قرآن و حدیث کی روشنی میں
تبلیغی جماعت عقائد افکار نظریات جد و جہد اغراض و مقاصد
کام
کرنے کا طریقہ
بِسْمِ اﷲ الرّحْمٰنْ الرّحِیمْ
نَحْمَدُہُ وَ نُصَلِّیْ عَلی رَسُوْلِہِ
الْکَرِیْمِ
اَلْحَمْدُ ﷲِ رَبّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ
وَ السَّلَامْ عَلٰی سَیِّدِ الاَ وَّلِیْنَ وَ الٰاخِرِیْنَ خَاتَمِ
الْاَنْبِیَآئِ وَ الْمُرْسَلِیْنَ مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ
الطَّیِّبِیْنَ اطَّاھِرِیْنَ۔
............ کتاب کا کچھ حصہ.............
وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ
لا الہ الا انا فا عبدون (الانبیاء ۔ ع۲ )
اور ہم نے نہیں بھیجا تم سے پہلے
کوئی رسول مگر اس کی جانب یہی وحی بھیجتے تھے کہ کوئی معبود نہیں بجز میرے ،پس
میری بندگی کرو
نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ اور دیگر انبیا کرام کے مقدس لمحات زندگی پر جب نظر
ڈالی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ سب کا مقصد اور نصب العین صرف ایک ہے ،اور وہ ہے
اللہ رب العالمین وحدہ لا شریک لہ‘کی ذات و صفات کا یقین کرنا ، یہی ایمان اور
اسلام کا مفہوم ہے اور اسی لئے انسان کو دنیا میں بھیجا گیا ۔ وما خلقت الجن
والانس الا لیعبدون یعنی ہم نے جنات اور انسان کو
صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ بندہ بن کر زندگی بسر کریں ۔اب جب کہ مقصد زندگی واضع
ہو گیا اور اصل مرض اور اس کے معالجہ کی نوعیت معلوم ہو گئی تو طریق علاج کی تجویز
میں زیادہ دشواری نہ آے گی اور اس نظریہ کے تحت جو بھی علاج کا طریقہ اختیار کیا
جائے گا انشاء اللہ نافع اور سود مند ہو گا۔....................................................................
آج سے تقریباً ساڑھے تیرہ سو سال قبل جب دنیا کفر وضلالت، جہالت و سفاہت کی
تاریکیوں میں گھری ہوئی تھی ۔بطحا کی سنگ لاخ پہاڑیوں سے رشد و ہدایت کا ماہتاب
نمودار ہوا مشرق و مغرب، شمال وجنوب غرض دنیا کے ہر ہر گوشہ کو اپنے نورسے منور
کیا اور ۲۳ سال کے قلیل عرصہ میں بنی نوع انسان کو اس معراج ترقی پر پہنچایا کہ
تاریخ عالم اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے اوررشد وہدایت،صلاح وفلاح کی وہ مشعل
مسلمانوں کے ہاتھ میں دی جس کی روشنی میں ہمیشہ شاہراہ ترقی پرگامزن رہے اور صدیوں
اس شان وشوکت سے دنیا پر حکومت کی کہ ہر مخالف قوت کو ٹکرا کر پاش پاش ہونا پڑا یہ
ایک حقیقت ہے جو ناقابل انکار ہے لیکن پھر بھی ایک پارینہ داستاں ہے جس کا با ربار
دہرانا، نہ تسلی بخش ہے اور نہ کا رآمد اورمفید، جب کہ موجودہ مشاہدات اور واقعات
خود ہماری سابقہ زندگی اورہمارے اسلاف کے کارناموں پر بدنما داغ لگا رہے ہیں۔.........................................
مسلمانوں کی تیرہ سو سالہ زندگی
کو جب تاریخ کے اوراق میں دیکھا جاتا ہے تومعلوم ہوتاہے کہ ہم عزت وعظمت، شان
وشوکت، دبدبہ وحشمت کے تنہا مالک اور اجارہ دار ہیں لیکن جب ان اوراق سے نظر ہٹا
کر موجود ہ حالات کا مشاہدہ کیا جاتا ہے تو ہم انتہائی ذلت خواری، افلاس وناداری
میں مبتلا نظر آتے ہیں ، نہ زوروقوت ہے، نہ زرودولت ہے، نہ شان وشوکت ہے، نہ باہمی
اخوت والفت، نہ عادات اچھی، نہ اخلاق اچھے، نہ اعمال اچھے نہ کردار اچھے۔ ہر برائی
ہم میں موجودہ اور ہر بھلائی سے کوسوں دور۔اغیار ہماری اس زبوں حالی پر خوش ہیں
اور برملا ہماری کمزوری کو اچھالا جاتا ہے اورہمار مضحکہ اڑایا جاتا ہے۔ اسی پر بس
نہیں بلکہ خود ہمارے کوشے نئی تہذیب کے دلدادہ نوجوان، اسلام کے مقدس اصولوں کا
مذاق اڑاتے ہیں، بات بات پر تنقیدی نظر ڈالتے ہیں اور اس شریع مقدسہ کو ناقابل
عمل، لغو اور بیکار گردانتے ہیں عقل حیران ہے کہ جس قوم نے دنیا کو سیراب کیا وہ
آج کیوں تشنہ ہے؟ جس قوم نے دنیا کو تہذیب وتمدن کا سبق پڑھایا وہ آج کیوں غیر
مہذب اور غیر متمدن ہے؟
رہنمایان قوم نے آج سے بہت پہلے
ہماری اس حالت زار کا اندازہ لگایا اور مختلف طریقوں پر ہماری اصلاح کیلئے جدوجہد
کی مگر
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
آج جب کہ حالت بدسے بدتر ہو چکی
اور آنے والا زمانہ ماسبق سے بھی زیادہ پر خطر اور یاریک نظر آرہا ہے، ہمارا خاموش
بیٹھنا اور عملی جدوجہد نہ کرنا ایک ناقابل تلافی جرم ہے لیکن اس سے پہلے کہ ہم
کوئی عملی قدم اٹھائیں ، ضروری ہے کہ ان اسباب پر غور کریں جن کے باعث ہم اس
ذلت وخواری کے عذاب میں مبتلا کئے گئے ہیں۔ ہماری اس پستی اور انحطاط کے مختلف
اسباب بیان کیے جاتے ہیں اور ان کہ ازالہ کی متعدد تدابیر اختیار کی گئیں لیکن ہر
تدبیر ناموافق وناکام ثابت ہوئی جس کے باعث ہمارے رہبر بھی یا س وہراس میں گھرے
ہوئے نظر آتے ہیں۔
...........................................اصل حقیقت یہ ہے کہ اب تک ہمارے
مرض کی تشخیص ہی پورے طور پر نہیں ہوئی ۔ یہ جو کچھ اسباب بیان کئے جاتے ہیں اصل
مرض نہیں بلکہ اس کے عوارض ہیں پس تاوقتیکہ اصل مرض کی جانب توجہ نہ ہوگی اور مادہ
حقیقی کی اصلا ح نہ ہوگی، عوارض کی اصلاح ناممکن اور محال ہے پس جب تک ہم اصل مرض
کی ٹھیک تشخیص اوراس کا صحیح علاج معلوم نہ کر لیں ، ہمارا اصلاح کے بارے میں لب
کشائی کرنا سخت ترین غلطی ہے ۔
ہمارا دعویٰ کہ ہماری شریعت ایک
مکمل قانون الٰہی ہے جو ہماری دینی اور دنیوی فلاح وبہبود کا تاقیام قیامت ضامن ہے۔پھر
کوئی وجہ نہیں کہ ہم خود ہی اپنا مرض تشخیص کریں اور خود ہی اس کا علاج شروع
کردیں، بلکہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم قران حکیم سے اپنی اصل مرض معلوم کریں اور اسی مرکز رشدوہدایت سے طرق علاج کر
کے اس پر کاربند ہوں۔ جب قرآن حکیم قیامت تک کیلئے مکمل دستور العمل ہے تو کوئی
وجہ نہیں کہ وہ اس نازک حالت میں ہماری رہبری سے قاصر رہے۔ مالک ارض وسماء جل وعلا
کا سچا وعدہ ہے کہ روئے زمین کی بادشاہت وخلافت مومنوں کیلئے ہے۔
{وَعَدَ اﷲُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا مِنکُمْ وَ
عَمِلُو الصّٰالِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ} (نور آیۂ: ۵۵)
اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے ان
لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اورعمل صالح کئے ان کو ضرور روئے زمین کا خلیفہ
بنائے گا۔
اور یہ بھی اطمینان دلایا ہے کہ
مومن ہمیشہ کفار پر غالب رہیں گے اورکافروں کا کوئی یارو مددگار نہ ہو گا۔
{وَلَوْ قٰتَلَکُمُ الذَّیْنَ کَفَرُوْ
لَوَلَّوُ اُلْاَ دْباَرَ ثُمَ لاَ یَجِدُوْنَ وَلِیًّا وَّ لاَ نَصِیْرًا} (فتح
آیہ: ۲۲)
اور اگر لوگ تم سے ،یہ کافر لڑتے
تو ضرور پیٹھ پھیر کربھاگتے اور نہ پاتے کوئی یارو مدد گار۔
اور مومنون کی نصرف اور مدد اﷲ
تعالیٰ کے ذمہ ہے اور وہی ہمیشہ سر بلند اورسرفراز رہیں گے
وَکَانَ حَقّاً عَلَیْنَا نَصْرُالْمُٔو
مِنَیْنَ (روم آیۂ۴۷)
اور حق ہے ہم پر مدد ایمان والوں
کی۔
{وَلَا تَہِنُوْ وَلَا تَحْزَنُوْ اْ وَاَنْتُمُ
الْاَ عْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ} (آل عمران آیہ ۱۳۹)
اور تم ہمت ہارو اور رنج مت کرو
اور تم ہی غالب رہوگے اگر تم پورے مومن رہے۔
{و لِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَ لِرَسُوْلِہٖ
وَلِلْمُؤُمِنِیْنَ} (منا فقون آیہ ۸)
اللہ ہی ہے عزت اور اس کے رسول
کی اورمسلمانوں کی۔
مذکورہ بالا ارشادات پر غور کرنے
سے معلوم ہتا ہے کہ مسلمانوں کی عزت، شان وشوکت، سربلندی وسرفرازی اورہربرتری
وخوبی ان کی صفت ایمان کے ساتھ وابستہ ہے اگر ان کا تعلق خدا اور رسول ﷺ کے ساتھ
مستحکم ہے (جو ایمان کا مقصود ہے )تو سب کچھ انکار ہے اور اگر خدانحواستہ اس رابطہ
اس رابطہ تعلق میں کمی اورکمزوری پیدا ہو گئی ہے اور پھر سراسر خسران اور ذلت
وخواری ہے جیسا کے واضح طورپر بتلا دیا گیا ہے۔
{وَالْعَصْرِ اِنَّ ا لْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ
اِلَّاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ وَ عَمِلُو الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَا صَوْ ا بِالْحَقِّ وَ
تَوَا صَوْا بِالصَّبْر}
قسم ہے زمانہ کی انسان بڑے خسارے میں ہے مگر جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے اور ایک د سرے کو حق کی فہمائش کرتے رہے اور ایک دوسرے کو پابندی کی فہمائش کرتے رہے۔
ہمارے اسلاف عزت کے منتہا کو
پہنچے ہوئے تھے اور ہم انتہائی ذلت وخواری میں مبتلا ہیں۔ پس معلوم ہو اکہ وہ کمال
ایمان سے متصف تھے اور ہم اس نعمت عظمیٰ سے محروم ہیں جیساکہ مخبر صادق ﷺ نے خبردی
ہے۔
سَیَأْتِی عَلَی النَّاسِ زَمَانُٗ لَا یَبْقٰی
مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اِسْمُہُ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْآنِ اِلَّا
رَسْمُہُ۔ (مشکوۃ)
قریب ہی ایسا زمانہ آنے والا ہے
کہ اسلام کا صرف نام باقی رہ جائیگا اور قرآن کے صرف نقوش رہ جائیں گے۔
اب غور طلب امر یہ ہے کہ اگر
واقعی ہم اس حقیقی اسلام سے محروم ہو گئے ہیں جوخدا اور رسولﷺ کے یہاں مطلوب ہے
اور جس کے ساتھ ہماری دین ونیا کی فلاح وبہبود وابستہ ہے تو کیا ذریعہ ہے جس سے وہ
کھوئی ہوئی نعمت واپس آئے؟ اور وہ کیا اساب ہیں جن کی وجہ سے روح اسلام ہم سے نکال
لی گئی اورہم جسد بے جان رہ گئے ۔
جب مصحف آسمانی کی تلاوت کی جاتی
ہے اور ’’ امت محمدیہﷺ‘‘کی فضلیت اوربرتری کی علت وغایت ڈھونڈھی جاتی ہے تو معلوم
ہوتا ہے کہ اس امت جو ایک اعلیٰ اوربرتر کام سپرد کیاگیا تھا جس کی وجہ سے ’’خیر
الامم‘‘ کا معزز خطاب اس کو عطا کیا گیا ۔
دنیا کی پیدائش کا مقصد اصلی خدا
وحدہ لا شریک لہٗ کی ذات وصفات کی معرفت ہے اوریہ اس وقت تک نا ممکن ہے کہ جب تک
بنی نوع انسان کو برائیوں اور گندگیوں سے پاک کر کے بھلائیوںاور خوبیوں کے ساتھ
آراستہ نہ کیا جائے۔ اسی مقصد کیلئے ہزاروں رسول اورنبی بھیجے گئے اور آخر میں اس
مقصد کی تکمیل کیلئے سید الانبیاء والمرسلینﷺ کو مبعوث فرمایا اور الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی کا مژدہ سنایا گیا ۔
اب چونکہ مقصد کی تکمیل ہو چکی
تھی، ہر بھلائی اوربرائی کو کھول کھول کر بیان کردیا گیا تھا، ایک مکمل نظام عمل
دیا جا چکا تھا، اس لئے رسالت ونبوت کے سلسلہ کو ختم کر دیا گیا اور جو کام پہلے
نبی اور رسول سے لیا جاتا تھا وہ قیامت تک ’’امت محمدیہﷺ‘‘ کے سپرد کر دیاگیا۔
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ
تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَر(آل عمران: آ یۂ ۱۱۰ )
اے امت محمدیہ! تم افضل امت ہو،
تم کو لوگوں کے نفع کے لئے بھیجا گیا ہے، تم بھلی باتوں کو لوگوں میں پھیلاتے ہو
اور بری باتوں سے ان کو روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃُٗ یَّدْعُوْنَ
اِلَی الْخَیْرِ و یَأْ مُرُوْنَ بِا لْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہَوْنَ عَنِ
الْمُنْکَرِ وَ اُولٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۔ٔ (آل عمران:
اور چا ہئے کہ تم میں ایسی جماعت
ہو کہ لوگوں کو خیر کی طرف بلائے اور بھلی باتوں کا حکم کرے اور بری باتوں سے منع
کرے اور وہی لوگ فلاح والے ہیںجو اس کام کو کرتے ہیں
پہلی آیت میں ’ خیر امم‘‘ ہو نے
کی وجہ یہ بتلائی کہ تم بھلائی کو پھیلاتے ہو اور برائی سے روکتے ہو۔د وسری آیت
میں حصر کے ساتھ فرمادیا کہ فلاح وبہبود صرف انہی لوگوں کے لئے ہے جو اس کام کو
انجام دے رہے ہیں اسی پر بس نہیں بلکہ دوسری جگہ صاف طور پر بیان کر دیا گیا کہ اس
کان کو انجام نہ دینا لعنت اور پھٹکار کا موجب ہے۔
لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ مِنْ بَّنِیْ
اِسْرَائِیْلَ عَلَی لِسَانِ دَاوُدَ وَ عِیْسَی بْنِ مَرْیَمَ ذَلِکَ بِمَا
عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ کَانُوْا لَا یَتَنَا ھَوْنَ عَنْ مُّنْکَرٍ
فَعَلُوْہُ لَبِئْسَ مَا کَانُوْ یَفْعَلُوْنَ (مائدہ: ۷۹)
بنی اسرائیل میں جو لوگ کافر تھے
ان پر لعنت کی گئی تھی داود اورعیسیٰ بن مریم کی زبان سے یہ لعنت اس سبب سے ہوئی
کہ انہوں نے حکم کی مخالفت کی اور حد سے نکل گئے۔جو برا کام انہوں کر رکھا تھا اس
سے باز نہ آتے تھے۔ واقعی ان کا یہ فعل بے شک برا تھا۔
اس آخری آیت کی مزید وضاحت
احادیث ذیل سے ہوتی ہے۔........................................