Pages

Ramzan and Dua acceptance Special time and virtues states of Dua


۶۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْر ۃَؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ثَلاَ ثَۃُ لا تُرَدُّ دَعْوَ تُھُمْ الصَّائِمُ حَتَّی یُفْطِرَ وَ الْاِمَامُ الْعَادِلُ و دَعْوَ ۃُ الُمظْلُوْمِ یَرْ فَعُھَا اﷲُ فَوْقَ الْغَمَامِ وَ یُفْتَحُ لَھَا اَبْوَابُ السَّماَئِ وَ یَقُوْلُ الرَّبُّ وَ عِزَّتِیْ لَأ نْصُرَنَّکَ وَلَوْ بَعْدَ حِیْنٍ۔ (رواہ احمد فی حدیث و الترمزی و حسنۃ ابن خز یمہ و ابن حبان فی صحیحیھا کذا فی الترغیب۔)
حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی۔ ایک روزہ دار کی افطار کے وقت ۔دوسرے عادل بادشاہ کی۔تیسرے مظلوم کی جس کو حق تعالیٰ شانہ بادلوں سے اوپر اٹھا لیتے ہیں اور آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ارشاد ہوتا ہے کہ میں تیری ضرور مدد کروں گا ، گو (کسی مصلحت سے ) کچھ دیر ہو جائے ۔
ف:در منثور میں حضرت عائشہ ؓ سے نقل کیا ہے ، جب رمضان آتا تھا تو نبی کریم ﷺ کا رنگ بدل جاتا تھا اور نماز میں اضافہ ہو جاتا تھا اور دعا میں بہت عاجزی فرماتے تھے اور خوف غالب آجاتا تھا دوسری روایت میں فرماتی ہیں کہ رمضان کے ختم تک بستر پر تشریف نہیں لاتے تھے ۔
ایک روایت میں ہے کہ حق تعالیٰ شانہ رمضان میں عرش کو اٹھانے والے فرشتوں کو حکم فرما دیتے ہیں کہ اپنی اپنی عبادت چھوڑ دو اور روزہ داروں کی دعا پر آمین کہا کرو بہت سی روایات سے رمضان کی دعا کا خصوصیت سے قبول ہونا معلوم ہوتا ہے اور یہ بے تردّد بات ہے کہ جب اللہ کا وعدہ ہے ۔ اور سچے رسول کا نقل کیا ہوا ہے تو اس کے پورا ہونے میں کوئی تردد نہیں لیکن ا س کے بعد بھی بعض لوگ کسی غرض کے لئے دعا کرتے ہیں مگر وہ کام نہیں ہوتا، تو اس سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ وہ دعا قبول نہیں ہوئی بلکہ دعا کے قبول ہونے کے معنی سمجھ لینا چاہیے ٔ۔
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب مسلمان دعا کرتا ہے بشرطیکہ قطع رحمی یا کسی گناہ کی دعا نہ کرے تو حق تعالیٰ شانہ کے یہاں سے تین چیزوں میں اسے ایک ضرور ملتی ہے یا خود وہی چیز ملتی ہے جس کی دعا کی ، یا اس کے بدلہ مین کوئی برائی یا مصیبت ہٹا دی جاتی ہے ، یا آخرت میں اسی قدر ثواب اس کے حصہ میں لگا دیا جاتا ہے ۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن حق تعالیٰ شانہ بندہ کو بلا کر ارشاد فرمائیں گے کہ اے میرے بندے میں نے تجھے دعا کرنے کا حکم دیا تھا اور اس کے قبول کرنے کا وعدہ کیا تھا تو نے مجھ سے دعا مانگی تھی ۔ وہ عرض کرے گا کہ مانگی تھی اس پر ارشاد ہو گا کہ تو نے کوئی دعا ایسی نہیں مانگی جس کو میں نے قبول نہ کیا ہوتو نے فلاں دعا مانگی تھی کہ فلاں تکلیف ہٹا دی جائے میں نے اس کو دنیا میں پورا کر دیا تھا اور فلاں غم کے دفع ہونے کی دعا کی تھی مگر اس کا اثر کچھ تجھے معلوم نہیں ہو میں نے اس کے بدلے میں فلاں اجر و ثواب تیرے لئے متعین کیا ۔حضور ﷺارشاد فرماتے ہیں کہ اس کو ہر ہر دعا یاد کرائی جائے گی اور اس کا دنیا میں پورا ہونا یا آخرت میں اس کا عوض بتلایا جاوے گا ۔اس اجر و ثواب کی کثرت کو دیکھ کر وہ بندہ اس کی تمنا کرے گا کہ کاش دنیا میں اس کی کوئی دعا بھی پوری نہ ہوئی ہوتی کہ یہاں اس کا اس قدر اجر ملتا ۔ غرض دعا نہایت ہی اہم چیز ہے ۔ اس کی طرف سے غفلت بڑے سخت نقصان اور خسارہ کی بات ہے ۔ اور ظاہر میں اگر قبول کے آثار نہ دیکھے تو بد دل نہ ہونا چاہیے ٔ۔
اس رسالہ کے ختم پر جو لمبی حدیث آ رہی ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بھی حق تعالیٰ شانہ بندہ ہی کے مصالح پر نظر فرماتے ہیں۔ اگر اس کے لئے اس چیز کا عطا فرمانا مصلحت ہوتا ہے تو مرحمت فرماتے ہیں ورنہ نہیں ۔یہ بھی اللہ کا بڑا احسان ہے کہ ہم لوگ بسا اوقات اپنی نافہمی سے ایسی چیز مانگتے ہیں جو ہمارے مناسب نہیں ہوتی ۔ اس کے ساتھ دوسری ضروری اور اہم بات قابل لحاظ یہ ہے کہ بہت سے مرد اور عورتیں تو خاص طور سے اس مرض میں مبتلا ہیں کہ بسا اوقات غصے اور رنج میں اولاد کو بد دعا دیتے ہیں ۔ یاد رکھیں کہ اللہ جل شانہ کے عالی دربار میں بعض اوقات ایسے خاص قبولیت کے ہوتے ہیں کہ جو مانگو مل جاتا ہے ۔ یہ احمق اوّل تو غصہ میں اولاد کو کوستی ہیں اور جب وہ مر جاتی ہے یا کسی مصیبت میں مبتلا ہو جاتی ہے تو پھر روتی پھرتی ہیں اور اس کا خیال بھی نہیں آتا کہ یہ مصیبت خود ہی اپنی بد دعا سے مانگی ہے ۔
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اپنی جانوں اور اولاد کو نیز مال اور خادموں کو بد دعا نہ دیا کرو ، مبادہ اللہ کے کسی ایسے کاص وقت میں واقع ہو جائے جو قبولیت کا ہے کا ہے بالخصوص رمضان المبارک کا تمام مہینہ تو بہت ہی خاص وقت ہے اس میں اہتمام سے بچنے کی کوشش اشد ضروری ہے ۔
حضرت عمر ؓ حضور اکرم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ رمضان المبارک میں اللہ کو یاد کرنے والا شخص بخشا بخشایا ہے اور اللہ سے مانگنے والا نامراد نہیں رہتا۔ حضرت ابن مسعودؓ کی ایک رویت سے ترغیب میں نقل کیا ہے کہ رمضان کی ہر رات میں ایک منادی پکارتا ہے کہ اے خیر کی تلاش کرنے والے متوجہ ہو اور آگے بڑھ ۔ اور اے برائی کے طلب گار بس کر اور آنکھیں کھول اس کے بعد وہ فرشتہ کہتا ہے کوئی مغفرت چاہنے والا ہے کہ اس کی مغفرت کی جائے ، کوئی توبہ کرنے والا کہ اس کی توبہ قبول کی جائے کوئی دعا کرنے والا کہ اس کی دعا قبول کی جائے کوئی مانگنے والا ہے کہ اس کا سوال پورا کیا جائے ۔ اس سب کے بعد یہ امر بھی نہایت ضروری اور قابل لحاظ ہے کہ دعا کے قبول ہونے کیلئے کچھ شرائط بھی وارد ہوئی ہیں کہ ان کے فوت ہونے سے بسا اوقات دعا رد کر دی جاتی ہے۔ منجملہ ان کے حرام غذا ہے کہ اس کی وجہ سے بھی دعا رد ہوجاتی ہے نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ بہت سے پریشان حال آسمان کی طر ف ہاتھ کھینچ کر دعا مانگتے ہیں اور یا رب یا رب کرتے ہیں مگر کھانا حرام ، پینا حرام ، لباس حرام ایسی حالت میں کہاں دعا قبول ہو سکتی ہے ۔
مؤرخین نے لکھا ہے کہ کوفہ میں مستجاب الدعا لوگوں کی ایک جماعت تھی ۔ جب کوئی حکم ان پر مسلط ہوتا اس کے لئے بد دعا کرتے وہ ہلاک ہو جاتا ۔ حجاج ظالم کا جب وہاں تسلط ہوا تو اس نے ایک دعوت کی جس میں ان حضرات کو خاص طور سے شریک کیا اور جب کھانے سے فارغ ہوچکے تو اس نے کہا کہ میں ان لوگوں کی بد دعا سے محفوظ ہو گیا کہ حرام کی روزی ان کے پیٹ میں داخل ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہمارے زمانہ کی حلال روزی پر بھی ایک نگاہ ڈالی جائے جہاں ہر وقت سود تک کے جواز کی کوششیں جاری ہوں، ملازمین رشوت کو اور تاجر دھوکہ دینے کو بہتر سمجھتے ہوں ۔