Pages

Hazrath Moulana Zubair ul hasan of Nizamuddin Markaz



إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ 

INNA LILLAHI WA INNA LILLAHI RAJEOON.............

Hazrat Maulana Zubair ul hasan sb has died on 18th March 2014 around 11:00 AM in RML hospital,New Delhi 
May Allah SWT forgive him, grant him the highest rank in Jannah give sabr to his family members. And Allah give us Best replacement (bahtareen Naemul badal ).

The journey of a Muslim believer (soul) after death 

Everyone has to die one day. Allah says in the Quran:
 
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ (الأنبياء: 35
 

“Everyone is going to taste death, and We shall make a trial of you with evil and with good, and to Us you will be returned.” Quran (Surah Al-Anbiya:21)
However, the return of every soul to the afterlife shall depend on its state of righteousness in this world. To the pious believers, it will be said (as stated in the Quran):

يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ (الفجر: 27).
ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً (الفجر: 28).
فَادْخُلِي فِي عِبَادِي (الفجر: 29).
وَادْخُلِي جَنَّتِي (الفجر: 30). 
 

27. (It will be said to the pious): “O (you) the one in (complete) rest and satisfaction!.
28. “Come back to your Lord well-pleased (yourself) and well-pleasing (unto Him)!.
29. “Enter you then among My (honored) slaves,.
30. “And enter you My Paradise!”




Maut-ul-Alim, Maut-ul-Alam (Death of a scholar is a loss to the whole Universe)

Hazrath Maulana Zubair was a among the Muqeem of Bangle wali masjid and ustad at Madarsa Kashiful Uloom (Markaz Nizamuddin.). He used to give very small talk usually before dua at Nizamuddin,But the small talk used to be so impressive ......that even a stranger can feel.

He talk used to be Full of Akhlaqiat , manner, etiquette, Maashrat and remeberance of Akhirah the eternal life after death.

May Allah SWT give him place in Janat-ul-firdaus (amin)..

:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 4‏، جلد: 98 ‏، جمادی الثانیة 1435 ہجری مطابق اپریل 2014ء



حرفِ آغاز


حبیب الرحمن اعظمی


اٹھ گیا ناوِک فگن، مارے گا دل پہ تیر کون
          آہ کہ ۱۶/جمادی الاولیٰ ۱۴۳۵ھ مطابق ۱۸/مارچ ۲۰۱۴/ یوم سہ شنبہ کو گیارہ بجے دن میں جماعتِ تبلیغی کے موجودہ اکابر میں صفِ اول کے داعی ومبلغ اور عالمی شہرت یافتہ عالمِ دین حضرت مولانا زبیرالحسن کاندھلوی کا ”رام منوہر لوہیا ہسپتال“ دلی میں (جہاں وہ زیرِ علاج تھے) انتقال ہوگیا، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون، رَحِمَہُ اللّٰہُ تعالیٰ رَحْمَةَ عبادِہ المحسنینَ المُخْلصین
          کسی با فیض وبابرکت ہستی کا اس دنیا سے کوچ کرجانا تاریخِ عالم کا کوئی نادر واقعہ نہیں ہے، ربِ کائنات کے وہ بے شمار منتخب وبرگزیدہ بندے جنھیں ہم عقیدت ومحبت اور عظمت واحترام کے جذبہٴ بے پایاں سے ”علیہ الصلاةُ والسلام، رضی اللہ عنہ، قُدِّسَ سِرُّہ“ وغیرہ دعائیہ کلمات کے ساتھ یاد کیا کرتے ہیں، آخر ایک وقت اور ایک زمانہ میں یہ ساری بزرگ ہستیاں اسی دنیا میں تھیں، اور خالقِ ہردوجہاں کے مقررہ قانون کے مطابق اپنی اپنی مدتِ حیات پوری کرکے عالمِ آخرت کو سدھارگئیں۔
          پھر بھی دین کی غربت اور امت کی زبوں حالی کے دور میں اللہ تعالیٰ کے کسی صالح ومصلح بندے اور دین کے ممتاز خادم کا کارگاہِ حیات سے رخصت ہوجانا، بلاشبہ باعثِ افسوس وحسرت ہوتا ہے؛ بالخصوص جب صورتِ حال یہ ہے کہ جانے والے کے چلے جانے کے بعد اس کی جگہ پُرہوتی ہوئی دیکھی نہیں جاتی اور یہ احساس قوی سے قوی تر ہوتا جارہا ہے کہ خدائے عالم الغیب کے آخری بنی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی ”یَذْہَبُ الصَّالِحُونَ الأوَّلُ فَالأوّلُ وَتَبْقٰی حُفالةٌ کَحُفالةِ الشعیر لا یُبالِیْہُم اللّٰہ“ (رواہ البخاری) کی طرف دنیا دھیرے دھیرے قدم بڑھارہی ہے۔
          حضرت مولانا زبیرالحسن رحمہ اللہ اسی جماعتِ خیر وصلاح کی یادگار تھے، وہ ہمارے ملک کے ایک ایسے علمی ودینی خانوادہ کے رکن رکین تھے، جس کی علمی دینی اور دعوتی سرگرمیوں کا دائرئہ عمل ایشیا ہی نہیں؛ بلکہ پورا افریقہ، یورپ اور امریکہ کو محیط ہے، خود مولانا مرحوم نے اپنی زندگی اسلامی علوم کی تعلیم واشاعت اور دینی احکام کی تبلیغ ودعوت کے لیے وقف کررکھی تھی، جس کے لیے وہ دنیا کے ہر خطے اور ہر گوشے میں پہنچے اور بندگانِ خدا کا ان کے خالق ومالک سے رابطہ استوار کرنے کی سعیِ مشکور کی۔
          مولانا مرحوم کی شخصیت بڑی پرکشش تھی، وجاہت ونجابت ان کے چہرے بشرے سے اس طرح نمایاں تھی، جیسے چودھویں کے چاند سے لطیف وراحت خیز چاندنی! اللہ تعالیٰ نے خاندانی شرافت کے ساتھ علم وعمل کی دولت سے بھی سرفراز فرمایا تھا، جماعت کے مدرسہ کاشف العلوم نظام الدین دلی کے شیخ الحدیث، جماعتِ تبلیغی کی امارتی شوریٰ کے رکنِ رکین بھی تھے، ریحانة العصر حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا قُدِّسَ سِرُّہ کی جانب سے شرفِ خلافت سے بھی ہم کنار تھے اور دنیا میں پھیلے ہوئے لاکھوں نیازمندوں کی محبت وعقیدت کے ایسے محور ومرکز تھے کہ پروانہ کی طرح ان پر نچھاور ہونے کے لیے ہمہ وقت آمادہ رہتے تھے، دل ودماغ میں احساسِ بڑائی پیدا کرنے والے ان سارے اسباب کے مجمع البحار اور سنگم ہونے کے باوجود تواضع وانکساری کے مکمل پیکر تھے، مسکنت اور خاکساری ان کی ادا، ادا سے جھلکتی تھی، وہ اپنے متعلقین اور عقیدت مندوں ہی سے نہیں؛ بلکہ اجنبی اور بیگانوں سے بھی محبت ویگانگت کے ساتھ پیش آتے تھے، مسلمانوں ہی سے نہیں؛ بلکہ غیرمسلموں کے ساتھ بھی خوش اخلاقی کا ایسا والہانہ معاملہ کرتے تھے کہ وہ ان کا ہمیشہ کے لیے گرویدہ ہوجاتا تھا، غرضیکہ ان کی مجلسِ ملاقات سے جو بھی اٹھتا اس کی زبانِ حال پر یہی ہوتا تھا۔
بہت لگتا ہے جی صحبت میں ان کی
وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں
          بندہ چونکہ طبعی طور پر سفر سے گریز کرتا ہے، اس دلی سے قریب رہتے ہوئے بھی وہاں جانے کی نوبت کم ہی آتی ہے، بس جمعیة علماء ہند کی مجلسِ عاملہ میں شرکت کے لیے سال میں دو چار مرتبہ جانا ہوتا ہے، اور یہ سفر بھی بالعموم جمعیة دفتر تک ہی محدود رہتا ہے، کہیں اور جانے کا اتفاق نہیں ہوتا؛ اس لیے مولانا مرحوم سے ملنے کا موقع کم ہی میسر آیا، جہاں تک یاد آتا ہے، حضرت مولانا محمد طلحہ صاحب مدظلہ کے دولت کدہ پر مختلف اوقات میں دو تین بار شرفِ نیاز حاصل ہوا اور بس، ان نادر ملاقاتوں میں بھی وہ ایسے تپاک اور گرم جوشی سے ملے، گویا عرصہ کی شناسائی ہو، پھر مولانا کا یہ معاملہ کسی تکلف وتصنع پر مبنی نہیں ہوتا تھا؛ بلکہ دین کے ایک داعی ہونے کی حیثیت سے انھوں نے اپنی زندگی کو اسی سانچے میں ڈھال لیا تھا، اور یہی اسلامی فاضلانہ اخلاق ان کا مزاج اور طبیعت بن گئے تھے۔
          مولانا مرحوم کا جسم بہت بڑھ گیا تھا اور اتنا بڑھ گیا تھا کہ وہ چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے ہی سے نہیں؛ بلکہ روز مرہ کے بہت سارے امور کے انجام دینے سے معذور تھے، اس کے باوجود دین کی راہ میں طول طویل اسفار کی صعوبتوں کو پوری بشاشت سے برداشت کرتے تھے۔ امتِ مسلمہ کے بارے میں ان کی دردمندی ودلسوزی کا اندازہ اس وقت ہوتا تھا جب وہ ربِ کریم کے آگے دست بدعا ہوتے تھے، خود تڑپتے تھے اور دوسروں کو بھی تڑپاتے تھے، امت کی صلاح وفلاح کے لیے خود بھی روتے تھے، اوروں کو بھی رلاتے تھے، اس موقع پر ان کی محویت کا یہ عالم ہوتا کہ وقت دبے پاؤں دور بہت دور چلا جاتا اور انھیں ادنیٰ احساس تک نہ ہوتا، تقویٰ وطہارت اور اخلاص وللہیت نے ان کی دعاؤں میں اس قدر اثر بھردیا تھا کہ پتھر جیسے سخت دل بھی پسیجے بغیر نہیں رہتے تھے، کَثَّرَ اللّٰہُ تعالی امثالَہم۔
مختصر سوانح حیات:
          جماعتِ تبلیغی کے امیرِ ثالت حضرت مولانا انعام الحسن کاندھلوی رحمہ اللہ، مولانا مرحوم کے والد بزرگوار اور حضرت اقدس شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا نوراللہ مرقدہ آپ کے حقیقی نانا تھے۔
تاریخ پیدائش اور ابتدائی تعلیم وتربیت: ۱۰/جمادی الثانی ۱۳۶۹ھ مطابق ۳۰/مارچ ۱۹۵۰/ کو حضرت شیخ الحدیث قدس سرہ کے بابرکت مکان میں ولادت ہوئی، عمر کے پانچ سال پورے ہوجانے پر مورخہ ۵/ربیع الاوّل ۱۳۷۴ھ یکم جنوری ۱۹۵۵/ کو حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمہ اللہ نے اپنی خانقاہ رائے پور میں آپ کی ”بسم اللہ“ کرائی، حفظِ قرآن مجید کے بعد فارسی وابتدائی عربی کی تعلیم ہدایة النحو، وکافیہ وغیرہ تک گھر میں پائی، بعد ازاں شوال ۱۳۸۵ھ فروری ۱۹۶۶/ میں مظاہر علوم سہارنپور میں باضابطہ داخل ہوئے اور شرحِ جامی اور شرحِ وقایہ سے یہاں تحصیل کا آغاز کیا، پھر سال بہ سال آگے بڑھتے ہوئے شوال ۱۳۸۹ھ میں دورئہ حدیث کی جماعت میں داخل ہوئے اور صحاحِ ستہ کی تکمیل کرکے شعبان ۱۳۹۰ھ فاتحہٴ فراغ پڑھی، صحیح بخاری، وصحیح مسلم کا درس مولانا محمد یونس جونپوری شیخ الحدیث مظاہر علوم کے یہاں تکمیل کو پہنچا، سنن ابوداؤد اور سنن نسائی مولانا محمدعاقل صاحب، ترمذی مولانا مفتی مظفرحسین صاحب اور طحاوی حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب ناظم مدرسہ سے پڑھیں۔
سلوک: تعلیم سے فارغ ہوجانے کے بعد اپنے نانا جان ریحانةُ العصر حضرت شیخ الحدیث قدس سرہ کے ہاتھ پر بیعت سلوک کی، اور انھیں کی زیرہدایت ذکر وشغل میں مصروف ہوئے اور تقریباً آٹھ برس مشغولِ ریاضت رہ کر ربیع الاوّل ۱۳۹۸ھ فروری ۱۹۷۸/ یومِ جمعہ کو اجازت وخلافت سے ہم کنار ہوئے، یہ اجازت وخلافت حضرت شیخ قدس سرہ نے انھیں مدینہ منورہ میں مسجدِ نبوی علی صاحبہا الصلاة والسلام میں عطا فرمائی تھی، بعد میں والدِ ماجد حضرت مولانا انعام الحسن رحمہ اللہ کی طرف سے بھی انھیں خلافت واجازت حاصل تھی، تعلیم وتربیت کے بعد تبلیغی مرکز نظام الدین میں رہ کر تعلیم وتدریس اور دعوت وتبلیغ کے لیے اپنی زندگی وقف کردی، تقریباً بیس سال سے زیادہ بخاری شریف کا درس دیا، اور ملک وبیرونِ ملک کے سیکڑوں تبلیغی اسفار کیے، مرحوم ادھر چند سالوں سے گردہ کے عارضہ میں مبتلا ہوگئے تھے اور یہی بیماری بظاہر موت کا سبب بنی، بلا ریب مولانا ”کل نفس ذائقة الموت“ کے کلی ضابطہ کے تحت موت کی آغوش میں پہنچ گئے؛ مگر اس سچائی میں بھی کوئی شک وتردد نہیں ہے کہ
ہرگز نمیرد آں کی دلش زندہ شد بہ عشق

Below urdu tassurat has been shared by Brother Naveed Saif18 March 2014 02:19 . It is being reproduced with thanks from http://nizamuddinbayanaat.blogspot.in/2013/03/hazrath-maulana-zubair-ul-hassan-sahabdb.html




حضرت مولانا زبیر الحسن نوّر اللہ مرقدہ حضرت مولانا انعام الحسن علیہ الرحمۃ کے بیٹے اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی علیہ الرحمۃ کے نواسے ہیں,اپنے والد کی طرح تبلیغی اجتماعات و مرکز نظام الدین میں بہت کم بیان کرتے لیکن شاید ہی کوئ اجتماع ان کی دعا کے بغیر مکمل ہوا ہو اور روزانہ مرکز نظام الدین سے جو سینکڑوں کی تعداد میں جماعتیں روانہ ہوتی ہیں ان کی روانگی سے قبل حضرت کی مختصر مگر جامع نصیحت کے ساتھ دعا کا بھی معمول تھا,روزانہ وہی الفاظ اور وہی انداز لیکن ہر روز ایک الگ اثرایک الگ کیفیت,راقم بھی بفضلِ خدا ان سعادت مندوں میں شامل ہےجنہوں نے اس کا ادراک کیا ہے,اور ایک بات بتاتا چلوں اور بہت سوں کو تو پتہ بھی ہوگا کہ حضرت کافی عظیم الجثہ تھے اللہ تعالی بہتر جانتے ہیں کہ کب سے وھیل چیئر پر تھے آسانی سے نقل و حرکت از حد دشوار تھی عمر بھی کافی ہو گئ تھی لیکن ان سب کے باوجود مرکز کا مشورہ( جو روزانہ ٹھیک نو بجے بنگلہ والی مسجد میں شروع ہو تا ہے جس میں عالمی سطح کے امور طئے کئے جاتے ہیں اورسال لگانے والوں کو مشورہ میں شرکت کی اجازت ہوتی ہے ) کا کبھی ناغہ نہیں کیا, راقم نے اپنی آنکھوں سے ایک نہیں متعدد بار دیکھا کہ خادم کے ساتھ وھیل چیئر پر آتے سر جھکا کر امور سنتے شاید ہی کسی چیز پر اعتراض کیا ہو ایک حضرت ہی کیا سبھی شرکائے مشورہ کا یہی حال رہتا,آج جب حضرت کے رحلت کی خبر سنی تو بہت سارے مناظر آنکھوں میں گھوم گئے,اللہ عزوجل حضرت کو غریق رحمت فرمائے اور امت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے.
(م ن س)
FROM 
http://www.sunniforum.com/forum/showthread.php?29194-A-diamond-unknown-to-muslims/page11Hazrath Moulana Zubair ul hasan (db)

today Mufti Nawal ur rahman was telling about love of reading Quran

he said once i was in nizamuddin markaz, after magrib i saw zubair sahab read 2 para of quran to Hazrath inam ul hasan then in tarawi he read 1.5 para then after tarawi i came out to drink some tea at around 12 am, i saw a moulana (i forgot his name) going with some women towards the ladies section. when he returned back i asked him, why are women going there now. on that moulana replied u dont know about this thing, i said no, i dont. then that maulana said moulana Zubair daily recites 10 para in the ladies section at this time

then Mufti nawal ur rahman said Hazrath Zubair also reads 1.5 para in tahajuth

it is a well known fact that the akabir and their families in markaz sleep in ramazan only after ishrak (around half an hour after last time of fajar)

this is the story of a man who is still alive

http://www.sunniforum.com/forum/showthread.php?29194-A-diamond-unknown-to-muslims/page11