Pages

Saeed bin Jubair Hazrat Ali Radiallahu Hajjaj bin Yusuf

By
نحمده و نصلی علی رسوله الکریم
عر ض مرتب:
          الحمداللہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا رحمہ اﷲ (۱) کی کتب فضائل صدقات کو اللہ تعالیٰ نے شرفِ قبولیت سے نوازا ہے۔ يہ ان کتابوں کو پڑھا اور سنا جا رہا ہے۔(۲) اور بفضل اللہ تعالیٰ کی زبانوںمیں ان کے ترجمے بھی ہو چکے ہیں۔ اس مختصر رسالہ میں ان سے جو قابل جواب اعتراضات کیے گے ہیں ان میں سے جو قابل جواب اعتراضات تھے ان کا مدلل جواب دینے کی سعی کی گی ہے۔ اللہ اسکو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرما کر باعث ہدایت اور اطمینان بنائے۔ آمین
(۱) مشہور غیر مقلد عالم ارشاد الحق اثری صاحب نے حضرت شیخ رحمہ اﷲکو القاب سے یاد کیا ہے۔
بقیة السف حجة الخف الشیخ العلامہ محمد زکریا الکاندھلوی شیخ الحدیث رحمہ اﷲ۔
(امام بخاری رحمہ اﷲپر بعض اعتراضات کا جائزہ ص94)
 
(۶) اعتراض:۔
          فضائل اعمال کے ص 96 پر حضرت شیخ ؒ نے ایک ایسا واقعہ نقل کیا ہے جس سے آل رسولﷺ کی تنقیص لازم آتی ہے۔ وہ ایسے کہ حضرت علیؓ کا جننتی ہونا یقینی اور قطعی ہے اور عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ جب حجاج بن یوسف نے سعید بن جبیر ؒ سے پوچھا کہ حضرت علی ؓ جنت میں ہیں یا جہنم میں، تو اس پر سعید بن جبیر ؒ نے فرمایا کہ اگر میں جنت میں جا کر دیکھ لوں اور جہنم میں جا کر دیکھ لوں تو پھر بتا سکتا ہوں۔ لٰہذا جس کا جنتی ہونا یقینی ہے اس کے بارے میں کیے گئے سوال پر ان مذکورہ الفاظ سے جواب دینے سے آل رسولﷺ کی تنقیص لازم آتی ہے۔
جواب:۔
          حضرت سعید بن جبیرؒ حالت اضطراری میں تھے، حجاج بن یوسف چاہ رہا تھا کہ کسی طریقے سے میں ان کو پھنساؤں اور جلاد کو حکم دوں کہ وہ ان کو قتل کردے۔ حجاج بن یوسف چونکہ حضرت علی ؓ سے بغض رکھتا تھا لہٰذا اس نے سعید بن جبیرؒ سے ایسا سوال کیا جس سے وہ پھنسیں۔ تاکہ مجھے موقع مل جائے ان کو قتل کروانے کا۔ اسی وجہ سے سعید بن جبیرؒ بڑے احسن طریقے سے سوالات کے جوابات دے رہے تھے۔ سعید بن جبیرؒ نے جواب میں نہ کفر اختیار کیا۔ بلکہ صرف جواب کا انداز بدلا۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ ؑ سے جب فرعون نے پوچھا مَا بَالُ القُرُونِ الُا ولٰی کہ پہلی نا فرمان قوموں کا کیا انجام ہوا۔ اسکا صاف جواب تو تھا کہ وہ جہنم میں ہیں لیکن حضرت موسیٰ ؑ چونکہ حالات اضطراری میں تھے لٰہذا انہوں نے صرف جواب کا انداز بدلا ، تاکہ فرعون کو کسی قسم کا موقع نہ ملے بات کو طول دینے کا اور نہ ہی ان کو قتل کرنے کا ۔ تو حضرت موسیٰ ؑ نے جواب میں فرمایا!
عِلمُها عِندَ رَبِی کہ اسکا علم میرے رب کے پاس ہے۔ بالکل اسی طرح سعید بن جبیرؒ نے بھی صرف جواب کا انداز بدلا ہے۔ لٰہذا اس سے آل رسولﷺ کی کسی قسم کی کوئی تنقیص لازم نہیں آتی۔
حالت اضطراری میں تو کلمہ کفر کہنا بھی جائز ہو جاتا ہے
حضرت عمار بن یاسرؓ کو ایک دن مشرکین عرب نے اس قدر پانی میں غوطے دئیے کہ بلکل بدحواس ہو گئے اور مشرکین عرب نے جو کچھ چاہا ان سے اقرار کرا لیا۔حضرت عمار کی جب ان سے جان چھوٹ گئی تو دربار ِ نبوت میں حاضر ہوئے تو آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ آنحضرت ﷺ نے پوچھا، عمار کیا خبر ہے؟ عرض کیا! یا رسول اللہ ﷺ نہایت ہی بری خبر ہے آج میری جان اس وقت تک نہ چھوٹی جب تک کہ میں نے آپ ﷺ کی شان میں بُرے الفاظ اور ان کے معبود ین باطلہ کے حق میں اچھے الفاظ استعمال نہ کیے۔
آپ ﷺ نے فرمایا اے عمارؓ دل کی کیا کیفیت تھی، عرض کی دل ایمان پر مطمئن ہے۔ سرورِ کائنات ﷺ نے نہایت سفقت کے ساتھ حضرت عمارؓ کی آنکھوں سے آنسوں کے قطرے پونچھے۔فرمایا کچھ مضائقہ نہیں ۔ اگر پھر بھی ایسا ہی کریں تو تم بھی ایسا ہی کرلینا۔ اس کے بعد قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی جس کا ترجمہ ہے۔” جو شخص ایمان لانے کے بعد خدا کا انکار کرے مگر وہ جو مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان سے مطمئن ہے“۔ (یعنی اس سے کوئی مواخذہ نہیں ) سورہ النحل آیت ۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ماخوذاز طبقات ابن سعدؒ)

Puri kitab download karne ke liye neeche 

click karein 
http://www.ownislam.com/articles/urdu-articles/1633-fazail-amaal-par-aitrazat-ka-elmi-jaiza