Pages

اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ فضائل درود شریف و سلام البخاری


مولف
شيخ الحديث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب نور اﷲ مرقدہ

۱۔عَن عَبدِ الرَّحمٰنِ اَبِی لَیلٰی قَالَ لَقِیَنِی کَعبُ بنُ عُجرَةَ فقَالَ اَلاَ اَھدٰی لَکَ ھَدیَةً سَمِعتُھَا مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ علَیہِ وَسَلَّمَ فَقُلتُ بَلٰی فَاھدِھَا لِی فقَالَ سلنَا رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ علَیہِ وَسَلَّمَ فَقُلنَا یَا رَسُولَ اللّٰہِ کَیفَ الصَّلٰوةُ عَلَیکُم اَھلَ البَیتِ فَاِنَّ اللّٰہ قَد عَلَّمَنَا کَیفَ نُسَلِّمُ عَلَیکَ قَالَ قُولُو اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیتَ عَلٰی اِبرَھِیمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبرَھِیم اِنَّکَ حَمِید مَجِید ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِک عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکتَ عَلٰی اِبرَھِیمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبرَھِیم اِنَّکَ حَمِید مَجِید
رواہ البخاری وبسط السخاوی فی تخریجہ واختلاف الفاظہ وقَالَ ھکذا لفظ البخاری علی ابراھیم وعلی اٰل ابراھیم فی الموضعین
حضرت عبد الرحمنؓ کہتے ہیں کہ مجھ سے حضرت کعبؓ کی ملاقات ہوئی وہ فرمانے لگے کہ میں تجھے ایک ایسا ہدیہ دوں جو میں حضورﷺسے سنا ہے میں نے عرض کیا ضرور مرحمت فرمائیے۔ انہوں نے فرمایا کہ ہم نے حضور اقدس ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ آپ پر درود کن الفاظ سے پڑھا جائے یہ تو اللہ تعالی نے ہمیں بتلادیا کہ آپ پر سلام کس طرح بھیجیں۔حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس طرح درود پڑھا کرو۔(اللّٰہُمَّ صَلِّ سے اخیر تک)یعنی اے اللہ درود بھیج محمد(ﷺ) پر اور ان کی آل پر جیسا کہ آپ نے درود بھیجا حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل (اولاد) پر اے اللہ بیشک آپ ستودہ صفات اور بزرگ ہیں۔اے اللہ برکت نازل فرما محمد(ﷺ) پر اور ان کی آل (اولاد) پر جیسا کہ برکت نازل فرمائی آپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل(اولاد)پر بیشک آپ ستودہ صفات بزرگ ہیں۔
ف:ہدیہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ ان حضرات کے ہاں (رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین) مہمانوں اور دوستوں کے لئے بجائے کھانے پینے کی چیزوں کے بہترین ہدیے حضور اقدسﷺ کا ذکر شریف، حضورﷺکے حالات تھے۔ ان چیزوں کی قدر ان حضرات کے ہاں مادّی چیزوں سے کہیں زیادہ تھی جیسا کہ ان کے حالات اسکے شاہد عدل ہیں۔اسی بنا پر حضرت کعبؓ نے اسکو ہدیہ سے تعبیر کیا۔یہ حدیث شریف بہت مشہور حدیث ہے۔اور حدیث کی سب کتابوں میں بہت کثرت سے ذکر کی گئی ہے اور بہت سے صحابہ کرامؓ سے مختصر اور مفصل الفاظ میں نقل کی گئی ہے علامہ سخاوی رحمتہ اللہ علیہ نے قول بدیع میں اسکے بہت طریق اور مختلف الفاظ نقل کئے ہیں وہ ایک حدیث میں حضرت حسنؓ سے مرسلا نقل کرتے ہیں کہ جب آیت شریفہ ” اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ“ نازل ہوئی تو صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ سلام تو ہم جانتے ہیں کہ وہ کس طرح ہوتا ہے آپ ہمیں درود شریف پڑھنے کا کس طرح حکم فرماتے ہیں تو حضور نے فرمایا کہ اَلّٰھُمَّ اجعَل صَلوٰتِکَ وَبَرَکَاتِکَ الخ پڑھا کرو۔دوسری حدیث میں ابو مسعود بدریؓ سے نقل کیا ہے کہ ہم حضرت سعد ب عبادہؓ کی مجلس میں تھے کہ وہاں حضور اقدسﷺ تشریف لائے حضرت بشیرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ جل شانہ نے ہمیں درود پڑھنے کا حکم دیا ہے۔پس ارشاد فرمائیے کہ کس طرح آپ پر درود پڑھا کریں حضورﷺ نے سکوت فرمایا یہاں تک کہ ہم تمنا کرنے لگے کہ وہ شخص سوال ہی نہ کرتا۔پھر حضورﷺنے ارشاد فرمایا کہ یوں کہا کرو اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ الخ یہ روای/spanAR-SAAR-SA lang=font-size: 16.0pt; line-height: 150%; font-family: ت مسلم و ابوداود وغیرہ میں ہے۔اسکا مطلب ”ہم اسکی تمنا کرنے لگے“یہ ہے کہ ان حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کو غایت محب lang=font-size: 16.0pt; line-height: 150%; font-family: quot;; color: #c00000; mso-bidi-language: FA;ت اور غایت احترام کی وجہ سے جس بات کے جواب میں نبی کریم ﷺ کا تامل ہوتا یا سکوت فرماتے تو ان کو یہ خوف ہوتا کہ یہ سوال کہیں منشاءمبارک کے خلا ف تو نہیں ہو گیا۔یا یہ کہ اسکا جواب نبی کریمﷺ کو معلوم نہیں تھا جس کی وجہ سے حضور اقدسﷺ کو تائل فرمانا پڑا۔بعض روایات سے اسکی تائید بھی ہوتی ہے۔حاف lang=quot;;font-size: 16.0pt; line-height: 150%; font-family: /pظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ نے طبری کی روایت سے یہ نقل کیا ہے کہ حضور ۰۲mso-spacerun: yes;اقدسﷺ نے سکوت فرمایا یہاں تک کہ حضورﷺپر وحی نازل ہوئی۔مسند احمد وابن حبان وغیرہ میں ایک اور روایت سے نقل کیا ہے کہ ایک صحابیؓ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضورﷺ کے سامنے بیٹھ گئے ہم لوگ مجلس میں حاضر تھے۔ ان صاحب نے سوال کیا یا رسول اللہ! سلام کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہو گیا جب ہم نماز پڑھا کریں تو اس میں آپ پر درود کیسے پڑھا کریں۔حضورﷺنے اتنا سکوت فرمایا کہ ہم لوگوں کی یہ خواہش ہونے لگی کہ یہ شخص سوال ہی نہ کرتا اسکے بعد حضورﷺ نے فرمایا کہ جب نماز پڑھا کرو تو یہ درود پڑھا کرو اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ الخ
ایک اور روایت میں عبد الرحمن بن بشیرؓ سے نقل کیا ہے کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ جل شانہ نے ہمیں صلوٰة وسلام کا حکم دیا ہے سلام تو ہمیں معلوم ہو گیا۔آپ پر درود کیسے پڑھا کریں تو حضور نے فرمایا یوں پڑھا کرو اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ ۔مسند احمد ترمذی بیہقی وغیرہ کی روایات میں ذکر کیا گیا ہے کہ جب آیت شریفہ اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ ا لآیہ نازل ہوئی تو ایک صاحب نے آکر عرض کیا یا رسول اللہ! سلام تو ہمیں معلوم ہے آپ پر درود کیسے پڑھا کریں تو حضورﷺنے ان کو درود تلقین فرمایا۔ اور بھی بہت سی روایات میں اس قسم کے مضمون ذکر کئے گئے ہیں۔اور درودوں کے الفاظ میں اختلاف بھی ہے جو اختلاف روایات میں ہوا ہی کرتا ہے جس کی مختلف وجوہ ہاتی ہیں۔اس جگہ ظاہر یہ ہے حضور اقدس ﷺ نے مختلف صحابہ jکو مختلف الفاظ ارشاد فرمائے تاکہ کوئی لفظ خاص طور سے واجب نہ بن جائے۔نفس درود شریف کا وجوب علیحدہ چیز ہے جیسا کہ فصل رابع میں آرہا ہے اور درود شریف کے کسی خاص لفظ کا وجوب علیحدہ چیز ہے کوئی خاص لفظ واجب نہیں۔یہ درود شریف جو اس فصل کے شروع میں نمبر۱ پر لکھا گیا ہے یہ بخاری شریف کی روایے ہے جو سب سے زیادہ صحیح ہے اور حنفیہ کے نزدیک نماز میں اسی کا پڑھنا اولی ہے جیسا کہ علامہ شامی رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ حضرت امام محمد رحمتہ اللہ علیہ سے سوال کیا ہے کہ حضورﷺ پر درود کن الفاظ سے پڑھے؟ تو انہوں نے یہی درود شریف ارشاد فرمایا جو فصل کے شروع میں لکھا گیا اور یہ درود موافق ہے اسکے جو صحیحین(بخاری و مسلم) وغیرہ میں ہے۔علامہ شامی رحمتہ اللہ علیہ نے یہ عبارت شرح منیّة سے نقل کی ہے۔شرح منیّة کی عبارت یہ ہے کہ یہ درود موافق ہے اسکے جو صحیحین میں کعب بن عجرہؓ سے نقل کیا گیا ہے انتہیٰ۔ اور کعب بن عجرہؓ کی یہی روایت ہے جو اوپر گذری۔علامہ سخاوی رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ حضرت کعبؓ وغیرہ کی حدیث سے ان الفاظ کی تعیین ہوتی ہے جو حضورﷺ نے اپنے صحابہؓ کو آیت شریفہ کے امتثال امر میں سکھلائے۔اور بھی بہت سے اکابر سے اس کا افضل ہونا نقل کیا گیا ہے۔ایک جگہ علامہ سخاوی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے صحابہؓ کے اس سوال پر کہ ہم لوگوں کو اللہ جل شانہ نے صلوٰة و سلام کا حکم دیا ہے تو کون سا درود پڑھیں، حضورﷺنے یہ تعلیم فرمایا۔اس سے معلوم ہوا کہ یہ سب سے افضل ہے۔امام نووی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب روضہ میں تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ اگر کوئی شخص یہ قسم کھا بیٹھے کہ میں سب سے افضل درود پڑھوں گا تو اس درود کے پڑھنے سے قسم پوری ہو جائے گی۔حصن حصین
تکملہ
کے حاشیہ پر حرزثمین سے نقل کیا ہے کہ وہ درود شریف سب سے زیادہ صحیح ہے اور سب سے زیادہ افضل ہے نماز میں اور بغیر نماز کے اسی کا اہتمام کرنا چاہیے۔یہاں ایک بات قابل تنبیہ یہ ہے کہ زاد السعید کے بعض نسخوں میں کاتب کی غلطی سے حرزثمین کی یہ عبارت بجائے اس درود شریف کے ایک دوسرے درود کے نمبر پر لکھ دی گئی اس کا لحاظ رہے۔اس کے بعد اس حدیث شریف میں چند فوائد قابل ذکر ہیں۔اول یہ کہ صحابہ کرامؓ کا یہ عرض کرنا کہ سلام ہم جان چکے ہیں اس سے مراد التحیات کے اندر اَلسَّلَامُ عَلَیکَ اَیُّھَا النَّبِّیُ وَرَحمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ ہے۔علامہ سخاوی رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ہمارے شیخ یعنی حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک یہی مطلب زیادہ ظاہر ہے۔اور اوجز میں امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ سے بھی یہی نقل کیا گیا ہے اور اس میں بھی متعدد علماءسے یہی مطلب نقل کیا گیا ہے (۲)ایک مشہور سوال کیا جاتا ہے کہ جب کسی چیز کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے مثلا یوں کہا جائے کہ فلاں شخص حاتم طائی جیسا سخی ہے تو سخاوت میں حاتم کا زیادہ سخی ہونا معلوم ہوتا ہے۔اس وجہ سے اس حدیث پاک میں حضرت ابراہیم علی نبینا وعلیہ الصلوٰة والسلام کے درود کا افضل ہونا معلوم ہوتا ہے۔اسکے بھی ”اوجز “میں کئی جواب دئیے گئے ہیں اور حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ نے فتح الباری میں دس جواب دئیے ہیں۔کوئی عالم ہو تو خود دیک لے غیر عالم ہو تو کسی عالم سے دل چاہے تو دریافت کر لے۔ سب سے آسان جواب یہ ہے کہ قاعدہ اکثر یہ تو وہی ہے جو اوپر گذرا لیکن بسا اوقات بعض مصالح سے اسکا الٹا ہوتا ہے جیسے قرآن پاک کے درمیان میں اللہ جل شانہ کے نور کی متعلق ارشاد ہے۔
(مَثَلُ نُورِہ کَمِشکٰوةٍ فِیھَا مِصبَاح الایة)
ترجمہ:۔ اس کے نور کی مثال اس طاق کی سی ہے جس میں چراغ ہو۔اخیر آیت تک۔
حالانکہ اللہ جل شانہ کے نور کو چراغوں کے نور کے ساتھ کیا مناسبت(۳) یہ بھی مشہور اشکال ہے کہ سارے انبیاءکرام علی نبینا وعلیہم الصلوٰة والسلام میں حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کے درود کو کیوں ذکر کیا؟اسکے بھی ”اوجز“ میں کئی جواب دئیے گئے ہیں۔حضرت اقدس تھانوی نور اللہ مرقدہ نے بھی زاد السعید میں کئی جواب ارشاد فرمائے ہیں۔بندے کے نزدیک تو زیادہ پسند یہ جواب ہے کہ حضرت ابراہیم علی نبینا وعلیہ الصلوٰة والسلام کو اللہ جل شانہ نے اپنا خلیل قرار دیا۔چنانچہ ارشاد ہے”وَاتَّخَذَ اِبرَاھِیمَ خَلِیلاً“ لہٰذا جو درود اللہ تعالی کی طرف سے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ہو گا وہ محبت کی لائن کا ہو گا اور محبت کی لائن کی ساری چیزیں سب سے اونچی ہوتی ہیں۔لہٰذا جو درود محبت کی لائن کا ہو گا وہ یقینا سب سے زیادہ لذیذ اور اونچا ہو گا۔چنانچہ ہمارے حضور اقدس ﷺ کو اللہ جل شانہ نے اپنا حبیب قرار دیا اور حبیب اللہ بنایا اور اسی لئے دونوں کا درود ایک دوسرے کے مشابہ ہوا۔مشکوٰة میں حضرت ابن عباسؓ کی روایت سے قصہ نقل کیا گیا ہے کہ صحابہؓ کی ایک جماعت انبیاءکرام علیہ السلام کا تذکرہ کر رہی تھی کہ اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل بنایا اور حضرت موسی علیہ السلام سے کلام کیااور حضرت عیسٰی علیہ السلام اللہ کا کلمہ اور روح ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ نے اپنا صفی قرار دیاہے ۔اتنے میں حضور تشریف لائے۔حضورﷺ نے ارشاد فرمایا میں نے تمہاری گفتگو سنی۔بیشک ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ ہیں اور موسٰی علیہ السلام کلیم اللہ ہیں اور ایسے ہی عیسٰی علیہ السلام اللہ کا کلمہ اور روح ہیں اور آدم اللہ کے صفی ہیں لیکن بات یوں ہے غور سے سنو کہ میں اللہ کا حبیب ہوں اور اس پر کوئی فخر نہیں کرتا اور قیامت کے دن حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہو گا اور اس جھنڈے کے نیچے آدم علیہ السلام اور سارے انبیائ علیہ السلام ہونگے اور اس پر فخر نہیں کرتا اور قیامت کے دن سب سے پہلے میں شفاعت کرنے والا ہوں گا اور سب سے پہلے جس کی شفاعت قبول کی جائے گی وہ میں ہوں گا اور اس پر بھی میں کوئی فخر نہیں کرتا اور سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھلوانے والا میں ہوں گا اور سب سے پہلے جنت میں میں اور میری امت کے فقراءداخل ہونگے اور اس پر بھی کوئی فخر نہیں کرتا اور میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ مکرم ہوں اولین اور آخرین میں اور کوئی فخر نہیں کرتا۔اور بھی متعدد روایات سے حضور کا حبیب اللہ ہونا معلام ہوتا ہے۔محبت اور خلت میں جو مناسبت ہے وہ ظاہر ہے اسی لئے ایک کے درود کو دوسرے کے درود کے ساتھ تشبیہ دی اور چونکہ حضرت ابراہیم علی نبینا وعلیہ الصلوٰة والسلام حضور اقدس ﷺ کے آباءمیں ہیں اسلئے بھی مَن اشبہ اباہ فما ظلم آباءواجداد کے ساتھ مشابہت بہت ممدوح ہے۔مشکوة کے حاشیہ پر لمعات سے اس میں ایک نکتہ بھی لکھا ہے وہ یہ کہ حبیب اللہ کا لقب سب سے اونچا ہے چنانچہ فرماتے ہیں کہ حبیب اللہ کا لفظ جامع ہے خلت کو بھی اور کلےم اللہ ہونے کو بھی اور صفی اللہ ہونے کو بھی بلکہ ان سے زائد چیزوں کو بھی جو دیگر انبیاءکے لئے ثابت نہیں اور وہ اللہ کا محبوب ہونا ہے۔ایک خاص محبت کے ساتھ میں جو حضور اقدسﷺ ہی کیساتھ مخصوص ہے۔

taken with thanks from
http://www.ownislam.com/articles/fazil-e-ammal-urdu/2036-fazail-e-durood-shareef-by-sheikh-ul-hadith-zakariyya-kandhelvi