Pages

تبلیغی جماعت پر بےجا الزامات اور تنقید پرردعمل دعوت کے اصول


 الزامات اور تنقید پرردعمل کے بارے میں  دعوت کا کرنے والے اصحاب کی خدمت میں  کچھ اہم درخواست اور مشورہ

عوت وتبلیغ کا اصول یہ ہے کہ وہ لوگوں کے اعتراضات کے جواب دینے کے بجائے وہ کام کرتے چلے جاتے ہیں، جوابات تو ہمارے بڑوں نے دے رکھے ہیں، اور یہ حقیقت ہے کہ جب درست طریقے سے علی منہاج النبوت پر کام کیا جائے گا، تو دین کی محنت امت سے چھوٹ جانے کی وجہ سے جو مشکلات اور فرقے پیدا ہوئے اللہ تعالی انشاء اللہ ان سب کو ختم کردیں گے اور تمام امت ایک ہی راستے یعنی صراط مستقیم پر آجائے گی،
 عملا یہ دیکھا گیا ہے کہ بہت سے ............ حضرات جو بہت متشدد تھے جب اللہ کے راستے میں نکلے تو اللہ تعالی نے ان کو معتدل بنادیا اور امت سے نفرت اور ان کو بے دین سمجھنے کی بجائے اللہ تعالی نے ان کو امت کا خیر خواہ اور ہم درد بنادیا،
 امت کو غلط سمجھنا تو آسان ہے، اصل یہ ہے ان پر محنت کرکے ان کو صراط مستقیم پر لانا یہ انبیاء کرام کا شیوہ ہے۔   ہمیں  دعوت وتبلیغ کے کام کے اصول وآداب مد نظر رکھنا ہوں گے۔ کہ ہم کسی سے نہیں الجھیں گے اور کسی کی بے اکرامی نہیں کریں گے، ے کام کو مقصد بناکر کرتے جائیں۔
اس لئے میری درخواست ہے کہ ہم کسی سے بھی جھگڑے میں پڑے بغیر اس دعوت والے کام کو مضبوط کریں اور مسلمانوں کو یہ کام سمجھائیں، .

..............................................................................................

۔
دعوت وتبلیغ ایک مضبوط اور عملی محنت ہے، جب تک اس میں عملا حصہ نہ لیا جائے، تب تک اس کی حقیقت کا اندازہ نہیں ہوتا، اللہ کی راہ میں نکلے بغیر اس کو سمجھنا اور اس کے بارے میں رائے قائم کرنا یکسر مختلف ہوتا اس سے کہ اس میں جاکر اور اس کو کرکے پھر رائے قائم کی جائے۔
ایسے کئی چشم دیدہ واقعات ہیں کہ کسی صاحب یا عالم دین کو دعوت وتبلیغ سے زبردست اختلاف تھا پھر اللہ تعالی نے انہیں اپنے راستے میں قبول فرمایا تو اس سے ان کے تمام اختلافات ختم ہوگئے، بلکہ وہ پچھلی غلط فہمی کی تلافی کرنے کے لئے دوسروں سے زیادہ اس کام کو کرنے لگے۔

...........................................................................................

ہمیں مسلمانوں کو ایک دوسرے سے رواداری اور محبت ونرمی سے پیش آنا ہے۔ چاہے کوئی ہمیں برا بھلا کہے اس پر صبر کرنا اور کام کو کرتے رہنا ہے، یہ نہ ہو کہ ہماری توانائیاں دین کو زندہ کرنے کی کوشش کی بجائے آپس کے اختلافات پر خرچ ہوجائیں، جس سے کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوتا سوائے دل کی دوریوں کے۔
لہذا جو دوست ابھی تک اللہ کی راہ میں نہیں نکلے انہیں اس کام سے پوری طرح تعارف نہیں یا ان کو اس کام کے بارے میں اشکال ہے، ہمارے لئے حکم یہ ہے کہ انبیاء کی ترتیب پر چلتے ہوئے، ہم ان کے ساتھ بھی محبت، نرمی اور رواداری سے پیش آئیں اور ان کے احترام کو ہاتھ سے نہ جانے دیں، وہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں ان کی رائے کو احترام دیں، وہ بھی خیر خواہی اور مسلمانوں کی بہتری کے لئے ہی رائے دے رہے ہوں گے اگر وہ ہم سے سختی کریں تب بھی ہم نے ان سے نرمی سے ہی پیش آنا ہے، مسلمان بھائی کے ساتھ سختی کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔

.........................................................................................

ہم مسلمان آپس میں الجھنے کی ضرورت نہیں ہے، اور خاص کر دین کے کام میں اس کی گنجائش نہیں ہے، دین کے کام میں شیطان ایسے موقعے زیادہ لاتا ہے، دین ہے ہی آپس کے احترام کا نام، جو ہم سے متفق ہے اس کا بھی احترام جو نہیں ہے اس سے بھی احترام سے ہی پیش آنا ہے، جو ہماری توہین بھی کرے اس سے بھی رواداری سے پیش آنا ہے۔
دعوت وتبلیغ ایک مضبوط اور عملی محنت ہے، جب تک اس میں عملا حصہ نہ لیا جائے، تب تک اس کی حقیقت کا اندازہ نہیں ہوتا، اللہ کی راہ میں نکلے بغیر اس کو سمجھنا اور اس کے بارے میں رائے قائم کرنا یکسر مختلف ہوتا اس سے کہ اس میں جاکر اور اس کو کرکے پھر رائے قائم کی جائے۔
ایسے کئی چشم دیدہ واقعات ہیں کہ کسی صاحب یا عالم دین کو دعوت وتبلیغ سے زبردست اختلاف تھا پھر اللہ تعالی نے انہیں اپنے راستے میں قبول فرمایا تو اس سے ان کے تمام اختلافات ختم ہوگئے، بلکہ وہ پچھلی غلط فہمی کی تلافی کرنے کے لئے دوسروں سے زیادہ اس کام کو کرنے لگے۔

دوسری بات یہ ہے کہ کسی کو بھی دعوت وتبلیغ کے کام سے اختلاف کرنے کا حق ہے، تبلیغ والے حضرات نے اس کام کو اپنی علمی کوشش وتحقیق سے مسلمانوں میں دین زندہ کرنے کی یہ محنت شروع کی جو انہوں نے منہاج النبوۃ سے اخذ کی ہے اور ان کے نزدیک دین زندہ کرنے کا یہ طریقہ اقرب الی حیاۃ الصحابہ اور افضل واولی ہے، 
لیکن کسی مسلمان کو ان کی اس ترتیب کے ذریعہ دین زندہ کرنے سے اختلاف ہے ،اس میں الجھنے کی کوئی بات نہیں ہے، اس کے نزدیک جس ترتیب سے دین زندہ کرنا بہتر ہے، وہ اس کے مطابق دین زندہ کرلے اس میں کوئی حرج نہیں، ہمیں تو دین زندہ کرنا مقصود ہے اور اگر ان کی ترتیب جہد سے دین زندہ ہوجائے، تو یہ ہمارے لئے بھی راحت کا باعث ہوگا۔
پہلے ہی امت میں بہت سے اختلافات ہیں، ان سے ہی امت نبرد آزما ہے، مزید اختلاف کو بنانے کی کوشش ہماری کم نصیبی ہی ہوگی۔
ہمیں مسلمانوں کو ایک دوسرے سے رواداری اور محبت ونرمی سے پیش آنا ہے۔ چاہے کوئی ہمیں برا بھلا کہے اس پر صبر کرنا اور کام کو کرتے رہنا ہے، یہ نہ ہو کہ ہماری توانائیاں دین کو زندہ کرنے کی کوشش کی بجائے آپس کے اختلافات پر خرچ ہوجائیں، جس سے کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوتا سوائے دل کی دوریوں کے۔
لہذا جو دوست ابھی تک اللہ کی راہ میں نہیں نکلے انہیں اس کام سے پوری طرح تعارف نہیں یا ان کو اس کام کے بارے میں اشکال ہے، ہمارے لئے حکم یہ ہے کہ انبیاء کی ترتیب پر چلتے ہوئے، ہم ان کے ساتھ بھی محبت، نرمی اور رواداری سے پیش آئیں اور ان کے احترام کو ہاتھ سے نہ جانے دیں، وہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں ان کی رائے کو احترام دیں، وہ بھی خیر خواہی اور مسلمانوں کی بہتری کے لئے ہی رائے دے رہے ہوں گے اگر وہ ہم سے سختی کریں تب بھی ہم نے ان سے نرمی سے ہی پیش آنا ہے، مسلمان بھائی کے ساتھ سختی کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔

 دعوت وتبلیغ کا اصول یہ ہے کہ وہ لوگوں کے اعتراضات کے جواب دینے کے بجائے وہ کام کرتے چلے جاتے ہیں، جوابات تو ہمارے بڑوں نے دے رکھے ہیں، مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں اور یہ حقیقت ہے کہ جب درست طریقے سے علی منہاج النبوت پر کام کیا جائے گا، تو دین کی محنت امت سے چھوٹ جانے کی وجہ سے جو مشکلات اور فرقے پیدا ہوئے اللہ تعالی انشاء اللہ ان سب کو ختم کردیں گے اور تمام امت ایک ہی راستے یعنی صراط مستقیم پر آجائے گی،
 عملا یہ دیکھا گیا ہے کہ بہت سے ............ حضرات جو بہت متشدد تھے جب اللہ کے راستے میں نکلے تو اللہ تعالی نے ان کو معتدل بنادیا اور امت سے نفرت اور ان کو بے دین سمجھنے کی بجائے اللہ تعالی نے ان کو امت کا خیر خواہ اور ہم درد بنادیا،
 امت کو غلط سمجھنا تو آسان ہے، اصل یہ ہے ان پر محنت کرکے ان کو صراط مستقیم پر لانا یہ انبیاء کرام کا شیوہ ہے۔   ہمیں  دعوت وتبلیغ کے کام کے اصول وآداب مد نظر رکھنا ہوں گے۔ کہ ہم کسی سے نہیں الجھیں گے اور کسی کی بے اکرامی نہیں کریں گے، اعتراضات کے جوابات سے اجتناب برتتے ہوئے کام کو مقصد بناکر کرتے جائیں۔
اس لئے میری درخواست ہے کہ ہم کسی سے بھی جھگڑے میں پڑے بغیر اس دعوت والے کام کو مضبوط کریں اور مسلمانوں کو یہ کام سمجھائیں، 
دوسروں کی رائے کے احترام کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم دعوت والے کام کو چھوڑدیں، بلکہ جب ہمیں یہ یقین ہے کہ انشاء اللہ اس طریقے سے کام کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے دین زندہ کرنے کے کام سے زیادہ قریب ہے، تو ہم نے اس میں دل وجان سے لگنا اور اپنی تمام توانائیاں اس پر لگانی ہیں اور قربانی دینی ہے تاکہ تمام مسلمانوں میں دین زندہ ہوجائے اور غیر مسلموں کو بھی اللہ تعالی ہدایت نصیب فرمادیں