Pages

تبلیغی-جماعت قرآن احادیث -کی-روشنی-میں

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرّحِیمْ
اَلْحَمْدُ ﷲِ رَبّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامْ عَلٰی سَیِّدِ الاَ وَّلِیْنَ وَ الٰاخِرِیْنَ خَاتَمِ الْاَنْبِیَآئِ وَ الْمُرْسَلِیْنَ مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ الطَّیِّبِیْنَ اطَّاھِرِیْنَ۔
آج سے تقریباً ساڑھے تیرہ سو سال قبل جب دنیا کفر وضلالت، جہالت و سفاہت کی تاریکیوں میں گھری ہوئی تھی ۔بطحا کی سنگ لاخ پہاڑیوں سے رشد و ہدایت کا ماہتاب نمودار ہوا مشرق و مغرب، شمال وجنوب غرض دنیا کے ہر ہر گوشہ کو اپنے نورسے منور کیا اور ۲۳ سال کے قلیل عرصہ میں بنی نوع انسان کو اس معراج ترقی پر پہنچایا کہ تاریخ عالم اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے اوررشد وہدایت،صلاح وفلاح کی وہ مشعل مسلمانوں کے ہاتھ میں دی جس کی روشنی میں ہمیشہ شاہراہ ترقی پرگامزن رہے اور صدیوں اس شان وشوکت سے دنیا پر حکومت کی کہ ہر مخالف قوت کو ٹکرا کر پاش پاش ہونا پڑا یہ ایک حقیقت ہے جو ناقابل انکار ہے لیکن پھر بھی ایک پارینہ داستاں ہے جس کا با ربار دہرانا، نہ تسلی بخش ہے اور نہ کا رآمد اورمفید، جب کہ موجودہ مشاہدات اور واقعات خود ہماری سابقہ زندگی اورہمارے اسلاف کے کارناموں پر بدنما داغ لگا رہے ہیں۔
مسلمانوں کی تیرہ سو سالہ زندگی کو جب تاریخ کے اوراق میں دیکھا جاتا ہے تومعلوم ہوتاہے کہ ہم عزت وعظمت، شان وشوکت، دبدبہ وحشمت کے تنہا مالک اور اجارہ دار ہیں لیکن جب ان اوراق سے نظر ہٹا کر موجود ہ حالات کا مشاہدہ کیا جاتا ہے تو ہم انتہائی ذلت خواری، افلاس وناداری میں مبتلا نظر آتے ہیں ، نہ زوروقوت ہے، نہ زرودولت ہے، نہ شان وشوکت ہے، نہ باہمی اخوت والفت، نہ عادات اچھی، نہ اخلاق اچھے، نہ اعمال اچھے نہ کردار اچھے۔ ہر برائی ہم میں موجودہ اور ہر بھلائی سے کوسوں دور۔اغیار ہماری اس زبوں حالی پر خوش ہیں اور برملا ہماری کمزوری کو اچھالا جاتا ہے اورہمار مضحکہ اڑایا جاتا ہے۔ اسی پر بس نہیں بلکہ خود ہمارے کوشے نئی تہذیب کے دلدادہ نوجوان، اسلام کے مقدس اصولوں کا مذاق اڑاتے ہیں، بات بات پر تنقیدی نظر ڈالتے ہیں اور اس شریع مقدسہ کو ناقابل عمل، لغو اور بیکار گردانتے ہیں عقل حیران ہے کہ جس قوم نے دنیا کو سیراب کیا وہ آج کیوں تشنہ ہے؟ جس قوم نے دنیا کو تہذیب وتمدن کا سبق پڑھایا وہ آج کیوں غیر مہذب اور غیر متمدن ہے؟
رہنمایان قوم نے آج سے بہت پہلے ہماری اس حالت زار کا اندازہ لگایا اور مختلف طریقوں پر ہماری اصلاح کیلئے جدوجہد کی مگر
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
آج جب کہ حالت بدسے بدتر ہو چکی اور آنے والا زمانہ ماسبق سے بھی زیادہ پر خطر اور یاریک نظر آرہا ہے، ہمارا خاموش بیٹھنا اور عملی جدوجہد نہ کرنا ایک ناقابل تلافی جرم ہے لیکن اس سے پہلے کہ ہم کوئی عملی قدم اٹھائیں ، ضروری ہے کہ ان اسباب پر غور کریں جن کے باعث ہم اس ذلت وخواری کے عذاب میں مبتلا کئے گئے ہیں۔ ہماری اس پستی اور انحطاط کے مختلف اسباب بیان کیے جاتے ہیں اور ان کہ ازالہ کی متعدد تدابیر اختیار کی گئیں لیکن ہر تدبیر ناموافق وناکام ثابت ہوئی جس کے باعث ہمارے رہبر بھی یا س وہراس میں گھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ اب تک ہمارے مرض کی تشخیص ہی پورے طور پر نہیں ہوئی ۔ یہ جو کچھ اسباب بیان کئے جاتے ہیں اصل مرض نہیں بلکہ اس کے عوارض ہیں پس تاوقتیکہ اصل مرض کی جانب توجہ نہ ہوگی اور مادہ حقیقی کی اصلا ح نہ ہوگی، عوارض کی اصلاح ناممکن اور محال ہے پس جب تک ہم اصل مرض کی ٹھیک تشخیص اوراس کا صحیح علاج معلوم نہ کر لیں ، ہمارا اصلاح کے بارے میں لب کشائی کرنا سخت ترین غلطی ہے ۔
ہمارا دعویٰ کہ ہماری شریعت ایک مکمل قانون الٰہی ہے جو ہماری دینی اور دنیوی فلاح وبہبود کا تاقیام قیامت ضامن ہے۔پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہم خود ہی اپنا مرض تشخیص کریں اور خود ہی اس کا علاج شروع کردیں، بلکہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم قران حکیم سے اپنی اصل مرض معلوم کریں اور اسی مرکز رشدوہدایت سے طرق علاج کر کے اس پر کاربند ہوں۔ جب قرآن حکیم قیامت تک کیلئے مکمل دستور العمل ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اس نازک حالت میں ہماری رہبری سے قاصر رہے۔ مالک ارض وسماء جل وعلا کا سچا وعدہ ہے کہ روئے زمین کی بادشاہت وخلافت مومنوں کیلئے ہے۔
{وَعَدَ اﷲُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا مِنکُمْ وَ عَمِلُو الصّٰالِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ} (نور آیۂ: ۵۵)
اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اورعمل صالح کئے ان کو ضرور روئے زمین کا خلیفہ بنائے گا۔
اور یہ بھی اطمینان دلایا ہے کہ مومن ہمیشہ کفار پر غالب رہیں گے اورکافروں کا کوئی یارو مددگار نہ ہو گا۔
{وَلَوْ قٰتَلَکُمُ الذَّیْنَ کَفَرُوْ لَوَلَّوُ اُلْاَ دْباَرَ ثُمَ لاَ یَجِدُوْنَ وَلِیًّا وَّ لاَ نَصِیْرًا} (فتح آیہ: ۲۲)
اور اگر لوگ تم سے ،یہ کافر لڑتے تو ضرور پیٹھ پھیر کربھاگتے اور نہ پاتے کوئی یارو مدد گار۔
اور مومنون کی نصرف اور مدد اﷲ تعالیٰ کے ذمہ ہے اور وہی ہمیشہ سر بلند اورسرفراز رہیں گے
وَکَانَ حَقّاً عَلَیْنَا نَصْرُالْمُٔو مِنَیْنَ (روم آیۂ۴۷)
اور حق ہے ہم پر مدد ایمان والوں کی۔
{وَلَا تَہِنُوْ وَلَا تَحْزَنُوْ اْ وَاَنْتُمُ الْاَ عْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ} (آل عمران آیہ ۱۳۹)
اور تم ہمت ہارو اور رنج مت کرو اور تم ہی غالب رہوگے اگر تم پورے مومن رہے۔
{و لِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَ لِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤُمِنِیْنَ} (منا فقون آیہ ۸)
اللہ ہی ہے عزت اور اس کے رسول کی اورمسلمانوں کی۔
مذکورہ بالا ارشادات پر غور کرنے سے معلوم ہتا ہے کہ مسلمانوں کی عزت، شان وشوکت، سربلندی وسرفرازی اورہربرتری وخوبی ان کی صفت ایمان کے ساتھ وابستہ ہے اگر ان کا تعلق خدا اور رسول ﷺ کے ساتھ مستحکم ہے (جو ایمان کا مقصود ہے )تو سب کچھ انکار ہے اور اگر خدانحواستہ اس رابطہ اس رابطہ تعلق میں کمی اورکمزوری پیدا ہو گئی ہے اور پھر سراسر خسران اور ذلت وخواری ہے جیسا کے واضح طورپر بتلا دیا گیا ہے۔
{وَالْعَصْرِ اِنَّ ا لْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ اِلَّاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ وَ عَمِلُو الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَا صَوْ ا بِالْحَقِّ وَ تَوَا صَوْا بِالصَّبْر}
قسم ہے زمانہ کی انسان بڑے خسارے میں ہے مگر جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے اور ایک د سرے کو حق کی فہمائش کرتے رہے اور ایک دوسرے کو پابندی کی فہمائش کرتے رہے۔
ہمارے اسلاف عزت کے منتہا کو پہنچے ہوئے تھے اور ہم انتہائی ذلت وخواری میں مبتلا ہیں۔ پس معلوم ہو اکہ وہ کمال ایمان سے متصف تھے اور ہم اس نعمت عظمیٰ سے محروم ہیں جیساکہ مخبر صادق ﷺ نے خبردی ہے۔
سَیَأْتِی عَلَی النَّاسِ زَمَانُٗ لَا یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اِسْمُہُ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْآنِ اِلَّا رَسْمُہُ۔ (مشکوۃ)
قریب ہی ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ اسلام کا صرف نام باقی رہ جائیگا اور قرآن کے صرف نقوش رہ جائیں گے۔
اب غور طلب امر یہ ہے کہ اگر واقعی ہم اس حقیقی اسلام سے محروم ہو گئے ہیں جوخدا اور رسولﷺ کے یہاں مطلوب ہے اور جس کے ساتھ ہماری دین ونیا کی فلاح وبہبود وابستہ ہے تو کیا ذریعہ ہے جس سے وہ کھوئی ہوئی نعمت واپس آئے؟ اور وہ کیا اساب ہیں جن کی وجہ سے روح اسلام ہم سے نکال لی گئی اورہم جسد بے جان رہ گئے ۔
جب مصحف آسمانی کی تلاوت کی جاتی ہے اور ’’ امت محمدیہﷺ‘‘کی فضلیت اوربرتری کی علت وغایت ڈھونڈھی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس امت جو ایک اعلیٰ اوربرتر کام سپرد کیاگیا تھا جس کی وجہ سے ’’خیر الامم‘‘ کا معزز خطاب اس کو عطا کیا گیا ۔
دنیا کی پیدائش کا مقصد اصلی خدا وحدہ لا شریک لہٗ کی ذات وصفات کی معرفت ہے اوریہ اس وقت تک نا ممکن ہے کہ جب تک بنی نوع انسان کو برائیوں اور گندگیوں سے پاک کر کے بھلائیوںاور خوبیوں کے ساتھ آراستہ نہ کیا جائے۔ اسی مقصد کیلئے ہزاروں رسول اورنبی بھیجے گئے اور آخر میں اس مقصد کی تکمیل کیلئے سید الانبیاء والمرسلینﷺ کو مبعوث فرمایا اور الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی کا مژدہ سنایا گیا ۔
اب چونکہ مقصد کی تکمیل ہو چکی تھی، ہر بھلائی اوربرائی کو کھول کھول کر بیان کردیا گیا تھا، ایک مکمل نظام عمل دیا جا چکا تھا، اس لئے رسالت ونبوت کے سلسلہ کو ختم کر دیا گیا اور جو کام پہلے نبی اور رسول سے لیا جاتا تھا وہ قیامت تک ’’امت محمدیہﷺ‘‘ کے سپرد کر دیاگیا۔
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَر(آل عمران: آ یۂ ۱۱۰ )
اے امت محمدیہ! تم افضل امت ہو، تم کو لوگوں کے نفع کے لئے بھیجا گیا ہے، تم بھلی باتوں کو لوگوں میں پھیلاتے ہو اور بری باتوں سے ان کو روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃُٗ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ و یَأْ مُرُوْنَ بِا لْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اُولٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۔ٔ (آل عمران:
اور چا ہئے کہ تم میں ایسی جماعت ہو کہ لوگوں کو خیر کی طرف بلائے اور بھلی باتوں کا حکم کرے اور بری باتوں سے منع کرے اور وہی لوگ فلاح والے ہیںجو اس کام کو کرتے ہیں
پہلی آیت میں ’ خیر امم‘‘ ہو نے کی وجہ یہ بتلائی کہ تم بھلائی کو پھیلاتے ہو اور برائی سے روکتے ہو۔د وسری آیت میں حصر کے ساتھ فرمادیا کہ فلاح وبہبود صرف انہی لوگوں کے لئے ہے جو اس کام کو انجام دے رہے ہیں اسی پر بس نہیں بلکہ دوسری جگہ صاف طور پر بیان کر دیا گیا کہ اس کان کو انجام نہ دینا لعنت اور پھٹکار کا موجب ہے۔
لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ مِنْ بَّنِیْ اِسْرَائِیْلَ عَلَی لِسَانِ دَاوُدَ وَ عِیْسَی بْنِ مَرْیَمَ ذَلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ کَانُوْا لَا یَتَنَا ھَوْنَ عَنْ مُّنْکَرٍ فَعَلُوْہُ لَبِئْسَ مَا کَانُوْ یَفْعَلُوْنَ (مائدہ: ۷۹)
بنی اسرائیل میں جو لوگ کافر تھے ان پر لعنت کی گئی تھی داود اورعیسیٰ بن مریم کی زبان سے یہ لعنت اس سبب سے ہوئی کہ انہوں نے حکم کی مخالفت کی اور حد سے نکل گئے۔جو برا کام انہوں کر رکھا تھا اس سے باز نہ آتے تھے۔ واقعی ان کا یہ فعل بے شک برا تھا۔
اس آخری آیت کی مزید وضاحت احادیث ذیل سے ہوتی ہے۔
۱۔و فی السنن والمسند من حدیث عبد اﷲ بن مسعودؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ اِنَّ مَنْ کَانَ قَبلَکُمْ کَانَ اِذَا عَمِلَ الْعَا مِلُ فِیْھِمْ بِالْخَطِیْئَۃِ جَائَہُ النَّا ھِیُ تَغْزِیْرَاً فَقَالَ یَا ھَذٰا اِتَّقِ اﷲَ فَاِذَا کَانَ مِنالْغَدِ جَالِسَہُ وَ اٰکَلَہُ وَ شَارَبَہُ کَأَنَّہُ لَمْ یَرَہُ عَلَی خَطِیْئَۃٍ بِا لْاَمْسفَلَمَّا رَئٰ ی عَزَّ وَ جَلَّ ذٰلِکَ مِنْھُمْ ضَرَبَ قُلُوْبَ بَعْضِہِمْ عَلَی بَعْضٍ ثُمَّ لَعَنَہُمْ عَلَی لِسَانِ نَبِیِّہِمْ دَاوُدَ وَ عِیْسَی بْنِ مَرْ یَمَ ذَلِکَ بِمَاعَصَوْا وَّکَانُوْ یَعْتَدُوْنَ وَ الَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ لَتَأْمُرُنَّ بِا لْمَعْرُوْفَ وَ لَتَنْھَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ وَلَتَأخُذُنَّ عَلَی یَدِ السَّفِیْہِ وَ لَتَاطِرُنَّ عَلَی الْحَقِّ اَطْرَاً اَوْ لَیَضْرِبَنَّ اﷲُ قُلُوْبَ بَعْضِکُمْ عَلَی بَعْضٍ ثُمَّ یَلْعَنَکُمْ کَمَا لَعَنَہُمْ۔
حضرت عبد اﷲ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول خداﷺ نے ارشادفرمایا کہ تم سے پہلی امتوں میں جب کوئی خطا کرتا تو روکنے والا اس کو دھمکاتا اور کہتا کہ خدا سے ڈر، پھر اگلے ہی دن اس کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا، کھاتا پیتا گویا کل اس کو گناہ کرتے ہوئے دیکھا ہی نہیں۔ جب حق عزوجل نے ان کایہ برتاؤ دیکھا توبعض کے قلوب کو بعض کے ساتھ خلط کردیا اور ان کے نبی داؤد اورعیسیٰ بن مریم ں کی زبانی ان پر لعنت کی اوریہ اسلئے کہ انہوں نے خدا کی نافرمانی کی اورحد سے تجاوز کیا۔ قسم ہے اس ذات پاک کی جسکے قبضہ میں محمدﷺ کی جان ہے تم ضرور اچھی باتوں کا حکم کرواور برائی باتوں سے منع کرو اور چاہیے کہ بیوقوف نادان کا ہاتھ پکڑو اسکو حق بات پر مجبور کرو، ورنہ حق تعالیٰ تمہارے قلوب کو بھی خلط ملط کر دیں گے
اورپھر تم پر بھی لعنت ہوگی جیسا کہ پہلی امتوں پر لعنت ہوئی ۔
۲۔عَنْ جَرِیْرِ بْنِ عِبْدِاللّٰہِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ یَقُوْلُ مَا مِنْ رَّجُلٍ یَّکُوْنُ فِیْ قَوْمٍ یَعْمَلُ فِیْہِمْ بِالْمَعَاصِیْ یَقْدِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْ یُّغَیْرُوْا عَلَیْہِ وَلاَ یُغَیِّرُوْنَ اِلآّ اَصَابَہُمُ اللّٰہُ بِعِقَابٍ قَبْلَ اَنْ یَّمُوْتُوْا۔ وفی سنن ابی داوود وابن ماجۃ
حضرت جریر ؓسے روایت ہے کہ سول خداﷺ نے ارشاد فمایا کہ اگر کسی جماعت اورقوم میں کوئی شخص گناہ کرتا ہے اور وہ قوم وجماعت باوجود قدرت کے اسکونہیں روکتی تو ان پر مرنے سے پہلے ہی حق تعالیٰ اپنی عذاب بھیج دیتے ہیں یعنی دنیا میں انکو طرح طرح کے مصائب میں مبتلا کردیاجاتا ہے۔
۳۔عَنْ انسٍؓ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ لاَ تَزَالُ لآَ اِلٰہَ اِلاَ اللّٰہُ تَنْفَعُ مَنْ قَالَہَا وَتَرُدُّ عَنْہُمُ الْعَذَابَوَالنِّقْمَۃَ مَالَمْ یَسْتَخِفُّوا بِحَقِّہَا قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَا الْاِسْتِخْفَافُبِحَقِّہَا قَالَ یَظْہَرُ الْعَمَلُ بِمَعَاصِی اللّٰہِ فَلاَیُنْکَرُ وَلاَ یُغَیَّرُ(ترغیب) وروی الاصبہان
حضرت انس ؓسے روا یت ہے کہ ر سولِ خداﷺنے ارشاد فرمایا کہ ہمیشہ کلمہ لا الٰہ الا اللہ اپنے پڑھنے والوں کو نفع دیتا ہے اور اس سے عذاب و بلا دور کرتاہے جب تک کہ اسکے حقوق سے بے پروائی نہ برتی جائے ۔ صحابہ نے عرض کیا اس سے بے پروائی کیا ہے؟ حضور ﷺ نے ارشادفرمایا کہ حق تعالیٰکی نا فرمانی کھلے طور پر کی جائے پھر نہ انکا انکار کیا جائے اور نہ انکے بند کرنے کوشش کی جائے۔
۴۔ عَنْ عَائِشَۃ قَالَتْ دَخَلَ عَلَیَّ النَّبِیْ فَعَرَفْتُ فِیْ وَجْہِہٖ اَنْ قَدْ حَضَرَہٗ شَیْئُ فَتَوَضَّأَ وَمَا کَلَّمَ اَحَدًا فَلَصِقْتُ بَالْحُجْرَۃِ اَسْتَمِعُ مَا یَقُوْلُ فَقَعَدَ عَلَی الْمِنْبَرِ فَحَمِدَ اللّٰہَ وَ اَثْنٰیَ عَلَیْہِ وَقَالَ یَآ اَیُّہَا النَّاسُ اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یَقُوْلُ لَکُمْ مُرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ قَبْلَ اَنْ تَدْعُوْا فَلَآ اُجِیْبَ لَکُمْ وَتَسْاَلُوْنِیْ فَلَآ اُعْطِیْکُمْ وَتَسْتَنْصِرُوْنِیْ فَلَآ اَنْصُرَکُمْ فَمَا زَادَ عَلَیْہِنَّ حَتَّی نَزَلَ۔ (ترغیب)
حضرت عائشہ ؓ فر ماتی ہیںکہ رسول خداﷺ میرے تشریف لائے تو میں نے چہرۂِ انور پر ایک خاص اثر دیکھ کر محسوس کیا کہ کوئی اہم بات پیش آئی ہے حضورﷺنے کسی سے کوئی بات نہیں کی اور وضوفرما کر مسجد میں تشریف لے گئے میں مسجد کی دیوار سے لگ گئی تاکہ سنوں حضورﷺ منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور حمدو ثنا کے بعد فرمایاـلوگو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ بھلی باتوں کا حکم کرو اور بُری باتوں سے منع کرومبادا وہ وقت آجائے کہ تم دعامانگو میں اس کو قبول نہ کروں اورمجھ سے سوال کرواور میں اسکو پورا نہ کروںاور تم مجھ سے مدد چاہو اور میں تمہاری مدد نہ کروں۔حضور ﷺ نے صرف یہ کلمات ارشاد فرمائے اور منبرسے اُتر آئے۔
۵۔ عن ابی ھیریرہ قال رسول اللہ اذا عظّمت امتی الدنیانزعت منھاھیبۃُالاسلام و اذا ترکت الامر بالمعروف والنّھیعن المنکر حرمت برکۃالوحی و اذا تسابّت امتی سقطت من عین اللہ (کذافی الدرعن الحکیم الترمذی)
حضرت ابو ہریرہؓ سے رویت ہے کہ رسول خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب میری اُمت دنیا کو قابلِ وقعت و عظمت سمجھنے لگے گی تو اسلام کی وقعت و ہیبت اُن کے قلوب سے نکل جائے گی اور جب امر بالمعروف اور نہی عن ا لمنکر کو چھوڑ دے گی تو وحی کی برکات سے محروم ہو جائے گی اور جب آپس میں ایک دوسرے کو شب و شتم کرنا اختیار کرے گی تو اللہ جل شانہ‘ کی نگاہ سے گر جائے گی۔
احادیث مذکورہ پرغور کرنے سے یہ بات معلوم ہوا کہ اَمر بالمعروف و نہی عن المنکرکو چھوڑنا خدا وحدہ‘ لا شریک لہ‘کی لعنت اور غضب کاباعث ہے اور جب امت محمدیہ اس کام کو چھوڑ دے گی تو مصائب و آلام اور ذلت و خواری میں مبتلا کر دی جا ئے گی اور ہر قسم کی غیبی نصرت و مدد سے محروم ہو جائے گی اور یہ سب کچھ اس لیے ہو گا کہ اس نے اپنے فرضِ منصبی کو پہچانا اور جس کام کی انجام دہی کی ذمہ داری تھی اس سے غافل رہی۔یہی وجہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے امر بالمعروف و نہی عن المنکرکو ایمان کا خاصہ اور جزو قرار دیا ہے اور اس کے چھڑنے کو ضعف و اضمحلال کی علامت بتلایا۔ حدیث ابو سعید خذریؓ میں ہے ۔
من راٰی منکم فلیغیرہ ُبیدہٖ فان لُم یستطع فبلسانہٖ فان لّم یستطع فبقلبہٖ و ذالک اضعفُ الایمان۔ (مسلم)
یعنی تم میں جب کوئی شخص برایء کو دیکھے تو چاہئے کہ اپنے ہا تھوں سے کام لے کراس کو دور کرے اور اگر اس کی طاقت نہ پائےتو زبان سے ۔ اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے اور یہ آخری صورت ایمان کی بڑی کمزوری کا درجہ ہے ۔
پس جس طرح آخری درجہ اضعف ایمان کا ہوا ،اسی طرح پہلا درجہ کمالِ ایمان کا ہوا ۔ اس سے بھی واضع تر حدیث ابن مسعودؓ کی ہے۔ ’’مَا مِنْ نَّبِیٍّ بَعَثَہُ اللّٰہُ قَبْلِیْ اِلَّا کَانَ لَہُ فِیْ اُمَّتِہٖ حَوَارِیُّوْنَ وَاَصْحَابُ یَأْخُذُوْنَ بِسُنَّتِہٖ وَیَقْتَدُوْنَ بِاَمْرِہٖ ثُمَّ اِنَّہَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِہِمْ خُلُوْفُیَّقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَ وَیَفْعَلُوْنَ مَالَا یُؤْمَرُوْنَ فَمَنْ جَاہَدَہُمْ بِیَدِہٖ فَہُوَ مُؤْمِنُ وَمَنْ جَاہَدَہُمْ بِلِسَانِہٖ فَہُوَ مُؤْمِنُ وَمَنْجَاہَدَہُمْ بِقَلْبِہٖ فَہُوَ مُؤْمِنُ وَلَیْسَ وَرَائَ ذَلِکَ مِنَ الْاِیْمَانِ حَبَّۃُخَرْدَلٍ۔ (مسلم)
یعنی سنت الٰہی یہ ہے کہ ہر نبی اپنے ساتھیوں اور تربیت یافتہ یاروںکی ایک جماعت چھڑ جاتا ہے ۔ یہ جماعت نبی کی سنت کو قائم رکھتی ہے اور ٹھیک ٹھیک اس کی پیروی کرتی ہے یعنی شریعت الٰہی کو جس حال اور جس شکل میں نبی چھوڑ گیا ہے اس کو بعینہٖ محفوظ رکھتے ہیں اور اس میں ذرا بھی فرق نہیں آنے دیتے لیکن اس کے بعد شروفتن کا دور آتا ہے اور ایسے لوگ پیدا ہوجاتے ہیںجو طریقہ نبی سے ہٹ جاتے ہیں۔ ان کا فعل ان کے دعوے کے خلاف ہوتا ہے اور ان کے کام ایسے ہوتے ہیں جن کے لئے شریعت نے حکم نہیں دیا ۔ سو ایسے لوگوں کے خلاف جس شخص نے قیام حق و سنت کی راہ میں اپنے ہاتھ سے کام لیا وہ مومن ہے ۔ اور جو ایسا نہ کر سکا مگر زبان سے کام لیا وہ بھی مومن ہے اور جس سے یہ بھی نہ ہو سکا اور دل کے اعتقاد اور نیت کے ثبات کو ان کے خلاف کام میں لایا وہ بھی مومن ہے لیکن اس آخری درجہ کے بعد ایمان کا کوئی درجہ نہی اس پر ایمان کی سرحد ختم ہو جاتی ہے حتیٰ کہ اب رائی کے دانے برابر بھی ایمان نہیں ہو سکتا۔
اس کام کی اہمیت اور ضرورت کو امام غزالیؒ نے اس طرح ظاہر فرمایا ہے ۔ـ ـاس میں کچھ شک نہیں کہ امر با لمعروف و نہی عن المنکردین کا ایسا زبردست رکن ہے جس سے دین کی تمام چیزیں وابستہ ہیں۔ اس کو انجام دینے کے لئے حق تعالیٰ نے تمام انبیائِ کرام کو مبعوث فرمایا۔اگر خدا نا خواستہ اس کو بالائے طا ق رکھ دیا جائے اور اس کے علم و عمل کو ترک کر دیا جائے تو العیاذباللہ نبوت کا بیکار ہونا لازم آئے گا ۔دیانت جو شرافت انسانی کا خاصہ ہے مضمحل اور افسردا ہو جائے گی۔کاہلی اور سستی عام ہو جائے گی گمراہی اور ضلالت کی شاہراہیںکھل جائیں گی جہالت عالمگیر ہو جائے گی تمام کاموں میں خرابی آجائے گی آپس میںپھوٹ پڑ جائے گی آبادیاں خراب ہو جائیں گی مخلوق تباہ و برباد ہو جائے گی اور بربادی کی اس وقت خبر ہو گی جب روز محشر خدائے بالاو برتر کے سامنے پیشی اور بازپپرس ہو گی ۔
افسوس صد افسوس جو خطرہ تھا سامنے آ گیا جو کھٹکا تھا آنکھوں نے دیکھ لیا:
کان امر اﷲ قدرا مّقدورا o فانّ اﷲ و انّا الیہ راجعون
اس سر سبز ستون کے علم و عمل کے نشانات مٹ چکے اس کی حقیقت و رسوم کی برکتیں نیست و نابود ہو گئیں لوگوں کی تحقیرو تذلیل کا سکہ قلوب پر جم گیا خدائے پاک کے ساتھ کا قلبی تعلق مٹ چکا اور نفسانی خواہشات کے اتباع میں جانوروں کی طرح بے باک ہو گئے روئے زمیں پر ایسے صادق مومن کا ملنا دشوار و کمیاب ہی نہیں بلکہ معدوم ہو گیا جو اظہار حق کی وجہ سے کسی کی ملامت گوارا کرے ۔
اگر کوئی مرد مومن اس تباہی اور بربادی کے ازالہ میں سعی کرے اور اس سنت کے احیاء میں کوشش کرے اور اس مبارک بوجھ کو لے کر کھڑا ہو اور آستینیں چڑھا کر اس سنت کے زندہ کرنے کے لئے میدان میں آئے تو یقینا وہ شخص تمام مخلوق میں ایک ممتاز اور نمایاں ہستی کا مالک ہو گا۔
امام غزالی ؒؒ نے جن الفاظ میں اس کام کی اہمیت اور ضرورت کو بیان کیا ہے وہ ہماری تنبیہ اور بیداری کے لئے کافی ہے۔
ہمارے اس قدر اہم فریضہ سے غافل ہونے کی چند وجوہ معلوم ہوتی ہیں:۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اس فریضہ کو علماء کے ساتھ خاص کر لیا حالانکہ خطابات ِ قرآنی عام ہیں جو امتہ محمدیہ کے ہر ہر فرد کو شامل ہیں اور صحابۂ کرامؓ اور خیرالقرون کی زندگی اس کے لئے شاہد ہے ۔
فریضہ تبلیغ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو علماء کے ساتھ خاص کر لینا اور پھر ان کے بھروسہ پر اس اہم کام کو چھوڑ دینا ہماری سخت نادانی ہے۔علماء کا کام راہ حق بتلانا اور سیدھا راستہ دکھلانا ہے پھر اس کے موافق عمل کرانا اور مخلوقِ خدا کو ا س پر چلانا یہ دوسرے لوگوں کا کام ہو ے۔اس کی جانب اس حدیث شریف میں تنبیہ کی گئی ہے۔
الا کلّکم راع وکلّکم مسئول عن رعیتیہٖ فالا میر الذی علی عنہم والرجل راع علی اہل بیتہ وہو مسئول عنہم والمرأۃ راعیۃ علی بیت بعلہا و ولدہٖ و ھی مسئولۃ عنہم والعبد راع علی مال سیدہ وھو مسئول عنہ فکلہم راع وکلکم مسئول عن رعیتہٖ۔ (بخاری ومسلم)
بیشک تم سب کے سب نگہبان ہو اور تم سب اپنی رعیت کے بارے میںسوال کئے جائو گے پس بادشاہ لوگوں پر نگہبان ہے وہ اپنی رعیت کے بارے میں سوال کیا جاوے گا اور مرد اپنے گھر والوں پر نگہبان ہے اور اس سے انکے بارے میں سوال کیا جاوے گا اور عورت اپنے خاوند کے گھر اور اولاد پر نگہبان ہے وہ انکے بارے میں سوال کی جاوے گا اور غلام اپنے مالک کے مال پر نگہبان ہے اس سے اسکے بارے میں سوال کیا جاوے گا پس تم سب نگہبان ہو اور تم سب سے اپنی رعیت کے بارے میں سوال کیاجاویگا۔اور اسی کو واضع طور پر اس طرح بیان فرمایا ہے۔
قال الدّین النصیحۃ قلنا لمن قال ﷲ و لرسولہٖ ولا ئمۃ المسلمین و عامتّہم(مسلم)
حضور ﷺنے فرمایا دین سراسر نصیحت ہے (صحابہؓ)عرض کیا کس کیلئے۔ فرمایا اللہ کیلئے اور اللہ کے رسول ﷺ کیلئے اورمسلمانوں کے مقتدائوں کیلئے اور عام مسلمانوں کیلئے۔
اگر نفرض محال مان بھی لیا جاے کہ یہ علماء کا کام ہے تب بھی اس وقت فضاء ِزمانہ کا مقتضٰی یہی ہے کہ ہر شخص اس کام میں لگ جائے اور اعلا کلمۃاللہ اور حفاظت دین متین کیلئے کمر بستہ ہو جائے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم یہ سمجھ رہے ہیںکہ اگر ہم خود اپنے ایمان میں پختہ ہیں تو دوسروں کی گمراہی ہمارے لئے نقصان دہ نہیں جیسا کہ اس آیت شریفہ کا مفہوم ہے۔
یایہا الذین اٰمنوا علیکم انفسکم لا یضرکم مّن ضلّ اذااھتدیتم (مائدہ ع ۱۴)
اے ایمان والو! اپنی فکر کرو جب تم راہ پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراہ ہے اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں (بیان القران)
لیکن درحقیقت آیت سے یہ مقصود نہیں جو ظاہر میں سمجھا جا رہا ہے اس لئے کہ یہ معنی حکمت خداوندیہ اور تعلیمات شرعیہ کے بالکل خلاف ہے شریعت اسلامی نے اجتماعی زندگی اور اجتماعی اصلاح اور اجتماعی ترقی کو اصل بتلایا ہے اور امت مسلمہ کو بمنزلہ ایک جسم کے قرار دیا ہے کہ اگر ایک عضو میں درد ہو جائے تو تمام جسم بے چین ہو جاتا ہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ بنی نوع انسان خواہ کتنی ہی ترقی کر جائے اور کمال کو پہنچ جائے اس میں ایسے لوگوں کا ہونا بھی ضروری ہے جو سیدھے راستے کو چھوڑ کر گمراہی میں مبتلا ہوں تو آیت میں مومنوں کے لئے تسلی ہے کہ جب تم ہدایت اور صراطِ مستقیم پر قائم ہو تو تم کو ان لوگوں سے مضرت کا اندیشہ نہیں جنہوں نے بھٹک کر سیدھا راستہ چھوڑ دیا ۔
نیز اصل ہدایت یہ ہے کہ انسان شریعت ِ محمدیہ کو مع تمام احکام کے قبول کرے اور منجملہ احکامِ خداوندی کے ایک امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی ہے۔
ہمارے اس قول کی تائید حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ارشاد سے ہوتی ہے۔
عن ابی بکر ن الصدیق قال ایھا النّاس انّکم تقرء ون ھٰذہالاٰیۃ۔ یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اہْتَدَیْتُم ط فانی سمعت رسول اﷲ یقول ان الناس اذا رآوا المنکر فلم یغیروہ اوشک ان یعمہم اﷲ بعقابہ۔
حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے فرمایا اے لوگو ! تم یہ آیت یآٰیّھا، الّذین اٰ منو علیکم انفسکم لا یضّرکم مّن ضلّ اذااھتدیتم پیش کرتے ہو میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگ خلاف شرع کسی کام کو دیکھیں اور اس میں تغیر نہ کریں تو قریب ہے کہ حق تعالیٰ ان لوگوں کو اپنے عمومی عذاب میں مبتلا فرما دے۔
علمائِ محققین نے بھی آیت کے یہ معنی لیے ہیں۔ امام نوویؒشرح مسلم میں فر ماتے ہیں :۔
علماء محققین کا صحیح مذہب اس آیت کے معنی میں یہ ہے کہ جب تم اس چیز کو ادا کر دو جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے تو تمہارے غیر کی کوتاہی تمہیں مضرت نہ پہنچائے گی جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے ولا تزر وازرۃ وزر اخری اور جب ایسا ہے تو منجملہ ان اشیاء کے جن کا حکم دیا گیا امر با لمعروف و نہی عن المنکر ہے پس جب کسی شخص نے اس حکم کو پورا کر دیا اور مخاطب نے اس کی تعمیل نہ کی تو ناصع پر اب کوئی عتاب اور سرزنش نہیں، اس لئے کہ جو کچھ اس کے ذمہ واجب تھا اور وہ امر و نہی ہے اس نے اس کو ادا کر دیا ،دوسرے کا قبول کرنا اس کے ذمے نہیں۔واللہ اعلم۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ عوام و خواص، عالم و جاہل ہر شخص اصلاح سے مایوس ہو گیا اور انھیں یقین ہو گیا کہ اب مسلمانوں کی ترقی اور ان کا عروج نا ممکن اور دشوار ہے ۔جب کسی شخص کے سامنے کوئی اصلاحی نظام پیش کیا جاتا ہے تو جواب یہی ملتا ہے کہ مسلمانوں کی ترقی اب کیسے ہو سکتی ہے جب کہ ان کے پاس نہ سلطنت و حکومت ہے، نہ مال و زر اور نہ سامانِ حرب اور نہ مرکزی حیثیت،نہ قوت بازو اور نہ باہمی اتفاق و اتحاد۔
بالخصوص دیندار طبقہ تو بزعم خود یہ طے کر چکا ہے کہ اب چودھویں صدی ہے زمانہ رسالت کو بعد ہو چکا ،اب اسلام اور مسلمانوں کا انحطاط ایک لازمی شئے ہے پس اس کے لئے جدو جہد کرنا عبث اور بیکار ہے ،یہ صحیح ہے کہ جس قدر مشکٰوۃ نبوت سے بعد ہوتا جائے گا حقیقی اسلام کی شعاعیں ماند پڑتی جائیں گی لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بقائِ شریعت اور حفاظت دین محمدی کے لئے جدو جہد اور سعی نہ کی جاے اس لئے کہ اگر ایسا ہوتا اور ہمارے اسلاف بھی خداناخواستہ یہی سمجھ لیتے تو آج ہم تک اس دین کے پہنچنے کی کوئی سبیل نہ تھی البتہ جب کہ زمانہ ناموافق ہے تو رفتار ِ زمانہ کو دیکھتے ہوئے زیادہ ہمت اور استقلال کے ساتھ اس کام کو لے کر کھڑے ہونے کی ضرورت ہے ۔
تعجب ہے کہ جو مذہب سراسر عمل اور جدو جہد پر مبنی تھا آج اس کے پیرو عمل سے یکسر خالی ہیں ، حلانکہ قرآنِ مجید اور حدیث شریف میں جگہ جگہ عمل اور جہد کا سبق پڑھایا اور بتلایا ہے کہ ایک عبادت گزار تمام رات نفل پڑھنے والا ،دن بھر روزہ رکھنے والا ،اللہ اللہ کرنے والا ہرگز اس شخص کے برابر نہیں ہو سکتا جو دوسروں کی اصلاح اور ہدایت کی فکر میں بے چین ہو۔
قرآن کریم نے جگہ جگہ جہاد فی سبیل اللہ کی تاکید کی اور مجاہد کی فضیلت اور برتری کو نمایاں کیا۔
لا یستوی القاعدون من المؤمنین غیر اولی الضرر والمجاہدون فی سبیل اللہ باموالھم و انفسھم ط فضل اﷲ المجاہدین واموالہم وانفسہم علی القعدین درجۃ، وکلاًّ وعد اﷲ الحسنی ط وفضل اﷲ المجاہدین علی العقدین واجراً العظیما۔ درجبٍ منہ ومغفرۃ ورحمۃ ط وکان اﷲغفورًا رحیما۔
برابررنہیں وہ مسلمان جو بلا کسی عذر کے گھر میں بیٹھے ہیں اور وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں اپنے مال جان سے جہاد کریں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کادرجہ بہت بلند کیا ہے جو اپنے مال و جان سے جہاد کرتے ہیں بہ نسبت گھر بیٹھنے والوں کے۔ اور سب سے اللہ تعالیٰ اچھے گھر کا وعدہ کر رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجاہدین نے کو بمقابلہ گھر میں بیٹھنے والوں کے اجر عظیم دیا ہے یعنی بہت سے درجے جو خدا کی طرف سے ملیں گے اور مغفرت اور رحم۔ اور اللہ بڑی مغفرت ،رحمت والے ہیں۔
اگرچہ آیۃ میں جہاد سے مراد کفار کے مقابلہ میں سینہ سپر ہونا ہے تا کہ اسلام کا بول بالا ہو اور کفر وشرک مغلوب مقہور ہو لیکن اگر بد قسمتی سے آج ہم اس سعادت ِعظمیٰ سے محروم ہیں تو اس مقصد کے لئے جس قدر جدوجہد ہماری مقدرت اور استطاعت میں ہے اس میں تو ہرگز کوتاہی نہ کرنی چاہیے پھر ہماری یہی معمولی حرکت عمل اور جد و جہد ہمیں کشاں کشاں آگے بڑھاے گی ۔ والّذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا یعنی جو لوگ ہمارے دین کے لئے کوشش کرتے ہیں ہم ان کے لئے اپنے راستے کھول دیتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ دین محمدیﷺ کی بقاء اور تحفظ کا حق تعالیٰ نے وعدا کیا ہے لیکن اس کے عروج وترقی کے لئے ہمارا عمل اور سعی مطلوب ہے ۔صحابہ کرامؓ نے اس کے لئے جس قدر انتھک کوشش کی اسی قدر ثمرات بھی مشاہدہ کیے اور غیبی نصرت سے سرفراز ہوئے ۔ ہم بھی ان کے نام لیوا ہیںاگر اب بھی ہم ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں اور اعلائِ کلمۃُاللہ اور اشاعت اسلام کے لئے کمر بسۃ ہو جائیں تو یقیناہم بھی نصرت خدا وندی اور امداد غیبی سے سرفراز ہوں گے۔ ان تنصروا اللہ ینصرکم و یثبّت اقدامکم یعنی اگر تم خدا کے دین کی مددکے لئے کھڑے ہو جائو گے تو خدا تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جب ہم خود ان باتوں کے پابند نہیں اور اس منصب کے اہل نہیں تو دوسرں کو کس منہ سے نصیحت کریں لیکن یہ نفس کا صریع دھوکہ ہے جب ایک کام کرنے کا ہے اور حق تعالیٰ کی جانب سے ہم اس کے مامور ہیں تو پھر ہمیں اس میں پس و پیش کی گنجائش نہیں ۔ہمیں خدا کا حکم سمجھ کر کام شروع کر دینا چاہیے پھر انشاء اللہ یہی جدّ و جہد ہماری پختگی ، استحکام اور استقامت کا باعث ہو گی اور اسی طرح کرتے کرتے ایک دن تقرب خدا وندی کی سعادت نصیب ہو جاے گی ۔یہ نا ممکن اور محال ہے کہ ہم حق تعالیٰ کے کام میںجدو جہد کریں اور وہ رحمن ورحیم ہماری طرف نظرِ کرم نہ فرمائے ۔میرے اس قول کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے۔
عَنْ اَنَسٍ قَالَ قُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ لَا نَأْمُرُ بِالْمَعْرُوْفِ حَتّٰی نَعْمَلَ بِہٖ کُلِّہٖ وَلَا نَنْہٰی عَنِ الْمُنْکَرِ حَتّٰی نَجْتَنِبَہُ کُلَّہُ فَقَالَ بَلْ مُرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَاِنْ لَّمْ تَعْمَلُوْا بِہٖ کُلِّہٖ وَانْہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَاِنْ لَمْ تَجْتَنِبُوْہُ کُلَّہُ (راوہ الطبرانی فی الصغیر الاوسط)
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم بھلائیوں کا حکم نہ کریں جب تک خود تمام پر عمل نہ کریں او برائیوں سے منع نہ کریں جب تک خود تمام برائیوں سے نہ بچیں۔حضور ﷺنے نے ارشاد فرمایا۔ ۔نہیں بلکہ تم بھلی باتوں کا حکم کرو اگرچہ تم خود ان سب کے پابند نہ ہو اور برائیوں سے منع کرو اگرچہ تم خود ان سب سے نہ بچ رہے ہو ۔
پانچویں وجہ یہ ہے کہ ہم سمجھ رہے ہیں کہ جگہ جگہ مدارس دینیہ کا قائم ہونا ،علماء کا وعظ و نصیحت کرنا ، خانقاہوں کا آباد ہونا ، مذہبی کتابوں کا تصنیف ہونا ، رسالوں کا جاری ہونا ،یہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے شعبے ہیں اور ان کے ذریعہ اس فریضہ کی ادائیگی ہو رہی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ان سب اداروں کا قیام اور بقاء بہت ضروری ہے اور ان کی جانب اعتناء اہم امور سے ہے اس لیے کہ دین کی جو تھوڑی بہت جھلک دکھائی دے رہی ہے وہ انہی اداروں کے مبارک آثار ہیں ، لیکن پھر بھی اگر غور سے دیکھا جائے تو ہماری موجودہ ضرورت کے لیے ٔیہ ادارے کافی نہیں اور ان پر اکتفاء کرنا ھماری کھلی غلطی ہے اس لیے کہ ان اداروں سے ہم اس وقت منتفع ہو سکتے ہیں جب ہم میں دین کا شوق اور طلب ہو اور مذہب کی وقعت اور عظمت ہو۔ اب سے پچاس سال پہلے ہم میں شوق و طلب موجود تھا اور ایمانی جھلک دکھائی دیتی تھی ۔اس لیے ان اداروں کا قیام ہمارے لئے کافی تھا لیکن آج غیر اقوام کی انتھک کوششوں نے ہمارے اسلامی جذبات بالکل فنا کر دیے اور طلب و رغبت کے بجائے آج ہم مذہب سے بیزار اور متنفّر نظر آتے ہیں ۔ ایسی حالت میں ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم مستقل کوئی تحریک ایسی شروع کریں جس سے عوام میں دین کے ساتھ تعلّقاور شوق و رغبت پیدا ہو اوران کے سوئے ہوئے جذبات بیدار ہوں ۔،پھر ہم ان اداروں سے ان کی شان کے مطابق منتفع ہو سکتے ہیں ۔ورنہ اگراسی طرح دین سے بے رغبتی اور بے اعتنائی بڑھتی گئی ، تو ان اداروں سے انتفاع تو درکنار ان کا بقاء بھی دشوار ہو نظر آتا ہے۔
چھٹی وجہ یہ ہے کہ جب ہم اس کام کو لے کر دوسروں کے پاس جاتے ہیں تو ہو بری طرح پیش آتے ہیں اور سختی سے جواب دیتے ہیں اور ہماری توہین اور تذلیل کرتے ہیں ، لیکن ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کام انبیاء کرام ںکی نیابت ہے اور ان مصائب اور مشقتوں میں مبتلا ہونا اس کام کا خاصہ ہے اور یہ سب مصائب اور تکالیف بلکہ اس بھی زائد انبیاء کرام نے اس راہ میں برداشت کیں۔ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔
ولقد ارسلنا من قبلک فی شیع الاوّلین() وما یاتیھم من رّسول الا کانوا بہ یستھزء ون() (حجر۔ع۱)
ہم بھیج چکے ہیں رسول تم سے پہلے اگلے لوگوں کے گروہوں میں اور انکے پاس کوئی رسول نہیںآیا تھا مگر یہ اسکی ہنسی اُڑاتے رہے
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے ۔ دعوت حق کی راہ میں جس قدر مجھ کو اذیت اور تکلیف میں مبتلاء کیا گیا ہے کسی نبی اور رسول کو نہیں کیا گیا ۔
پس جب سردار دو عالم ﷺ اور ہمارے آقا و مولیٰ ان مصائب اور مشقتوں کو تحمل اور بردباری کیساتھ برداشت کیا تو ہم بھی انکے پیرو ہیں اور انہی کا کام لے کر کھڑے ہوئے ہیں ہمیں بھی ان مصائب سے پریشان نہ ہونا چاہیے اور تحمل اور بردباری کیساتھ انکو برداشت کرنا چاہیے۔
ما سبق سے یہ بات بخوبی سمجھ معلوم ہوگئی کہ ہمارا اصل مرض روح اسلامی اور حقیقت ایمانی کا ضعف اور اضمحلال ہے۔ہمارے اسلامی جذبات فنا ہو چکے اور ایمانی قوت زائل ہو چکی اور جب اصل شئے میں انحطاط آگیا تو اس کے ساتھ جتنی خوبیاں اور بھلائیاں وابسۃ تھیں ان کا انحطاط پذیر ہونا بھی لابدی اور ضروری تھا اور اس ضعف و انحطاط کا سبب اس اصل شے کا چھوڑدینا ہے جس پر تمام دین کا بقاء اور دارومدار ہے اور وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے ظاہر ہے کہ کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ اس کے افراد خوبیوں اور کمالات سے آراسۃ نہ ہوں ۔
پس ہمارا علاج صرف یہ ہے کہ ہم فریضہ تبلیغ کو ایسی طرح لے کر کھڑے ہوں جس سے ہم میں قوت ایمانی بڑھے اور اسلامی جذبات ابھریں ،ہم خدا اور رسول کو پہچانیں اور احکام خداوندی کے سامنے سرنگوں ہو ں اور اس کے لئے ہمیں وہی طریقہ اختیار کرنا ہو گا جو سیّد الانبیاء ولمرسلین ﷺنے مشرکین عرب کی اصلاح کے لئے اختیار فرمایا۔
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ (احزاب۳)
بے شک تمہارے لئے رسول اللہ میں اچھی پیروی ہے۔
اسی کی جانب امام مالک ؒاشارہ فرماتے ہیں ۔ لن یّصلح ا خر ھذہالامّۃالّا ما اصلحاوّلھا۔ یعنی اس امت محمدیہ ﷺکے آخر میں آنے والے لوگوں کی ہرگز اصلاح نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہی طریقہ اختیار نہ کیا جائے جس نے ابتداء میںاصلاح کی ہے۔
جس وقت نبی کریم دعوت ِحق لیکر کھڑے ہوئے ،آپ ﷺتنہا تھے، کوئی آپکا ساتھی اور ہم خیال نہ تھا ، دنوی کوئی طاقت آپکو حصل نہ تھی آپ ﷺکی قوم میں خودسری اور خود رائی انتہا درجہ کو پہنچی ہوئی تھی، ان میں سے کوئی حق بات سننے اور اطاعت کرنے پر آمادہ نہ تھا بالخصوص جس کلمہ ئِ حق کی تبلیغ کرنے آپ کھڑے ہوئے تھے اس سے تمام قوم کے قلوب متنفر اور بیزار تھے ،ان حالات میں کون سی طاقت تھی جس سے ایک مفلس ونادار ، بے یارومددگار انسان نے تمام قوم کو اپنی طرف کھینچا۔اب غور کیجئے کہ آخر وہ کیا چیز تھی جسکی طرف آپ نے تمام مخلوق کو بلایا ۔اور جس شخص نے اسکو پا لیا وہ پھر ہمیشہ کیلئے آپ کا ہو رہا۔ دنیا جانتی ہے کہ وہ ایک سبق تھا جو آاپﷺکا مطمع نظر اور مقصود اصلی تھا جسکو آپ نے لوگوں کے سامنے پیش کیا ۔
الا نعبد الا اﷲ ولا نشرک بہٖ شیأ وّ لا یتخذ بعضنا بعضاً اربابا من دون اﷲ (اٰل عمران ع۷)
بجز اﷲ تعالیٰ کے ہم کسی اورکی عبادت نہ کریں اور اﷲ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھرائیں اور ہم میں سے کوئی دوسرے کو رب نہ قرار دے خداتعالیٰ کو چھوڑ کر۔
اللہ وحدہ لا شریک لہ‘ کے سوا ہر شے کی عبادت اور اطاعت اور فرماں برداری کی ممانعت کی اور اغیار کے تمام بندھنوں اورعلاقوں کو توڑکر ایک نظام عمل مقرر کر دیا اور بتلا دیا کہ اس سے ہٹ کرکسی دوسری طرف رخ نہ کرنا ۔
اتّبعوا ما انزل الیکم من ربکم ولا تتبعوا من دو نہٖ اولیاء ط (اعراف۔ع۱)
تم لوگ اسکا اتباع کرو جو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے آئی ہے اور خدا تعالیٰ کو چھوڑکر دوسرے لوگوں کا اتباع مت کرو
یہی وہ اصل تعلیم تھی جس کی اشاعت کا آپﷺکو حکم دیا گیا۔
ادع الیٰ سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجا دلھم بالتی ھی احسن ط ان ربک ھو اعلم بمن ضل عن سبیلہٖ وھو اعلم بالمھتدین۔ (نحل۔ع۱۶)
اے محمدؐ !بلائو لوگوں کو اپنے رب کی طرف حکمت اور نیک نصیحت سے اور انکے ساتھ بحث کرو جسطرح بہتر ہو۔ بیشک تمہارا رب ہی خوب جانتا ہے اس شخص کو جو گمراہ ہو اسکی راہ سے ، وہی خوب جانتا ہے راہ چلنے والوں کو۔
اور یہی وہ شاہراہ تھی جو آپﷺکے لئے اور آپﷺکے ہر پیرو کے لئے مقرر کی گئی ۔
قل ھذہ سبیلی ادعوا الی اﷲ علی بصیرۃ انا ومن اتبعنی ط و سبحان اﷲ وما انا من المشرکین۔ (یوسف۔ع ۱۲ ) ومن احسن قو لا ممن دعا الی اﷲ وعمل صالحا وقال اننی من المسلمین ۔ (حٰم سجدہ ۔ع ۴)
کہہ دو یہ ہے میرا راستہ بلاتا ہوں اللہ کی طرف سمجھ بوجھ کر، اور جتنے میرے تابع ہیں وہ بھی ،اور اللہ پاک ہے اور میں شریک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں اور اس سے بہتر کس کی بات ہو سکتی ہے جو خدا کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے میں فرماں برداروں میں سے ہوں
پس اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی مخلوق کو بلانا ،بھٹکے ہوئوں کو راہ حق دکھلانا ،گمراہوں کو ہدایت کا راستہ دکھلانا نبی کریم ﷺ کا وظیفہ حیات اور آپ ﷺکا مقصداصلی تھا اور اسی مقصد کی نشوونما اور آبیاری کیلئے ہزاروں نبی اور رسول بھیجے گئے ۔
وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لا الہ الا انا فا عبدون (الانبیاء ۔ ع۲ )
اور ہم نے نہیں بھیجا تم سے پہلے کوئی رسول مگر اس کی جانب یہی وحی بھیجتے تھے کہ کوئی معبود نہیں بجز میرے ،پس میری بندگی کرو
نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ اور دیگر انبیا کرام کے مقدس لمحات زندگی پر جب نظر ڈالی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ سب کا مقصد اور نصب العین صرف ایک ہے ،اور وہ ہے اللہ رب العالمین وحدہ لا شریک لہ‘کی ذات و صفات کا یقین کرنا ، یہی ایمان اور اسلام کا مفہوم ہے اور اسی لئے انسان کو دنیا میں بھیجا گیا ۔ وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون یعنی ہم نے جنات اور انسان کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ بندہ بن کر زندگی بسر کریں ۔اب جب کہ مقصد زندگی واضع ہو گیا اور اصل مرض اور اس کے معالجہ کی نوعیت معلوم ہو گئی تو طریق علاج کی تجویز میں زیادہ دشواری نہ آے گی اور اس نظریہ کے تحت جو بھی علاج کا طریقہ اختیار کیا جائے گا انشاء اللہ نافع اور سود مند ہو گا۔
ہم نے نارسا فہم کے مطابق مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے ایک نظام عمل تجویز کیا ہے جس کو فی الحقیقت اسلامی زندگی یا اسلاف کی زندگی کا نمونہ کہا جا سکتا ہے جس کا اجمالی نقشہ آپ کی خدمت میں پیش ہے ۔
سب سے اہم اور پہلی چیز یہ ہے کہ ہر مسلمان تمام اغراض و مقاصد ِ دنیوی سے قطع نظر کر کے اعلاء کلمۃ اللہ اور اشاعت اسلام اور احکام خدا وندی کے رواج اور سر سبزی کو اپنا نصب العین بنا دے اور اس بات کا پختہ عہد کر کرے کہ حق تعالیٰ کے ہر حکم کو مانوں گا اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا اور کبھی خدا وند کریم کی نا فرمانی نہیں کروں گا اور اس نصب العین کی تکمیل کے لئے اس دستور العمل پر کار بندہو :۔
( ۱ ) کلمہ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کا صحت الفاظ کیساتھ یاد کرنا اور اسکے معنی اور مفہوم کو سمجھنا اور ذہن نشین کرنے کی کوشش کرنا اور اپنی پوری زندگی کو اسکے موافق بنانے کی فکر کرنا ۔
(۲) نماز کا پابند ہونا ، اس کے آداب و شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے خشوع اور خضوع کیساتھ ادا کرنا اور ہر ہر رکن میں خدا وند کریم کی عظمت و بزرگی اور اپنی بندگی اور بیچارگی کا دھیان کرنا۔ غرض اس کوشش میں لگے رہنا کہ نماز اس طرح ادا ہو جو اس ربّ العزت کی بار گاہ کی حاضری کے شیایان شان ہو۔ایسی نماز کی کوشش کرتے رہے اورحق تعالیٰ سے اسکی توفیق طلب کرے ۔اگر نماز کا طریقہ معلوم نہ ہو تو اسکو سیکھے اور نماز میں پڑھنے کی تمام چیزوں کو یاد کرے۔
(۳) قرآن کریم کے ساتھ وابستگی اور دل بستگی پیدا کرنا ، جس کے دو طریقے ہیں ۔
(الف)کچھ وقت روزانہ ادب و احترام کے ساتھ معنی و مفہوم کا دھیان کرتے ہوئے تلاوت کرنا۔ اگر عالم نہ ہو اور معنی اور مفہموم کو سمجھنے سے قاصر ہو تب بھی بغیر معنی سمجھے کلام ربانی کی تلاوت کرے ، اور سمجھے کہ میری فلاح و بہبود اسی میں مضمر ہے ۔ محض الفاظ کا پڑھنا بھی سعادت عظمیٰ ہے اور موجب خیرو برکت ہے اور اگر الفاظ بھی نہیں پڑھ سکتا تو تھوڑا وقت روزانہ قرآن مجید کی تعلیم میں صرف کرے ۔
(ب) اپنے بچوں اور محلہ اور گائوں کے لڑکوں اور لڑکیوں کی قرآن مجید اور مذہبی تعلیم کی فکر کرنا اور ہر کام پر اس کو مقدم رکھنا ۔
(۴) کچھ وقت یاد الٰہی اور ذکر و فکر میں گزارنا ۔پڑھنے کے لئے کوئی چیز کسی شیخ طریقت ، متّبع سنت سے دریافت کرنا ورنہ کلمہ سوئم ، سبحان اﷲ ولا الہ الا اﷲ واﷲ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم اور درود و استغفار کی تسبیح ایک صبح اور ایک شام معنی کا دھیان کرتے ہوئے جی لگا کر اطمینان قلب کے ساتھ پڑھے۔ حدیث میں اس کی بڑی فضیلت آئی ہے ۔
(۵) ہر مسلمان کو اپنا بھائی سمجھنا ، اس کے ساتھ ہمدردی اور غمگساری کا برتائو کرناصفت اسلام کی وجہ سے اس کا ادب و احترام کرنا ۔ ایسی باتوںسے بچنا جو کسی مسلمان بھائی کی تکلیف و اذیت کا باعث ہوں۔
ان باتوں کا خود بھی پابند ہو اور کوشش کرے کہ ہر مسلمان ان کا پابند بن جائے ، جس کا طریقہ یہ ہے کہ خود بھی اپنا کچھ وقت دین کی خدمت کے لئے فارغ کرے اور دوسروں کو بھی ترغیب دے کر دین کی خدمت اور اشاعت اسلام کے لئے آمادہ کرے ۔
جس دین کی اشاعت کے لئے انبیاء کرام نے مشقتیں برداشت کیں ۔ طرح طرح کے مصائب میں مبتلا ہوئے ۔ صحابہ کرام ؓ اور ہمارے اسلاف نے اپنی عمروں کو اس میں صرف کیا اور اس کی خاطر راہ خدا میں اپنی جانوں کو قربان کیا اس دین کی ترویج اور بقاء کے لئے تھوڑا وقت نہ نکالنا بڑی بد نصیبی اور خسران ہے اور یہی وہ اہم فریضہ ہے جس کو چھوڑ دینے کی وجہ سے آج ہم تباہ برباد ہو رہے ہیں۔
پہلے مسلمان ہونے کا مفہوم یہ سمجھا جاتا تھا کہ اپنا جان و مال ، عزت و آبرو ، اشاعت اسلام اور اعلاء کلمۃ اللہ کی راہ میں صرف کرے اور جو شخص اس میں کوتائی کرتا تھا وہ بڑا نادان سمجھا جاتا تھا ۔ لیکن افسوس کہ آج ہم مسلمان کہلاتے ہیں اور دین کی باتوں کو اپنی آنکھوں سے مٹتا ہوا دیکھ رہے ہیں ، پھر بھی اس دین کی ترویج اور بقاء کے لئے کوشش کرنے سے گریز کرتے ہیں غرض اعلاء کلمۃ اللہ اور اشاعت دین متین جو مسلمان کا مقصد اور زندگی اور اصلی کام تھا اور جس کے ساتھ ہماری دونوں جہان کی فلاح و ترقی وابسۃ تھی اور جس کو چھوڑ کر آج ہم ذلیل و خوار ہو رہے ہیں ۔ اب پھر ہمیں اپنے اصلی مقصد کو اختیار کرنا چاہیے اور اس کام کو اپنا جزو زندگی اور حقیقی مشغلہ بنانا چاہیے تاکہ پھر رحمت خدا وندی جوش میں آوے اور ہمیں دنیا اور آخرت کی سرخروئی اور شادابی نصیب ہو۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اپنا تمام کارو بار چھوڑ کر بالکل اس کام لگ جائے ، بلکہ مقصد یہ ہے کہ جیسا اور دنیوی ضروریات انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہیں اور ان کو انجام دیا جاتا ہے ، اس کام کو بھی ضروری اور اہم سمجھ کر اس کے واسطے وقت نکالا جائے جب چند آدمی اس مقصد کے لئے تیار ہو جائیں تو ہفتہ میں چند گھنٹے اپنے محلے ، اور مہینہ میں تین دن قر ب و جوار کے مواضعات میں، اور سال میں ایک چلہ دور کے مواضعات میں اس کام کو کریں کہ ہر مسلمان امیر ہو غریب تاجر ہو یا ملازم ، زمیندار ہو یا کاشتکار ، عالم ہو یا جاہل ، اس کام میں شریک ہو جائے ۔

http://www.ownislam.com/articles/fazil-e-ammal-urdu
Taken with thanks from