Pages

Taraweeh importance Shab e Qadr Nafil Prayer Ibadat in Ramzan


نبی کریم ﷺ کا اہتمام کہ شعبان کی آخیر تاریخ میں خاص طور سے اس کا وعظ فرمایا اور لوگوں کو تنبیہ فرمائی تاکہ رمضان المبارک کا ایک سیکنڈ بھی غفلت سے نہ گزر جائے پھر اس وعظ میں تمام مہینہ کی فضیلت بیان فرمانے کے بعد چند اہم امور کی طرف خاص طور پر متوجہ فرمایا سب سے اول شب قدر کہ وہ حقیقت میں بہت ہی اہم رات ہے ان اوراق میں اس کا بیان دوسری فصل میں مستقل آئے گا اس کے بعد ارشاد ہے کہ اللہ نے اس کے روزہ کوفرض کیا اور اس کے قیام یعنی تراویح کو سنت کیا اس سے معلوم ہوا کہ تراویح کا ارشاد بھی حق سبحانہ و تقدس کی طرف سے ہے پھر جن روایات میں نبی کریم ﷺ نے اس کو اپنی طرف منسوب فرمایا کہ میں نے سنت کیا ان سے مراد تاکید ہے کہ حضورﷺ اس کی تاکید فرماتے تھے اسی وجہ سے سب ائمہ اس کے سنت ہونے پر متفق ہیں برہان میں لکھا ہے کہ مسلمانوں میں سے روافض کے سوا کوئی شخص اس کا منکر نہیں ۔
حضرت مولانا الشاہ عبدالحق صاحب محدث دہلوی ؒ ما ثبت بالسنۃ میں بعض کتب فقہ سے نقل کیا ہے کہ کسی شہر کے لوگ اگر تراویح چھوڑ دیں تو اس کے چھوڑنے پر امام ان سے مقاتلہ کرے ۔اس جگہ خصوصیت سے ایک بات کا لحاظ رکھنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ جلدی سے کسی مسجد میں آٹھ دس دن میں کلام مجید سن لیں پھر چھٹی یہ خیال رکھنے کی بات ہے کہ یہ دو سنتیں الگ الگ ہیں تمام کلام اللہ شریف کا تراویح میں پڑھنا یا سننا یہ مستقل سنت ہے اور پورے رمضان شریف کی تراویح مستقل سنت ہے پس اس صورت میں ایک سنت پر عمل ہوا اور دوسری رہ گئی البتہ جن لوگوں کو رمضان المبارک میں سفر وغیرہ یا کسی اور وجہ سے ایک جگہ تراویح پڑھنی مشکل ہو ان کے لئے مناسب ہے کہ اوّل قرآن شریف چند روز میں سن لیں تاکہ قرآن شریف ناقص نہ رہے پھر جہاں وقت ملا اور موقعہ ملا وہاں تراویح پڑھ لی کہ قرآن شریف بھی اس صورت میں ناقص نہیں ہو گا اور اپنے کام کا حرج بھی نہیں ہو گا حضورﷺ نے روزہ اور تراویح کا ذکر فرمانے کے بعد عام فرض اور نفل عبادات کے اہتمام کی طرف متوجہ فرمایا کہ اس میں ایک نفل کا ثواب دوسرے مہینوں کے فرائض کے باربر ہے اور اس کے ایک فرض کا ثواب دوسرے مہینوں کے ستر فرائض کے برابر ہے اس جگہ ہم لوگوں کو اپنی اپنی عبادات کی طرف بھی ذرا غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس مبارک مہینہ میں فرائض کا ہم سے کس قدر اہتمام ہوتا ہے اور نوافل میں کتنا اضافہ ہوتا ہے فرائض میں تو ہمارے اہتمام کی یہ حالت ہے کہ سحر کھانے کے بعد جو سوتے ہیں تو اکثر صبح کی نماز قضا ہوگئی اور کم از کم جماعت تو اکثراں کی فوت ہو ہی جاتی ہے گویا سحر کھانے کا شکریہ ادا کیا کہ اللہ کے سب سے زیادہ مہتم بالشان فرض کو یا بالکل قضا کر دیا یا کم از کم ناقص کر دیا کہ بغیر جماعت کے نماز پڑھنے کو اہل اصول نے اداء ناقص فرمایا ہے اور حضور اکرم ﷺ کا تو ایک جگہ ارشاد ہے کہ مسجد کے قریب رہنے والوں کی تو گویا نماز بغیر مسجد کے ہوتی ہی نہیں ۔
مظاہر حق میں لکھا ہے کہ جو شخص بغیر عذر کے بدون جماعت نماز پڑھتا ہے اس کے ذمہ فرض تو ساقط ہو جاتا ہے مگر اس کو نماز کا ثواب نہیں ملتا ۔ اسی طرح دوسری نماز مغرب کی بھی جماعت اکثروں کی افطار کی نظر ہو جاتی ہے اور رکعت اولی ٰ یا تکبیر اولیٰ کا تو ذکر ہی کیا ہے اور بہت سے لوگ تو عشاء کی نماز بھی تراویح کے احسان کے بدلے میں وقت سے پہلے پڑھ لیتے ہیں یہ تو رمضان المبارک میں ہماری نماز کا حال ہے جو اہم ترین فرائض میں ہے کہ ایک فرض کے بدلے میں تین کو ضائع کیا یہ تین تو اکثر ہیں ورنہ ظہر کی نماز قیلولہ کی نذر اور عصر کی جماعت افطاری کا سامان خریدنے کی نذر ہوتے ہوئے آنکھوں سے دیکھا گیا ہے اسی طرح اور فرائض پر آپ خود غور فرما لیں کہ کتنا اہتمام رمضان المبارک میں ان کا کیا جاتا ہے اور جب فرائض کا یہ حال ہے تو نوافل کا کیا پوچھنا اشراق اور چاشت تو رمضان المبارک میں سونے کی نذر ہو ہی جاتے ہیں اور اوابین کا کیسے اہتمام ہو سکتا ہے جب کہ ابھی روزہ کھولا ہے اور آئندہ تراویح کا سہم ہے اور تہجد کا وقت تو ہے ہی عین سحر کھانے کا وقت پھر نوافل کی گنجائش کہاں لیکن یہ سب باتیں بے توجہی اور نہ کرنے کی ہیں کہ ع
توہی اگر نہ چاہے تو باتیں ہزار ہیں
کتنے اللہ کے بندے ہیں کہ جن کے لئے انہی اوقات میں سب چیزوں کی گنجائش نکل آتی ہے