللہ ا
بحدیث یری انہ کذب ،ولکنہ جری علی عادة جماعة من اہل الحدیث یتساہلون فی احادیث
الفضائل الخ“۔
یعنی کاش کہ ابن عساکر ان حدیثوں کو بیان نہ کرتے ،کیونکہ ا س
سے منکر حدیثوں کو رواج دینا ہے‘ آپ جیسے محدث کی شایان شان نہیں کہ ایک حدیث جس
کو غلط سمجھ رہے ہیں، بیان کریں۔ لیکن محدثین کی ایک جماعت جو فضائل اعمال میں
تساہل بر تتی ہے کے طریقہ کو آپ نے اختیار کیا۔
علامہ شبیر احمد عثمانی” فتح الملہم“ میں پر تبصرہ یوں فرماتے ہیں:
علامہ شبیر احمد عثمانی” فتح الملہم“ میں پر تبصرہ یوں فرماتے ہیں:
”محدث ابوشامہ نے فضائل وغیرہ میں ضعیف پر عمل کے سلسلہ میں تو کوئی نقد نہیں کیا‘ بلکہ ابن عساکر جیسے ماہر فن کے طرز عمل پر نکتہ چینی کی کہ انہوں نے ایک منکر حدیث بغیر کسی وضاحتی بیان کے عوام میں نقل فرمادی، جس سے عوام یا جس کو اس فن سے مناسبت نہیں ابن عساکر کی نقل سے دھوکہ کھانے اور اس کو ثابت سمجھنے کا اندیشہ ہے‘ جبکہ محدثین کے نزدیک یہ غیر ثابت ہے۔“
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا موقف
شیخ الاسلام ابن تیمیہ بھی فضائل وغیرہ میں ضعیف پر عمل کے
مسئلہ میں جمہور سے الگ نہیں ہوسکے‘ اس دعویٰ کا بین ثبوت ان کی کتاب ”الکلم
الطیب“ ہے، اس میں ضعیف حدیثوں کی تعداد کتنی ہے، اس کا جواب علامہ ناصر الدین
البانی دیں گے ،جنہوں نے ”صحیح الکلم الطیب“
اور” ضعیف الکلم الطیب“ میں خط امتیاز قائم کرنے کا کار نامہ انجام دیا ہے۔
(التحریف باوہام ۱/۱۰۳)
علامہ شوکانی کا موقف
اگرچہ علامہ شوکانی کی الفوائد المجموعہ (ص:۲۸۳) کی عبارت سے
پتہ چلتا ہے کہ ان کے نزدیک ضعیف حدیث مطلقاً ناقابل عمل ہے، لیکن ان کی اہم ترین
تصنیف ”نیل الاوطار“ (۳/۶۰) کی یہ عبارت ا س کی نفی کرتی ہے :
”والایات والاحادیث المذکورة فی الباب تدل
علی مشروعیة الاستکثار من الصلاة بین المغرب والعشاء والاحادیث وان کان اکثرہا
ضعیفاً فہی منتہضة لمجموعہا لاسیما فی فضائل الاعمال“۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ مغرب وعشاء کے درمیان نوافل کی کثرت سے
متعلق اکثر حدیثیں اگرچہ ضعیف ہیں لیکن مجموعی حیثیت سے مضبوط ہیں ،خاص کر فضائل
اعمال میں۔ نیز آپ کی کتاب ”تحفة الذاکرین“ کا مطالعہ کرنے والا شخص تو ہمت ہی
نہیں کرسکتا کہ ان کی طرف زیر بحث مسئلہ میں خلاف جمہور رائے کا انتساب کرے،
کیونکہ وہ تو ضعاف سے بھری پڑی ہے (ملاحظہ ہو التعریف)
ان معروضات سے یہ حقیقت آشکارا ہوگئی کہ ضعیف حدیث جبکہ موضوع
نہ ہو، باب احکام وعقائد کے علاوہ میں اجماعی طور سے پوری امت کے نزدیک قابل عمل
ہے‘ اور چونکہ فضائل‘ مناقب‘ ترغیب وترہیب سیر ومغازی کی احادیث کے ذریعہ غفلت سے
بیداری اور دین پر عمل کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، اس لئے پورے شد ومد سے ان کے خلاف
ہوا کھڑا کیا گیا ہے، تاکہ مذہبی احکام کی اہمیت کم سے کم تر ہوجائے ،پھر زیاں کے
بعد زیاں کا احساس تک باقی نہ رہے۔ یالیت قومی یعلمون۔
ضعیف حدیث پر عمل کے شرائط
ہاں یہ ضرور ہے کہ ضعیف حدیث کا ثبوت محتمل ہوتا ہے اس لئے اس
سے استدلال کے وقت کچھ امور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے‘ حافظ شمس الدین سخاوی نے
”القول البدیع“ (ص:۱۵۹) میں ابن حجر
سے نقل کیا ہے۔
ضعیف حدیث پر عمل کے لئے تین شرطیں ہیں:
۱- یہ کہ ضعف غیر شدید ہو‘ چنانچہ وہ حدیث جس طی روایت تنہا
کسی ایسے شخص کے طریق سے ہو جو کذاب یا متہہم بالکذب یا فاحش الغلط ہو خارج ہوگی۔
۲- اس کا مضمون قواعد شرعیہ میں سے کسی قاعدہ کے تحت آتا ہو
چنانچہ وہ مضمون خارج از عمل ہوگا جو محض اختراعی ہو۔ اصول شرعیہ میں سے کسی اصل
سے میل نہ کھاتا ہو (ظاہر ہے اس کا فیصلہ دیدہ در‘ بالغ نظر فقہاء ہی کر سکتے ہیں‘
جو ہر کہہ دمہ کے بس کی بات نہیں)
۳- اس پر عمل کرتے وقت اس کے ثبوت کا عقیدہ نہ رکھا جائے‘ بلکہ صرف اس کے ثواب کے حصول کی امید کے ساتھ کیا جائے‘ مبادا آں حضرت ا کی جانب ایک بات جو واقع میں آپ نے نہ فرمائی ہو‘ اس کا آپ کی طرف منسوب کرنا لازم آجائے۔
۴- مولانا عبد الحئ لکھنوی نے ایک چوتھی شرط بھی ذکر کی ہے‘ وہ
یہ کہ اس مسئلہ کے متعلق اس سے قوی دلیل معارض موجود نہ ہو۔ پس اگر کوئی قوی دلیل
کسی عمل کی حرمت یا کراہت پر موجود ہو‘ اور یہ ضعیف اس کے جواز یا استحباب کی
متقاضی ہو تو قوی کے مقتضی پر عمل کیا جائے گا۔
فضائل اعمال اور ترغیب وترہیب کا فرق
واضح رہے کہ اہل علم ضعیف حدیث کے قابل قبول ہونے کے مواقع کو
بیان کرتے ہوئے اپنی عبارتوں میں ”فضائل اعمال“ اور ”ترغیب وترہیب“ دولفظوں کا
استعمال کرتے ہیں ”فضائل اعمال“ کااطلاق ایسے موقعوں پر کرتے ہیں جہاں کوئی مخصوص
عمل پہلے سے کسی نص صحیح یا حسن سے ثابت ہونے کی بجائے کسی ضعیف حدیث میں اس عمل
کا ذکر اور اس کی فضیلت آئی ہو اور علماء امت اور فقہاء کرام اس ضعیف حدیث ہی کی
بنیاد پر اس عمل کو مستحب قرار دیتے ہیں‘ مذکورہ بالا شرطوں کے ساتھ ‘ مثلاً مغرب
کے بعد چھ رکعات کا پڑھنا‘ قبر میں مٹی ڈالتے وقت مخصوص دعاء کا پڑھنا مستحب قرار
دیا گیا ہے (جیساکہ گذرا) اور جیسے اذان میں ترسل (ٹھہر ٹھہر کر کلمات اذان ادا
کرنا) اور اقامت میں حدر (روانی سے ادا کرنا) مستحب ہے ترمذی کی حدیث ضعیف کی وجہ
سے جو عبد المنعم بن نعیم کے طریق سے روایت کرکے کہتے ہیں ”ہذا اسناد مجہول“ اور
عبد المنعم کو دار قطنی وغیرہ نے ضعیف کہا ہے۔ ان مثالوں میں مذکورہ بالا شرطیں
پائی جارہی ہیں۔
اور ”ترغیب وترہیب“ کا اطلاق ایسے مواقع میں کرتے ہیں جہاں کہ
وہ مخصوص عمل کسی نص قرآنی‘ حدیث صحیح یا حسن سے ثابت ہو‘ اور کسی حدیث ضعیف میں
ان اعمال کے کرنے پر مخصوص ثواب کا وعدہ اور نہ کرنے یا کوتاہی کرنے پر مخصوص وعید
وارد ہوئی ہو۔ چنانچہ اس مخصوص وعدہ اور وعید کو بیان کرنے کے لئے ضعیف سے ضعیف
حدیث کو مذکورہ بالا شرطوں کے بغیر بھی بیان کرنا جائز قرار دیتے ہیں اس لئے کہ اس
میں اس حدیث سے کسی طرح کا کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا‘ اور فضائل میں جو استحباب
ثابت ہوتا ہے وہ بربنائے احتیاط ہے‘ اور بعض شوافع کے نزدیک تو استحباب حقیقةً حکم
اصطلاحی ہی نہیں ہے‘ اس لئے کوئی اشکال نہیں‘ امام بیہقی رحمہ اللہ دلائل النبوة
(۱/۳۳-۳۴) میں فرماتے ہیں۔
”واما النوع الثانی من الاخبار ‘ فہی احادیث
اتفق اہل العلم بالحدیث علی ضعف مخرجہا وہذا النوع علی ضربین ضرب رواہ من کان
معروفاً بوضع الحدیث والکذب فیہ فہذا الضرب لایکون مستعملاً فی شئ من امور الدین
الا علی وجہ التلیین“۔وضرب لایکون راویہ متہماً بالوضع غیر انہ عرف بسوء الحفظ
وکثرة الغلط فی روایاتہ او یکون مجہولاً لم یثبت من عدالتہ وشرائط قبول خبرہ ما
یوجب القبول‘ فہذا الضرب من الاحادیث لایکون مستعملاً فی الاحکام‘ وقد یستعمل فی
الدعوات‘ والترغیب والترہیب‘ والتفسیر‘ والمغازی فیما لایتعلق بہ حکم“ انتہی۔
اور ترغیب وترہیب کے لئے مذکورہ نرمی محدثین کے طرز عمل سے
ظاہر ہے ،جیساکہ اگلے عنوان میں واضح ہوگا۔ یہ فرق مولانا عبد الحئ لکھنوی کی اس عبارت سے بھی مترشح ہوتا ہے:
”فان عبارة النووی‘ وابن الہمام ‘ وغیرہما
منادیة باعلی النداء بکون المراد بقبول الحدیث الضعیف فی فضائل الاعمال ہو ثبوت
الاستحباب ونحوہ بہ‘ لامجرد ثبوت فضیلة لعمل ثابت بدلیل آخر‘ ویافقہ صنیع جمع من
الفقہاء والمحدثین حیث یثبتون استحباب الاعمال۔ التی لم تثبت۔ بالاحادیث الضعیفة‘
ایضاً لوکان المراد ما ذکرہ۔ یعنی الخفاجی من ان المراد بقبول الضعیف فی الفضائل
ہو مجرد ثبوت فضلة لعمل ثابت) لما کان لقولہم یقبل الضعیف فی ”فضائل الاعمال“ وفی
المناقب‘ وفی الترغیب والترہیب“ فائدة یعتدبہا“۔
ضعیف یا موضوع حدیثوں کی پذیرائی کس کس نے کی
جیساکہ گذرچکا کہ بطور متن لائی گئی حدیثوں میں شیخ الحدیث
رحمہ اللہ نے کوئی ایسی حدیث اپنی دانست کے مطابق ذکر نہیں کی جو موضوع ہو‘ چنانچہ
جس کسی حدیث کے متعلق کسی نے وضع کی بات کی ہوتی ہے اور شیخ اس کے طرق اور مویدات
وشواہد کی بناء پر مطمئن ہوتے ہیں تو ان طرق وشواہد کے ساتھ حدیث ذکر کرتے
ہیں۔البتہ شرح میں تائید وتوضیح کے طور پر امام غزالی کی احیاء العلوم فقیہ ابو
اللیث کی تنبیہ الغافلین اور قرة العیون جیسی کتابوں سے بکثرت لیتے ہیں‘ اس حقیقت
کے اعتراف میں ہمیں ذرا بھی تأمل نہیں کہ ان کتابوں میں انتہائی ضعیف‘ موضوع وبے
اصل روایات کی تعداد خاصی ہے۔چنانچہ ”مجموعہ فضائل اعمال“ میں بھی اس طرح کی
روایات کا در آنا بعید نہیں اس کے باوجود ہمارا دعویٰ ہے کہ اس سے اس کتاب کی
معتبریت اور حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا‘ آخر کیوں؟
اس لئے کہ ہم نے بڑے بڑے ائمہ جرح وتعدیل اور نقاد حدیث کو
دیکھا کہ جب وہ رجال کی جرح وتعدیل اور حدیثوں میں ثابت وغیر ثابت صحیح وغیر صحیح
کی تحقیق کرنے کے موڈ میں ہوتے ہیں تو ان کا انداز تحقیق اور لب ولہجہ اور ہوتا ہے
اور جب اخلاق‘ آداب ‘ فضائل یا ترغیب وترہیب کے موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں تو اتنا
نرم پہلو اختیار کرتے ہیں کہ موضوع تک بطور استدلال پیش کرڈالتے ہیں اور معلوم
نہیں ہوتا کہ یہ وہی ابن جوزی‘ منذری‘ نووی‘ ذہبی ابن حجر‘ ابن تیمیہ اور ابن قیم
ہیں جن پر فن نقد ودرایت کو بجا طور پر ناز ہے اور مجموعی طور پر ان اساطین علم
حدیث کا طرز عمل صاف غمازی کرتا ہے کہ ترغیب وترہیب وغیرہ کے باب میں چشم پوشی
زیادہ ہے جس کو آج کے مدعیان علم وتحقیق نہ جانے کس مصلحت سے نظر انداز کررہے ہیں۔امام
بخاری سمیت جمہور محدثین وفقہاء کا ضعیف حدیث کے ساتھ نرم پہلو اختیار کرنے کا
معاملہ تو معلوم ہورہی چکا ہے‘ اس کے علاوہ کچھ ناموں ناقدین حدیث اور مشہور
مصنفین کا ان کی کتابوں میں طرز عمل ملاحظہ فرمائیں۔
۱- حافظ ابن جوزی
حافظ ابو الفرج عبد الرحمن بن الجوزی نے ایک طرف موضوعات کی تحقیق میں بے مثال کتاب تصنیف فرمائی تاکہ واعظین اور عام مسلمین ان موضوع حدیثوں کی آفت سے محفوظ رہیں‘ نیز وہ حدیث پر وضع کا حکم لگانے میں متشدد بھی مانے جاتے ہیں‘ دوسری طرف اپنی پند وموعظت اور اخلاق وآداب کے موضوع پر تصنیف کردہ کتابوں میں آپ نے بہت سی ایسی حدیثیں نقل کر ڈالی ہیں جو ضعیف کے علاوہ موضوع بھی ہیں۔ مثلاً دیکھئے ان کی یہ کتابیں۔ ”ذم الہویٰ“ ”تلبیس ابلیس“ رؤوس القواریر“ اور ”التبصرة“ جس کی تلخیص شیخ ابوبکر احسائی نے ”قرة العیون المبصرة بتلخیص کتاب التبصرة“ میں کی ہے۔
یہ بات حافظ ابن تیمیہ نے ”الرد علی البکری“ (ص:۱۹) میں ابو
نعیم خطیب ‘ ابن جوزی‘ ابن عساکر اور ابن ناصر سب کے متعلق مشترکہ طور پر کہی ہے
حافظ سخاوی نے شرح الالفیہ میں لکھا۔
”وقد اکثر ابن الجوزی فی تصانیفہ الوعظیة فما اشبہہا من ایراد
الموضوع وشبہہ“
۲- حافظ منذری
حافظ منذری کی الترغیب والترہیب کے نہج اور اس کے متعلق حافظ
سیوطی رائے گذرچکی اور ضمناً یہ بات بھی آئی کہ وہ ایسی حدیثیں بھی لاتے ہیں جس کی
سند میں کوئی کذاب یا متہم راوی ہوتا ہے اور اس کو صیغہٴ تمریض ”روی“ سے شروع کرتے
ہیں (شیخ رحمہ اللہ بھی ترغیب منذری کی ایسی کوئی روایت نقل کرتے ہیں) تو صیغہٴ
تمریض ہی سے کرتے ہیں) حافظ منذری اپنے مقدمہ میں کتاب کی شرطوں اور مصادر ومآخذ
کے ذکر سے فارغ ہوکر لکھتے ہیں:
”استوعبت جمیع ما فی کتاب ابی القاسم
الاصفہانی مما لم یکن فی الکتب المذکورة واضربت عن ذکر ماقیل فیہ من الاحادیث
المتحققة الوضع“۔
یعنی مذکورہ اہم مصادر حدیث کے علاوہ میں نے ابو القاسم
اصفہانی کی ترغیب وترہیب (جس میں انہوں نے اپنی سند سے حدیثیں تخریج کی ہیں) کی وہ
ساری حدیثیں لی ہیں جو مذکورہ کتب میں نہیں آسکیں اور ان کی تعداد تھوڑی ہے اور ان
حدیثوں کو نظر انداز کردیا ہے جن کا موضوع ہونا قطعی ہے۔
معلوم ہوا کہ کسی حدیث کی سند میں کذاب یا متہم راوی کا ہونا اس کے واقعی موضوع ہونے کو مستلزم نہیں ہے‘ جب ہی تو منذری نے ایسی روایات کو منتخب کرلیا‘ جو ان کے نزدیک قطعی طور پر موضوع نہیں ہیں اور ان کی سند میں ایسے رجال ہیں جو کذاب اور متہم کہے گئے ہیں۔
معلوم ہوا کہ کسی حدیث کی سند میں کذاب یا متہم راوی کا ہونا اس کے واقعی موضوع ہونے کو مستلزم نہیں ہے‘ جب ہی تو منذری نے ایسی روایات کو منتخب کرلیا‘ جو ان کے نزدیک قطعی طور پر موضوع نہیں ہیں اور ان کی سند میں ایسے رجال ہیں جو کذاب اور متہم کہے گئے ہیں۔
۳- امام نووی
علامہ نووی شارح صحیح مسلم کے متعلق بھی علامہ کتانی نے
(الرحمة المرسلة ص:۱۵)میں حافظ سیوطی کا یہ جملہ نقل کیا ہے۔
”اذا علمتم بالحدیث انہ فی تصانیف الشیخ محی
الدین النووی فارووہ مطمئنین“
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ موضوع حدیث اپنی کتابوں میں ذکر نہیں
کرتے‘ رہیں ضعیف حدیثیں معذرت کے طور پر مقدمہ میں انہیں یہ حقیقت واشگاف کرنی پڑی
کہ ضعیف حدیث اگر موضوع نہ ہو تو فضائل اور ترغیب وترہیب میں معتبر ہوتی ہے جیسا
کہ گذرا۔ بلکہ ”ریاض الصالحین“ جو باب فضائل میں صحیح حدیثوں کا مجموعہ ہے اور جس
کے متعلق انہوں نے صراحت کی ہے کہ وہ صحیح حدیث ہی ذکر کریں گے اس میں چند ایک
ضعیف حدیثیں موجود ہیں۔ شیخ عبد الفتاح ابوغدہ نے بطور مثال تین حدیثیں پیش کی
ہیں‘ مثلاً
۱- ”الکیس من دان نفسہ․․․․ الخ“ ا سکی سند میں ابوبکر بن عبد اللہ
بن ابی مریم ہے جو بہت ہی ضعیف ہے (فیض القدیر ۵/۶۸)
۲- ”ما اکرم شاب شیخاً الا قیض اللہ لہ من
یکرمہ عند کبر سنہ“
اس کے ضعیف ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں‘ کیونکہ اس کی سند میں
یزید بن بیان عقیل اور اس کا شیخ ابو الرحال خالد بن محمد الانصاری دونوں ضعیف
ہیں۔ (فیض القدیر ۵/۴۲۵) تہذیب التہذیب وغیرہ۔
۳- ”لاتشربوا واحداً کشرب البعیر“
اس کی سند میں یزید بن سنان ابو فروہ الرہادی“ ضعیف ہیں‘ ترمذی
کے نسخوں میں اس حدیث پر حکم مختلف ہے‘ بعض نسخوں میں ”حسن“ ہے‘ اور بعض میں
”غریب“ واضح رہے کہ امام ترمذی تنہا لفظ ”غریب“ اس جگہ لاتے ہیں جہاں سند میں کوئی
ضعیف راوی منفرد ہوتا ہے حافظ نے فح (۱۰/۸۱) میں فرمایا سندہ ضعیف۔-
۴- حافظ دہبی
حافظ ذہبی جن کی فن جرح وتعدیل میں شان امامت مسلم ہے‘ ہزاروں
راویان حدیث میں سے ہرایک کی ذمہ دارانہ شناخت کے سلسلہ میں اپنی نظیر نہیں رکھتے‘
چنانچہ تلخیص المستدرک‘ میزان الاعتدال وغیرہ میں حدیثوں پر ان کی جانب سے صادر
شدہ احکام مستند قرار دیئے گئے ہیں‘ بلکہ بعض مواقع میں تو ان پر تشدد کا بھی
الزام ہے انہوں نے بھی اپنی ”کتاب الکبائر“ میں ضعیف ‘ واہی‘ بلکہ موضوع تک بطور
استشہاد پیش کیا ہے‘ شاید ان کا بھی مذہب اس سلسلہ میں ان کے پیش رو حافظ ابن
الجوزی کا ساہے‘ مثلاً
۱- کبیرہ گناہ ”ترک صلاة“ کے تحت کئی ضعیف حدیثیں ذکر کی ہیں‘
ان میں وہ طویل حدیث بھی ہے جو شیخ کی کتاب ”فضائل نمار“ ص:۲۸تا۳۱ میں درج ہے۔ جس
کے بموجب نماز کا اہتمام کرنے والے کا اللہ تعالیٰ پانچ طرح سے اکرام کرتے ہیں اور
اس میں سستی کرنے والے کو پندرہ طریقے سے عذاب دیتے ہیں‘ پانچ طرح دنیا میں‘ تین
طرح موت کے وقت ‘ تین طرح قبر میں اور تین طرح قبر سے نکلنے کے بعد ‘شیخ نے تو یہ
حدیث ابن حجر مکی ہیتمی کی ”الزواجر“ کے حوالہ سے نقل کی ہے جس کے ابتداء ’وقال بعضہم:
ورد فی الحدیث“ سے کی ہے‘ مزید اس کے چند ایک حوالے اور مؤیدات ذکر کرتے ہوئے حافظ
سیوطی کی ذیل اللآلی سے نقل کیا کہ ابن النجار نے ذیل تاریخ بغدادی میں اپنی سند
سے ابوہریرہ کے طریق سے اس کو روایت کیا ہے میزان
الاعتدال میں ہے ”ہذا حدیث باطل‘ رکبہ علی بن عباس علی ابی بکر بن زیاد
النیسابوری“ پھر امام غزالی اور صاحب منبہات کے حوالہ سے بھی اس مضمون کو مؤید
کیا‘ الغرض شیخ نے تو مذکورہ بالا تمام حضرات کے طرز عمل سے یہ نتیجہ نکالا کہ
حدیث بے اصل نہیں ہے اور ترغیب وترہیب کے لئے پیش کی جاسکتی ہے۔ لیکن تعجب حافظ ذہبی پر ہے کہ خود میزان میں اس ک/ باطل
ہونے کی تصریح فرماتے ہیں اور ”کتاب الکبائر“ میں ”قد ورد فی الحدیث“ کے صیغہ جزم
سے اس طرح ذکر کرتے ہیں جیسے کتنی مضبوط درجہ کی حدیث ہو۔
۲- اسی کتاب کے ص:۴۴ پر کبیرہ گناہ ”عقوق الوالدین“ کے تحت یہ
حدیث نقل کرتے ہیں:
’’لو علم اللہ شیئاً ادنیٰ من الاف لنہی عنہ
فلیعمل العاق ما شاء ان یعمل فلن یدخل الجنة‘ ولیعمل البار ماشاء ان یعمل‘ فلن
یدخل النار“
اس حدیث کو دیلمی نے اصرم بن حوشب کے طریق سے حضرت حسین بن علی کی حدیث سے مرفوعاً روایت کیا ہے‘ اس
اصرم کے متعلق خود حافظ ذہبی میزان ۱/۲۶ میں فرماتے ہیں: ”قال یحیی فیہ: کذاب
خبیث‘ وقال ابن حبان: کان یضع الحدیث علی الثقات“ اس میں شبہ نہیں کہ حدیث میں
معنوی نکارت کے علاوہ ایک کذاب اس کی روایت میں منفرد ہے جو کسی طرح ترغیب وترہیب
میں قابل ذکر نہیں ہے اور ذہبی نے اس سے استشہاد کیا۔
۳- کبیرہ گناہ شرب خمر کے تحت دو ایسی حدیثیں نقل کی ہیں جن پر محدثین نے وضع کا حکم لگایاہے‘ ایک ص:۸۹ پر حضرت ابوسعید خدری کی روایت سے جس کے بموجب شرابی کی توبہ قبول نہیں ہوتی‘ دوسری ص:۹۱ پر حضرت ابن عمر کی روایت سے جس کے بموجب شرابی کو سلام کرنا اس کے جنازہ میں شرکت وغیرہ رسول اللہ ا نے منع فرمایا ہے۔
۳- کبیرہ گناہ شرب خمر کے تحت دو ایسی حدیثیں نقل کی ہیں جن پر محدثین نے وضع کا حکم لگایاہے‘ ایک ص:۸۹ پر حضرت ابوسعید خدری کی روایت سے جس کے بموجب شرابی کی توبہ قبول نہیں ہوتی‘ دوسری ص:۹۱ پر حضرت ابن عمر کی روایت سے جس کے بموجب شرابی کو سلام کرنا اس کے جنازہ میں شرکت وغیرہ رسول اللہ ا نے منع فرمایا ہے۔
حافظ ذہبی
کی ہی دوسری کتاب ”العلو للعلی الغفار“ اس میں بھی کافی حد تک تساہل پایا جاتاہے ‘
لیکن ا س کا معاملہ ہلکا یوں ہے کہ اس میں ذہبی نے حدیثیں اپنی سند سے ذکر کی ہیں‘
اب یہ لینے والے کی ذمہ داری ہے کہ تحقیق کر کے لے۔
۵-حافظ ابن حجر
حافظ ابن حجر عسقلانی جو حدیثوں کے طرق والفاظ پر وسیع نظر
رکھنے کے سلسلہ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور احادیث ورواة کے مراتب کی شناخت
وتعیین میں سند ہیں‘ یہ اپنی کتابوں میں موضوع اور بے اصل روایات ہرگز پیش نہیں
کرتے‘ البتہ کسی حدیث پر موضوع کا حکم لگانے میں بہت ہی محتاط ہیں‘ محدث مغرب
علامہ احمد بن الصدیق الغماری رحمہ اللہ اپنی کتاب ”المغیر علی الاحادیث الموضوعة
فی الجامع الصغیر“ کے ص:۷ میں حدیث ”آفة الدین ثلاثة: فقیہ فاجر‘وامام جائر‘
ومجتہد جاہل“ (جو مسند فردوس کے حوالہ سے ابن عباس کے مسند کے طور پر جامع صغیر میں ہے)
کو نقل کرکے فرماتے ہیں :
”قال الحافظ فی زہر الفردوس: فیہ ضعف
وانقطاع‘ قلت (المغازی) : بل فیہ کذاب وضاع‘ وہو نہشل بن سعید‘ فالحدیث‘ موضوع‘
والحافظ وشیخہ العراقی متساہلان فی الحکم للحدیث‘ ولایکادان یصرحان بوضع حدیث الا
اذا کان کالشمس فی رابعة النہار“ (کما فی التعلیقات علی الاجویة الفاضلة)
یعنی محدث احمد الصدیق الغماری کے بقول حافظ ابن حجر اور ان کے
شیخ حافظ عراقی دونوں حدیث پر وضع کا حکم اس وقت تک نہیں لگاتے جب تک علامات وضع
روز روشن کی طرح نہیں دیکھ لیتے‘ اگر یہی مسلک شیخ زکریا رحمہ اللہ نے مجموعہ
فضائل اعمال میں اختیار کرلیا تو ا سقدر واویلا مچانے کی کیا ضرورت ہے۔
۶-حافظ سیوطی
حافظ ابوبکر سیوطی تو اس میدان کے مرداور ضعاف وموضوعات کی
پذیرائی میں ضرب المثل ہیں‘ انہوں نے اپنی کتاب الجامع الصغیر کے مقدمہ میں اپنی
شرط کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا:
ووصنتہ عما تفرد بہ وضاع او کذاب
اس کی شرح میں حافظ عبد الرؤف المنادی لکھتے ہیں:
”ان ما ذکرہ من صونہ عن ذلک اغلبی او ادعائی‘
والا فکثیراً ما وقع لہ انہ لم یصرف الی النقد الاہتمام‘ فسقط فیما التزم الصوم
الصون عنہ فی ہذا المقام کما ستراہ موضحا فی مواضعہ‘ لکن العصمة لغیر الانبیاء
متعذرة‘ والغفلة علی البشر شاملة منتشرة والکتاب مع ذلک من اشرف الکتب مرتبة
واسماہا منقبة“۔ (فیض القدیر ۱/۲۱)
یعنی حافظ سیوطی کا یہ کہنا کہ میں نے ایسی حدیث سے اس کتاب کو
محفوظ رکھا ہے جس کی روایت میں کوئی کذاب یا وضاع منفرد ہو‘ یہ دعویٰ یا تو اکثری
ہے یا دعویٰ محض ہے‘ کیونکہ بہت سے مواقع ایسے ہیں جہاں آپ نے صحیح طور پر کھا
نہیں‘ چنانچہ جس سے محفوظ رکھنے کا التزام کیا تھا وہ نادانستہ طور سے کتاب میں در
آیا‘ جیساکہ موقع پر وضاحت سے آپ کو معلوم ہوگا‘ بہرحال معصوم نبی کے علاوہ کوئی
نہیں‘ بھول چوک انسانی خاصہ ہے‘ اس کے باوجود کتاب مرتبہ وحیثیت کے اعتبار سے عظیم
ترین ہے‘ اور بلند پایہ خصوصیات کی حامل ہے ۔
”محدث احمد بن الصدیق الغماری اپنی کتاب ”المغیر علی الاحادیث
الموضوعة فی الجامع الصغیر“ میں لکھتے ہیں:
”بلکہ اس میں جو حدیثیں سیوطی نے ذکر
کی ہیں ان میں وہ حدیثیں بھی ہیں جن کے موضوع ہونے کا حکم خود انہوں نے لگایا ہے
یا تو اپنی لالی میں ابن جوزی کی موافقت کرکے یا خود ذیل اللآلی میں بطور استدراک
ذکر کرکے“۔
شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ نے الجامع الصغیر کی سات
ایسی حدیثوں کی تعیین کی ہے جن کے وضع پر مؤلف نے ابن جوزی کی موافقت کی ہے اور
پندرہ ایسی حدیثوں کی جن پر مؤلف نے اپنی طرف سے ذیل اللآلی میں وضع کا حکم لگایا
ہے۔ فاحظ سیوطی کے تساہل پر بصیرت افروز کلام کے لئے دیکھئے۔
(تعلیقات علی الاجوبة الفاضلة للشیخ ابو غدة ص:۱۲۶تا۱۳۰)
(تعلیقات علی الاجوبة الفاضلة للشیخ ابو غدة ص:۱۲۶تا۱۳۰)
جیساکہ معلوم ہو چکا کہ جن حدیثوں کے متعلق موضوع ہونے کا شیخ
کو شبہ بھی ہوتا ہے تو مؤیدات وشواہد جمع کرنے کا پورا اہتمام فرماتے ہیں‘ تو کیا
اس بناء پر ”مجموعہ فضائل اعمال “حافظ سیوطی کی کتاب سے۔ اگر فائق نہیں تو اس کے
برابر بھی قرار نہیں دیا جاسکتا؟ ہمارے نزدیک اس پر بھی وہ تبصرہ منطبق ہوتا ہے جو
منادی نے جامع صغیر پر کیا۔
۷-حافظ ابن قیم الجوزیة
حدیثوں پر وضع کا حکم لگانے میں جو محدثین متشدد مانے جاتے ہیں
ان میں ایک نام حافظ ابن قیم کا ہے اس دعویٰ کا ثبوت ان کی کتاب ”المنار المنیف فی
الصحیح والضعیف“ جس میں انہوں نے چند ایک ابواب پر یہ کلی حکم لگایا ہے کہ اس باب
میں جو کچھ مروی ہے باطل ہے‘ تاہم اس میں شک نہیں کہ نقد حدیث میں ان کی حیثیت
مرجع وسند ہے۔
لیکن ان کا بھی حال یہ ہے کہ اپنی بعض تصنیفات مثلاً مدارج
السالکین‘ زاد المعاد وغیرہ میں کتنی ہی ضعیف اور منکر حدیثیں کوئی تبصرہ کے بغیر
بطور استدلال پیش کر ڈالتے ہیں‘ خاص طور سے اگر حدیث ان کے نظریہ کی تائید میں
ہوئی ہے تو اس کی تقویت میں بات مبالغہ کی حد تک پہنچ جاتی ہے‘ مثلاً زاد المعاد
۳/۵۴‘۵۷ میں وفد بنی المنتفق پر کلام کے ذیل میں ایک بہت لمبی حدیث ذکر کی ہے جس
میں یہ الفاظ بھی ہیں۔
”ثم تلبثون ما لبثتم‘ ثم تبعث الصائحة‘
فلعمرو الہک ما تدع فی ظہرہا شیئاً الامات تلبثون ما لبثتم ثم یوفی نبیکم
والملائکة الذین مع ربک فاصبع ربک عز وجل یطوف فی الارض وخلت علیہ البلاد․․․“
اس حدیث کو ثابت وصحیح قرار دینے میں ابن قیم نے پورا زور صرف
کیا ہے‘ چنانچہ فرماتے ہیں:
”ہذا حدیث جلیل تنادی جلالتہ وفخامتہ وعظمتہ
علی انہ قد خارج من مشکاة النبوة لا یعرف الا من حدیث عبد الرحمن بن المغیرة
المدنی“ ۔
پھر عبد الرحمن بن مغیرة کی توثیق اور ان کتابوں کے حوالوں کے
ذریعہ جن میں یہ حدیث تخریج کی گئی ہے لمبا کلام کیا‘ حالانکہ خود ان کے شاگرد
حافظ ابن کثیر نے ”البدایة والنہایة“ میں لکھا کہ:
”ہذا حدیث غریب جداً‘ والفاظہ فی بعضہا
نکارة“
یعنی یہ حدیث انتہائی اوپری ہے‘ اس کے بعض الفاظ میں نکارت ہے‘
حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں عاصم بن لقیط بن عامر بن المنتفق العقیلی کے
ترجمہ میں لکھا کہ: ” وہو حدیث غریب جداً“ جبکہ علامہ ابن قیم نے اس کی تائید میں
کسی کہنے والے کے اس قول تک کو نقل کرڈالا۔
”ولاینکر ہذا القول الاجاحد او جاہل او مخالف
للکتاب والسنة“ اھ
یہ چند نمونے ہیں جو مشتے نمونہ از خردار ے پیش کئے گئے اور یہ
بات اظہر من الشمس ہوگئی کہ بطور عمل متوارث حدیث ضعیف کا احترام ہوتا چلا آیا
ہے‘ اس کے خلاف کو موقف ”اتباع غیر سبیل المؤمنین“ (جماعت مسلمین کے راستہ کو
چھوڑنے کے مرادف ہے) خاص کر فضائل وغیرہ کے باب میں ضعیف حدیث کو بیان کرنا یا کسی
کتاب میں شامل کرنا جرم نہیں ہے‘ ایسا کرنے والوں کی یہ ایک لمبی قطار ہے‘ ہم تو
ان حضرات پر مکمل اعتماد کرتے ہیں‘ جو کچھ دینی وعلمی ورثہ ہم تک پہنچا وہ اسی
قدسی صفت جماعت کا احسان ہے‘ البتہ لوگوں کو ان کے طرز عمل پر اعتراض ہے وہ جانیں
کہ یہ لوگ مجرم ہیں یا نہیں؟شیخ نے بجا طور پر کہا اور کیا خوب کہا:
”اگر ان سب اکابر کی یہ ساری کتابیں غلط ہیں تو
پھر فضائل حج کے غلط ہونے کا اس ناکارہ کو بھی قلق نہیں۔ (کتب فضائل پر اشکالات
اور ان کے جوابات ص:۱۸۲)