Pages

تبلیغی جماعت اعتراضات رد عمل کی مثبت مثال انعام خداوندی اللہ کی توفیق




فضيلة الشيخ للعلامة قاری محمّد طیّب رحیم اللہ

 انعام خداوندی
 یہ اللہ کی دی ہوئی توفیق اور آپ کی قسمت کی بات ہے کہ آپ کے حصہ میں کام کرنا آیا اور دوسروں کے نصیب میں اعتراض کرنا ۔ اس لیے آپ تو خوش نصیب رہیے کہ حق تعالیٰ نے آپ لوگوں کو کام کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔
 اور اعتراضات سے بچالیا اور رہ گیا اوروں کا اعتراض کرنا اس کے لیے آپ لوگوں کا عمل خود جواب ہے ۔ 
مثل مشہور ہے کہ ایک چپ سو کو ہرادیتی ہے ، اور چپ سب سے بڑھ کر عمل ہے ، اس سے کچھ بھی اشکال قائم نہیں رہے گا۔ (خطبات حکیم الاسلام حصہ چہارم ص۴۰۰)


 ’’ ویسے بھی اعتراضات کا دائرہ وسیع اور نہایت آسان ہے ، سب سے آسان ہے اعتراض کا کردینا۔ جس پر چاہے اعتراض کردیجیے ، لطف کی بات یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے تھکتے نہیں۔ اور تھکیں بھی تو کیسے ، اس لیے کہ اس میں نہ تو کسی دلیل کی ضرورت ہے اور نہ عقل کی ، بس یہ کہہ دیجئے کہ یہ غلط ہے ، اور اعتراض کے لیے علم کی بھی ضرورت نہیں۔


 تو بھائی اس سے آپ کا کیا نقصان ہوتا ہے ، آپ اپنے کام میں پورے طریقہ سے مشغول رہیے، کل قیامت کے میدان میں اعتراض کرنے والے بھی کھڑے ہوں گے اور کام کرنے والوں کی بھی صفیں ہوں گی۔ ہر ایک کی محنت کا ثمرہ اس کے سامنے آجائے گا۔ (خطبات حکیم الاسلام ، قاری طیب صاحب، جلد چہارم ، ۳۹۹)


اعتراضات کا دائرہ اور اعتراضات پر رد عمل کی ایک مثبت مثال 

 تبلیغی جماعت کوئی الگ جماعت نہیں ہے ، یہ مسلمانوں کی ایک ایمانی تحریک ہے ، اس کا کوئی نام نہیں رکھا گیا ، لیکن بر صغیر کے لوگوں نے اس کو اسی نام سے پکارا اور یہ اتنا مشہور ہوا کہ بعض دفعہ تبلیغ سے جڑے لوگ بھی اس کو اسی نام سے پکارتے ہیں ، 

یہ حضرات اپنے کام میں اخلاص واستخلاص کے ساتھ لگے رہتے ہیں ، اور اختلافی اور 
فروعی مسائل میں نہیں پڑتے ۔ بلکہ جو صفِ اول کا کام کرنے والا ساتھی ہوگا اسے 
اگر آپ کسی بحث میں شامل کرنا چاہیں تو بھی آسانی سے شامل نہیں ہوگا۔
 (ہاں جو حضرات کام میں جڑے رہتے ہیں ، لیکن پورے نظام عمل کے پابندنہیں  
 ہوتے ، وہ اس طرح کی بحثوں میں شامل ہوسکتے ہیں )
جیسے اس بلاگ میں لکھنے والے افراد بھی اسی زمرے کے ہیں  

 اب سے لگ بھگ پانچ سال قبل سہ روزہ دعوت جو جماعت اسلامی کا اخبار ہے ، اس نے ہندوستانی مسلمان نمبر شائع کیا تھا، جس میں تبلیغی جماعت پر بھی ایک مضمون تھا ، اس کے اداریے میں لکھا تھا کہ اس مضمون کے سلسلے میں کئی بار مرکز نظام الدین جانا ہوا ، اور ان سے اپنے بارے میں ایک مضمون کی درخواست کی گئی ، لیکن کوئی مضمون کو لکھنے کے لیے تیار نہیں ہوا۔ لہٰذا تبلیغی جماعت کے بارے میں مضمون کسی اور کی طرف سے لکھا گیا۔

 کہنے کا مطلب یہ ہوا کہ وہ سوال وجواب کے معاملات وغیرہ سے دور رہنا پسند کرتے ہیں۔
 مجھے خود بھی ان کا یہ موقف پوری طرح سمجھ میں نہیں آیا، میں نے دعوت کے کام 
کے ایک پرانے ساتھی سے اس کی وجہ پوچھی تو کافی اصرار پر انہوں نے بتایا :

 (۱) ہر خیر وشر کا فیصلہ قیامت کے میدان میں ہونا ہے ، اللہ تعالیٰ سب سے بڑے فیصلہ کرنے والے ہیں ، وہ سب ظاہر وباطن کو جاننے والے ہیں ، اس لیے دنیا والوں کو جواب دے کر مطمئن کر بھی دیا تو کیا فائدہ حاصل ہوا ۔ اصل فیصلہ تو قیامت کے میدان میں ہے ۔
 (۲) میں نے ان سے کہا کہ الزامات سے آپ کی بدنامی ہوسکتی ہے ، انہوں نے کہا کہ ہماری کوئی الگ جماعت ہے ہی نہیں ، تو ہماری جماعت کے نام یا بدنام کو کوئی سوال ہی نہیں ۔ رہی افراد کی بدنامی تو ہماری حیثیت ہی کیا ہے کہ ہم اس کا غم لے کر بیٹھیں۔
 (۳) میں نے کہا لیکن چند غلط فہمیوں کی وجہ سے بہت سے لوگ اس اہم خیر کے کام اور مؤثر دعوت سے دور ہوسکتے ہیں ، یا عملی طور پر حصہ نہیں لے پارہے ہیں ، اس لیے اس کو دور کرنا چاہیے۔
 جواب:۔ غلط فہمی تھوڑے لوگوں میں ہے ۔ اکثریت کام کو خیر مانتی ہے ، اس سے محبت کرتی ہے ، اس کی ستائش کرتی ہے اور اس میں حصہ لیتی ہے ۔ تبھی تو اجتماعات میں اتنی کثیر تعداد میں شریک ہوتی ہے ، کہ لوگ حج کے بعد مسلمانوں کے سب سے بڑے اجتماع سے تعبیر کرتے ہیں۔  ۔ لوگ اپنے خرچ پر اور اپنی تکلیف اور آرام برداشت کرکے شریک ہوتے ہیں۔
 اور جو لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں ، ان میں دو طرح کے لوگ ہیں۔ ایک تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو مخلص ہیں ، اور ان کا اجتہاد ہے اور اخلاص کے ساتھ مخالفت کررہے ہیں ، تو انشاء اللہ اخلاص کی وجہ سے ان کو مخالفت کرنے کے بعد بھی کوئی نقصان اور گناہ نہیں ہوگا ، کیونکہ اس میں ان کا نفس شامل نہیں ہے ۔
 دوسرے کچھ لوگ ایسے ہیں کہ انہوں نے طے کر رکھا ہے کہ کہ ماننا نہیں ہے جیسے 2+2=4ہوتا ہے ، لیکن کوئی کہے کہ میں نہیں مانتا کہ یہ چار ہوتا ہے تو ایسے لوگوں 
کا کوئی علاج نہیں ہے ۔ اور ان کو کوئی نہیں سمجھا سکتا۔

 رہی بات الزامات کا جواب دینے کی تو بہت سے لوگوں نے ان الزامات کے جوابات 
بہت مدلل اور تشفی بخش دیے ہیں ، لیکن چونکہ یہ جوابات ایک منظم اندا ز میں نہیں دیے گئے ہیں اس لیے ایک جگہ موجود نہیں ہیں۔ جوابات لوگوں نے الگ الگ انفرادی طور پر دیے ہیں ، اس لیے اس کا ایک جگہ ملنا مشکل ہوتا ہے ، لیکن تمام اعتراضات کے بہت کافی وشافی جوابات موجود ہیں۔