حضرت سعد بن معاذ کی بے
باکی کا سبق آموذ واقعہ
حضرت سعد بن
معاذ مدینہ کے ایک سردار تھے
انکی ابو صفوان (امیہ بن خلف) کیساتھ دوستی تھی یہ مکہ کا ایک کافر تھا۔ آنحضرت ﷺ
مکہ شریف سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لے جاچکے تھے۔ حضرت سعد بن معاذ حضور اکرم ﷺ سے اجازت لے کر مکہ
مکرمہ عمرہ کرنے کیلئے تشریف لے گئے۔ انکی جاہلیت کے زمانے میں عادت تھی کہ وہ
اپنے دوست ابو صفوان (امیہ بن خلف) کے پاس ٹھہرتے تھے۔ بخاری شریف کی دوسری جلد کے
پہلے صفحہ پر یہ حدیث ہے جس کو میں ذکر کررہا ہوں۔ الفاظ کی کوئی کمی بیشی ہوگی‘
لیکن مفہوم یہی ہے جو میں عرض کر رہا ہوں حضرت سعد بن معاذ امیہ بن خلف سے کہنے لگے
یار! کوئی ایسا وقت تلاش کرو جس میں بیت اللہ شریف میں کوئی اور نہ ہو‘ اور میں
تنہائی میں اپنے رب سے باتیں کرسکوں۔ وہ کہنے لگا بہت اچھا‘ دونوں دوپہر کے وقت
چلے گئے۔ دوپہر اور وہ بھی مکہ مکرمہ کا دوپہر۔ اب تو پکی اینٹیں لگی ہوئی ہیں۔
سفید پتھر لگے ہوئے ہیں‘ گرم ہی نہیں ہوتے‘ ابن بطوطہ نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ
دوپہر کو میں بیت اللہ شریف کا طواف کرنے کیلئے چلا گیا‘ چلا تو گیا‘ جب میں نے
مطاف میں قدم رکھا تو میرا پاؤں وہیں چپک گیا۔ بڑی مشکل سے میں نے پاؤں چھڑایا اور
پیچھے لوٹ آیا یہ اس وقت کی بات ہے۔ بہر حال امیہ بن خلف نے حضرت سعد کے طواف
کیلئے بارہ بجے کا وقت تجویز کیا کیونکہ اس وقت کوئی نہیں ہوتا۔ طواف کیلئے جاتے
ہوئے راستہ میں ابوجہل مل گیا۔ کہنے لگا یہ کون ہے؟ ابو صفوان امیہی بن خلف کہنے
لگا یہ میرے دوست سعد بن معاذ یثرب کے رہنے والے ہیں۔
ابوجہل اونچا نیچا کوئی لفظ کہنے لگا کہ تم نے ہمارے باغیوں کو پناہ دے رکھی ہے
اور آرام سے بیت اللہ کا طواف بھی کر رہے ہو۔ حضرت سعد مدینہ کے سردار تھے اور
یہ مکے کا سردار تھا‘ دو سرداروں کی جنگ تھی‘ حضرت سعد بن معاذ نے ڈانٹ کر فرمایا کہ زیادہ باتیں نہ
کرو‘ تمہارا غلہ ملک شام سے آتا ہے۔ میں ایک دانہ بھی مکے نہیں پہنچنے دونگا۔
ابوجہل تو پچ ہوگیا اور ابوصفوان امیہ بن خلف حضرت سعد بن معاذ سے کہنے لگا کہ تم اس وادی کے چوہدری
کو اس طرح جھڑکتے ہو۔ لوہا گرم تھا‘ امیہ سے فرمانے لگے کہ زیادہ باتیں نہ کر۔ میں
نے رسول اللہ ﷺ کی زبان سے سنا ہے کہ آپ ﷺ ارشاد فرماتے تھے کہ وہ تجھے قتل
کرینگے۔
Reproduced with jazakallah o khair from