Pages

Taraweeh Suunat way and Ruling complete Quran recitation Sunnah


اللہ نے اس کے روزہ کوفرض کیا اور اس کے قیام یعنی تراویح کو سنت کیا اس سے معلوم ہوا کہ تراویح کا ارشاد بھی حق سبحانہ و تقدس کی طرف سے ہے پھر جن روایات میں نبی کریم ﷺ نے اس کو اپنی طرف منسوب فرمایا کہ میں نے سنت کیا ان سے مراد تاکید ہے کہ حضورﷺ اس کی تاکید فرماتے تھے اسی وجہ سے سب ائمہ اس کے سنت ہونے پر متفق ہیں برہان میں لکھا ہے کہ مسلمانوں میں سے روافض کے سوا کوئی شخص اس کا منکر نہیں ۔
حضرت مولانا الشاہ عبدالحق صاحب محدث دہلوی ؒ ما ثبت بالسنۃ میں بعض کتب فقہ سے نقل کیا ہے کہ کسی شہر کے لوگ اگر تراویح چھوڑ دیں تو اس کے چھوڑنے پر امام ان سے مقاتلہ کرے ۔
اس جگہ خصوصیت سے ایک بات کا لحاظ رکھنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ جلدی سے کسی مسجد میں آٹھ دس دن میں کلام مجید سن لیں پھر چھٹی
یہ خیال رکھنے کی بات ہے کہ یہ دو سنتیں الگ الگ ہیں تمام کلام اللہ شریف کا تراویح میں پڑھنا یا سننا یہ مستقل سنت ہے اور پورے رمضان شریف کی تراویح مستقل سنت ہے پس اس صورت میں ایک سنت پر عمل ہوا اور دوسری رہ گئی
البتہ جن لوگوں کو رمضان المبارک میں سفر وغیرہ یا کسی اور وجہ سے ایک جگہ تراویح پڑھنی مشکل ہو ان کے لئے مناسب ہے کہ اوّل قرآن شریف چند روز میں سن لیں تاکہ قرآن شریف ناقص نہ رہے پھر جہاں وقت ملا اور موقعہ ملا وہاں تراویح پڑھ لی کہ قرآن شریف بھی اس صورت میں ناقص نہیں ہو گا اور اپنے کام کا حرج بھی نہیں ہو گا حضورﷺ نے روزہ اور تراویح کا ذکر فرمانے کے بعد عام فرض اور نفل عبادات کے اہتمام کی طرف متوجہ فرمایا کہ اس میں ایک نفل کا ثواب دوسرے مہینوں کے فرائض کے باربر ہے اور اس کے ایک فرض کا ثواب دوسرے مہینوں کے ستر فرائض کے برابر ہے اس جگہ ہم لوگوں کو اپنی اپنی عبادات کی طرف بھی ذرا غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس مبارک مہینہ میں فرائض کا ہم سے کس قدر اہتمام ہوتا ہے اور نوافل میں کتنا اضافہ ہوتا ہے فرائض میں تو ہمارے اہتمام کی یہ حالت ہے کہ سحر کھانے کے بعد جو سوتے ہیں تو اکثر صبح کی نماز قضا ہوگئی اور کم از کم جماعت تو اکثراں کی فوت ہو ہی جاتی ہے گویا سحر کھانے کا شکریہ ادا کیا کہ اللہ کے سب سے زیادہ مہتم بالشان فرض کو یا بالکل قضا کر دیا یا کم از کم ناقص کر دیا کہ بغیر جماعت کے نماز پڑھنے کو اہل اصول نے اداء ناقص فرمایا ہے اور حضور اکرم ﷺ کا تو ایک جگہ ارشاد ہے کہ مسجد کے قریب رہنے والوں کی تو گویا نماز بغیر مسجد کے ہوتی ہی نہیں ۔