Pages

مستورات تبلیغی جماعت کی شرعی حیثیت اور کام کی شروعات کی تاریخ

 مستورات کی جماعت محرم کے ساتھ اور سخت ضوابط اور اصولوں کے سا تھ

 مستورات کی جماعت محرم کے ساتھ اور سخت ضوابط اور اصولوں کے سا تھ بھیجنے کو اہل حق علماء  کی ایک جماعت نے جائز اور دین کے لیئے مفید بتایا ہے ۔اہل حق علماء کی ایک دووسر ی جماعت نے اسے ناجائز بتایا ہے ۔
 ((عورتیں ملاقات کے لیئے گھر سے باہر نہیں جاتیں ۔ عورتوں میں کوئی گشت یا ملاقات نہیں ہے۔مرد کا قیام مسجد میں ہوتا ہے جس گھر میں قیام ہوتا ہے اس گھر کے مرد حتیٰ کے نو عمر بچے کو بھی گھر میں رکنے کی اجازت نہیں ہوتی مرد حضرات عورتوں کا نام تک نہیں جانتے جیسے اہلیہ محمود   والدہ محمد وغیرہ کے نام سے مشورہ ہوتا ہے سفر میں ساری عورتیں ایک ساتھ ہوتی ہیں اور سارے مردالگ ۔

فقہی اور اجتہادی مسائل میں علماء کا اختلاف دین کے اندر قبول کیا گیا ہے
اس بارے میں بخاری شریف کی حدیث موجود ہے ۔ دین کے اندر بہت ساری چیزوں میں اس کی مثالیں ہیں ۔مفتی شفیع صاحب ؒ معارف القرآن سورہ آل عمران آیت نمبر 103 کی تفسیر میں لکھتے ہیں"    فقہ  کا اختلاف  علماء کرام کے بیچ   ایک خالص علمی واجتہادی مسئلہ ہے جو امت کے تاریخ کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے  ۔ اگر قرآن پر مجتمع رہتے ہوئے اور حضو راکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح وتفصیل کوقبول کرتے ہوئے اپنی علمی   و اجتہادی استعداد اور دماغی حیثیتوں کی بناء پر فروع میں اختلاف کیا جائے تو یہ اختلاف فطری ہے ۔ اور اسلام اس سے منع نہیں کرتا۔ صحابہ وتابعین اور ائمہ فقہاء کا اختلاف اسی قسم کا تھا،  ہاں اگر انہی فروعی بحثوں کو اصل دین قرار دیا جائے اور ان میں اختلاف کو جنگ وجدال اور سب وشتم کا ذریعہ بنالیا جائے تو یہ بھی مذموم ہے ۔

ایک نئی بات اور سازش
"ادھر ایک حلقے کی طرف سے   مستورات کی جماعت کے بارے میں انٹرنیٹ پر  یہ غلط  بات پھیلانے کی کوشش کی جار ہی ہے کہ اسے سارے علماء حق نے ناجائز قرار دیا ہے اور تبلیغی جماعت کسی کی بات نہیں مان رہی ہے اور اس کے ذریعے تبلیغی جماعت کو گمراہ اور با طل بتایا جا رہا ہے ۔بعض جگہ کھلے الفاظ میں اور بعض جگہ پوشیدہ ۔ اس کے پیچھے کیا وجوہات ہیں اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔لیکن ایک بات صاف ہے کہ جو لوگ بھی ایسا کر رہے ہیں یہ ظلم ہے ۔اور  دانستہ یا نا دانستہ دین کو نقصان پہنچا رہے ہیں ۔یہ میں اس لیئے کہ رہا ہوں کہ اس طرح کی بات ایک حلقے کی جانب سے برابر آرہی ہے ۔

نقصان اسلام  مسلمانوں اور انسانیت  کا
 تبلیغی جماعت  عوام کی سطح پر مسلمانوں کو دین  سے جوڑنے کی محنت ہے۔جو سارے عالم میں  علماء کرام کی سر پرستی میں چل رہی ہے۔اور اللہ ہی اتنے بڑے نظام کو چلا سکتا ہے ۔ورنہ اس مادیت کے دور جب ہر کوئی اپنی دنیا بڑھانے کی فکر میں ہے۔لاکھوں لوگ بغیر کسی پیسہ اور مال کی لالچ میں اپنا  پیسہ   اور وقت خرچ کر کے ،تکلیف برداشت کرکے انسانیت کو اللہ کے دین سے جوڑنے کی فکر میں لوگوں کے دروازہ پر جا رہے ہیں۔ کم علمی نادانی  یا تعصب کی وجہ سے کچھ نادان مسلمان تبلیغی جماعت کے خلاف عام مسلمانوں کو بہکاتے اور وسوسہ ڈالتے ہیں ۔تبلیغی  جماعت میں نہ کوئی  پوسٹ نہ پیسہ ممبرشپ  اور فنڈ نہیں ہے اسلئے اسکے نقصان اور فائدہ کا سوال ہی نہیں ۔ تبلیغی جماعت کی مخالفت   دراصل اسلام ، مسلمانوں اور انسانیت  کا نقصان ہے۔

تبلیغی جماعت غلطیوں سے مبرہ نہیں ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ تبلیغی جماعت غلطیوں سے مبرہ ہے ۔اسکے افراد میں اور اسکے اصولوں میں دونوں میں غلطی کا امکان ہے اور اصلاح کی گنجائش ہے ۔اور علماء حق کی ذمہ داری اور وقت کی ضرورت ہے  کہ اصلاح کی باتوں پر ضرور گرفت کی جائے ۔اور اس سلسلے میں تبلیغ  سے جڑے عوام سے لیکر علماء اکابر اور مرکز نظام  الدین کے ذمہ دار کوئی مستثنیٰ 
نہیں ۔

تبلیغی جماعت  کی  ممکنہ غلطیوں کے اصلاح کا طریقہ

اس کا طریقہ یہ ہے کہ افراد سے اگر کوئی غلطی ہو رہی ہے تو یہ واضح کر دیا  جائے کہ یہ اس فرد کی غلطی ہےتبلیغی جماعت کی نہیں اور اصول اور طریقہ کار میں کوئی اصلاح یا گرفت کی بات ہو تو    مرکز نظام الدین یا مرکز رائونڈ سے براہ

راست رابطہ کیا جائے ۔اس سلسلے میں اگر سفر کرنے کی بھی ضرورت  پیش آئے تو یہ دین کی بڑی خدمت ہوگی ۔کیونکہ

 کروڑوں کی تعداد میں لوگ اس کام سے جڑے ہیں  ۔  اور آپ کو ان سب کی اصلاح اور آگے جڑنے والوں کی اصلاحکا ثواب ملے گا ۔  


پیش نظر مضمون میں مستورات جماعت کے  اصول آداب سے لیکر اور قرآن و حدیث میں اسکی شرعی حیثیت  اور اسے
  علماء کی کے فتٰوےکو پیش کیا گیا


:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::

:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::

حضرت اقدس مفتئ اعظم گجرات مد ظلہ رقم طراز ہیں؛

عورتوں کو تبلیغی جماعت میں بھیجنے کے سلسلے میں علمائے عصر کے دونظریے اور دو رائے ہیں، بعض علماء و اکابر نے تبلیغی اہمیت اور احساس کے باوجود مفاسد کے غالب ہونے کے پہلوکو مد نظر رکھ کر اجازت نہیں دی، اور بعض دوسرے علمائے کرام نے عصرحاضر کے لوگوں میں دین سے غفلت، اسلامی تہذیب و کلچر سے بعد و دوری، علوم اسلامیہ کی تحصیل و ترویج سے سستی و بیزاری وغیرہ دیگر حقائق نیز تبلیغی جماعت کے فوائدِ کثیرہ, من جملہ ان کے لوگوں میں اس کے ذریعہ علوم دینیہ کی تحصیل کا شوق و جذبہ، سنت نبوی علیہ الصلاة و السلام سے والہانہ لگاؤ، شریعت ِ اسلامی و تہذیب محمدی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی ترویج و اشاعت کا شوق و عزم وغیرہ پہلوؤں کے پیشِ نظر رکھ کر چند اہم و ضروری شرائط کے ساتھ اس کی اجازت دی ـ
چنانچہ مفتی لدھیانوی شہید رحمة الله تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں؛
 تبلیغ والوں نے مستورات کے تبلیغ میں جانے کے لئے خاص اُصول و شرائط رکھے ہیں، ان اُصولوں کی پابندی کرتے ہوئے عورتوں کا تبلیغی جماعت میں جانا بہت ہی ضروری ہے، اس سے دِین کی فکر اپنے اندر بھی پیدا ہوگی اور اُمت میں دِین والے اعمال زندہ ہوں گے۔
مفتی رشید احمد صاحب طویل بحث کرکے "بصیرت فقیہ" عنوان قائم کرتے ہوئے رقم طراز ہیں؛
بصیرت فقہیہ:
حضرات فقہاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی عبارات مذکورہ سے ثابت ہوا کہ امور دینیہ کے لئے خواتین کے خروج کی ممانعت قرآن وحدیث میں منصوص نہیں، ٗبلکہ ان  حضرات نے اپنے زمانے کے حالات اور شیوع فتن و فسادات کی وجہ سے اصول شریعت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی آراء وانظار کا اظہار فرمایا ہے ٗ لہٰذا ان حضرات کا  فیصلہ کوئی نص قطعی اور حرف آخر نہیں، ٗ بلکہ تغیر زمانہ سے اس میں ترمیم کی گنجائش ہے۔
دور حاضر میں غلبہ جہل اور  دین سے بے اعتنائی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ خواتین کے لئے ضرورات شرعیہ سے خروج کو مطلقاً ممنوع و حرام قرار دینا اور کسی بھی ضرورت شرعیہ کے لئے خروج کی اجا زت نہ دینا اقامت دین کی بجائے ہدم دین ہے ٗ چنانچہ اسی کے پیش نظر مجموع النوازل میں مسائل شرعیہ معلوم کرنے کی ضرورت سے خروج کی اجازت دی گئی ہےــ
آخر میں حضرت اقدس سیدی مفتی خانپوری مدظلہ فرماتے ہیں کہ بہر حال یہ مسئلہ دیانت سے تعلق رکھتا ہے، اس کی پوری بنیاد ہی دیانت پر ہے، لہٰذا جو حضرات بھیجنے والے ہیں اور جو بھیج رہے ہیں ان کی بہت بڑی اور بہت اہم ذمہ داری ہے کہ وہ سب سے پہلے اس بات کا اطمنان حاصل کرلیں کہ جماعت ِ تبلیغ میں بھیجی جانے والی یہ خواتین کس نوع کی ہیں آج تک کے ان کے طرز عمل اور رویہ سے اس بات کا اطمنان ہو کہ یہ عورتیں اس سلسلے میں جو خاص اصول و شرائط تجویز کیے گئے ہیں ان کی مکمل پابندی کریں گی تو بھیجنے کی اجازت و گنجائش ہے ــ
محمود الفتاوی
- See more at: http://fatawasection.blogspot.in/2014/12/blog-post_16.html#sthash.el6tXN1T.dpuf
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
مستورات كى تبليغي جماعت
مستورات كى تبليغي جماعت
مستورات كى تبليغي جماعت



دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
Question: 38071
http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=38071&limit=4&idxpg=0&qry=%3Cc%3EFAB%3C%2Fc%3E%3Cs%3EIAP%3C%2Fs%3E%3Cl%3Eur%3C%2Fl%3E
مفتی صاحب مولانا رفعت صاحب کی کتاب مسائل سفر میں عورتوں کا تبلیغی جماعت میں جانا جائز کہا ہے اور اس میں حوالہ فتاویٰ محمودیہ کا دیا ہے اور آپ کی سائٹ میں اس کو ناجائز کہا ہے جب کہ مولانا رفعت صاحب کی کتاب میں آپ حضرات کی تائید بھی ہے۔ اب مسئلہ یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ ۱ جگہ تو آپ حضرات جائز کہہ رہے ہیں اور ۱ جگہ ناجائز کہہ رہے ہیں اب کون سا فتویٰ صحیح مانیں؟ معاف کیجئے گا۔ میں آپ حضرات پہ تنقید نہیں کر رہا ہوں بلکہ اپنی اور امّت کی صحیح رہبری کی لئے سوال کر رہا ہوں۔ سوال کا جواب ضرور دیجئے گا۔
فتوی: 702-111/B=5/1433

اجتہادی مسائل میں ہمیشہ سے علماء کے درمیان اختلاف چلا آرہا ہے، یہ کوئی نئی چیز نہیں، جس پر اعتراض کیا جائے، جن علماء کے پیش نظر عورتوں کی دینی تعلیم رہی انھوں نے جماعت میں نکلنے کو جائز فرمایا۔ جن علمائے کے پیش نظر عورتوں کی عفت وعصمت کی حفاظت رہی انھوں نے عورتوں کو نکلنے کی اجازت نہیں دی۔ سیکڑوں مسائل میں اسی طرح کے اختلافات پائے جاتے ہیں۔

واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
مستورات میں کام کی شروعات

حضرت مولاناداود صاحب

بحوالہ مستورات میں تبلیغی کام کے اہم اصول صفحہ نمبر 13 تا 16
 شائع کردہ            ۔۔نور محل پبلیشنگ  ھاؤس   آر 2/138گلی نمبر 7نزد بڑی مسجد  رمیش پارک  لکچمی نگر دہلی 110092
<<<<<<<<<<<<<<<<<<<<<<>>>>>>>
مولوی داود اٹاڑوی کا خط........رائیونڈ حاجی بشیر احمد صاحب کے نام
مکرم بندہ جناب بھائی الحاج محمد بشیر احمدصاحب   السلام علیکم و رحمة اﷲ وبرکاتہ امید ہی کہ مزاجِ گرامی بعافیت ہوں گے ۔ یہاں پر بھی خیریت ہی ہے ۔دو سال سے گھٹنوں میں ورم اور درد ہے۔اور اب دو ہفتے سے ناف کی نیچے رگ میں ایک گلٹی اٹھی ہے جس میں درد رہتا ہے ۔بولنے سی درد میں اضافہ ہوتا ہے۔دعاوں کی ضرورت ہی۔ اچھامستورات کی کام کی ابتداء۶۲،۸۲ءمیں بالکل نہیں ہوئی۔بندہ1940 ۰۴۹۱ءمیں مدرسے سے فارغ ہوا۔1941 ۱۴۹۱ءمیں غالباً میں نظام الدّینؒ میں حضرت مولانا شاہ محمد الیاسؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔بندہ مدرسہ سبحانیہ میں پڑھتا تھا۔حضرت مولانا عبد السبحان صاحبؒ اور آپ کی گھر والی‘ہم انھیں امّاں جی کہا کرتے تھے‘ بہت محبت کرتی تھیں۔امّاں جی دہلی میں مختلف جگہوں میں کتابیں سنایا کرتی تھیں۔بندہ ان کی کارگذاری حضرت مولانا شاہ محمد الیاس صاحبؒ کو سناتا تھا ‘ اور حضرت جیؒ کی ہدایات ان کو بتلایا کرتا تھا۔ایک دن امّاں جی نے کہا کہ حضرت جیؒ سے کہیوکہ حضرت مردوں کی جماعت بھیجتے ہیں تو عورتوں کی جماعت کیوں نہیں بھیجتے۔ میں نے حضرتؒ سے عرض کیا کہ امّاں جی یوں کہتی ہیں کہ حضرت عورتوں کی جماعت کیوں نہیںبھیجتے۔حضرتؒ یہ سُن کر بہت خوش ہوئے اور بے شمار دعائیں دیں پھر مجھ سے کہا کہ تم ان تینوں سے مشورہ لو کہ مستورات کی جماعت بھیجنا چاہتا ہوں‘آپ کی کیا را ئے ہے۔ بندہ حضرت مولانا انعام الحسن صاحب مدظلہ العالی کی پاس گیا کہ حضرت مستورات کی جماعت بھیجنا چاہتے ہیں‘آپ کی کیا رائے ہے۔حضرت جی مدظلہ العالی کی الفاظ تو مجھے یاد نہیں مطلب یہ تھا کہ ابھی تو مردوں کا نکلنا ہی علماءکی سمجھ میں نہیں آرہا ہے عورتوں کا نکلنا کیسے مان لیں گے اس لئے میری رائے نہیں ہے۔یہی قاری داود صاحب مرحوم نے فرمایا ۔پھر حضرت مولانا شاہ محمد یوسفؒ کی خدمت میں گیا ۔آپ مسجد کی برابر اوپر کی مکتب میں رہا کرتے تھے۔جہاں آج کل حافظہ کا مکتب ہے۔جب میں نے رائے لی تو یوں فرمایا کہ میری تو رائے نہیں ہے۔بس جیسی ان تینوں نے رائی دی تھی میں نے ویسی ہی حضرت جیؒ سے عرض کردیا کہ فلاں نے یوں فلاں نے یوں فرمایا۔حضرت شاہ محمد یوسف صاحبؒ کی بات سن کر غصّہ فرمایا اور مجھے فرمایا کہ جو عورتیں جماعت میں جانے کی لئے تیار ہیں تو ان کو دہلی میں جاکر ایک گھر میں جمع کرکے بات شروع کردے اورمیں دیکھتا ہوں ان مسلمانوں کو کہ ان کی رائے کیوں نہیں ہے۔پہاڑگنج ملتانی ڈھانڈا میں ایک گھر میں جمع کرکی بات شروع کردی۔ظہرکی نماز کی بعد حضرتؒ مولوی نور محمد باجھوٹ کو لے کر پہاڑگنج پہنچ گئے اور مولوی نور محمد مرحوم نے بیان شروع کیا ۔دورانِ بیان مولوی صاحب نے فرمایا کہ دین سیکھنی کے لئے عورتوں کا بھی نکلنا ضروری ہے مگر عورتیں بغیر محرم نہیں جاسکتیں۔ بیان کی ختم کے بعد حضرت جیؒ نے مولوی نور محمد صاحب کو ڈانٹا کہ تجھے مفتی کس نے بنایا تھاجو تم نے بغیر محرم نکلنے کو منع کر دیا ۔یعنی پہلی جماعت ہے ابھی سے مسائل پر زور مت دو۔خالی نکلنی کی ترغیب دو ۔یہاں تو یہ ہوا اور جب بڑی حضرت جیؒنی مجھے دہلی بھیج دیا تو لکڑی یعنی اپنی بینت لی کر حضرت مولانا یوسف صاحبؒ کے پاس گئے اور فرمایا کہ تو ہی مسلمان ہے میں مسلمان نہیں ہوں؟تو نے کیسے کہا کہ عورتوںکو تبلیغ میں نہیں جانا چاہئے۔یہ عورتیں کہاں نہیں جاتیں۔یہ شادیوں میں جاتی ہیں،دہلی کی عورتیں مہرولی جاتی ہیں،سیر کرنے کو اوکھلا جاتی ہیں،پھر تم نے کیسی کہا کہ میری رائے نہیں ہے ۔جب حضرت جیؒ محمدیوسفؒ سی خفا ہوکر آئے تو مولانا محمد یوسفؒ میرے اوپر خفا ہوئے کہ داود نے ابّا جی کو کیا کہہ دیا ۔مغرب کے بعد حضرت مولانا محمدیوسفؒ نے دو لڑکے حوض پر بٹھا دئے کہ جب داود دہلی سی آئے تو میرے پاس پکڑ کر لاو۔ہم دہلی سے عشاءپڑھ کر آئے۔گرمیوں کے دن تھے۔یہ لڑ کے مجھے حضرت مولانا محمد یوسف صاحبؒ کی پاس لے گئے۔حضرت نے فرمایا کہ ابّا جی میرے اوپر کبھی اتنا خفا نہیں ہوئے اور آج صرف اتنی کسر رہی کہ لکڑی سے مارا نہیں ورنہ زبان سی بہت کچھ کہا۔تو تقریباً آدھا اشکال تو مولانا یوسفؒ کا حضرت کی خفگی سی نکل گیا اور میوات کو بار بارجماعتیں جانی لگیں تو حضرت مفتی کفایت اﷲ صاحب مفتی اعظم ہند کو عورتوں کا نکلنا معلوم ہوا تو بہت خفا ہوئے کہ یہ مولانا محمد الیاس صاحب ؒنے کیا کِیا اور دوسرے حضرات کو جو خطرہ تھا وہ سامنے آگیا۔تو مفتی صاحب کے خفا ہونے کاکسی نے بڑے حضرتؒ کوآکر کہا تو بڑے حضرتؒ تانگہ لے کر مدرسہ امینیہ تشریف لے گئے اور حضرت مفتی اعظم کی سامنے عورتوں کے نکلنے کے فائدے بتلائے۔ساتھ ساتھ عورتوں کی نکلنے کا اہتمام پیش کیا کہ جب مستورات کی جماعت نکالی جاتی ہے تو ہر عورت کو محرم کی ساتھ نکالا جاتا ہے۔اوّل تو خاوند ہو یا بیٹا یا باپ ہو یا بھائی ہو‘اگر کوئی عورت بغیر محرم آگئی اور کہا کہ میرا محرم کل پرسوں آئے گا تو اس عورت کو واپس کر دیا جاتا ہے اورجہاں جماعت جارہی ہے ان کو پہلے مطلع کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ مکان طے کرکے خا لی کروالیں۔جس مکان میں عورتیں ٹھہرتی ہیں وہ اسی مکان میں رہتی ہیں۔گاوں والی جماعت کی پاس آتی ہیں۔گشت عورتوں کے محرم اور مقامی مرد مل کر کرتے ہیں۔یہ مرد،مردوں سی بات کرتے ہیں کہ اپنی مستورات کو فلاں صاحب کے گھر میں جماعت کی پاس بھیجو۔یہ جماعت کی عورتیں کہیں نہیں جاتیں۔پردے کا پورا اہتمام کیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ توحضرت مفتی صاحب ؒ کو پورا اطمینان ہوگیاکہ اگر اتنااہتمام کرتے ہیں تو کوئی حرج نہیں۔پھر جو جماعت مستورات کی کام کرکے آتی تو حضرت مولانا یوسف صاحبؒ کو کارگذاری دیتی۔ان تمام باتوں سے حضرت مولانا یوسف صاحبؒ کا اشکال آہستہ آہستہ ختم ہو گیا ۔سب سی پہلی جماعت گھاسیڑہ اور نوح کی قریب آس پاس میں آٹھ یوم لگا کر آئی۔ بندہ جماعت کے ساتھ تھا۔جب جماعت آٹھ یوم میں واپس ہوئی تو بڑی حضرت خفا ہوئے کہ اتنی جلدی کیوں آگئے۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت عورتیں زیادہ کپڑے لی کر نہیں گئی تھیں تو فرمایا کہ تونوح سی نئے کپڑے بنوا کر دیتا پیسے مجھ سی آکر لے لیتا۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت مشورے والوں نے فرما یا تھاکہ یہ پہلی جماعت ہے ان کے جذبات کا خیال رکھنا اس لئے جلدی آگئے۔مشورہ کی بات سن کر حضرت بہت خوش ہوئے اور بہت دعائیں دیں۔جب یہ جماعت مشورہ سے گھاسیڑہ وغیرہ طے ہوئی تو حضرت نے چودھریوں کی نام خط لکھا کہ میں تمھارے یہاں دہلی کی پردہ نشین مستورات بھیج رہا ہوں تم ان کی خوب نصرت کرنا وغیرہ وغیرہ۔گھاسیڑہ والوں کو جماعت کا انتظار تھا ۔ سڑک پر استقبال کی لئے آگئے۔ جب جماعت پہنچی تو گاوں والوں نے استقبال میں بندوقیں چلائیں اور پرُ زور استقبال کیا کہ مستورات کی پہلی جماعت ہمارے گاوں میں آئی ہے اور ہر گاوں میں ایسا ہی استقبال ہوا۔پھر تھوڑے تھوڑے وقفے سے کئی جماعتیں نکلیں۔بعدہ میوات سے مستورات کی جماعت کے مطالبے آنے لگی۔مستورات کا کام غالباً 1942 ءمیں شروع ہوا ہے۔اس سے پہلے نہیں۔اس لئے کہ بندہ ء1941میں مرکز آیا تھا۔مرکز میں آنے کی بعد مستورات کا کام شروع ہوا ہے۔اگر حضرتؒ کے انتقال سے دس سال پہلے شروع ہوتا تو ہندوستان کے کئی شہروں میں مستورات کی بے شمار جماعتیں پہنچ جاتیں۔حضرتؒ کی حیات میں میوات کی علاوہ کہیں یہ جماعتیں نہیں گئیں۔      واﷲاعلم۔والسلام بندہ : مولوی داود ۰۱۔۳۔۳۱