Pages

سلطان فتح علی خان ٹیپو Sultan Fatah Ali Khan Tipu Tiger of Mysore

Tra
آ

سلطان فتح علی خان ٹیپو
"شیر کی ایک دن کی زندگی ، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے"۔
یہ فقرہ تو آپ نے کافی دفعہ سنا ہوگا لیکن شائد آپ کو معلوم نہ ہوگا۔ یہ کس نے کہا تھا۔ یہ مشہور جملہ سلطان فتح علی ٹیپو کا ہے۔جو بعد میں ایک ضرب المثل کے طور پر مشہور ہوگیا۔

ٹیپو سلطان 10 نومبر 1750 کو پیدا ہوئے ۔ ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف جدوجہد کرنے والے آخری حکمران تھے۔ آپ کا پورا نام فتح علی ٹیپو تھا۔ آپ نے اور آپ کے والد سلطان حیدر علی نے جنوبی ہند میں 50 سال تک انگریزوں کو روکے رکھا اور کئی بار انگریزی افواج کو شکست فاش دی۔
سلطان ٹیپو کی والدہ کا نام فاطمہ اور والد کا نام حیدر علی تھا۔ سلطان حیدر علی کو قدرت نے جنوبی ہندوستان میں ایک وسیع و عریض سلطنت سے نوازا تھا لیکن وہ سلطنت کے وارث سے محروم تھے۔ اس سلطنت میں آج کا بنگلور بھی شامل تھا جو بھارت میں جدید ٹیکنالوجی کا مرکز ہونے کے ناطے عالمی شہرت رکھتا ہے۔
ٹیپو نام کی وجہ شہرت
ایک تاریخی روایت ہے کہ حیدر علی نے جنوبی ہندوستان کے شہر اوکاٹ میں ایک مشہور ولی ٹیپو مستان کے مزار پر حاضری کے دوران اللہ تعالی سے بیٹے کی دعامانگی ۔ اور مراد پوری ہونے پر بزرگ کے نام پر ہی بچے کا نام رکھنے کی نیت بھی کی اور جب 10نومبر 1750ء کو بیٹا پیدا ہوا تو اس کا نام ٹیپو رکھا۔ ٹیپو کے دادا کا نام فتح محمد تھا۔ ٹیپو نے اپنے ایک بیٹے کا نام فتح حیدر رکھا جو ٹیپو کے باپ اور دادا کے ناموں کا امتزاج تھا۔ خود ٹیپو کا نام ''فتح علی خان'' مشہور ہوا جس کا پہلا لفظ ان کے دادا کا نام اور دوسرا لفظ باپ کے نام کا آخری لفظ تھا۔ تاہم ان کا پیدائشی نام فتح علی نہیں تھا' اور ٹیپو ان کا لقب نہیں بلکہ پیدائشی نام تھا۔ اپنے بیٹے فتح حیدر کی نسبت سے ان کی کنیت ابوالفتح تھی
آپ نے برطانوی سامراج کے خلاف ایک مضبوط مزاحمت فراہم کی اور برصغیر کے لوگوں کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرنے کیلیے سنجیدہ عملی اقدامات کئے ۔سلطان نے انتہائی دوررس اثرات کی حامل فوجی اصلاحات نافذ کیں صنعت و تجارت کو فروغ دیا اور انتظامیہ کو ازسرنو منظم کیا سلطان کو اس بات سے اتفاق تھا کہ برصغیر کے لوگوں کا پہلا مسئلہ برطانوی اخراج ہے۔ نظام حیدرآباد دکن اور مرہٹوں نے ٹیپو کی طاقت کو اپنی بقا کیلیے خطرہ سمجھا اور انگریزوں سے اتحاد کرلیا۔
ٹیپو سلطان نے ترکی، ایران، افغانستان اور فرانس سے مدد حاصل کرنے کی کوششیں کیں مگر کا میاب نہ ہوسکے۔ میسور کی آخری جنگ کے دوران جب سرنگاپٹم کی شکست یقینی ہوچکی تھی سلطان ٹیپو نے محاصرہ کرنے والے انگریزوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کی اور قلعے کو بند کروادیا غدار ساتھیوں نے دشمن کیلیے قلعے کا دروازہ کھول دیا اور قلعے کے میدان میں زبردست جنگ چھڑ گئی۔بارُود کے ذخیرے میں آگ لگ جانے کے باعث مزاحمت کمزور ہوگئی اس موقع پر فرانسیسی افسر نے ٹیپو کو  بھاگ جانے اور اپنی جان بچانے کا مشورہ دیا مگر سلطان ٹیپو راضی نہ ہوئے اور اسی موقع پر آپ نے وہ تاریخی جملہ کہا
شیر کی ایک دن کی زندگی ، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔



آخر کار1799ء میں دوران جنگ سر پر گولی لگنے سےشہید ہو گئے۔ انگریز آپ کو لاش کے قریب آتے ہوئے بھی ڈرتے تھے کہ کہیں یہ پھر نہ کھڑے ہوجائیں۔کیونکہ ان کی بہادری بہت مشہور تھی۔
جب شہادت کی اطلاع انگریز جنرل کو ہوئی تو وہ خوشی سے پھولا نہ سمایا۔ اور سلطان کی لاش کے قریب آیا اور اس موقع پر جنرل نے ایک بہادر سپاہی کی طرح شیر میسور کو سلیوٹ کیا اور تاریخی جملہ کہا کہ ”آج سے ہندوستان ہمارا ہے، اب کوئی طاقت ہماری راہ نہیں روک سکتی“ اور اسکی نعش اندر محل کے زنان خانے میں بھجوائی تاکہ اہلخانہ اس کا آخری دیدار کریں اس کے ساتھ ہی آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھک گیا۔ جب سلطان کی قبر کھودی جانے لگی تو آسمان کا سینہ بھی شق ہو گیا اور چاروں طرف غیض و غضب کے آثار نمودار ہوئے، بجلی کے کوندے لپک لپک کر آسمان کے غضب کا اظہار کر رہے تھے۔ اور آسمان بھی اس عظیم لیڈر کی شہادت پر خوب رویا۔
انداز حکمرانی

ٹیپو سلطان کی زندگی ایک سچے مسلمان کی زندگی تھی مذہبی تعصب سے پاک تھے یہی وجہ تھی کہ غیر مسلم ان کی فوج اور ریاست میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ ٹیپو سلطان نے اپنی مملکت کو مملکت خداداد کا نام دیا ۔حکمران ہونے کے باوجود خود کو عام آدمی سمجھتے ۔باوضو رہنا اور تلاوت قرآن آپ کے معمولات میں سے تھے ۔ ظاہری نمودونمائش سے اجتناب برتتے ۔ ہر شاہی فرمان کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کیا کرتے تھے۔ زمین پر کھدر بچھا کر سویا کرتے تھے۔
علم دوست حکمران
ٹیپو سلطان ہفت زبان حکمران کہے جاتے ہیں آپ کو عربی ، فارسی ، اردو ، فرانسیسی ، انگریزی سمیت کئی زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔ آپ مطالعے کے بہت شوقین تھے اور زاتی کتب خانے کے مالک تھے جس میں کتابوں کی تعداد کم و بیش 2000 بیان کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ آپ سائنسی علوم میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔ آپ کو برصغیر میں راکٹ سازی کا موجد کہا جاتا ہے۔
عظیم سپہ سالار
ہر جنگ میں اپنی افواج کے شانہ بشانہ رہنے والے ٹیپو سلطان اپنے زمانے کے تمام فنون سپہ گری سے واقف تھے۔ اپنی افواج کو پیادہ فوج کے بجائے سواروں اور توپ خانے کی شکل میں زیادہ منظّم کیا ۔ اسلحہ سازی ، فوجی نظم و نسق اور فوجی اصلاحات میں تاریخ ساز کام کیا۔
میسور کی چوتھی جنگ
میسور کی چوتھی جنگ جو سرنگاپٹم میں لڑی گئی جس میں سلطان نے کئی روز قلعم بند ہوکر مقابلہ کیا مگر سلطان کی فوج کے دو غدّار میر صادق اور پورنیا نے اندورن خانہ انگریزوں سے ساز باز کرلی تھی۔ میر صادق نے انگریزوں کو سرنگاپٹم کے قلعے کا نقشہ فراہم کیا اور پورنیا اپنے دستوں کو تنخواہ دینے کے بہانے پیچھے لے گيا۔ شیر میسور کہلانے والے ٹیپو سلطان نے داد شجاعت دیتے ہوئے کئی انگریزوں کو جہنم واصل کیا اور سرنگاپٹم کے قلعے کے دروازے پر جامِ شہادت نوش فرمایا


علامہ اقبال کی نظر میں
شاعر مشرق علامہ اقبال کو ٹیپو سلطان شہید سے خصوصی محبت تھی 1929 میں آپ نے شہید سلطان کے مزار پر حاضری دی اور تین گھنٹے بعد باہر نکلے تو شدّت جذبات سے آنکھیں سرخ تھیں۔ آپ نے فرمایا
ٹیپو کی عظمت کو تاریخ کبھی فراموش نہ کرسکے گی وہ مذہب ملّت اور آزادی کے لیے آخری دم تک لڑتا رہا یہاں تک کے اس مقصد کی راہ میں شہید ہوگیا