Pages

Ahadith of Muslim Shareef Arabic text and Urdu Translation and Imam Gazali R.A. on importance of Amar Bil Maroof Nahi Anil Munkar (Commanding for good forbidding from sin)


من راٰی منکم فلیغیرہ ُبیدہٖ فان لُم یستطع فبلسانہٖ فان لّم یستطع فبقلبہٖ و ذالک اضعفُ الایمان۔ (مسلم)
یعنی تم میں جب کوئی شخص برایء کو دیکھے تو چاہئے کہ اپنے ہا تھوں سے کام لے کراس کو دور کرے اور اگر اس کی طاقت نہ پائےتو زبان سے ۔ اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے اور یہ آخری صورت ایمان کی بڑی کمزوری کا درجہ ہے ۔
پس جس طرح آخری درجہ اضعف ایمان کا ہوا ،اسی طرح پہلا درجہ کمالِ ایمان کا ہوا ۔ اس سے بھی واضع تر حدیث ابن مسعودؓ کی ہے۔ ’’مَا مِنْ نَّبِیٍّ بَعَثَہُ اللّٰہُ قَبْلِیْ اِلَّا کَانَ لَہُ فِیْ اُمَّتِہٖ حَوَارِیُّوْنَ وَاَصْحَابُ یَأْخُذُوْنَ بِسُنَّتِہٖ وَیَقْتَدُوْنَ بِاَمْرِہٖ ثُمَّ اِنَّہَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِہِمْ خُلُوْفُیَّقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَ وَیَفْعَلُوْنَ مَالَا یُؤْمَرُوْنَ فَمَنْ جَاہَدَہُمْ بِیَدِہٖ فَہُوَ مُؤْمِنُ وَمَنْ جَاہَدَہُمْ بِلِسَانِہٖ فَہُوَ مُؤْمِنُ وَمَنْجَاہَدَہُمْ بِقَلْبِہٖ فَہُوَ مُؤْمِنُ وَلَیْسَ وَرَائَ ذَلِکَ مِنَ الْاِیْمَانِ حَبَّۃُخَرْدَلٍ۔ (مسلم)
یعنی سنت الٰہی یہ ہے کہ ہر نبی اپنے ساتھیوں اور تربیت یافتہ یاروںکی ایک جماعت چھڑ جاتا ہے ۔ یہ جماعت نبی کی سنت کو قائم رکھتی ہے اور ٹھیک ٹھیک اس کی پیروی کرتی ہے یعنی شریعت الٰہی کو جس حال اور جس شکل میں نبی چھوڑ گیا ہے اس کو بعینہٖ محفوظ رکھتے ہیں اور اس میں ذرا بھی فرق نہیں آنے دیتے لیکن اس کے بعد شروفتن کا دور آتا ہے اور ایسے لوگ پیدا ہوجاتے ہیںجو طریقہ نبی سے ہٹ جاتے ہیں۔ ان کا فعل ان کے دعوے کے خلاف ہوتا ہے اور ان کے کام ایسے ہوتے ہیں جن کے لئے شریعت نے حکم نہیں دیا ۔ سو ایسے لوگوں کے خلاف جس شخص نے قیام حق و سنت کی راہ میں اپنے ہاتھ سے کام لیا وہ مومن ہے ۔ اور جو ایسا نہ کر سکا مگر زبان سے کام لیا وہ بھی مومن ہے اور جس سے یہ بھی نہ ہو سکا اور دل کے اعتقاد اور نیت کے ثبات کو ان کے خلاف کام میں لایا وہ بھی مومن ہے لیکن اس آخری درجہ کے بعد ایمان کا کوئی درجہ نہی اس پر ایمان کی سرحد ختم ہو جاتی ہے حتیٰ کہ اب رائی کے دانے برابر بھی ایمان نہیں ہو سکتا۔
اس کام کی اہمیت اور ضرورت کو امام غزالیؒ نے اس طرح ظاہر فرمایا ہے ۔ـ ـاس میں کچھ شک نہیں کہ امر با لمعروف و نہی عن المنکردین کا ایسا زبردست رکن ہے جس سے دین کی تمام چیزیں وابستہ ہیں۔ اس کو انجام دینے کے لئے حق تعالیٰ نے تمام انبیائِ کرام کو مبعوث فرمایا۔اگر خدا نا خواستہ اس کو بالائے طا ق رکھ دیا جائے اور اس کے علم و عمل کو ترک کر دیا جائے تو العیاذباللہ نبوت کا بیکار ہونا لازم آئے گا ۔دیانت جو شرافت انسانی کا خاصہ ہے مضمحل اور افسردا ہو جائے گی۔کاہلی اور سستی عام ہو جائے گی گمراہی اور ضلالت کی شاہراہیںکھل جائیں گی جہالت عالمگیر ہو جائے گی تمام کاموں میں خرابی آجائے گی آپس میںپھوٹ پڑ جائے گی آبادیاں خراب ہو جائیں گی مخلوق تباہ و برباد ہو جائے گی اور بربادی کی اس وقت خبر ہو گی جب روز محشر خدائے بالاو برتر کے سامنے پیشی اور بازپپرس ہو گی ۔
افسوس صد افسوس جو خطرہ تھا سامنے آ گیا جو کھٹکا تھا آنکھوں نے دیکھ لیا:
کان امر اﷲ قدرا مّقدورا o فانّ اﷲ و انّا الیہ راجعون
اس سر سبز ستون کے علم و عمل کے نشانات مٹ چکے اس کی حقیقت و رسوم کی برکتیں نیست و نابود ہو گئیں لوگوں کی تحقیرو تذلیل کا سکہ قلوب پر جم گیا خدائے پاک کے ساتھ کا قلبی تعلق مٹ چکا اور نفسانی خواہشات کے اتباع میں جانوروں کی طرح بے باک ہو گئے روئے زمیں پر ایسے صادق مومن کا ملنا دشوار و کمیاب ہی نہیں بلکہ معدوم ہو گیا جو اظہار حق کی وجہ سے کسی کی ملامت گوارا کرے ۔
اگر کوئی مرد مومن اس تباہی اور بربادی کے ازالہ میں سعی کرے اور اس سنت کے احیاء میں کوشش کرے اور اس مبارک بوجھ کو لے کر کھڑا ہو اور آستینیں چڑھا کر اس سنت کے زندہ کرنے کے لئے میدان میں آئے تو یقینا وہ شخص تمام مخلوق میں ایک ممتاز اور نمایاں ہستی کا مالک ہو گا۔