اسی طرح اور فرائض پر آپ خود
غور فرما لیں کہ کتنا اہتمام رمضان المبارک میں ان کا کیا جاتا ہے اور جب فرائض
کا یہ حال ہے تو نوافل کا کیا پوچھنا اشراق اور چاشت تو رمضان المبارک میں سونے کی
نذر ہو ہی جاتے ہیں اور اوابین کا کیسے اہتمام ہو سکتا ہے جب کہ ابھی روزہ کھولا
ہے اور آئندہ تراویح کا سہم ہے اور تہجد کا وقت تو ہے ہی عین سحر کھانے کا وقت
پھر نوافل کی گنجائش کہاں لیکن یہ سب باتیں بے توجہی اور نہ کرنے کی ہیں کہ ع
توہی اگر نہ چاہے تو باتیں ہزار ہیں
کتنے اللہ کے بندے ہیں کہ جن کے
لئے انہی اوقات میں سب چیزوں کی گنجائش نکل آتی ہے میں نے اپنے آقا حضرت مولانا
خلیل احمد صاحب نور اللہ مرقدہ کو متعدد رمضانوں میں دیکھا ہے کہ با وجود ضعف اور
پیرانہ سالی کے مغرب کے بعد نوافل میں سوا پارہ پڑھنا یا سنانا اور اس کے بعد آدھ
گھنٹہ کھانا وغیرہ ضروریات کے بعد ہندوستان کے قیام میں تقریبا دو سوا دو گھنٹے
تراویح میں خرچ ہوتے تھے اور مدینہ پاک کے قیام میں تقریبا تین گھنٹے میں عشاء اور
تراویح سے فراغت ہوتی اس کے بعد آپ حسب اختلاف مو سم دو تین گھنٹے آرام فرمانے
کے بعد تہجد میں تلاوت فرماتے اور صبح سے نصف گھنٹہ قبل سحر تناول فرماتے ۔اس کے
بعد صبح کی نماز تک کبھی ــحفظ تلاوت فرماتے اور کبھی اور ادو ار ووظائف میں مشغول رہتے اسفار
یعنی چاندنی میں صبح کی نماز پڑھ کر اشراق تک مراقبہ میں رہتے اور اشراق کے بعد
تقریباً ایک گھنٹہ آرام فرماتے اس کے بعد تقریباًبارہ بجے تک اور گرمیوں میں ایک
بجے تک بذل المجہود تحریر فرماتے اور ڈاک وغیرہ ملاحظہ فرما کر جواب لکھواتے ۔ اس
کے بعد ظہر کی نماز تک آرام فرماتے اور ظہر سے عصر تک تلاوت فرماتے عصر سے مغرب
تک تسبیح میں مشغول رہتے اور حاضرین سے بات چیت بھی فرماتے بذل المجود ختم ہو جانے
کے بعد صبح کا کچھ حصہ تلاوت اور کچھ کتب بینی میں بذل المجہود اور وفاء الوفاء
زیادہ تر اس وقت زیر نظر رہتی تھی ۔یہ اس پر تھا کہ رمضان المبارک میں معمولات میں
کوئی خاص تغیر نہ تھا کہ نوافل کا یہ معمول دائمی تھا اور نوافل مذکورہ تمام سال
بھی اہتمام رہتا تھا البتہ رکعت کے طول میں رمضان المبارک میں اضافہ ہو جاتا تھا
ورنہ جن کے اکابر کے یہاں رمضان المبارک کے خاص معمولات مستقل تھے ان کا اتباع تو ہر شخص سے نبھنا بھی
مشکل ہے ۔
حضرت اقدس مولانا شیخ الہند ؒ
تراویح کے بعد سے صبح کی نماز تک نوافل میں مشغول رہتے تھے اور یکے بعد دیگرے
متفرق حفاظ سے کلام مجید ہی سنتے رہتے تھے اور مولانا شاہ عبدالرحیم صاحب رائپوری
قدس سرہ کے تو رمضان المبارک کا مہینہ دن و رات تلاوت کا ہی ہوتا تھا کہ ا س میں
ڈاک بھی بند اور ملاقات بھی ذرا گوارا نہ تھی بعض مخصوص خدام کو اتنی اجازت ہوتی
تھی کہ تراویح کے بعد جتنی دیر حضرت سادی چائے کے ایک دو فنجان نوش فرمائیں اتنی دیر
حاضر خدمت ہو جایا کریں
بزرگوں کے یہ معمولات اس لئے نہیں لکھے جاتے کہ سرسری نگاہ
سے ان کو پڑھ لیا جائے ، یا کوئی تفریح فقرہ ان پر کہہ دیا جائے
بلکہ اس لئے ہیں
کہ اپنی ہمت کے موافق ان کا اتباع کیا جائے اور حتی الوسع پورا کرنے کا اہتمام کیا
جائے کہ ہر لائن اپنے مخصوص امتیازات میں دوسرے پر فائق ہے ۔ جو لوگ دنیاوی مشاغل
سے مجبور نہیں ہیں کیا ہی اچھا ہو کہ گیارہ مہینے ضائع کر دینے کے بعد ایک مہینہ
مر مٹنے کی کوشش کر لیں
ملازم پیشہ حضرات جو دس بجے سے چار بجے تک دفتر میں رہنے
کے پابند ہیں اگر صبح دس بجے تک کم از کم رمضان المبارک کا مہینہ تلاوت میں خرچ کر
دیں تو کیا دقت ہے آخر دنیوی ضروریات کے لئے دفتر کے علاوہ اوقات میں سے وقت
نکالا ہی جاتا ہے اور کھیتی کرنے والے تو نہ کسی کے نوکر ، نہ اوقات کے تغیر میں
ان کو ایسی پابندی کہ اس کو بدل نہ سکین یا کھیتی پر بٹھے بیٹھے تلاوت نہ کر سکیں اور
تاجروں کے لئے تو اس میں کوئی دقت ہی نہیں کہ اس مبارک مہینہ میں دوکان کا وقت
تھوڑا سا کم کر دیں یا کم از کم دوکان پر ہی تجارت کے ساتھ تلاوت بھی کرتے رہیں کہ
اس مبارک مہینہ کو کلام الہیٰ کے ساتھ بہت ہی خاص مناسبت ہے ۔
Taken from pages of Fazail e Amaal book of Ramzan .
Urdu unicode version taken with thanks from ownislam.com