Pages

Tablighi Jamaat ki Haqeeqat in Urdu book


 تبلیغی جماعت کا تعارف
تقریباً ایک صدی قبل متحدہ ہندوستان کے ایک عالم اور بزرگ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی دینی حالت افسوس ناک حد تک ابتری کا شکار ہے ۔ نیز ا نہوں نے دیکھا کہ ہندوستا ن کے بعض علاقوں میں مسلمان صرف اسلام کا نام تو جانتے ہیں مگر ان کو کلمہ اسلام لا الہ الا اللہ محمد رسول 
اللہ کا صحیح تلفظ تک بھی نہیں آتا۔
 لہٰذا مسلمانوں کی یہ حالت دیکھ کر حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو دکھ
 اور صدمہ ہوااور سوچنے لگے کہ مسلمانوں کی اصلاح اور تربیت کے لیے کس طرح کام شروع کیا جائے ؟ چنانچہ اس مقصد کے لیے انہوں نے حج کا سفراختیار کیا، وہاں جاکر مشاعر حج اور حرمین شریفین میں مقدس مقامات پر نہایت عجز وانکسار کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے رہے کہ اے اللہ، میرے لیے عام مسلمانوں میں دعوت کا راستہ کھول دے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور اس کے لیے ان کا سینہ کھول دیا گیا۔
 چنانچہ آپ حج کے بعد ہندوستان واپس تشریف لائے اور ہندوستان کے دارالحکومت دہلی کے پاس بستی نظام الدین سے دعوت کا کام شروع کردیا۔
 آپ کا معمول تھاکہ آپ شہر کے بازاروں ، گاؤں اور قصبوں میں چلے جاتے اور مسلمانوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتے اور مساجد اور تعلیم کے حلقوں سے جڑنے کی ترغیب دیتے ۔ تاکہ وہ اس طرح ایمان ، نماز اور اسلام کے بنیادی مسائل سیکھیں ، اور ان بنیادی مسائل اور اسلامی آداب کو خود سیکھنے عملی طور پر اپنانے اور دوسروں کو سکھانے کے لیے ان سے مطالبہ کرتے تھے کہ اپنے خرچ پر مہینے میں تین دن ، سال میں چالیس دن اور عمر بھر میں چار ماہ کے لیے اللہ کی راہ میں نکلیں۔
 اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس بزرگ کی مخلصانہ محنت میں برکت عطا فرمائی اور ان کے ارد گردپاک سیرت اہل ایمان افراد کی ایسی جماعت جمع ہوگئی جن کا تعلق معاشرے کے ہر طبقے سے تھا ، اہل تقویٰ ، علماء کرام ، تاجر ، کاشتکار ، سرکاری اور غیر سرکاری ملازم ، اساتذہ طلبہ اور مزدور وغیرہ سب ہی تھے ۔
 حضرت مولانا محمد الیاس رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کے لیے کچھ قواعد وضوابط وضع فرمائے ، جن میں سے بعض کو یہاں ذکر کیا جاتا ہے ۔
  (۱)اپنے خرچ سے نکلنا ، لہٰذا جو شخص بھی اللہ کی راہ میں نکلے وہ اپنی جیب سے خرچ کرے ۔ کسی تنظیم کی طرف سے یا چندہ لے کر نہ جائے ، اس لیے اگر کسی کو فرصت نہیں یا خرچ کی طاقت نہیں ، تو وہ اپنے محلہ کی مسجد میں اور مقامی کام میں جڑتا رہے اور اللہ کے راستے میں نکلنے کی نیت وکوشش کرتا رہے ۔
 (۲) سیاسی امور میں دخل اندازی سے دور رہے ۔
 (۳) اجتہادی ، فروعی اور فقہی مسائل کو نہ چھیڑا جائے اور ہر شخص نے جو بھی فقہی مسلک اختیار کیا ہوا ہے اسی پر عمل کرے یا اس مسلک پر جو اس کے ملک میں رائج ہو اور پوری توجہ اور اہتمام سے ایمان ، یقین ، اخلاص ، نماز، علم ، ذکر ، مسلمانوں کے اکرام اور ان کے حقوق کا خیال رکھے ، دعوت اور خروج فی سبیل اللہ میں مصروف رہے۔
 اللہ تعالیٰ نے اس بزرگ کی محنت میں ایسی برکت عطا فرمائی کہ جو دعوت ایک قریہ اوربستی سے شروع ہوئی تھی وہ ترقی کرتے کرتے ایک عالمی اور بین الاقوامی دعوت بن گئی ، اس جماعت کے بارے میں یہ میری معلومات ہیں۔