Pages

Sayyeda Hazrat Fatma Dowry Reality Jahez Haqeeqat

حضرت فاطمہ رضى الله تعالى عنها کا جہیز

از: محمد شاہ نواز عالم قاسمی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی

سیّدة النساء حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا جہیز یہ تھا: دو یمنی چادر، دو نہالی جس میں اَلْسِی کی چھال بھری تھی، چار گدے، چاندی کے دو بازوبند، ایک کملی، ایک تکیہ، ایک پیالہ،ایک چکی، ایک مشکیزہ اور پانی رکھنے کا برتن یعنی گھڑا اور بعض روایتوں میں ایک پلنگ بھی آیا ہے۔ (ازالة الخفا واصلاح الرسوم،ص:۹۳)

حضرت فاطمہ رضى الله تعالى عنها کے جہیز کی حقیقت

ہمارے معاشرے میں جب جہیز کی بات آتی ہے تو سارے عہد نبوی سے ایک سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اکلوتی مثال کو اس قدر زور بیان اور قوت استدلال فراہم کردیاجاتا ہے؛ گویا سنت نبوی کا تمام ترانحصار اسی پر ہے۔ سیّدہ فاطمہ رضى الله تعالى عنها کے اسباب کے ذریعے جہیز کو مسنون ثابت کرنے والے شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی اور دیگر صاحب زادیاں تھیں، آپ نے اُنھیں کتنا سامانِ جہیز دیا، اگر نہیں دیا ہے تو کیاوجہ ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم یہ تلقین فرمارہے ہیں: اولاد کو عطیہ دینے میں مساوات کو پیش نظر رکھو۔ (بیہقی)

ایک صحابی نعمان بن بشیررضى الله تعالى عنه اپنے ایک بیٹے کو عطیہ دینے کے سلسلے میں گواہ بنانے حاضر ہوئے توآپ نے پوچھا: کیا ساری اولاد کو اسی طرح کے عطیات دے رہے ہو؟ اُنھوں نے کہا: نہیں، تو آپ نے فرمایا: اللہ سے ڈرو اور اولاد کے بارے میں انصاف سے کام لو، کسی ایک کو دینا دوسرے کو نظر انداز کردینا ظلم ہے اور میں ظلم پر گواہ نہیں بن سکتا۔ (متفق علیہ)

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے ہاں یہ معاملہ آتاہے تو ایک بیٹی کو جہیز دے کر روانہ کرتے ہیں اور دوسری بیٹیوں کو نظرانداز کردیتے ہیں حال آں کہ آپ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے: میں انصاف نہیں کروں گا تو کون انصاف کرے گا؟

بخدا دامنِ نبوت ہر قسم کی نا انصافی سے پاک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر صحیح روایت سے یہ ثابت ہوجائے کہ آپ نے سیّدہ فاطمہ رضى الله تعالى عنها کے گھرکا سامان اپنے پاس سے دیا اور اُن چار سو اسی دراہم سے نہیں خریدا گیاجو حضرت علی رضى الله تعالى عنه نے اپنا واحد اثاثہ غزوئہ بدر میں ملنے والی زرہ کو فروخت کرکے حاصل کیاتھا تو بھی صورتِ حال علاحدہ تھی۔

بعثتِ نبوی سے پہلے کی بات ہے۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کواپنے چچا ابوطالب کی معاشی تنگی کا شدت سے احساس تھا، ایک روز آپ نے اپنے دوسرے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: آئیے ہم ان کی مدد کرتے ہیں اور وہ اس طرح کہ ان کا ایک بیٹا میں لے لیتاہوں ایک آپ لے لیں۔ اس طرح ان کی معاشی ذمے داری کم ہوجائے گی؛ چناں چہ آپ صلى الله عليه وسلم نے حضرت علی رضى الله تعالى عنه کی کفالت کی ذمے داری لی جو شادی تک آپ کے ساتھ رہے۔ چوں کہ حضرت علی رضى الله تعالى عنه کی کفالت آپ کے ذمے تھی؛ اِسی لیے مدینہ منورہ میں مواخات کے موقعے پر جب ایک ایک انصاری اور ایک مہاجر کو بھائی بنایاگیا توآپ صلى الله عليه وسلم نے حضرت علی رضى الله تعالى عنه کا ہاتھ پکڑکر فرمایا: یہ میرا بھائی ہے۔

مطلب یہ تھا کہ اس کی کفالت جس طرح مکہ معظمہ میں میرے ذمے تھی اب بھی میرے ذمے ہے؛ چوں کہ حضرت علی رضى الله تعالى عنه کی کفالت آپ کی ذمے داری تھی؛ اِس لیے حضرت علی رضى الله تعالى عنه نے جب نیاگھر بسانے کا اِرادہ کیاتو آپ نے اُن کے سرپرست ہونے کی ذمے داری پوری کرتے ہوئے کچھ ضروری سامان ساتھ کردیا جسے بعد میں ہوس پرستوں نے کچھ کا کچھ کردیا۔