Pages

Hazrat Zaid Bin Hartha Radiallahu Anhu love and affection for Rasulullah Sallallahu Alaihi Wasallam in his childhood حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ


۷۔حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ کا اپنے باپ کو انکار
حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ زمانہ جاہلیت میں اپنی والدہ کے ساتھ ننھیال جا رہے تھے۔بنوقیس نے قافلہ کو لوٹا جس میں زید رضی اﷲ عنہ بھی تھے ان کو مکہ کے بازار میں لا کر بیچا۔حکیم بن حزام نے اپنی پھوپھی حضرت خدیجہؓ کے لئے ان کو خرید لیا۔جب حضورکا نکاح حضرت خدیجہؓ سے ہوا تو انہوں نے زید رضی اﷲ عنہ کو حضور اقدس کی خدمت میں ہدیہ کے طور پر پیش کر دیا۔زیدؓ کے والد کو ان کے فراق کا بہت صدمہ تھا اور ہونا ہی چاہئے تھا کہ اولاد کی محبت فطری چیز ہے۔وہ زیدؓ کے فراق میں روتے اور اشعار پڑھتے پھرا کرتے تھے۔اکثر جو اشعار پڑھتے تھے ان کا مختصر ترجمہ یہ ہے کہ میں زید رضی اﷲ عنہ کی یاد میں روتا ہوں اور یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ زندہ ہے تاکہ اس کی امید کی جائے یا موت نے اس کو نمٹا دیا۔خدا کی قسم مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ تجھے اے زید نرم زمین نے ہلاک کیا یا کسی پہاڑ نے ہلاک کیا۔کاش مجھے یہ معلوم ہو جاتا کہ تو عمربھر میں کبھی بھی واپس آئے گا یا نہیں۔ساری دنیا میںمیری انتہائی غرض تیری واپسی ہے۔جب آفتاب طلوع ہوتا ہے جب بھی مجھے زید ہی یاد آتا ہے اور جب بارش ہونے کو ہوتی ہے جب بھی اسی کی یاد مجھے ستاتی ہے اور جب ہوائیں چلتی ہیں تو وہ بھی اس کی یاد کو بھڑکاتی ہیں۔ہائے میرا غم اور میرا فکر کس قدر طویل ہو گیا۔ میں اس کی تلاش اور کوشش میں ساری دنیامیں اونٹ کی تیز رفتاری کو کام میں لاؤں گا اور دنیا کا چکر لگانے سے نہیں اکتاؤں گا اونٹ چلنے سے اکتا جائیں تو اکتا جائیں لیکن میں کبھی بھی نہیں اکتاؤں گا اپنی ساری زندگی اسی میں گذاردوں گا۔ہاں میری موت ہی آگئی تو خیر کہ موت ہر چیز کو فنا کر دینے والی ہے۔آدمی خواہ کتنی ہی امیدیں لگا ویں مگر میں اپنے بعد فلاں فلاں رشتہ داروں اور آل اولاد کو وصیت کر جاؤں گا کہ وہ بھی اسی طرح زید کو ڈھونڈتے رہیں۔غرض یہ اشعار وہ پڑھتے تھے اور روتے ہوئے ڈھونڈتے پھرا کرتے تھے۔اتفاق سے ان کی قوم کے چند لوگوں کا حج کو جانا ہوا،اور انھوں نے زید رضی اﷲ عنہ کو پہچانا باپ کا حال سنایا۔شعر سنائے اس کی یاد وفراق کی داستان سنائی۔حضرت زیدؓ نے ان کے ہاتھ تین شعر کہہ کر بھیجے جن کا مطلب یہ تھا کہ میں یہاں مکہمیں ہوں خیریت سے ہوں۔تم غم اور صدمہ نہ کرو میں بڑے کریم لوگوں کی غلامی میں ہوں۔ان لوگوں نے جاکر زید رضی اﷲ عنہ کی خیر و خبر ان کے باپ کو سنائی اور وہ اشعار سنائے جو زیدؓ نے کہہ کر بھیجے تھے اور پتہ بتایا۔زید رضی اﷲ عنہ کے باپ اور چچا فدیہ کی رقم لے کر ان کو غلامی سے چھڑانے کی نیت سے مکہ مکرمہ پہنچے۔تحقیق کی پتہ چلایا ،حضورؐ کی خدمت میں پہنچے،اور عرض کیا اے ہاشم کی اولاد اور اپنی قوم کے سردار تم لوگ حرم کے رہنے والے ہو اور اللہ کے گھر کے پڑوسی تم خود قیدیوں کو رہا کراتے ہو بھوکوں کو کھانا دیتے ہو۔ہم اپنے بیٹے کی طلب میں تمہارے پاس پہنچے ہیں ہم پر احسان کرو اور کرم فرماؤ اور فدیہ قبول کر لو اور اس کو رہا کر دو بلکہ جو فدیہ ہو اس سے زیادہ لے لو حضورؐ نے فرمایا کیا بات ہے۔عرض کیا زید کی طلب میں ہم لوگ آئے ہیں۔حضورؐ نے ارشاد فرمایا بس اتنی سی بات ہے۔عرض کیا کہ حضور بس یہی غرض ہے۔آپؐ نے ارشاد فرمایا اس کو پلا لو اور اس سے پوچھ لو اگر وہ تمہارے ساتھ جانا چاہے تو بغیر فدیہ ہی کے وہ تمہاری نذر ہے اور اگر نہ جانا چاہے تومیں ایسے شخص پر جبر نہیں کر سکتا جو خود نہ جانا چاہے۔انہوں نے عرض کیا کہ آپ نے استحقاق سے بھی زیادہ احسان فرمایا۔یہ بات خوشی سے منظور ہے۔حضرت زیدؓ بلائے گئے۔آپؐ نے فرمایا کہ تم ان کو پہچانتے ہو عرض کیا جی ہاں پہچانتا ہوں یہ میرے باپ ہیں اور یہ میرے چچا۔حضورﷺ نے فرمایا میرا حال بھی تمہیں معلوم ہے اب تمہیں اختیار ہے کہ میرے پاس رہنا چاہو تو میرے پاس رہو ان کے ساتھ جانا چاہو تو اجازت ہے۔حضرت زیدؓ نے عرض کیا کہ حضورﷺ میں آپ کے مقابلہ میں بھلا کس کو پسند کر سکتا ہوں آپ میرے لئے باپ کی جگہ بھی ہیں اور چچا کی جگہ بھی۔ان دونوں باپ چچا نے کہا کہ زید غلامی کو آزادی پر ترجیح دیتے ہو اور باپ چچا اور سب گھر والوں کے مقابلہ میں غلام رہنے کو پسند کرتے ہو زیدؓ نے کہا کہ ہاں میں نے ان میں (حضورﷺکی طرف اشارہ کر کے)ایسی بات دیکھی ہے جس کے مقابلہ میں میں کسی چیز کو بھی پسند نہیں کر سکتا۔حضورﷺنے جب یہ جواب سنا تو ان کو گود میں لے لیا اور فرمایا کہ میں نے اس کو اپنا بیٹا بنا لیا۔ زید رضی اﷲ عنہ کے باپ اور چچا بھی یہ منظر دیکھ کر نہایت خوش ہوئے اور خوشی سے ان کو چھوڑ کر چلے گئے(خمیس) حضرت زیدؓ اس وقت بچے تھے۔بچپن کی حالت میں سارے گھر ، عزیز واقارب کو غلامی پر قربان کر دینا جس محبت کا پتہ دیتا ہے وہ ظاہر ہے۔