Pages

Sulah Hudaibia (Treaty) in 6th Hijri after prophet migration to Madeenah and Stories of Abu Jindal and Abu Baseer Radhiallahu Anhum Ajmaeen


۳۔ صلح حدیبیہ اور ابو جندل رضی اﷲ عنہ اور ابو بصیر رضی اﷲ عنہ کا قصہ
۶ھ؁ میں حضور اقدس ﷺعمرہ کے ارادہ سے مکہ تشریف لے جارہے تھے۔ کفارِمکہ کو اسکی خبر ہوئی اوروہ اس خبرکو اپنی ذلت سمجھے اس لئے مزاحمت کی اور حدیبیہ میں آپ کو رکنا پڑا۔ جاں نثار صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ساتھ تھے جو حضور ﷺ پر جان قربان کرنا فکر سمجھتے ۔ لڑنے کو تیار ہوگئے۔مگر حضور ﷺ نے مکہ والوں کی خاطر سے لڑنے کا ارادہ نہیں فرمایا اور صلح کی کوشش کی اور باوجود صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی لڑائی پر مستعدی اور بہادری کے حضور اکرم ﷺ نے کفار کی اس قدر رعایت فرمائی کہ ان کی ہر شرط کو قبول فرمالیا۔ صحابہ رضی اﷲ عنہم کو اس طرح دب کر صلح کرنا بہت ہی ناگوار تھا مگر حضور ﷺ کے ارشاد کے سامنے کیا ہو سکتا تھا کہ جاں نثار تھے اور فرمانبردار،اس لئے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ جیسے بہادروں کو بھی دبنا پڑا۔ صلح میں جو شرطیں طے ہوئیں ان شرطوںمیں ایک یہ شرط بھی تھی کہ کافروں میں سے جو شخص اسلام لائے اور ہجرت کرے مسلمان اس کو مکہ واپس کردیںاور مسلمانوں میں سے خدانخواستہ اگر کوئی مرتد ہو کر چلا آئے تو وہ واپس نہ کیا جائے یہ صلح نامہ ابھی تک پورا لکھا بھی نہیں گیا تھا کہ حضرت ابوجندل رضی اﷲ عنہ ایک صحابی تھے جو اسلام لانے کی وجہ سے طرح طرح کی تکلیفیں برداشت کر رہے تھے او ر زنجیروں میں بندھے ہوئے تھے ۔ اسی حالت میں گرتے پڑتے مسلمانوں کے لشکر میں اس امید پر پہنچے کہ ان لوگوں کی حمایت میں جاکر اس مصیبت سے چھٹکارا پاؤں گا۔ اُن کے باپ سہیل نے جو اس صلح نامہ میں کفار کی طرف سے وکیل تھے اور اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، فتح مکہ میں مسلمان ہوئے۔انہوں نے صاحبزادے کے طمانچے مارے اور واپس لے جانے پر اصرار کیا۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ابھی صلح نامہ مرتب بھی نہیں ہوا اس لئے ابھی پابندی کس بات کی مگر اُنہوں نے اصرار کیا۔ پھر حضورﷺ نے فرمایا کہ ایک آدمی مجھے مانگا ہی دے دو ۔ مگر وہ لوگ ضد پر تھے نہ مانا۔ ابو جندل رضی اﷲ عنہ نے مسلمانوں کو پکار کر فریاد بھی کی کہ میں مسلمان ہو کر آیا اور کتنی مصیبتیں اُٹھا چکا اب واپس کیا جارہا ہوں، اس وقت مسلمانوں کے دلوں پر جو گذررہی ہوگی اللہ ہی کو معلوم ہے مگر حضورﷺ ا رشاد سے واپس ہوئے حضورﷺ نے تسلی فرمائی اور صبر کرنے کا حکم دیا،اور فرمایا کہ عنقریب حق تعالیٰ شانہٗ تمہارے لئے راستہ نکالیں گے صلح نامہ کے مکمل ہو جانے کے بعد ایک دوسرے صحابی ابو بصیر رضی اﷲ عنہبھی مسلمان ہو کر مدینہ منورہ پہنچے ۔ کفار نے ان کو واپس بلانے کے لئے دو آدمی بھیجے حضورِ اقدسﷺنے حسب وعدہ واپس فرمادیا۔ ابو بصیر رضی اﷲ عنہ نے عرض بھی کیاکہ یا رسول اللہﷺمیں مسلمان ہو کر آیا آپ مجھے کفار کے پنجہ میں پھر بھیجتے ہیں ۔ آپ نے ان سے بھی صبر کرنے کو ارشاد فرمایا اور فرمایا کہ انشاء اللہ عنقریب تمہارے واسطے راستہ کھلے گا۔ یہ صحابی ان دونوں کافروں کے ساتھ واپس ہوئے ۔ راستہ  میں ان میں سے ایک سے کہنے لگے کہ یار تیری یہ تلوار تو بڑی نفیس معلوم ہوتی ہے۔ شیخی باز آدمی ذرا سی بات میں پھول ہی جاتا ہے وہ نیام سے تلوار نکال کر کہنے لگا کہ ہاںمیں نے بہت سے لوگوں پر اس کا تجربہ کیا ہے یہ کہہ کر تلوار ان کے حوالہ کردی۔ اُنہوں نے اسی پر اس کا تجربہ کیا۔ دوسرا ساتھی یہ دیکھ کر کہ ایک کو تو نمٹا دیا اب میرا نمبر ہے۔ بھاگا ہوا مدینہ آیا اور حضور اکرم ﷺکی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میرا ساتھی مر چکا ہے اب میرا نمبر ہے۔ اس کی بعد ابو بصیر رضی اﷲ عنہ پہنچے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ اپنا وعدہ پورا فرما چکے کہ مجھے واپس کر دیا اور مجھ سے کوئی عہد ان لوگوں کا نہیں ہے جس کی ذمہ داری ہو ۔ وہ مجھے میرے دین سے ہٹاتے ہیں۔ اس لئے میں نے یہ کیا۔ حضور ﷺنے فرمایا کہ لڑائی بھڑکانے والا ہے۔ کاش کوئی اس کا معین ومدد گار ہوتا وہ اس کلام سے سمجھ گئے کہ اب بھی اگر کوئی میری طلب میں آئے گا تو میںواپس کر دیا جائوں گا۔ اس لئے وہ وہاں سے چل کر سمندر کے کنارے ایک جگہ آپڑے۔ مکہ والوں کو اس قصہ کا حال معلوم ہوا تو ابو جندل رضی اﷲ عنہ بھی جن کا قصہ پہلے گذرا چھپ کر وہیں پہنچ گئے۔ اسی طرح جو شخص مسلمان ہوتا وہ انکے ساتھ جا ملتا۔ چند روز میں یہ ایک مختصر سی جماعت ہو گئی جنگلمیں جہاں نہ کھانے کا کوئی انتظام، نہ وہاں باغات اور آبادیاں، اس لئے ان لوگوں پر جو گذری ہو گی وہ تو اللہ ہی کو معلوم ہے۔ مگر جن ظالموں کے ظلم سے پریشان ہو کر یہ لوگ بھاگے تھے انکا ناطقہ بند کر دیا۔ جو قافلہ ادھر کو جاتا اس سے مقابلہ کرتے اور لڑتے۔حتیٰ کہ کفار مکہ نے پریشان ہو کر حضورﷺکی خدمت میں عاجزی اور منت کرکے اللہ کا اور رشتہ داری کا واسطہ دے کر آدمی بھیجا کہ اس بے سری جماعت کو آپ اپنے پاس بلا لیں کہ یہ معاہدہ میں تو داخل ہو جائیں اور ہمارے لئے آنے جانے کا راستہ کھلے ۔لکھا ہے کہ حضورﷺکا اجازت نامہ جب ان حضرات کے پاس پہنچا تو ابو بصیر رضی اﷲ عنہ مرض الموت میں گرفتار تھے ۔ حضور ﷺکا والا نامہ ہاتھ میں تھا کہ اسی حالت میںانتقال فرمایا(رضی اللہ عنہ و ارضاہ(
ف:آدمی اگر اپنے دین پر پکا ہو، بشرطیکہ دین بھی سچا ہو تو بڑی سے بڑی طاقت اس کو نہیں ہٹاسکتی اور مسلمان کی مدد کا تو اللہ کا وعدہ ہے بشرطیکہ وہ مسلمان ہو۔