تبلیغی جماعت، مدارس
اوراہل تصوف
مضبوط ربط ، احترام ورفاقت اور آپسی تعاون کی ضرورت
انکے بیچ کوئی غلط فہمی امت مسلمہ کا بڑا نقصان ہے
https://archive.org/details/MadarisTablighKhanqahtaawunZaruratMukhalfatڈونلوڈ کے لئےاردو کتاب
https://archive.org/details/MadarisTablighKhanqahtaawunZaruratMukhalfat
ڈونلوڈ کے لئےا
مولانا ابراہیم مرکز نظام الدین نصیحت اردو
ایک گزارش اور درد مند اپیل
آجکل انٹرنیٹ پر کچھ حلقوں کی طرف سے یہ پھیلایا جا رہا ہے کی تبلیغی جماعت کے
افراد مدارس کے خلاف ہیں ۔یا علما اور اہل علم و ذکر کی بے اکرامی کررہے ہیں۔راقم
لگ بھگ 20 سال سے دعوت و تبلیغ کے کام سے جڑا ہے۔اور پورےہندوستان میں جاتا رہا
ہے۔اور خوانہ بدوش (کم پڑھے لکھے ) سے لیکر بڑے بڑے تعلیم یافتہ جماعت کے ساتھیوں کے ساتھ چلا ہوں
۔مجھے تو ایسے لوگ نہیں ملے۔اسکے بعد بھی میں انکار نہیں کر رہا ہوں کے ایسے لوگ
بالکل نہیں ہیں۔ لیکن ایک بات صا ف ہے کی تبلیغی جماعت کا سواد اعظم ایسا نہیں ہے۔
اسلئے جو لوگ اپنے ذاتی تجربہ کے بنیاد پر یہ بات پھیلا رہے ہیں کہ تبلیغی
جماعت کے افراد مدارس کے خلاف ہیں ۔یا علما اور اہل علم و ذکر کی بے اکرامی کررہے
ہیں ان سے درخواست ہے کے وہ اس کی وضاحت کر دیں کہ تبلیغ کی اکثریت ایسی نہیں
ہے۔اور یہ تبلیغی جماعت کے بالکل بنیاد کے خلاف ہے۔اور انہیں چاہیئے کہ وہ اپنی شکایت نظام الدین مرکز یا
رایونڈ مرکز لکھ دے ۔یہ دین کی بڑی
خدمت ہوگی ۔اور اگر کوئی کسی اور وجہ
سے یا کسی فرد سے ذاتی رنجش کی وجہ
سے تبلیغی جماعت کے کام کو بدنام کرے گا
تو یہ آخرت کے اعتبار سے بڑا خطرہ ہے۔
نقصان اسلام مسلمانوں اور انسانیت کا
تبلیغی جماعت عوام کی سطح پر مسلمانوں کو دین سے جوڑنے کی محنت ہے۔جو سارے عالم میں علماء کرام کی سر پرستی میں چل رہی ہے۔اور اللہ
ہی اتنے بڑے نظام کو چلا سکتا ہے ۔ورنہ اس مادیت کے دور جب ہر کوئی اپنی دنیا بڑھانے
کی فکر میں ہے۔لاکھوں لوگ بغیر کسی پیسہ اور مال کی لالچ میں اپنا پیسہ اور
وقت خرچ کر کے ،تکلیف برداشت کرکے انسانیت کو اللہ کے دین سے جوڑنے کی فکر میں لوگوں
کے دروازہ پر جا رہے ہیں۔ کم علمی نادانی یا
تعصب کی وجہ سے کچھ نادان مسلمان تبلیغی جماعت کے خلاف عام مسلمانوں کو بہکاتے اور
وسوسہ ڈالتے ہیں ۔تبلیغی جماعت میں نہ کوئی پوسٹ نہ پیسہ ممبرشپ اور فنڈ نہیں ہے اسلئے اسکے نقصان اور فائدہ کا
سوال ہی نہیں ۔ تبلیغی جماعت کی مخالفت دراصل
اسلام ، مسلمانوں اور انسانیت کا نقصان ہے۔
تبلیغی جماعت غلطیوں سے مبرہ نہیں ہے
۔
اس
کا یہ مطلب نہیں کہ تبلیغی جماعت غلطیوں سے مبرہ ہے ۔اسکے افراد میں اور اسکے اصولوں میں دونوں میں غلطی
کا امکان ہے اور اصلاح کی گنجائش ہے ۔اور علماء حق کی ذمہ داری اور وقت کی ضرورت ہے کہ اصلاح کی باتوں پر ضرور گرفت کی جائے ۔ اور اس سلسلے میں تبلیغ سے جڑے عوام سے لیکر علماء اکابر اور مرکز نظام الدین کے ذمہ دار کوئی مستثنیٰ نہیں ۔
تبلیغی جماعت کی ممکنہ غلطیوں کے اصلاح کا طریقہ
اس کا طریقہ یہ ہے کہ افراد سے اگر کوئی
غلطی ہو رہی ہے تو یہ واضح کر دیا جائے کہ
یہ اس فرد کی غلطی ہےتبلیغی جماعت کی نہیں اور اصول اور طریقہ کار میں کوئی اصلاح یا
گرفت کی بات ہو تو مرکز نظام الدین یا مرکز
رائونڈ سے براہ راست رابطہ کیا جائے ۔ اس سلسلے
میں اگر سفر کرنے کی بھی ضرورت پیش آئے تو
یہ دین کی بڑی خدمت ہوگی ۔ کیونکہ کروڑوں کی
تعداد میں لوگ اس کام سے جڑے ہیں ۔ اور آپ کو ان سب کی اصلاح اور آگے جڑنے والوں کی
اصلاح کا ثواب ملے گا ۔
تبلیغ سے جڑے لوگوں سے خاص
درخواست
اسی کے ساتھ تمام تبلیغ سے جڑے لوگوں سے درخواست ہے کہ اگر کسی سے یہ غلطی
ہوئی ہے تو اللہ سے اور اس بندہ سے معافی مانگے۔اور اگر آپ کوئی تحریر ایسی دیکھں تو
اسکی طح میں جائیں ۔اور اگر بات صحیح ہے تو اپنے ساتھی کی اصلاح کریں ۔اور
فرد کی مراتب کے اعتبار سے اپنے بڑوں تک پہنچائیں۔تاکہ سب کی اصلاح ہو جائے۔
اور اگر غلط ہو تو یہ بات الزام لگانے والے پر پہچائیں کہ یہ بات غلط تھی ،اور صبر کریں۔میں نے اس طرح
کی ایک واقعہ کی تحقیق کی تو معلوم ہوا
کی دوشخص کی آپسی رنجش اصل وجہ تھی۔اور وہ ساتھی کسی ترتیب
سے نہیں جڑا تھا اور جماعت میں یا مقامی
کام میں کوئی پابند نہیں تھا۔بہر حال اگر
کسی سے یہ غلطی ہوئی ہے تو اللہ سے اور اس بندہ سے معافی مانگے ۔
رح یہ مضمون اس طرح کی بات اور تبلیغ اور مدارس سے جڑے تمام پہلوئوں پر ہمارے
مضامین کا حصہ ہے۔اس سلسلے کا کوئی مضمون بھی بھیج سکتے ہیں۔ دعا کی خصوصی درخواست
ہے۔
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
مسلمان نبی پاک کے بتائے دعوت و تبلیغ کے طریقے پر عمل کئے بغیر ذلیل و رسوا ہوتے
رہیں گے': مولانا طارق جمیل
رائے ونڈ :رائیونڈ میں
منعقدہ سالانہ تبلیغی اجتماع کے دوسرے مرحلے میںپہلے روز نماز جمعہ سے قبل امیر
جماعت رائے ونڈ حاجی عبدالوہاب نے ہدایات پر مبنی بیان کیا ،نماز جمعہ مولا نا
محمد ابراہیم نے پڑھائی جس کے بعد
ممتاز عالم دین مولانا طارق جمیل
نے تبلیغی جماعت کی تاریخ اور مشن کے بارے تفصیلی خطاب کیا ،
انہوں نے کہا کہ جب تک
مسلمان عالم اسلام دعوت و تبلیغ کے کام کو اسی طریقے سے شروع نہیں کریں گے جو حضور
اکرم نے بتایا ہے وہ اسی طرح ذلیل و رسوا ہوتے رہیں گے ،کفار ان پر غالب آجائیں گے
،دین سے دور ہونے والے مسلمانوں کے ضمیر کی آواز انہیں سنائی نہیں دے گی ،بزدلی
چھا جائے گی ہر غیر سے ڈریں گے اور انہیں ہی سب کچھ مانیں گے ،مسلمانوں کی حالت
بداعمالیوں کا نتیجہ ہے ،بم دھماکے اور خود کش حملے کرنے والے اسلام کے خیر خواہ
نہیں،یہ کفر کا ہتھیار بننے والے نامکمل مسلمان ہیں جن کی برین واشنگ کی گئی ہے ،لیکن
ان پر غلبہ پانے کیلئے صحیح مسلمان بننا ضروری ہے ۔انہوں نے کہا کہ غیر مسلموں کو
مسلمان بنانے سے زیادہ اہم کام مسلمانوں کو مسلمان بنانا ، نام کے مسلمانوں کو کام
کے مسلمان، اور قومی مسلمانوں کو دینی مسلمان بنانا ہے۔ حق ہے کہ آج مسلمانوں کو
حالت دیکھ کر قرآن پاک کی یہ ندا(اے مسلمانوں ! مسلمان بنو!!) کو پورے زورو شور سے
بلند کیا جائے۔ اللہ رب العزت نے انسانوں کی ہدایت کا انتظام ہر زمانے میں جاری
رکھا ہے اور اپنی حکمت اور اپنے علم کے ما تحت کبھی قوم در قوم کبھی قبیلہ در قبیلہ
اس کا سلسلہ جاری رکھا۔ ہدایت کی محنت کرنے والوں کو انبیا اور رُسل کے نام سے
موسوم فرمایا۔ اور جس قوم کیلئے جن اصولوں کو اللہ تعالیٰ نے مناسب سمجھا وہی اصول
محنت کرنے والوں کو بذریعہ وحی یا الہام عطا فرماتے رہے۔ یہ سلسلہ اسی طرح حضور
اکرم ا تک جاری رہا۔ اور آپ کی بعثت پر سابقہ ترتیب کو ختم فرما کر پورے انسانوں
اور قیامت تک کیلئے آقائے نامدار سرور کائنات حضرت محمدصلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت
کا ہادی اور امام قرار دے دیا گیا۔ اس رہبر کامل کوحق تعالیٰ شانہ کی جانب سے کارِ
نبوت کے تین فرائض عطا کئے گئے۔ اوّل تلاوت احکام، دوم تعلیم کتاب و حکمت ، سوم
تزکیہ، رسول اکرم لوگوں کو پیغام الٰہی پڑھ کر سناتے، حکمت الٰہی کی باتیں سکھاتے،
پھر اپنی صحبت فیض اثر سے پاک صاف کرتے، نفوس کا تزکیہ فرماتے، قلوب کے امراض کا
علاج کرتے، برائیوں کا زنگ اور میل دور کر کے اعلیٰ اخلاق انسانی کو سنوارتے۔ آپ
دوران تبلیغ تالیفِ قلب کا بڑا خیال رکھتے۔ لطف و محبت ، عفوودرگزر اور ہمدردی سے
آپ انے بہت سے لوگوں کو حلقہ بگوش اسلام بنایا۔ حضور اکے طریقہ تبلیغ میں صبرواستقامت
کا عنصر بڑا نمایاں تھا۔ دائمی حق و صداقت کی مخالفت اور سختی جس قدر بڑھتی اسی
قدر تبلیغ کی شدت زیادہ ہو جاتی۔ باطل کی قوتیں حق کو دبانے کیلئے چاروں طرف سے
پورش کر کے آجاتیں تو دائمی انقلاب ایک مضبو چٹان کی طرح جم کر کھڑے ہو جاتے اس
ہادی برحق نے خفیہ طور پر بھی پیغام حق دوسروں تک پہنچایا اور پھر اعلانیہ تبلیغ
کے مراحل بھی طے کئے غیر ممالک میں تبلیغ کا فریضہ خطوط لکھوا کر پورا کیا غرضیکہ
ظاہرو باطنی فرائض یکساں اہمیت سے ادا ہوتے رہے۔ چنانچہ صحابہ اکرام ؓ اور ان کے
تابعین اور اولیاءاکرام تک یہ فرائض اسی طرح انجام پاتے رہے۔ اور پھر وہ دور شروع
ہوا جس مین مسندِ ظاہر کے درس گو باطن کے کورے اور باطن کے روشن دل ظاہر سے عاری
ہونے لگے۔ اور عہد بہ عہد ظاہرو باطن کی خلیج بڑھتی ہی چلی گئی۔ علوم ظاہرہ کیلئے
مدارس کی چاردیواری اور تعلیم و تزکیہ باطن کیلئے خانقاہوں اور رباطوں کی تعمیر
عمل میں آئی اور وہ مسجد نبوی جس مین یہ دونوں جلوے یکجا تھے اس کی تجلیات ،
مدرسوں اور خانقاہوں کے دو حصوں میں تقسیم ہو گئیں۔ جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ مدارس سے
علماءدین کی بجائے علمائے دنیا برآمد ہونے لگے اور باطن کے مدعی علم شریعت کے
اسرار و کمالات سے غافل ہو کر رہ گئے۔ اس دور زبوں میں بھی عالم اسلام میں ایسی
ہستیاں پیدا ہوتی رہیں جو آرائش ظاہر اور جمالِ باطن سے آراستہ و پیراستہ تھیں ان
برگزیدہ ہستیوں میں حضرت امام غزالی ؒ، شیخ عبد القادر جیلانی ؒ، حضرت امام بخاری
ؒ ، اور حضرت سفیان ثوری نمایاں ہیں۔ تبلیغی جماعت کے بانی حضرت مولانا محمد الیاس
ؒ بھی اسی سلسلہ ولی الٰہی کی ایک کڑی ہیں جس مبارک دینی ماحول میں مولانا محمد الیاس
ؒ کی عمر کا ابتدائی حصہ گزرا تھا اس کی مخصوص دینی و روحانی فضا کی وجہ سے بمشکل
اس بات کا احساس ہو سکتا تھا کہ مسلمانوں میں سے ایمان و یقین کی دولت سرعت کے
ساتھ نکلتی جارہی ہے۔ دین کی طلب اور قدر سے دل تیزی کے ساتھ خالی ہوتے جارہے ہیں۔
اس ماحول میں چونکہ صرف خواص اہل دین اور اہل طلب سے واسطہ پڑتا تھا اور احساس نہ
ہونابے موقع نہ تھا۔ وہاں رہ کر ہی تصور کیا جاسکتا تھا کہ مسلمانوں کی زندگی دعوت
و تبلیغ اور دین کی ابتدائی جدوجہد کی منزل سے آگے بڑھ چکی ہے اور اب صرف مدنی
زندگی کے تکمیلی مشاغل کی ضرورت ہے۔ اس لئے وہاں رہ کر مدارس دینیہ کے قیام و
اہتمام ، کتاب و سنت کی اشاعت ، درس حدیث، دینی تصانیف و تالیف، قضاﺅ
افتائ، ردِّ بدعات، اہل باطل سے مناظرہ واحقاقِ حق اور سلوک و تربیت باطنی کے
علاوہ کسی اور طرف ذہن کا منتقل ہونا بہت مشکل تھا وہاں کام کی نوعیت یہ تھی گویا
زمین ہموار دیتا رہے صرف اس پر پودے اور درخت بٹھانا باقی ہے۔ اس ماحول کا طبعی
تقاضا تو یہ تھا کہ آپ بھی انہیں میں سے کسی شعبے کی طرف متوجہ ہوتے اور اپنی خداد
استعداد صلاحیت سے اس میں کمال پیدا کرتے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں آپ کی
خاص رہنمائی فرمائی اور آپ کی بصیرت پر یہ حقیقت منکشف کر دی کہ جس سرمایا کے
اعتماد پر یہ سارا جمع خرچ ہے وہ سرمایا ہی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلا جارہا ہے جس
زمین پر دین کے یہ درخت نصب کرنا ہیں وہ زمین ریت کی طرح پاﺅں
کے نیچے سے کھسکتی جارہی ہے۔ امّہات عقائد میں ضعف پیدا ہو گیا ہے اور بڑھتا جارہا
ہے خدا کی خدائی اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کا یقین کمزور ہوتا جارہا
ہے اور اجر و ثواب کا شوق (ایمان و احتساب) دل سے اٹھتا جارہا ہے۔ یہ انکشاف اس
وضاحت اور قوت کے ساتھ ہو اکہ اس سے مولانا کی زندگی کا رخ بالکل ہی تبدیل ہو گیا۔
طبائع رحجانات کے سیلاب کے رخ کو خداد بصیرت و فراست سے پہچان کر آپ نے اچھی طرح
محسوس کر لیا کہ نئے دینی اداروں کا قیام تو الگ رہا پرانے اداروں اور دینی مرکزوں
کی حالت بھی خطرے سے باہر نہیں۔ اس لئے کہ وہ رگیں اور شریانیں جس سے ان میں خون
زندگی آتا تھا مسلمانوں کے جسم میں برابر خشک ہوتی جارہی ہیں ان کی طلب اور ضرورت
کا احساس ہوا کہ اس وقت کا احساس ، ان کی قدر کم ہو رہی ہے مولانا کو اس بات کا
پوری شدت سے احساس ہوا کہ ا س وقت سب سے مقدم اور ضروری کام قلب کی تبلیغ اور
مسلمانوں میں اپنے مسلمان ہونے کااحساس پیدا کرنا ہے اور یہ کہ دین سیکھے بغیر نہیں
آتا اور دنیاوی ہنروں کے بجائے اسے سیکھنے کی ضرورت زیادہ ہے یہ احساس اور طلب پیدا
ہو گئی تو باقی مراحل خود طے ہو جائیں گے۔ اس وقت مسلمانوں کا عمومی مرض بے حسی
اور بے طلبی ہے لوگوں نے غلط فہمی سے سمجھ لیا ہے کہ ایمان تو موجود ہی ہے اس لئے
ایمان کے بعد جن چیزوں کا درجہ ہے ان میں مشغول ہو گئے۔ حالانکہ سرے سے ہی ایمان پیدا
کرنے کی ضرورت باقی ہے اس احساس و طلب اور اسلام کے اصول اپنانے کی تلقین کے طریقہ
کار کے متعلق مولانا کا نظریہ یہ تھا کہ اسلام کا کلمہ طیبہ ہی اللہ کی رسی کا وہ
سرا ہے جوہر مسلمان کے ہاتھ میں ہے۔ اسی سرے کو پکڑ کو آپ پورے دین کی طرف کھینچ
سکتے ہیں۔ اس لئے مسلمان جب تک کلمہ کا اقرار کرتا ہے اسے دین کی طرف لے آنے کا
موقع باقی ہے اس موقع کے ہاتھ سے نکل جانے سے پہلے اس کا فائدہ اٹھا لینا چاہیے۔
اس لئے کلمہ کے ذریعے ہی ان میں تقریب پیدا کی جائے کلمہ یاد نہ ہو تو یاد کرایا
جائے غلط ہوتو اس کی تصحیح کی جائے کلمہ کے معنی و مفہوم بتائے جائیں اور سمجھایا
جائے کہ خدا کی بندگی اور غلامی اور رسول کی تابعداری کا اقرار ان سے کیا مطالبہ
کرتا ہے۔ اسی طرح ان کو اللہ اور رسول کے احکامات کی پابندی پر لایا جائے۔ نیز یہ
بات ذہن نشین کرائی جائے کہ مسلمانوں کی طرح زندگی گزارنے کیلئے اللہ کی مرضی و
منشاءاوراس کے احکام و فرائض معلوم ہونے کی ضرورت ہے دنیا کا کوئی ہنر سیکھے اور
کچھ وقت ضائع کئے بغیر نہیں آتا۔ دین بھی بے طلب نہیں آتا اس کے لئے اپنے مشاغل سے
وقت نکالنا ضروری ہے۔ ان نظریات کو مد نظر رکھتے ہوئے مولانا الیاس ؒ نے بستی نظام
الدین سے تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا اس زمانے میں یہ بستی غیر آباد تھی۔ ایک چھوٹی
سے کچی مسجد اور حجرے کے سوا یہاں کچھ نہ تھا۔ درگاہ حضرت نظام الدین کے جنوب میں
مختصر سی آبادی تھی۔ مسجد میں چند میواتی غریب طالبعلم ہر وقت موجود رہتے تھے یہ
زمانہ نہایت تنگدستی اور فقروفاقہ کا تھا۔ عرصہ تک یہ مجاہدہ جفاکشی اور ریاضیت
جاری رہی۔ وہ مروجہ تمام ذرائع ابلاغ کو جائز تو سمجھتے تھے مگر انبیاءوالے کام کیلئے
اسی سادہ فہم سینہ بہ سینہ، انسان بہ انسان ، زندگی بہ زندگی والے طریق دعوت کو
اصل اور افضل سمجھتے تھے۔ لہٰذا مسلمانوں کو اطاعت حق ، حفاظت حق اور اشاعت حق کو
ہی اپنا مقصد حیات بنانا چاہیے اور اپنی جان اپنا مال اپنا وقت اور اپنا خون پسینہ
اور آنسو بہا کر گمراہ لوگوں کیلئے نفرت اور دشمنی کی بجائے خیر خواہی اور دل سوزی
کے ساتھ یہ فریضہ انجام دینا چاہیے تاکہ دین کی قدر و قیمت دل میں آ جائے کیونکہ
جو چیز مقصد حیات بن جائے اس پر سب کچھ قربان ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کو کسی پر قربان
نہیں کیا جاسکتا۔
Taken with Jazakallah https://groups.google.com/forum/#!topic/dineislam/0IsfPsaxwOY
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
مولانا مجیب الرحمن انقلابی
بانی تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاسؒ نے جب اپنے گردوپیش کا جائز ہ لیا تو ہر طرف دین سے دوری عقائد کی خرابی اور اعمال و عقائد کا بگاڑ دیکھا کہ لوگ شرک و بدعت، جہالت اور ضلالت و گمراہی کے ”بحرظلمات“ میں ڈوبے ہوئے ہیں تو ان کے دل پر چوٹ لگی اور وہ امت محمدیہ ﷺ کی اصلاح کے سلسلہ میں متفکر و پریشان دیکھائی دینے لگے، آپؒ نے محسوس کیا کہ عام دینداری جو پہلے موجود تھی اب ختم ہوتی اور سمٹتی چلی جا رہی ہے، پہلے یہ دین داری خواص تک اور مسلمانوں کی ایک خاص تعداد میں رہ گئی تھی پھر اس کا دائرہ اس سے بھی تنگ ہوا اور ”اخص الخواص“ میں یہ دینداری باقی رہ گئی ہے پہلے جو خاندان اور قصبات و علاقے اور شہر ”رشد و ہدایت“ کے مراکز سمجھے جاتے تھے ان میں بھی اس قدر تیزی کے ساتھ انحطاط و زوال ہوا کہ اب ان کی ”مرکزیت“ ختم ہوتی جارہی ہے جہاں پہلے علم و عمل کی قندیلیں روشن رہتی تھیں اب وہ بے نور ہیں، دوسری بات انہوں نے یہ محسوس کی کہ علم چونکہ ایک خاص طبقہ تک محدود رہ گیا ہے اس لیے آپؒ یہ چاہتے تھے کہ عوام الناس میںپھر سے دینداری پیدا ہو، خواص کی طرح عوام میں بھی دین کی تڑپ اور طلب پیدا ہو، ان میں دین سیکھنے سکھانے کا شوق و جذبہ انگڑائیاں لے، اس کے لیے وہ ضروری سمجھتے تھے کہ ہر ایک دین سیکھے، کھانے، پینے اور دیگر ضروریات زندگی کی طرح دین سیکھنے او اس پر عمل کرنے کو بھی اپنی زندگی میں شامل کریں اور یہ سب کچھ صرف مدارس و مکاتب اور خانقاہی نظام سے نہیں ہوگا کیونکہ ان سے وہی فیضیاب ہو سکتے ہیں جن میں پہلے سے دین کی طلب ہواور وہ اس کا طالب بن کر خود مدارس و مکاتب اور خانقاہوں میں آئیں، مگر ظاہر ہے کہ یہ بہت ہی محدود لوگ ہوتے ہیں اس لیے مولانا الیاس کاندھلویؒ ضروری سمجھتے تھے کہ اس ”دعوت و تبلیغ“ کے ذریعہ ایک ایک دروزاہ پر جا کر اخلاص و للہیت کے ساتھ منت و سماجت اور خوشامد کر کے ان میں دین کے ”احیائ‘ کی طلب پیدا کی جائے کہ وہ اپنے گھروں اور ماحول سے نکل کر تھوڑا سا وقت علمی و دینی ماحول میں گزاریں تاکہ ان کے دل میں بھی سچی لگن اور دین سیکھنے کی تڑپ پیدا ہوا اور یہ کام اسی دعوت والے طریقہ سے ہوگا جو طریقہ اور راستہ انبیاءکرام علیہم السلام کاتھا اور جس پر چلتے ہوئے صحابہ کرامؓ جیسی مقدس اور فرشتہ صفت جماعت پوری دنیا پر اسلام کو غالب کرنے میں کامیاب ہوئی اور پھر جب اس دعوت و تبلیغ سے عام فیضاءدینی بنے گی تو لوگوں میںدین کی رغبت اور اس کی طلب پیدا ہوگی تو مدارس و خانقاہی نظام اس سے کہیں زیادہ ہوگا بلکہ ہر شخص مجسمِ دعوت اور مدرسہ و خانقاہ بن جائے گا۔۔۔
حضرت مولانا محمد الیاسؒ کی دین کے لیے تڑپ و بے چینی اور درد وبے قراری دیکھنے میں نہیں آتی تھی ، مسلمانوں کی دین سے دوری پر آپؒ انتہائی غمگین و پریشان اوراس فکر میں ڈوبے رہتے تھے کہ مسلمانوں کے اندر کسی طرح دین دوبارہ زندہ ہو جائے۔۔۔ بعض اوقات اسی فکر میں آپؒ ”ماہی بے آب“ کی طرح تڑپتے آہیں بھرتے اور فرماتے تھے میرے اللہ میں کیا کروں کچھ ہوتا ہی نہیں۔۔۔ کبھی دین کے اس درد وفکر میں بستر پر کروٹیں بدلتے اور جب بے چینی بڑھتی تو راتوں کو فکر سے اٹھ کر ٹہلنے لگتے۔۔۔ ایک رات اہلیہ محترمہؒ نے آپ ؒ سے پوچھا کہ کیا بات ہے نیند نہیں آتی؟۔۔۔ کئی راتوں سے میں آپؒ کی یہی حالت دیکھ رہی ہوں۔۔۔، جواب میں آپؒ نے فرمایا کہ! کیا بتلاو¿ں اگر تم کو وہ بات معلوم ہو جائے تو جاگنے والا ایک نہ رہے دو ہو جائیں۔۔۔ صرف آپؒ کی اہلیہ محترمہؒ ہی نہیں بلکہ آپؒ کے سوز و درد کا اندازہ ہر وہ شخص آسانی کے ساتھ لگا سکتا تھا جو آپؒ کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا اور باتیں سنتا تھا، آپؒ کا بس نہیں چلتا تھا کہ سب لوگوں کے دلوں میں وہی آگ پھونک دیں جس میںوہ عرصہ سے جل رہے تھے۔۔۔ سب اس غم میں تڑپنے لگیں جس میں وہ خود تڑپ رہے تھے، سب میں وہی سوز و گداز پیدا ہو جائے جس کی لطیف لمس سے آپؒ کی روح جھوم اٹھتی تھی جب ایک جاننے والے نے خط کے ذریعہ آپ سے خیریت دریافت کی تو آپؒ نے سوز ودرد میں ڈوبے ہوئے قلم کے ساتھ جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا کہ ”طبیعت میں سوائے تبلیغی درد کے اور خیریت ہے“۔
اور پھر مولانا محمد الیاسؒ خود سراپا دعوت بن کر ”دعوت و تبلیغ “ والے کام کو لے کر بڑی دلسوزی کے ساتھ دیوانہ وار ”میوات“ کے ہر علاقہ میں پھرے ہر ایک کے دامن کو تھاما، ایک ایک گھر کے دروازہ پر دستک دی کئی کئی وقت فاقے کیے، گرمی و سردی سے بے پرواہ ہو کر تبلیغی گشت کیے۔۔۔ اور جب لوگوں نے آپؒ کی حسب خواہش آپؒ کی آواز پر ”لبیک“ نہ کہا تو آپؒ بے چین و بے قرار ہو کر راتوں کو خدا کے حضور روتے گڑگڑاتے اور پوری امت کی اصلاح کے لیے دعا کرتے۔۔۔ اور پھر اپنی اہمت و طاقت ، مال ودولت سب کچھ ان میواتیوں پر اور ان کے ذریعہ اس تبلیغی کام پر لگا دیا۔۔۔ اس دوران اپنے رفقاءاور ساتھیوں کو ایک خط میں آپؒ تحریر فرماتے ہیں کہ! تم غور کرو، دنیائے فانی میں کام کےلئے تو گھر کے سارے افراد ہوں او ر اس دعوت و تبلیغ کے کام کے لیے صرف ایک آدمی کو کہا جائے اور اس پر بھی نباہ نہ ہو تو آخرت کو دنیا سے گھٹایا ،یا نہیں گھٹایا؟۔
حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ اپنے ایک مکتوب میں میواتی حضرات کو تحریر فرماتے ہیں کہ ”میں اپنی قوت و ہمت کو تم میواتیوں پر خرچ کر چکا ، میرے پاس بجز اس کے کہ تم لوگوں کو قربان کردوں کوئی اور پونجی نہیں ہے۔۔۔
اور پھر دنیا نے دیکھا کہ میواتی حضرات نے اپنے جان و مال اور زندگیوں کو اس کام پر قربان کر دیا۔۔۔ اور پھر ایک ایک گھر سے ایک ہی وقت میں کئی کئی افراد دین کے کام کے لیے باہر نکلنے لگے۔۔۔ اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ ابتداءمیں یہی میواتی لوگ جن کو اپنے گھر اور گاو¿ں سے نکلنا مشکل تھا اب وہ مولانا الیاسؒ کی محنت سے اس دعوت و تبلیغ کی فکر لے کر ملک ملک، شہر شہر دین کی خاطر پھرنے لگے۔۔۔
مولانا الیاسؒ کی یہ عالمگیر”احیائے اسلام کی تحریک“ جیسے ظاہر میں لوگ صرف کلمہ و نماز کی تحریک کہہ کر اس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوش کرتے ہیں یہ کوئی معمولی کام اور تحریک نہیں بلکہ یہ پورے دین کو عملی طور پر زندگی میں نفاذ کی تحریک ہے۔۔۔ اس تحریک اور جماعت کے بانی حضرت مولانا الیاس ؒ خود اپنی اس تحریک کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ”میرا مدعا کوئی پاتا نہیں“ لوگ سمجھتے ہیںیہ”تحریکِ صلوٰة“ ہے میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ ہر گز تحریکِ صلوٰة نہیں ہے بلکہ ہماری جماعت اور تحریک کا ایک خاص مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو حضورﷺ کا لایا ہوا دین پورا کا پورا سیکھا دیں یہ تو ہماری تحریک کا مقصد، رہی تبلیغی قافلوں کی چلت پھرت، تو یہ اس مقصد کے لیے ابتدائی ذریعہ ہے اور کلمہ و نماز کی تلقین گویا ہمارے پورے نصاب کی الف، ب، ت ہے۔۔۔۔
ہماری تبلیغی تحریک کا ایک خاص مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے سارے کے سارے جذبات پر دین کے جذبہ کو غالب کر کے اور اس راستہ سے مقصد کی دعوت کو پیدا کرتے ہوئے اور اکرام مسلم کے اصول کو رواج دے کر پوری قوم کو اس حدیث کے مصداق بنایا جائے۔
ترجمہ: ”تمام مسلمان ایک جسم و جان کی مانند ہیں“۔ اور ہمارے تبلیغی کام میں اخلاص، صدقِ دل کے ساتھ اجتماعیت اور مل جل کر باہمی مشورے کے ساتھ کام کرنے کی بڑی ضرورت ہے اور اس کے بغیر بڑا خطرہ ہے۔۔۔
مولانا الیاسؒ نے اس دعوت و تبلیغ والے کام کے طریقہ کار اور چھ اصولوں کے علاوہ کچھ مطالبے اور دینی تقاضے بھی رکھے ہیں جس کے تحت اس دعوت و تبلیغ والے کام کی محنت و ترتیب اور مشورہ کے لیے روزانہ کم از کم دو سے تین گھنٹے وقت دینا، ذکر و اذکار اور اعمال کی پابندی کرناروزانہ دو تعلیمیں کروانا ایک مسجد میں اور ایک گھر میں، ہفتہ میںدو گشت کرنا، جس کے تحت کچھ وقت نکال کر اپنے ماحول میں ضروریات دین کی تبلیغ کےلئے باقاعدہ جماعت بنا کرایک امیر اور ایک نظام کی ماتحتی میں اپنی جگہ اور قرب و جوار میں تبلیغی گشت کرنا، ہر مہینہ میں تین دن اس دعوت و تبلیغ والے کام میں لگاتے ہوئے اپنے شہر یا قرب و جوار کے علاقہ میں گشت و اجتماع کرتے ہوئے دوسروں کو بھی اس دعوت و تبلیغ والے کام پر نکلنے کےلئے امادہ اور تیار کرنا، سال میں ایک ”چلہ“ یعنی چالیس دن اللہ کے راستہ میں دعوت و تبلیغ کےلئے لگانا، اور پھر چار مہینے(تین چلے) اللہ تعالیٰ کے راستہ میں نکل کر لگاتے ہوئے دین اور اس دعوت و تبلیغ والے کام کو سیکھے اور پھر ساری زندگی اسی کام میں صرف کرنا۔ بقول حضرت مولانا پالن پوری رحمة اللہ علیہ کے کہ ”اس دعوت و تبلیغ والے کام کو کرتے کرتے مرنا اور مرتے مرتے کرناہے“۔
مولانا محمد الیاسؒ نے اس دعوتی سفر اور نقل و حرکت کے ایام کا ایک مکمل نظام الاوقات مرتب کیا جس کے تحت یہ تبلیغی جماعتیں اپنا وقت گزراتی ہیں۔۔۔ ایک وقت میں گشت، ایک وقت میں اجتماع، ایک وقت میں تعلیم، ایک وقت میں حوائج ضروری کا پورا کرنا اور پھر ان سارے کاموں کی ترتیب و تنظیم۔۔۔ گویا کہ یہ تبلیغی جماعت ایک چلتی پھرتی خانقاہ، متحرک دینی مدرسہ، اخلاقی و دینی تربیت گاہ بن جاتی ہے۔ مولانا الیاسؒ فرماتے ہیں کہ ہمارے طریقہ کار میں دین کے واسطہ جماعتوں کی شکل میں گھروں سے دور نکلنے کو بہت زیادہ اہمیّت حاصل ہے، اس کا خاص فائدہ یہ ہے کہ آدمی اس کے ذریعہ اپنے دائمی اور جامد ماحول سے نکل کر ایک نئے صالح اور متحرک دینی ماحول میں آجاتا ہے۔۔۔ اور پھر اس دعوت و تبلیغ والے سفر اور ہجرت کی وجہ سے جو طرح طرح کی تکلیفیں اور مشقتیں پیش آتی ہیں اور در بدر پھرنے میں جو ذلتیں اللہ کے لیے برداشت کرنا ہوتی ہیں ان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت خاص طور پر متوجہ ہوتی ہیں۔
بانی تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ ایک موقعہ پر فرماتے ہیں ”یہ امت اس طرح بنی تھی کہ ان کا کوئی آدمی اپنے خاندان، اپنی برادری، اپنی پارٹی، اپنی قوم، اپنے وطن اور اپنی زبان کا حامی نہ تھا، مال و جائیداد اور بیوی بچوں کی طرف دیکھنے والا بھی نہ تھا بلکہ ہر آدمی صرف یہ دیکھتا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کیا فرماتے ہیں؟۔۔۔ امت جب ہی بنتی ہے جب اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے مقابلہ میں سارے رشتے اور سارے تعلقات کٹ جائیں، جب مسلمان ایک امت تھے تو ایک مسلمان کہیں قتل ہوتا تو ساری امت ہل جاتی اور تڑپ اٹھتی، اب ہزاروں، لاکھوں مسلمانوں کے گلے کٹتے ہیں اور کانوں میں جوں نہیں رینگتی“۔
آج پوری دنیا میں تبلیغی جماعت اس دعوت و تبلیغ والے کام کو پوری محنت، اخلاص وللہیت اور ایک نظم کے ساتھ کر رہی ہے اور اس کام کے اثرات و ثمرات سے آج کوئی بھی ذی ہوش انسان انکاری نہیں۔۔۔۔ اللہ کی مدد و نصرت سے ناقابل یقین حد تک کامیابی ہو رہی ہے۔۔۔ دن رات اللہ تعالیٰ کی نافرمانی و معصیت اور فسق و فجور میں زندگی گزارنے والے لاکھوں افراد اس تبلیغی جماعت کی بدولت تہجد گزار، متقی، پرہیز گار اور دین کے داعی بنتے ہوئے نظر آرہے ہیں، دعوت و تبلیغ والے اس کام کی مثال پوری دنیا میں کسی مذہب والے کے پاس نہیں ہے۔ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب رحمة اللہ علیہ اس تبلیغی جماعت کی افادیت و ضرورت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”اصلاح نفس کے چار طریقے ہیں اور حُسنِ اتفاق سے ”تبلیغ“ کے اندر یہ چاروں طریقے جمع ہیں، صحبتِ صالح بھی ہے، ذکر و فکر بھی، مواخات فی اللہ بھی ہے، دشمن سے عبرت و موعظت بھی اور محاسبہ نفس بھی ہے۔۔۔ اور انہی چاروں کے مجموعہ کا نام ”تبلیغی جماعت“ ہے عام لوگوں کے لیے اصلاح نفس کا اس سے بہتر کوئی اور طریقہ نہیں ہو سکتا ، اس طریقہ کار سے دین عام ہوتا جا رہا ہے اور ہر ملک کے اندر یہ صدا پہنچتی چلی جا رہی ہے اور اس کے ذریعہ لوگوں کے عقائد درست ہو رہے ہیں، لوگ تیزی کے ساتھ اعمال کی جانب بڑھ رہے ہیں اور اپنے آپ کو حضورﷺ کی زندگی کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔۔ تبلیغی جماعت مخلوق کو مخلوق کی غلامی سے نکال کرخالق کی بندگی و غلامی میں لانے، صحابہ کرامؓ جیسی پاکیزہ صفات و عادات کو اپنانے اور پیدا کرنے، صبح جاگنے سے لے کر رات سونے تک، کھانے پینے سے لے کر بیت الخلاءتک۔۔۔ گویا کہ پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک پوری زندگی میں دین لانے کی کوشش اور مخلوق سے کچھ نہ ہونے اور خالق ہی سے سب کچھ ہونے کا یقین دلوں میں پیدا کرنے میں مصروف ہے، حقیقت یہ ہے کہ جس کام مین بھی جان و مال اور وقت یہ تین قیمتی چیزیں خرچ ہو جائین تو وہ کام بھی قیمتی ہو جاتاہے۔۔۔ تبلیغی جماعت بھی آج دعوت و تبلیغ کے اس مقدس کام میں جان و مال اور وقت لگا کر یہ کام پوری دنیا میں کرنے اور پھیلانے میں مصروف ہے۔۔۔
http://www.nawaiwaqt.com.pk/lahore/09-Nov-2012/%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C-%D8%AA%D8%A8%D9%84%DB%8C%D8%BA%DB%8C-%D8%A7%D8%AC%D8%AA%D9%85%D8%A7%D8%B9-%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D9%88%D9%86%DA%88---%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%8C-%D8%AF%D9%86%DB%8C%D8%A7-%D8%B3%DB%92-%D9%84%D8%A7%DA%A9%DA%BE%D9%88%DA%BA-%D9%85%D8%B3%D9%84%D9%85%D8%A7%D9%86-%D8%B4%D8%B1%DA%A9%D8%AA-%DA%A9%D8%B1%DB%8C%DA%BA-%DA%AF%DB%92
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
مولانا مجیب الرحمن انقلابی
بانی تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاسؒ نے جب اپنے گردوپیش کا جائز ہ لیا تو ہر طرف دین سے دوری عقائد کی خرابی اور اعمال و عقائد کا بگاڑ دیکھا کہ لوگ شرک و بدعت، جہالت اور ضلالت و گمراہی کے ”بحرظلمات“ میں ڈوبے ہوئے ہیں تو ان کے دل پر چوٹ لگی اور وہ امت محمدیہ ﷺ کی اصلاح کے سلسلہ میں متفکر و پریشان دیکھائی دینے لگے، آپؒ نے محسوس کیا کہ عام دینداری جو پہلے موجود تھی اب ختم ہوتی اور سمٹتی چلی جا رہی ہے، پہلے یہ دین داری خواص تک اور مسلمانوں کی ایک خاص تعداد میں رہ گئی تھی پھر اس کا دائرہ اس سے بھی تنگ ہوا اور ”اخص الخواص“ میں یہ دینداری باقی رہ گئی ہے پہلے جو خاندان اور قصبات و علاقے اور شہر ”رشد و ہدایت“ کے مراکز سمجھے جاتے تھے ان میں بھی اس قدر تیزی کے ساتھ انحطاط و زوال ہوا کہ اب ان کی ”مرکزیت“ ختم ہوتی جارہی ہے جہاں پہلے علم و عمل کی قندیلیں روشن رہتی تھیں اب وہ بے نور ہیں، دوسری بات انہوں نے یہ محسوس کی کہ علم چونکہ ایک خاص طبقہ تک محدود رہ گیا ہے اس لیے آپؒ یہ چاہتے تھے کہ عوام الناس میںپھر سے دینداری پیدا ہو، خواص کی طرح عوام میں بھی دین کی تڑپ اور طلب پیدا ہو، ان میں دین سیکھنے سکھانے کا شوق و جذبہ انگڑائیاں لے، اس کے لیے وہ ضروری سمجھتے تھے کہ ہر ایک دین سیکھے، کھانے، پینے اور دیگر ضروریات زندگی کی طرح دین سیکھنے او اس پر عمل کرنے کو بھی اپنی زندگی میں شامل کریں اور یہ سب کچھ صرف مدارس و مکاتب اور خانقاہی نظام سے نہیں ہوگا کیونکہ ان سے وہی فیضیاب ہو سکتے ہیں جن میں پہلے سے دین کی طلب ہواور وہ اس کا طالب بن کر خود مدارس و مکاتب اور خانقاہوں میں آئیں، مگر ظاہر ہے کہ یہ بہت ہی محدود لوگ ہوتے ہیں اس لیے مولانا الیاس کاندھلویؒ ضروری سمجھتے تھے کہ اس ”دعوت و تبلیغ“ کے ذریعہ ایک ایک دروزاہ پر جا کر اخلاص و للہیت کے ساتھ منت و سماجت اور خوشامد کر کے ان میں دین کے ”احیائ‘ کی طلب پیدا کی جائے کہ وہ اپنے گھروں اور ماحول سے نکل کر تھوڑا سا وقت علمی و دینی ماحول میں گزاریں تاکہ ان کے دل میں بھی سچی لگن اور دین سیکھنے کی تڑپ پیدا ہوا اور یہ کام اسی دعوت والے طریقہ سے ہوگا جو طریقہ اور راستہ انبیاءکرام علیہم السلام کاتھا اور جس پر چلتے ہوئے صحابہ کرامؓ جیسی مقدس اور فرشتہ صفت جماعت پوری دنیا پر اسلام کو غالب کرنے میں کامیاب ہوئی اور پھر جب اس دعوت و تبلیغ سے عام فیضاءدینی بنے گی تو لوگوں میںدین کی رغبت اور اس کی طلب پیدا ہوگی تو مدارس و خانقاہی نظام اس سے کہیں زیادہ ہوگا بلکہ ہر شخص مجسمِ دعوت اور مدرسہ و خانقاہ بن جائے گا۔۔۔
حضرت مولانا محمد الیاسؒ کی دین کے لیے تڑپ و بے چینی اور درد وبے قراری دیکھنے میں نہیں آتی تھی ، مسلمانوں کی دین سے دوری پر آپؒ انتہائی غمگین و پریشان اوراس فکر میں ڈوبے رہتے تھے کہ مسلمانوں کے اندر کسی طرح دین دوبارہ زندہ ہو جائے۔۔۔ بعض اوقات اسی فکر میں آپؒ ”ماہی بے آب“ کی طرح تڑپتے آہیں بھرتے اور فرماتے تھے میرے اللہ میں کیا کروں کچھ ہوتا ہی نہیں۔۔۔ کبھی دین کے اس درد وفکر میں بستر پر کروٹیں بدلتے اور جب بے چینی بڑھتی تو راتوں کو فکر سے اٹھ کر ٹہلنے لگتے۔۔۔ ایک رات اہلیہ محترمہؒ نے آپ ؒ سے پوچھا کہ کیا بات ہے نیند نہیں آتی؟۔۔۔ کئی راتوں سے میں آپؒ کی یہی حالت دیکھ رہی ہوں۔۔۔، جواب میں آپؒ نے فرمایا کہ! کیا بتلاو¿ں اگر تم کو وہ بات معلوم ہو جائے تو جاگنے والا ایک نہ رہے دو ہو جائیں۔۔۔ صرف آپؒ کی اہلیہ محترمہؒ ہی نہیں بلکہ آپؒ کے سوز و درد کا اندازہ ہر وہ شخص آسانی کے ساتھ لگا سکتا تھا جو آپؒ کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا اور باتیں سنتا تھا، آپؒ کا بس نہیں چلتا تھا کہ سب لوگوں کے دلوں میں وہی آگ پھونک دیں جس میںوہ عرصہ سے جل رہے تھے۔۔۔ سب اس غم میں تڑپنے لگیں جس میں وہ خود تڑپ رہے تھے، سب میں وہی سوز و گداز پیدا ہو جائے جس کی لطیف لمس سے آپؒ کی روح جھوم اٹھتی تھی جب ایک جاننے والے نے خط کے ذریعہ آپ سے خیریت دریافت کی تو آپؒ نے سوز ودرد میں ڈوبے ہوئے قلم کے ساتھ جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا کہ ”طبیعت میں سوائے تبلیغی درد کے اور خیریت ہے“۔
اور پھر مولانا محمد الیاسؒ خود سراپا دعوت بن کر ”دعوت و تبلیغ “ والے کام کو لے کر بڑی دلسوزی کے ساتھ دیوانہ وار ”میوات“ کے ہر علاقہ میں پھرے ہر ایک کے دامن کو تھاما، ایک ایک گھر کے دروازہ پر دستک دی کئی کئی وقت فاقے کیے، گرمی و سردی سے بے پرواہ ہو کر تبلیغی گشت کیے۔۔۔ اور جب لوگوں نے آپؒ کی حسب خواہش آپؒ کی آواز پر ”لبیک“ نہ کہا تو آپؒ بے چین و بے قرار ہو کر راتوں کو خدا کے حضور روتے گڑگڑاتے اور پوری امت کی اصلاح کے لیے دعا کرتے۔۔۔ اور پھر اپنی اہمت و طاقت ، مال ودولت سب کچھ ان میواتیوں پر اور ان کے ذریعہ اس تبلیغی کام پر لگا دیا۔۔۔ اس دوران اپنے رفقاءاور ساتھیوں کو ایک خط میں آپؒ تحریر فرماتے ہیں کہ! تم غور کرو، دنیائے فانی میں کام کےلئے تو گھر کے سارے افراد ہوں او ر اس دعوت و تبلیغ کے کام کے لیے صرف ایک آدمی کو کہا جائے اور اس پر بھی نباہ نہ ہو تو آخرت کو دنیا سے گھٹایا ،یا نہیں گھٹایا؟۔
حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ اپنے ایک مکتوب میں میواتی حضرات کو تحریر فرماتے ہیں کہ ”میں اپنی قوت و ہمت کو تم میواتیوں پر خرچ کر چکا ، میرے پاس بجز اس کے کہ تم لوگوں کو قربان کردوں کوئی اور پونجی نہیں ہے۔۔۔
اور پھر دنیا نے دیکھا کہ میواتی حضرات نے اپنے جان و مال اور زندگیوں کو اس کام پر قربان کر دیا۔۔۔ اور پھر ایک ایک گھر سے ایک ہی وقت میں کئی کئی افراد دین کے کام کے لیے باہر نکلنے لگے۔۔۔ اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ ابتداءمیں یہی میواتی لوگ جن کو اپنے گھر اور گاو¿ں سے نکلنا مشکل تھا اب وہ مولانا الیاسؒ کی محنت سے اس دعوت و تبلیغ کی فکر لے کر ملک ملک، شہر شہر دین کی خاطر پھرنے لگے۔۔۔
مولانا الیاسؒ کی یہ عالمگیر”احیائے اسلام کی تحریک“ جیسے ظاہر میں لوگ صرف کلمہ و نماز کی تحریک کہہ کر اس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوش کرتے ہیں یہ کوئی معمولی کام اور تحریک نہیں بلکہ یہ پورے دین کو عملی طور پر زندگی میں نفاذ کی تحریک ہے۔۔۔ اس تحریک اور جماعت کے بانی حضرت مولانا الیاس ؒ خود اپنی اس تحریک کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ”میرا مدعا کوئی پاتا نہیں“ لوگ سمجھتے ہیںیہ”تحریکِ صلوٰة“ ہے میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ ہر گز تحریکِ صلوٰة نہیں ہے بلکہ ہماری جماعت اور تحریک کا ایک خاص مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو حضورﷺ کا لایا ہوا دین پورا کا پورا سیکھا دیں یہ تو ہماری تحریک کا مقصد، رہی تبلیغی قافلوں کی چلت پھرت، تو یہ اس مقصد کے لیے ابتدائی ذریعہ ہے اور کلمہ و نماز کی تلقین گویا ہمارے پورے نصاب کی الف، ب، ت ہے۔۔۔۔
ہماری تبلیغی تحریک کا ایک خاص مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے سارے کے سارے جذبات پر دین کے جذبہ کو غالب کر کے اور اس راستہ سے مقصد کی دعوت کو پیدا کرتے ہوئے اور اکرام مسلم کے اصول کو رواج دے کر پوری قوم کو اس حدیث کے مصداق بنایا جائے۔
ترجمہ: ”تمام مسلمان ایک جسم و جان کی مانند ہیں“۔ اور ہمارے تبلیغی کام میں اخلاص، صدقِ دل کے ساتھ اجتماعیت اور مل جل کر باہمی مشورے کے ساتھ کام کرنے کی بڑی ضرورت ہے اور اس کے بغیر بڑا خطرہ ہے۔۔۔
مولانا الیاسؒ نے اس دعوت و تبلیغ والے کام کے طریقہ کار اور چھ اصولوں کے علاوہ کچھ مطالبے اور دینی تقاضے بھی رکھے ہیں جس کے تحت اس دعوت و تبلیغ والے کام کی محنت و ترتیب اور مشورہ کے لیے روزانہ کم از کم دو سے تین گھنٹے وقت دینا، ذکر و اذکار اور اعمال کی پابندی کرناروزانہ دو تعلیمیں کروانا ایک مسجد میں اور ایک گھر میں، ہفتہ میںدو گشت کرنا، جس کے تحت کچھ وقت نکال کر اپنے ماحول میں ضروریات دین کی تبلیغ کےلئے باقاعدہ جماعت بنا کرایک امیر اور ایک نظام کی ماتحتی میں اپنی جگہ اور قرب و جوار میں تبلیغی گشت کرنا، ہر مہینہ میں تین دن اس دعوت و تبلیغ والے کام میں لگاتے ہوئے اپنے شہر یا قرب و جوار کے علاقہ میں گشت و اجتماع کرتے ہوئے دوسروں کو بھی اس دعوت و تبلیغ والے کام پر نکلنے کےلئے امادہ اور تیار کرنا، سال میں ایک ”چلہ“ یعنی چالیس دن اللہ کے راستہ میں دعوت و تبلیغ کےلئے لگانا، اور پھر چار مہینے(تین چلے) اللہ تعالیٰ کے راستہ میں نکل کر لگاتے ہوئے دین اور اس دعوت و تبلیغ والے کام کو سیکھے اور پھر ساری زندگی اسی کام میں صرف کرنا۔ بقول حضرت مولانا پالن پوری رحمة اللہ علیہ کے کہ ”اس دعوت و تبلیغ والے کام کو کرتے کرتے مرنا اور مرتے مرتے کرناہے“۔
مولانا محمد الیاسؒ نے اس دعوتی سفر اور نقل و حرکت کے ایام کا ایک مکمل نظام الاوقات مرتب کیا جس کے تحت یہ تبلیغی جماعتیں اپنا وقت گزراتی ہیں۔۔۔ ایک وقت میں گشت، ایک وقت میں اجتماع، ایک وقت میں تعلیم، ایک وقت میں حوائج ضروری کا پورا کرنا اور پھر ان سارے کاموں کی ترتیب و تنظیم۔۔۔ گویا کہ یہ تبلیغی جماعت ایک چلتی پھرتی خانقاہ، متحرک دینی مدرسہ، اخلاقی و دینی تربیت گاہ بن جاتی ہے۔ مولانا الیاسؒ فرماتے ہیں کہ ہمارے طریقہ کار میں دین کے واسطہ جماعتوں کی شکل میں گھروں سے دور نکلنے کو بہت زیادہ اہمیّت حاصل ہے، اس کا خاص فائدہ یہ ہے کہ آدمی اس کے ذریعہ اپنے دائمی اور جامد ماحول سے نکل کر ایک نئے صالح اور متحرک دینی ماحول میں آجاتا ہے۔۔۔ اور پھر اس دعوت و تبلیغ والے سفر اور ہجرت کی وجہ سے جو طرح طرح کی تکلیفیں اور مشقتیں پیش آتی ہیں اور در بدر پھرنے میں جو ذلتیں اللہ کے لیے برداشت کرنا ہوتی ہیں ان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت خاص طور پر متوجہ ہوتی ہیں۔
بانی تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ ایک موقعہ پر فرماتے ہیں ”یہ امت اس طرح بنی تھی کہ ان کا کوئی آدمی اپنے خاندان، اپنی برادری، اپنی پارٹی، اپنی قوم، اپنے وطن اور اپنی زبان کا حامی نہ تھا، مال و جائیداد اور بیوی بچوں کی طرف دیکھنے والا بھی نہ تھا بلکہ ہر آدمی صرف یہ دیکھتا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کیا فرماتے ہیں؟۔۔۔ امت جب ہی بنتی ہے جب اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے مقابلہ میں سارے رشتے اور سارے تعلقات کٹ جائیں، جب مسلمان ایک امت تھے تو ایک مسلمان کہیں قتل ہوتا تو ساری امت ہل جاتی اور تڑپ اٹھتی، اب ہزاروں، لاکھوں مسلمانوں کے گلے کٹتے ہیں اور کانوں میں جوں نہیں رینگتی“۔
آج پوری دنیا میں تبلیغی جماعت اس دعوت و تبلیغ والے کام کو پوری محنت، اخلاص وللہیت اور ایک نظم کے ساتھ کر رہی ہے اور اس کام کے اثرات و ثمرات سے آج کوئی بھی ذی ہوش انسان انکاری نہیں۔۔۔۔ اللہ کی مدد و نصرت سے ناقابل یقین حد تک کامیابی ہو رہی ہے۔۔۔ دن رات اللہ تعالیٰ کی نافرمانی و معصیت اور فسق و فجور میں زندگی گزارنے والے لاکھوں افراد اس تبلیغی جماعت کی بدولت تہجد گزار، متقی، پرہیز گار اور دین کے داعی بنتے ہوئے نظر آرہے ہیں، دعوت و تبلیغ والے اس کام کی مثال پوری دنیا میں کسی مذہب والے کے پاس نہیں ہے۔ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب رحمة اللہ علیہ اس تبلیغی جماعت کی افادیت و ضرورت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”اصلاح نفس کے چار طریقے ہیں اور حُسنِ اتفاق سے ”تبلیغ“ کے اندر یہ چاروں طریقے جمع ہیں، صحبتِ صالح بھی ہے، ذکر و فکر بھی، مواخات فی اللہ بھی ہے، دشمن سے عبرت و موعظت بھی اور محاسبہ نفس بھی ہے۔۔۔ اور انہی چاروں کے مجموعہ کا نام ”تبلیغی جماعت“ ہے عام لوگوں کے لیے اصلاح نفس کا اس سے بہتر کوئی اور طریقہ نہیں ہو سکتا ، اس طریقہ کار سے دین عام ہوتا جا رہا ہے اور ہر ملک کے اندر یہ صدا پہنچتی چلی جا رہی ہے اور اس کے ذریعہ لوگوں کے عقائد درست ہو رہے ہیں، لوگ تیزی کے ساتھ اعمال کی جانب بڑھ رہے ہیں اور اپنے آپ کو حضورﷺ کی زندگی کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔۔ تبلیغی جماعت مخلوق کو مخلوق کی غلامی سے نکال کرخالق کی بندگی و غلامی میں لانے، صحابہ کرامؓ جیسی پاکیزہ صفات و عادات کو اپنانے اور پیدا کرنے، صبح جاگنے سے لے کر رات سونے تک، کھانے پینے سے لے کر بیت الخلاءتک۔۔۔ گویا کہ پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک پوری زندگی میں دین لانے کی کوشش اور مخلوق سے کچھ نہ ہونے اور خالق ہی سے سب کچھ ہونے کا یقین دلوں میں پیدا کرنے میں مصروف ہے، حقیقت یہ ہے کہ جس کام مین بھی جان و مال اور وقت یہ تین قیمتی چیزیں خرچ ہو جائین تو وہ کام بھی قیمتی ہو جاتاہے۔۔۔ تبلیغی جماعت بھی آج دعوت و تبلیغ کے اس مقدس کام میں جان و مال اور وقت لگا کر یہ کام پوری دنیا میں کرنے اور پھیلانے میں مصروف ہے۔۔۔
http://www.nawaiwaqt.com.pk/lahore/09-Nov-2012/%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C-%D8%AA%D8%A8%D9%84%DB%8C%D8%BA%DB%8C-%D8%A7%D8%AC%D8%AA%D9%85%D8%A7%D8%B9-%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D9%88%D9%86%DA%88---%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%8C-%D8%AF%D9%86%DB%8C%D8%A7-%D8%B3%DB%92-%D9%84%D8%A7%DA%A9%DA%BE%D9%88%DA%BA-%D9%85%D8%B3%D9%84%D9%85%D8%A7%D9%86-%D8%B4%D8%B1%DA%A9%D8%AA-%DA%A9%D8%B1%DB%8C%DA%BA-%DA%AF%DB%92
تبلیغ کی ضرورت و اہمیت
/http://shaheedeislam.com
تبلیغ کی ضرورت و اہمیت
تبلیغ کی ضرورت و اہمیت
س… میرا مسئلہ تبلیغ سے متعلق ہے، قرآن پاک کی آیت کا ترجمہ لکھتا
ہوں: “تم بہترین اُمت ہو، لوگوں کے لئے نکالے گئے ہو، تم لوگ نیک کام کا حکم کرتے
ہو اور بُرے کام سے منع کرتے ہو، اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔” دُوسری آیت کا
ترجمہ: “اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی ضروری ہے جو خیر کی طرف بلائے اور نیک
کاموں کے کرنے کو کہا کرے اور بُرے کام سے منع کرے، ایسے لوگ پورے کامیاب ہوں گے۔”
ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: “جو شخص کسی ناجائز کام
کو ہوتے ہوئے دیکھے، اگر اس پر قدرت ہو تو اس کو ہاتھ سے بند کردے، اتنی قدرت نہ
ہو تو دِل میں بُرا جانے، اور یہ ایمان کا بہت کم درجہ ہے۔” ایک دُوسری حدیث کا
مفہوم ہے: “تمام نیک اعمال جہاد کے مقابلے میں ایک قطرہ ہیں، اور تبلیغِ دِین ایک
سمندر ہے، اور جہاد، تبلیغ کے مقابلے میں پس ایک قطرہ ہے” آیت اور حدیث کی روشنی
میں ان کا جواب دیں۔
ج… آپ نے صحیح لکھا ہے، دِین
کی دعوت دینا، لوگوں کو نیک کاموں پر لگانا اور بُرے کاموں سے روکنا بہت بڑا عمل
ہے۔ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ اپنے مسلمان بھائیوں کی فکر
کرے اور بقدرِ استطاعت ان کو نیکیوں پر لگائے اور بُرائیوں سے بچائے۔ آخری حدیث جو
آپ نے لکھی ہے، یہ میری نظر سے نہیں گزری۔
کیا
تبلیغی جماعت سے جڑنا ضروری ہے؟
س… جماعت کے بارے میں
آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا اس کام میں جڑنے کے علاوہ بھی اصلاح اور ایک مخصوص ذمہ
داری بحیثیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک مسلمان اُمتی ہونے کے ادا ہوسکتی ہے؟
ایک مسلمان کے ذمے کیا ہے؟ وہ کیسے اپنی زندگی کا رُخ صحیح کرے؟ اور ساری انسانیت
کے لئے فکرمند کیونکر ہو؟
ج… جماعت بہت مبارک کام کر رہی ہے، اس میں جتنا وقت بھی لگایا
جاسکے ضرور لگانا چاہئے، اس سے اپنی اور اُمت کی اصلاح کی فکر پیدا ہوتی ہے، اور
اپنے نفس کی اصلاح کے لئے کسی شیخِ کامل محقق کے ساتھ اصلاحی تعلق رکھنا چاہئے۔
طائف
سے واپسی پر آنحضرت ﷺ کا حج کے موقع پر تبلیغ کرنا
س… کیا طائف سے واپسی
پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ سے روک دیا گیا تھا؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم
صرف حج کے موقع پر ہی دِین کی تبلیغ کرسکتے تھے؟
ج… کفار کی جانب سے
تبلیغ پر پابندی لگانے کی ہمیشہ کوشش ہوتی رہی، لیکن یہ پابندی آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے کبھی قبول نہیں فرمائی، البتہ جب یہ دیکھا کہ اہلِ مکہ میں فی الحال قبولِ
حق کی استعداد نہیں اور نہ یہاں رہ کر آزادانہ تبلیغ کے مواقع ہیں تو آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے موسمِ حج میں باہر سے آنے والے قبائل کو دعوت پیش کرنے کا زیادہ
اہتمام فرمایا، جس سے یہ مقصد تھا کہ اگر باہر کوئی محفوظ جگہ اور مضبوط جماعت
میسر آجائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں ہجرت کرجائیں۔
کیا نماز کی دعوت اور سنت
کی تلقین ہی تبلیغ ہے؟
س… تبلیغ کے کیا معنی ہیں؟ اور اس کا دائرہٴ کار کیا ہے؟ کیا نماز
کی دعوت اور سنت کی تلقین ہی تبلیغ ہے؟ اگر کوئی شخص معاشرے کو سنوارنے کے لئے
جدوجہد کرتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ اقتدار کے لئے ایسا کرتا ہے۔ اور کہتے ہیں
کہ سنت پر عمل کریں تو دُنیا قدموں میں خودبخود آجائے گی، حالانکہ مقصد اصلاحِ
معاشرہ ہے اور معاشرے کو ان بُرائیوں سے بچانا مقصود ہے جو اسے دیمک کی طرح چاٹ
رہی ہیں۔ پوچھنا یہ ہے کہ اس شخص یا جماعت کا یہ فعل کس حد تک اسلام کے مطابق ہے؟
کیا یہ تبلیغ کی مد میں شامل ہے؟
ج… معاشرہ افراد سے تشکیل پاتا
ہے، افراد کی اصلاح ہوگی تو معاشرے کی اصلاح ہوگی، اور جب تک افراد کی اصلاح نہیں
ہوتی، اصلاحِ معاشرہ کی کوئی صورت ممکن نہیں۔ پس جو حضرات بھی افراد سازی کا کام
کر رہے ہیں وہ دعوت و تبلیغ کا کام کر رہے ہیں۔
تبلیغ کا
دائرہٴ کار تو پورے دِین پر حاوی ہے، مگر نماز دِین کا اوّلین ستون ہے، جب تک نماز
کی دعوت نہیں چلے گی اور لوگ نماز پر نہیں آئیں گے، نہ ان میں دِین آئے گا اور نہ
ان کی اصلاح ہوگی، اور ہر کام میں سنتِ نبوی کو اپنانے کی دعوت، درحقیقت پورے دِین
کی دعوت ہے، کیونکہ سنت ہی دِین کی شاہراہ ہے، اس لئے بلاشبہ نماز اور سنت کی دعوت
ہی دِین کی تبلیغ ہے۔
تبلیغی
اجتماعات کی دُعا میں شامل ہونے کے لئے سفر کرنا
س… تبلیغی جماعت کے
اجتماعات میں وعظ ہوتا ہے، اور اختتام پر بلند آواز سے دُعا ہوتی ہے، ایک دُعا مانگتا
ہے اور باقی سب آمین کہتے ہیں، اس پر بڑے بڑے مصارف کرکے دُور دراز سے لوگ سفر
کرکے شریک ہونے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس کو اجتماع کا اصل مقصد سمجھتے ہیں، اگر
کوئی اس میں شریک نہ ہو اور اُٹھ کر چلا جائے تو تصوّر کیا جاتا ہے کہ اس نے
اجتماع میں شرکت ہی نہیں کی۔ بندہ بھی اس میں شریک ہونے کا بڑا آرزومند ہوتا ہے
اور تلاوتِ قرآن سے اس کو زیادہ باعثِ ثواب سمجھتا ہے، کیا یہ نظریہ دُرست ہے یا
نہیں؟
ج… تبلیغی جماعت کے
اجتماعات بڑے مفید ہوتے ہیں اور ان میں شرکت باعثِ اَجر و ثواب ہے۔ اختتامِ اجتماع
پر جو دُعا ہوتی ہے، وہ موٴثر اور رِقت انگیز ہوتی ہے، اجتماع اور اس دُعا میں
شرکت کے لئے سفر باعثِ اجر ہوگا، اِن شاء اللہ۔ قرآنِ کریم کی تلاوت اپنی جگہ بہت
اہم اور باعثِ ثواب ہے، دونوں کا تقابل نہ کیا جائے، بلکہ تلاوت بھی کی جائے اور
اجتماع میں شرکت بھی کی جائے۔
عورتوں کا تبلیغی جماعتوں میں جانا کیسا ہے؟
س… عورتوں کا تبلیغی
جماعتوں میں جانا کیسا ہے؟
ج… تبلیغ والوں نے مستورات کے تبلیغ میں جانے کے لئے خاص اُصول و شرائط
رکھے ہیں، ان اُصولوں کی پابندی کرتے ہوئے عورتوں کا تبلیغی جماعت میں جانا بہت ہی
ضروری ہے، اس سے دِین کی فکر اپنے اندر بھی پیدا ہوگی اور اُمت میں دِین والے
اعمال زندہ ہوں گے۔
کیا تبلیغ کے لئے پہلے مدرسہ کی تعلیم ضروری ہے؟
س… بعض لوگ کہتے ہیں
کہ: “یہ تبلیغ عالموں کا کام ہے، اس میں جو لوگ کچھ نہیں جانتے، ان کو چاہئے کہ وہ
پہلے مدرسہ میں جاکر دِین کا کام سیکھ لیں، بعد میں یہ کام کریں، ورنہ ان کی تبلیغ
حرام ہے۔” کیا یہ صحیح ہے؟
ج… غلط ہے، جتنی بات مسلمان کو آتی ہو، اس کی تبلیغ کرسکتا ہے۔
اور تبلیغ میں نکلنے کا مقصد سب سے پہلے خود سیکھنا ہے، اس لئے تبلیغ کے عمل کو
بھی چلتا پھرتا مدرسہ سمجھنا چاہئے۔
لوگوں کو خیر کی طرف بلانا قابلِ قدر ہے لیکن انداز تند نہ ہونا
چاہئے
س… جناب!
میں بذاتِ خود نماز پڑھتا ہوں اور دُوسروں کو نماز پڑھنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ لیکن
ہمارے ایک صوفی صاحب ہیں، انہوں نے مجھے منع فرماتے ہوئے کہا کہ: “جناب! آپ کسی کو
نماز کے لئے زیادہ سخت الفاظ میں نہ کہا کریں، کیونکہ آپ کے بار بار کہنے کے
باوجود دُوسرا آدمی نماز پڑھنے سے انکار کرے تو اس طرح انکار کرنے سے آپ گنہگار
ہوتے ہیں۔” لیکن جناب! میرا مشن تو یہ ہے بھی اور تھا بھی کہ اگر میں کسی کو بار
بار کہتا ہوں اور اگر آج وہ انکار کرتا ہے تو کوئی بات نہیں، شاید کل اس کے دِماغ
میں میری بات بیٹھ جائے اور وہ نماز شروع کردے۔ میں تو یہاں تک سوچتا ہوں کہ چلو
آج نہیں تو میرے مرنے کے بعد میری آوازیں ان کے کانوں میں گونجنے لگیں اور شاید
پھر یہ نماز شروع کردیں۔ اس سلسلے میں آپ میری رہنمائی فرمائیں کہ مجھے کیا کرنا
چاہئے؟ اُمید ہے آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں میری پریشانی دُور فرمائیں گے۔
ج… آپ کا جذبہٴ تبلیغ قابلِ
قدر ہے، بھولے ہوئے بھائیوں کو خیر کی طرف لانے اور بلانے کی ہر ممکن کوشش کرنی
چاہئے، لیکن اندازِ گفتگو خیرخواہانہ ہونا چاہئے، سخت اور تند نہیں، تاکہ آپ کے
اندازِ گفتگو سے لوگوں میں نماز سے نفرت پیدا نہ ہو۔
گھر بتائے بغیر تبلیغ پر چلے جانا کیسا ہے؟
س… بعض
لوگ اپنا شہر یا اپنا ملک چھوڑ کر، اپنے اہل و عیال کو یہ بتائے بغیر کہ وہ کہاں
جارہے ہیں؟ اور کتنے دن کے لئے جارہے ہیں؟ چپ چاپ نکل جاتے ہیں، اور کسی مقام پر
پہنچ کر اپنے گھر والوں کو بذریعہ خط وغیرہ بھی کوئی اطلاع نہیں دیتے، بلکہ اس
اجنبی شہر یا ملک کے مسلمانوں کا کلمہ دُرست کرانے اور نماز کی تلقین کرنے میں
مصروف رہتے ہیں۔ اکثر ان کے اہلِ خانہ کو اس عمل سے پریشانی ہوتی ہے اور خرچ وغیرہ
نہ ملنے کی وجہ سے شکایت بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ لوگ اس طرح ۵،۵ یا۶،۶ ماہ بلکہ ایک ایک
سال باہر گزارتے ہیں، اس کو وہ “چلّہ” دینا کہتے ہیں، نیز خود بھی سمجھتے ہیں اور
دُوسرے لوگوں کو سمجھاتے ہیں کہ جو جتنا لمبا چلّہ دیتا ہے وہ اتنا ہی کامل مسلمان
بن جاتا ہے۔ یہ عمل کہاں تک دُرست ہے؟ اور کتاب و سنت کے مطابق ہے؟ کیا صحابہ کرام نے
بھی ایسے چلّے دئیے ہیں؟ عربی میں چلّے کو کیا کہا جائے گا؟ کیونکہ اُردو میں تو
چلّہ صرف چالیس دن کا ہوتا ہے، وہ بھی پیر، فقیر اور رُوحانی عامل کسی وظیفہ وغیرہ
پڑھنے کی مدّت کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
ج… ایسا بے وقوف تو شاید ہی
دُنیا میں کوئی ہو جو سال چھ مہینے کے لئے ملک سے باہر چلا جائے، نہ گھر والوں کو
بتائے، نہ وہاں جاکر اطلاع دے، نہ ان کے نان و نفقہ کا سوچے، ایسی فرضی صورتوں پر
تو اَحکام جاری نہیں کئے جاتے۔ جہاں تک دِین کے سیکھنے سکھانے کا عمل ہے، یہ
مسلمانوں کے ذمے فرض ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور بزرگانِ دِین بھی
ہماری طرح گھروں میں بیٹھے رہتے تو شاید ہم بھی مسلمان نہ ہوتے، نہ آپ کو سوال کی
ضرورت ہوتی، نہ کسی کو جواب دینے کی۔ جوان بیبیوں کو چھوڑ کر جو لوگ چند ٹکے کمانے
کے لئے سعودیہ، دُبئی، امریکہ چلے جاتے ہیں اور کئی کئی سال تک نہیں لوٹتے، ان کے
بارے میں آپ نے کبھی مسئلہ نہیں پوچھا! جو لوگ دِین سیکھنے کے لئے مہینے دو مہینے،
چار مہینے کے لئے جاتے ہیں، ان کے بارے میں آپ کو مسئلہ پوچھنے کا خیال آیا۔ میرا
مشورہ یہ ہے کہ گھر کے لوگوں کے نان و نفقہ کا انتظام کرکے آپ بھی چار مہینے کے
لئے تو ضرور تشریف لے جائیں، اس کے بعد آپ مجھے لکھیں، کیونکہ اس وقت آپ جو کچھ
تحریر فرمائیں گے، وہ علیٰ وجہ البصیرت ہوگا۔
ماں باپ کی اجازت کے بغیر تبلیغ میں جانا
س… اگر
مکی مسجد گارڈن کراچی جائیں تو لوگ “وہابی” کہتے ہیں، اور دُوسری طرف جانے سے
“بریلوی” اور “بدعتی” ہونے کا خطاب ملتا ہے۔ میرے ناقص مشاہدے میں یہ بیچارے
تبلیغی جماعت والے صحیح ہیں، اور میں ہر جمعرات کو جاتا ہوں، مگر یہ میری ناقص فہم
میں نہیں آتا کہ ماں باپ بوڑھوں کی بھی رضامندی اور ان کی بھی خدمت فرض ہے، میرا
مطلب ہے، جب وقت ہے تو جاوٴ، بہت سے تو ماں اگر بیمار ہے تو بھی چلے جاتے ہیں، میں
نے دو مرتبہ تین تین دن لگائے ہیں۔ آپ براہِ کرم بتلائیے کہ ان کی اجازت کے بغیر
ہم جماعت میں جاسکتے ہیں یا نہیں؟
ج… تبلیغی جماعت کے بارے میں
آپ نے صحیح لکھا ہے کہ یہ اچھے لوگ ہیں، ان کی نقل و حرکت کی برکت سے اللہ تعالیٰ
نے ہزاروں انسانوں کی زندگیاں بدل دی ہیں، اس لئے ان لوگوں کے ساتھ جتنا وقت گزرے
سعادت ہے۔
رہا یہ
کہ والدین کی اجازت کے بغیر جانا جائز ہے یا نہیں؟ تو اس میں تفصیل ہے۔ اگر والدین
خدمت کے محتاج ہوں اور کوئی دُوسرا خدمت کرنے والا بھی نہ ہو، تب تو ان کو چھوڑ کر
ہرگز نہ جانا چاہئے، اور اگر ان کو خدمت کی ضرورت نہیں، محض اس وجہ سے روکتے ہیں
کہ ان کے دِل میں دِین کی عظمت نہیں، ورنہ اگر یہی لڑکا دُوسرے شہر بلکہ غیرملک
میں ملازمت کے لئے جانا چاہے تو والدین بڑی خوشی سے اس کو بھیج دیں گے، کیونکہ
دُنیا کی قیمت انہیں معلوم ہے، دِین کی معلوم نہیں، تو ایسی حالت میں تبلیغ میں
جانے کے لئے والدین کی رضامندی کوئی شرط نہیں، کیونکہ تبلیغ میں نکلنا درحقیقت
ایمان سیکھنے کے لئے ہے، اور ایمان کا سیکھنا اہم ترین فرض ہے۔
تبلیغی جماعت سے والدین کا اپنی اولاد کو منع کرنا
س… تبلیغِ
دِین کا سلسلہ جیسا کہ آپ کو مجھ سے بہتر علم ہوگا، اگر ہم تبلیغی کاموں میں حصہ
لیں لیکن گھر والے اس کام سے اس لئے منع کریں کہ رشتہ داروں میں ان کی ناک کٹ جائے
گی، وہ کسی کو منہ دِکھانے کے قابل نہ رہیں گے کہ ان کا لڑکا “تبلیغی” ہوگیا ہے،
ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے؟ کیا اس مبارک کام کو چھوڑ دینا چاہئے؟
ج… تبلیغ کا کام ہرگز نہ
چھوڑئیے، لیکن والدین کی بے ادبی بھی نہ کی جائے، بلکہ نہایت صبر و تحمل سے ان کی
کڑوی باتوں کو برداشت کیا جائے۔ یہ لوگ بیچارے دُنیا کی عزّت و منصب کی قدر جانتے
ہیں، دِین کی قدر و قیمت نہیں جانتے۔ ضرورت ہے کہ ان کو کسی تدبیر سے یہ سمجھایا
جائے کہ دِین کی پابندی عزّت کی چیز ہے اور بے دِینی ذِلت کی چیز ہے۔
تبلیغ کرنا اور مسجدوں میں پڑاوٴ ڈالنا کیسا ہے؟
س… تبلیغ
کا کرنا کیسا ہے؟ اور تبلیغی جماعت کا بستروں سمیت مسجد میں پڑاوٴ ڈالنے کے متعلق
کیا حکم ہے؟
ج… تبلیغ کے نام سے جو کام ہو
رہا ہے، اس کا سب سے بڑا فائدہ خود اپنے اندر دِین میں پختگی پیدا کرنا اور اپنے
مسلمان بھائیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والے طریقوں کی دعوت دینا ہے۔
تجربہ یہ ہے کہ اپنے ماحول میں رہتے ہوئے آدمی میں دِین کی فکر پیدا نہیں ہوتی،
بیسیوں فرائض کا تارک رہتا ہے اور بیسیوں گناہوں میں مبتلا رہتا ہے، عمریں گزر
جاتی ہیں مگر کلمہ، نماز بھی صحیح کرنے کی فکر نہیں ہوتی۔ تبلیغ میں نکل کر احساس
ہوتا ہے کہ میں نے کتنی عمر غفلت اور بے قدری کی نذر کردی، اور اپنی کتنی قیمتی
عمر ضائع کردی۔ اس لئے تبلیغ میں نکلنا بہت ضروری ہے، اور جب تک آدمی اس راستے میں
نکل نہ جائے اس کی حقیقت سمجھ میں نہیں آسکتی۔ چونکہ تبلیغ میں نکلنے سے مقصد دِین
کا سیکھنا اور سکھانا ہے، اور دِین کا مرکز مساجد ہیں، اس لئے تبلیغی جماعتوں کا خدا
کے گھروں میں اِعتکاف کی نیت سے ٹھہر کر دِین کی محنت کرنا بالکل بجا اور دُرست
ہے۔
“تبلیغی نصاب” کی کمزور روایتوں کا مسجد میں پڑھنا
س… کیا
“تبلیغی نصاب” میں کچھ حدیثیں کمزور شہادتوں والی بھی ہیں؟ اگر ہیں تو اس کا مسجد
اور گھر میں پڑھنا کیسا ہے؟
ج… فضائل میں کمزور روایت بھی
قبول کرلی جاتی ہے۔
تبلیغی جماعت پر اعتراض کرنے والوں کو کیا جواب دیں؟
س… موجودہ
دور میں تبلیغی جماعت کام کرتی ہے، ہر کسی کو نماز کی طرف بلانا، تعلیم وغیرہ
کرنا، مگر لوگ اکثر مخالفت اس طرح کرتے ہیں کہ یہ جاہل ہیں، اپنی طرف سے چھ باتیں
بنائی ہیں، فقط وہی بیان کرتے ہیں۔
ج… جو لوگ اعتراض کرتے ہیں، ان
سے کہا جائے کہ بھائی تین چلّے، ایک چلّہ، دس دن، تین دن جماعت میں نکل کر دیکھو،
پھر اپنی رائے کا اظہار کرو، جب تک وقت نہ لگاوٴ، اس کام کی حقیقت سمجھ میں نہیں
آئے گی، اور کسی چیز کی حقیقت سمجھے بغیر اس کے بارے میں رائے دینا غلط ہوتا ہے۔
کیا بُرائی میں مبتلا انسان دُوسرے کو نصیحت کرسکتا ہے؟ نیز کسی کو
اس کی کوتاہیاں جتانا کیسا ہے؟
س… میں
ایک طالبِ علم ہوں، طالب علم ساتھیوں کی محفل میں شراب اور پھر خودکشی کا تذکرہ چل
نکلا، میں نے توبہ کرتے ہوئے کہا کہ شراب “اُمّ الخبائث” ہے اور “خودکشی” حرام ہے،
اس پر ایک طالبِ علم ساتھی نے مجھ سے دریافت کیا کہ آپ نماز پڑھتے ہیں؟ میں نے
شرمندگی کے ساتھ عرض کیا: نہیں! پھر انہوں نے مجھے اِحساس دِلایا کہ آپ داڑھی بھی
مونڈتے ہیں؟ میں نے سرِ تسلیم خم کیا، اس پر موصوف فرمانے لگے کہ: “جب آپ نماز
(فرض ہے) ادا نہیں کرتے جس کے متعلق سب سے پہلے پرسش ہوگی اور داڑھی بھی مونڈتے
ہیں تو پھر حرام (شراب اور دیگر معاشرتی بُرائیاں) جن کا درجہ بعد میں آتا ہے، ان
کے متعلق کیوں فکرمند ہوتے ہیں؟” واضح رہے کہ موصوف خود بے نمازی اور کلین شیو ہیں۔
مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات مرحمت فرماکر ہم تمام
دوستوں کی اُلجھن دُور فرمائیں۔
س… کیا کوئی شخص جو خود ان کوتاہیوں اور گناہوں کا مرتکب ہو رہا ہو،
کسی دُوسرے شخص کی وہی کوتاہیاں گنوانے اور نصیحت کرنے کا حق رکھتا ہے؟
ج… کسی کو اس کی کوتاہیاں اور
بُرائیاں جتانا، اس کی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ محض طعن و تشنیع کے طور پر بُرائی
کا طعنہ دیا جائے، یہ تو حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، قرآنِ کریم میں اس کی مذمت
فرمائی ہے۔ اور دُوسری صورت یہ ہے کہ خیرخواہی کے طور پر اس سے یہ کہا جائے کہ یہ
بُرائی چھوڑ دینی چاہئے، یہ نصیحت کرنا ہے، جو بہت اچھا عمل ہے، قرآن و حدیث میں
بُرائی سے روکنے کا جگہ جگہ حکم آیا ہے۔ رہا یہ کہ جو شخص خود کسی گناہ میں مبتلا
ہو، کیا وہ دُوسروں کو اس گناہ سے منع کرسکتا ہے یا نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ
دُوسرے کو منع کرسکتا ہے، مگر دُوسرے شخص پر نصیحت کا اثر اسی وقت ہوتا ہے جب آدمی
خود بھی عمل کرے، ایسا شخص جو خود گناہ میں مبتلا ہو، اگر دُوسرے کو نصیحت کرے تو
اس کو یوں کہنا چاہئے کہ: “بھائی! میں خود بھی گنہگار ہوں، اس گناہ میں مبتلا ہوں،
آپ خود بھی اس گناہ کو چھوڑ دیں اور میرے لئے بھی دُعا کریں کہ میں اس گندگی سے
نکل جاوٴں۔”
س… کیا
بے نمازی شخص کو وہ تمام حرام اور ممانعت اختیار کرلینے چاہئیں جن کا درجہ بعد میں
آتا ہے، اور جن سے وہ مکمل طور پر پہلوتہی کرتا ہے؟
ج… ایک جرم دُوسرے جرم کے اور
ایک گناہ دُوسرے گناہ کے جواز کی وجہ نہیں بن جاتا۔ جو شخص دُوسرے گناہوں سے بچتا
ہے مگر نماز نہیں پڑھتا اس کو یہ تو کہا جائے گا کہ: “جب ماشاء اللہ آپ دُوسرے
گناہوں سے بچتے ہیں تو آپ کو ترکِ نماز کے گناہ سے بھی بچنا چاہئے” مگر یہ کہنا
جائز نہیں کہ: “جب آپ ترکِ نماز کے گناہ سے نہیں بچتے تو دُوسرے گناہوں سے کیوں
پرہیز کرتے ہیں؟” بات یہ ہے کہ جو دُوسرے گناہوں سے بچتا ہے، مگر ایک بڑے گناہ میں
مبتلا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو کسی دن اس گناہ سے بچنے کی بھی توفیق عطا فرمادیں گے۔
علاوہ ازیں ہر گناہ ایک مستقل بوجھ ہے، جس کو آدمی اپنے اُوپر لاد رہا ہے، پس اگر
کوئی آدمی کسی گناہ میں مبتلا ہے تو اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ دُنیا بھر کی
گندگیوں کو آدمی سمیٹنا شروع کردے۔
س… ناصح
کا طرزِ عمل اور اندازِ نصیحت دُرست تھا یا غلط؟
ج… اُوپر کے جوابات سے معلوم
ہوگیا ہوگا، ان کا طرزِ عمل قطعاً غلط تھا، اور یہ نصیحت ہی نہیں تھی تو “اندازِ
نصیحت” کیا ہوگا․․․؟
کمپنی سے چھٹی لئے بغیر تبلیغ پر جانا
س… میں
جہاں کام کرتا ہوں، وہاں میرے ساتھ چار اور ساتھی ہیں، عموماً یہ ہوتا ہے کہ ایک
ایک ساتھی یا دو دو، دس بارہ دن کے لئے کام پر نہیں آتے ہیں اور حاضری لگتی رہتی
ہے، یہ چھٹیاں باری باری ہوتی ہیں، جب میری باری آتی ہے تو میں اکثر دس دن کے لئے
تبلیغ پر نکل جاتا ہوں اور حاضری لگتی ہے۔ اب بتائیے کہ یہ میرا تبلیغ کے لئے جانا
کیسا ہے؟ کیا اُلٹا گناہ تو نہیں؟ میرے جانے سے کمپنی کو کوئی نقصان بھی نہیں
ہوتا۔ مفصل جواب دیجئے، اور میرے جانے کا افسروں کو پتا نہیں چلتا۔
ج… کمپنی سے رُخصت لئے بغیر
غیرحاضری کرنا خیانت ہے، اور اس وقت کو کسی دُوسرے کام میں استعمال کرنا ناجائز
اور حرام ہے۔ آپ کو لازم ہے کہ غیرحاضری کے دنوں کی تنخواہ وصول نہ کیا کریں۔
امر بالمعروف، نہی عن المنکر کی شرعی حیثیت
س… قرآن
مجید میں اور احادیثِ مبارکہ میں بھی ایسی کئی احادیثِ مبارکہ ہیں اور ان آیات اور
احادیث کا مفہوم اس طرح بنتا ہے کہ مسلمان کے لئے نہ صرف یہ کہ خود نیک عمل کرے
بلکہ دُوسروں کو بھی ان کی تلقین کرے، اسی طرح نہ صرف خود بُرے کاموں سے پرہیز کرے
بلکہ دُوسروں کو بھی اس سے بچنے کی ترغیب دے۔ اس کام کو نہ کرنے پر احادیثِ مبارکہ
میں وعیدیں بھی آئی ہیں، سوال یہ ہے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر فرض ہے، یا
فرضِ کفایہ، یا واجب ہے؟ یا کوئی اور شکل یا یہ کہ مختلف صورتوں میں مختلف حکم؟
ج… مسئلہ بہت تفصیل رکھتا ہے،
مختصر یہ کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر فرض ہے، دو شرطوں کے ساتھ، ایک یہ کہ یہ
شخص مسئلے سے ناواقف ہو، دوم یہ کہ قبول کی توقع غالب ہو، اگر یہ دو شرطیں نہ پائی
جائیں تو فرض نہیں، البتہ بشرطِ نفع مستحب ہے اور اگر نفع کے بجائے اندیشہ نقصان
کا ہو تو مستحب نہیں۔
س… آج
کل دعوت و تبلیغ کے نام سے مسجدوں میں جو محنت ہو رہی ہے، اور اس سلسلے میں جو
اجتماعات ہوتے ہیں، ان میں جڑنا یا شمولیت اختیار کرنا فرض ہے یا اس کی کیا حیثیت
ہے؟ اس کے علاوہ یہ کہ میں بہت سے علمائے کرام کی مجالس میں جاتا رہتا ہوں، لیکن
انہوں نے کبھی چالیس دن، چار مہینے یا اجتماعات پر زور نہیں دیا بلکہ یہ حضرات
اکابرین انفرادی اعمال پر اور زُہد و تقویٰ پر زیادہ زور دیتے ہیں، میری رہنمائی
فرمائیں کہ ایک مسلمان کو کس طرح مکمل زندگی گزارنا چاہئے؟
ج… دعوت و تبلیغ کی جو محنت چل
رہی ہے، اس کے دو رُخ ہیں، ایک اپنی اصلاح اور اپنے اندر دِین کی طلب پیدا کرنا،
پس جس شخص کو ضروریاتِ دِین سے واقفیت، اپنی اصلاح کی فکر اور بزرگوں سے رابطہ و
تعلق ہو، اس کے لئے یہ کافی ہے۔ اور جس شخص کو یہ چیز حاصل نہ ہو، اس کے لئے اس
تبلیغ کے کام میں جڑنا بطور بدلیت فرض ہے۔ اور دُوسرا رُخ دُوسروں کی اصلاح کی فکر
کرنا ہے، یہ فرضِ کفایہ ہے، جو شخص اس کام میں جڑتا ہے، مستحقِ اَجر ہوگا، اور
جتنے لوگ اس کی محنت سے اس کام میں لگیں گے، ان سب کا اَجر اس کے نامہٴ عمل میں
درج ہوگا، اور جو نہیں جڑتا وہ گناہگار تو نہیں، اس اَجرِ خاص سے البتہ محروم ہے،
مگر یہ کہ اس سے بھی زیادہ اہم کام میں مشغول ہو۔
تبلیغ کا فریضہ اور گھریلو ذمہ داریاں
س… بعض
حضرات سہ روزہ، عشرہ، چالیس روزہ، چار مہینے یا سال کے لئے اکثر گھربار چھوڑ کر
علاقے یا شہر سے باہر جاتے ہیں تاکہ دِین کی بات سیکھیں اور سکھائیں، اکثر لوگ اس
کو سنت اور کچھ لوگ اس کو فرض کا درجہ دیتے ہیں۔ ایک عالم صاحب نے کہا ہے کہ یہ
سنت ہے، نہ فرض، بلکہ یہ ایک بزرگوں کا طریقہ ہے، تاکہ عام لوگ دِین کی باتیں
سمجھیں اور اس پر عمل کریں۔ اس کی حیثیت واضح فرمائیں۔
ج… دعوت و تبلیغ میں نکلنے سے
مقصود اپنی اصلاح اور اپنے ایمان اور عمل کو ٹھیک کرنا ہے، اور ایمان کا سیکھنا
فرض ہے، تو اس کا ذریعہ بھی فرض ہوگا، البتہ اگر کوئی ایمان کو صحیح کرچکا اور
ضروری اعمال میں بھی کوتاہی نہ کرتا ہو تو اس کے لئے فرض کا درجہ نہیں رہے گا۔
س… تبلیغ
پر جانے والے کچھ حضرات گھر والوں کا خیال کئے بغیر چلے جاتے ہیں، جس سے ان کے
بیوی بچوں وغیرہ کو معاشی پریشانی ہوتی ہے اور انہیں قرض مانگنا پڑتا ہے۔
ج… ان کو چاہئے کہ غیرحاضری کے
دنوں کا بندوبست کرکے جائیں، خواہ قرض لے کر، بچوں کو پریشان نہ ہونا پڑے۔
س… اسی
طرح کچھ حضرات اکثر اپنے گھر میں بتائے بغیر کچھ لوگوں کو مہمان بناکر لے آتے ہیں،
اور یہ ایک سے زیادہ مرتبہ ہوتا ہے، آج کل کے معاشی حالات میں گھر والے اس طرزِ
عمل سے پریشان ہوتے ہیں اور لوگ ان کے متعلق غلط باتیں کرتے ہیں۔
ج… اس میں گھر والوں کی
پریشانی کی تو کوئی بات نہیں، جس شخص کے ذمے گھر کے اخراجات ہیں اس کو فکرمند ہونے
کی ضرورت ہے۔ غلط باتیں تو لوگ انبیاء و اولیاء کے بارے میں بھی مشہور کرتے رہے
ہیں، عوام کی باتوں کی طرف التفات کرنا ہی غلط ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ شرعی نقطئہ نظر
سے صحیح ہے یا نہیں؟ وہ میں اُوپر ذکر کرچکا ہوں۔
س… اکثر
لوگ اسی وجہ سے تعلیمی حلقوں میں جو کہ عشاء کی نماز کے بعد مسجدوں میں ہوتی ہیں،
شرکت سے کتراتے ہیں، اور اپنے رشتہ داروں کو بھی روکتے ہیں، کیونکہ ان محفلوں میں
سہ روزہ وغیرہ کی دعوت دی جاتی ہے اور اس پر زور دیا جاتا ہے۔
ج… جو لوگ اس سے کتراتے ہیں، وہ اپنا نقصان کرتے ہیں، مرنے کے بعد
ان کو پتا چلے گا کہ وہ اپنا کتنا نقصان کرکے گئے اور تبلیغ والے کتنا کماکر
گئے․․․!
تبلیغ اور جہاد
س… تبلیغ
اور جہاد دونوں فرض ہیں، ترجیح کس کو دی جائے گی؟ وضاحت فرمادیں۔
ج… جہاں صحیح شرائط کے ساتھ
جہاد ہو رہا ہو، وہاں جہاد بھی فرضِ کفایہ ہے، اور دعوت و تبلیغ کا کام اپنی جگہ اہم
ترین فرض ہے۔ اگر مسلمانوں کے ایمان کو محفوظ کرلیا جائے تو جہاد بھی صحیح طریقے
سے ہوسکے گا، اس لئے عام مسلمانوں کو تو تبلیغ کے کام کا مشورہ دیا جائے گا۔ ہاں!
جہاں جہاد بالسیف کی ضرورت ہو، وہاں جہاد ضروری ہوگا۔
کیا تبلیغ میں نکل کر خرچ کرنے کا ثواب سات لاکھ گنا ہے؟
س… جو
تبلیغ والے کہتے ہیں کہ اللہ کے راستے میں نکل کر اپنے اُوپر ایک روپیہ خرچ کرنے
کا ثواب سات لاکھ روپے صدقہ کرنے کے برابر ملتا ہے، اور ایک نماز پڑھنے کا ثواب
انچاس کروڑ نمازوں جتنا ملتا ہے، کیا یہ صحیح ہے؟
ج… حدیث سے یہ مضمون ثابت ہوتا
ہے۔
تبلیغی جماعت سے متعلق چند سوال
س… تبلیغی
جماعت والے کیسے لوگ ہیں؟
ج… بہت اچھے لوگ ہیں، اپنے
دِین کے لئے مشقت اُٹھاتے ہیں۔
س… تبلیغی
جماعت والے کہتے ہیں کہ اللہ کے راستے میں نکلو، اللہ کے راستے میں ایک نماز کا
ثواب انچاس کروڑ نمازوں کے برابر ہے، لیکن میں نے سنا ہے کہ یہ ثواب جہاد فی سبیل
اللہ میں ہے؟
ج… تبلیغی کام بھی جہاد فی
سبیل اللہ کے حکم میں ہے۔
س… تبلیغی
حضرات کہتے ہیں کہ انفرادی عمل سے اجتماعی عمل افضل ہے۔
ج… اجتماعی کام میں شریک ہونا
چاہئے، لیکن دُوسرے وقت میں اپنے انفرادی اعمال کا بھی اہتمام کرنا چاہئے۔
“فضائلِ اعمال” پر چند شبہات کا جواب
س… ایک
دوست انڈیا سے کتاب لائے ہیں: “تبلیغی نصاب، ایک مطالعہ” تابش مہدی صاحب نے تحریر
کی ہے، ان کی دعوت یہ ہے کہ “تبلیغی نصاب” میں موضوع، ضعیف اور عقل سے بعید، کتاب
و سنت کی تعلیمات کے برعکس واقعات اور سب کچھ ہی اس تبلیغی نصاب میں موجود ہے۔ اور
شیخ الحدیث نے
عربی میں احادیث لکھ دی ہیں اور عربی ہی میں بتادیا کہ یہ روایت موضوع ہے، ضعیف ہے
یا مردود۔ مگر اُردو میں یہ نہیں لکھا جو بے ایمانی میں آتی ہے۔ اور گزارش کی ہے
کہ علمائے دیوبند اس کتاب سے ایسی احادیث اور حکایات و خواب دُور کردیں جو اسلامی
مزاج سے میل نہیں کھاتی ہیں، اور یہ کتاب صرف رضائے الٰہی کے لئے اور گمراہیت سے
بچانے کے لئے ہی لکھی ہے۔ اسی کتاب میں لکھا ہے کہ دیوبند کے بڑے بڑے اکابر بھی
شیخ الحدیث کی
اس کتاب سے واقف ہیں اور ان کی حیات میں جب بھی اکابرینِ دیوبند سے کہا گیا تو
جواب یہ ملا کہ: “اگر تبلیغی نصاب کی مندرجہ بالا غلطیوں پر تنقید کی گئی تو شیخ
الحدیث ناراض
ہوجائیں گے” اور یہ بات شرع سے ہٹ کر تھی، اس لئے تابش مہدی صاحب نے جو کہ مدیر
“الایمان” دیوبند ہیں، یا تھے، اس طرف توجہ فرمائی اور ہمت کی، وغیرہ وغیرہ۔ آج
اسی کتاب کی بدولت بہت سے دوست جو کہ پہلے بھی کچھ اس جماعت سے متنفر تھے، اب تو
ایک ہتھیار ان کے ہاتھ ہے، حق بات، حق ہی ہوتی ہے، (بشرطیکہ حق کی تفصیل وہ جانتا
ہو)، میں یہ صلاحیت نہیں رکھتا، اس لئے حضرت کی خدمت میں یہ چند چیزیں عرض کرتا
ہوں۔
۱:…
“تحریفِ قرآن کا عظیم
نمونہ” کے تحت جو کچھ لکھا ہے، خلاصہ لکھ دیتا ہوں۔ قرآنِ حکیم کی کسی بھی آیت یا
جملے کا وہ مفہوم اخذ کرنا جو منشائے خداوندی کے برعکس ہو، تحریف کہلاتا ہے، اور
جس نے قرآنِ حکیم میں تحریف کی، گویا اسلام کی بنیاد ہلادی، اور ایسے شخص کا تعلق
اسلام سے کس حد تک قائم رہ سکتا ہے؟ قارئین واقف ہیں کہ سورہٴ قمر کی آیت: “ولقد
یسرنا القراٰن للذکر فھل من مدّکر” کا ترجمہ ہر عالم نے وہی کیا ہے جو منشائے
خداوندی ہے، اس کے بعد مولانا اشرف علی تھانوی، شیخ الہند،
مولانا شاہ رفیع الدین،
مولانا شاہ عبدالقادر دہلوی کا
ترجمہ پیش کیا، پھر شیخ سعدی و
شاہ ولی اللہ کا
ترجمہ پیش کیا گیا، ایک ترجمہ لکھ دیتا ہوں: “تحقیق ہم نے قرآن کو نصیحت پکڑنے کے
لئے آسان کردیا ہے، پھر ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا” فضائل قرآن ص:۵۴ پر ہے۔ اصل بات یہ
ہے کہ کلام اللہ شریف کا حفظ یاد ہوجانا درحقیقت یہ خود قرآن شریف کا ایک کھلا
معجزہ ہے، ورنہ اس سے آدھی، تہائی مقدار کی کتاب بھی یاد ہونا مشکل ہی نہیں بلکہ
قریب بہ محال ہے، اس وجہ سے حق تعالیٰ شانہ نے اس کے یاد ہوجانے کو سورہٴ قمر میں
بطور احسان ذکر فرمایا، اور بار بار اس پر تنبیہ فرمائی، آیت کا ترجمہ: “ہم نے
کلامِ پاک کو حفظ کرنے کے لئے سہل کر رکھا ہے، کوئی ہے حفظ کرنے
والا۔” (فضائل
اعمال ص:۲۶۰)
۲:… حضرت شیخ الحدیث کے
والد اور حضرت حسین کے
تحت ہے: سیّد السادات حضرت حسین اپنے
بھائی حضرت حسن سے
بھی ایک سال چھوٹے تھے، اس لئے ان کی عمر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے
وقت اور بھی کم تھی، یعنی چھ برس اور چند مہینے کی، چھ برس کا بچہ کیا دِین کی
باتوں کو محفوظ کرسکتا ہے؟ لیکن اِمام حسین کی
روایتیں حدیث کی کتابوں میں نقل کی جاتی ہیں، محدثین نے انہیں اس جماعت میں شمار
کیا ہے جن سے آٹھ حدیثیں منقول ہیں۔
حکایاتِ
صحابہ ص:۱۶۳ میں حضرت شیخ
الحدیث نے
فائدہ کے تحت یہ بتایا ہے کہ اس قسم کے ذہانتی واقعات حضرت حسین ہی
نہیں، دُوسرے بہت سے صحابہ کی
زندگیوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ پھر فائدے کے ضمن میں حضرت شیخ الحدیث نے
اس سے بھی زیادہ قابلِ ذکر ذہانت کا تذکرہ بایں انداز فرمایا ہے: “میں نے اپنے
والد صاحب نوّر اللہ مرقدہ سے
بھی بار بار سنا ہے اور اپنے گھر کی بوڑھیوں سے بھی سنا ہے کہ میرے والد صاحب کا
جب دُودھ چھڑایا گیا تو پاوٴ پارہ حفظ ہوچکا تھا، اور ساتویں برس کی عمر میں قرآن
شریف پورا حفظ ہوچکا تھا، اور اپنے والد یعنی میرے دادا صاحب سے مخفی فارسی کا بھی
معتد بہ حصہ بوستان، گلستان، سکندرنامہ وغیرہ بھی پڑھ چکے تھے۔
(ایضاً ص:۱۶۴)
ملاحظہ
فرمائیں کہ حضرت موٴلف نے
کس سادگی اور حکمت کے ساتھ اپنے باپ کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور دُوسرے صحابہ و
اکابر پر فوقیت دے دی، اگر حضرت حسین نے
چھ برس کی عمر میں چند حدیثیں یاد کرلیں تو کون سی قابلِ ذکر بات ہوگئی، اس قسم کی
ذہانتیں تو دُوسرے لوگوں میں بھی پائی جاتی ہیں، مگر باعثِ حیرت بات تو یہ ہے کہ
حضرت شیخ کے
والد نے ماں کا دُودھ چھوڑنے سے قبل ہی پاوٴ پارہ حفظ کرلیا جبکہ بچے اس عمر میں
بول بھی مشکل پاتے ہیں، یہ واقعہ بیان کرکے موٴلفِ محترم نے اپنے والد کو نہ صرف
یہ کہ صحابہ کرام پر
فوقیت دے دی بلکہ حضراتِ انبیاء علیہم السلام سے بھی آگے بڑھادیا، اس قسم کے واقعات
تو ان کی زندگیوں میں شاذ و نادر ہی ملیں گے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ماں کی گود
میں محض چند ہی الفاظ بول سکے تھے، جبکہ یہاں پاوٴ پارہ حفظ کا ذکر ہے۔
۳:…
“آنحضور صلی اللہ علیہ
وسلم پر ایک عظیم بہتان” کے تحت ہے: خون کو خدا تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے، خواہ
وہ کسی کا بھی خون ہو، ارشادِ خداوندی ہے: “انما حرم علیکم المیتة والدم ولحم
الخنزیر” (النحل:۱۱۵) سورہٴ بقرہ آیت:۱۷۳ اور سورة المائدة
آیت:۳میں بھی یہ حکم من و عن
موجود ہے، یہ ایک مُسلَّمہ اُصول ہے کہ جس معاملے میں قرآن یا حدیث کا صریح حکم
موجود ہو، اس میں کسی قسم کی تأویل و منطق کی گنجائش نہیں باقی رہتی۔ لہٰذا قرآن
کی رُو سے خون ہمیشہ ہمیشہ اور ہر فردِ بشر کے لئے حرام ہے، اب اگر اپنی مرضی سے
کوئی اسے جائز قرار دیتا ہے تو گویا وہ خدا کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ ان
معروضات کے بعد شیخ الحدیث کی
ایک کاوشِ فکر ملاحظہ فرمائیں۔
حضورِ
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ سینگیاں لگوائیں اور جو خون نکلا وہ حضرت
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو دیا کہ اس کو کہیں دبادیں، وہ گئے اور آکر عرض
کیا کہ دبادیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: کہاں؟ عرض کیا: میں نے پی
لیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے بدن میں میرا خون جائے گا، اس کو
جہنم کی آگ نہیں
چھوسکتی۔ (حکایاتِ
صحابہ ص:۱۷۳)
لگے
ہاتھوں اسی مضمون کی دُوسری روایت بھی ملاحظہ ہو۔
اُحد
کی لڑائی میں جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہٴ انور یا سر مبارک میں خود
کے دو حلقے گھس گئے تھے ․․․․ الخ، تو حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے
والد ماجد مالک بن سنان نے اپنے لبوں سے اس خون کو چوس لیا ․․․․ الخ۔
(حکایاتِ صحابہ ص:۱۷۳) دُوسری روایت میں نے صرف
اشارے کے طور پر لکھ دی ہے، پوری نہیں لکھی۔
ایک ہی
مضمون کی یہ دو منقولہ روایتیں ہیں، ایک خمیس کے حوالے سے، اور دُوسری قرة العیون
کے حوالے سے، یہ دونوں کتابیں اہلِ علم کے نزدیک “میلادِ اکبر”، “میلادِ گوہر” یا
“یوسف زلیخا” اور “جنگ زیتون” جیسی غیرمستند اور گمراہ کن ہیں۔
پہلی
بات تو یہ ہے کہ ایسی خلافِ شریعت حرکت کوئی صحابیٴ رسول دانستہ ہرگز ہرگز نہیں
کرسکتا، ایسے خون کا حرام ہونا قرآن مجید میں صریح طور پر موجود ہے، لیکن اگر
تھوڑی دیر کے لئے بادِلِ نخواستہ یہ فرض ہی کرلیا جائے کہ حضرت ابنِ زبیر اور مالک
بن سنان رضی اللہ عنہما نے محبت میں آکر اپنے محبوب کا خون پی لیا ہوگا، اگرچہ دِل
اس کے لئے بھی آمادہ نہیں ہے، مگر یہ بات کس طرح مان لی جائے کہ حضور صلی اللہ
علیہ وسلم نے ان دونوں صحابہ کو اس خلافِ قرآن عمل سے روکنے یا منع کرنے کے بجائے
انہیں دوزخ سے خلاصی کی خوشخبری دے دی اور یہ کہہ کر کہ جس کے بدن میں میرا خون
جائے گا اس کو جہنم کی آگ نہیں چھوسکے گی، آئندہ کے لئے اجازت بلکہ ترغیب دی، اس
لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم رسول تھے، نبی و رسول کا ایک ایک سانس اس کی شریعت کا
نمائندہ ہوتا ہے، نبی کی زبان سے نکلی ہوئی بات شریعت بن جاتی ہے، اس لئے ایسی
عظیم ہستی کی طرف اس قسم کی غلط بات کا انتساب حد درجہ ناجائز اور نادُرست ہے، ان
سب کے علاوہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظافتِ طبعی بھی اس روایت کی تکذیب کرتی
ہے۔
غالباً
حضرت شیخ الحدیث کی
نظر سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ضرور گزری ہوگی: “من کذب علیّ متعمّدًا
فلیتبوأ مقعدہ من النّار” بلاشبہ حضرت شیخ الحدیث نے
یہ بے سند روایت بیان کرکے رسول پر ایک عظیم اِتہام کا ارتکاب کیا ہے، پھر فائدہ
کے نوٹ میں لکھا ہے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فضلات پاخانہ پیشاب وغیرہ سب پاک
ہیں، اس لئے اس میں کوئی اِشکال نہیں۔ (حکایاتِ صحابہ ص:۱۷۲) لیکن موصوف مرحوم نے یہ
نہ بتایا کہ انہیں یہ بات کہاں سے ملی؟ براہِ راست قرآن میں موجود ہے یا حضور صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا؟ یا آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے عملاً اس کا
ثبوت دیا؟ آگے لکھا ہے: خیر! محترم شیخ الحدیث تو
اس دُنیا میں نہیں رہے، ان کے خلفاء ہی کی خدمت میں التماس ہے کہ وہ کسی مستند
حوالے سے کم از کم ایسے کسی ایک ہی صحابی کی نشاندہی فرمائیں جس نے آپ کے فضلات
پاخانہ پیشاب وغیرہ نوشِ جاں فرماکر اُمت کے لئے حلال اور پاک ہونے کا ثبوت دیا
ہو، میں ان کا بے حد ممنون و متشکر ہوں گا۔
۴:…
“یہ اعجوبے” کے تحت میں،
میں ایک ہی بات نقل کرتا ہوں، فضائل صدقات ص:۴۷۲ پر ایک بزرگ کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ
روزانہ ۱۰۰۰ رکعتیں کھڑے
ہوکر، ۱۰۰۰ بیٹھ کر پڑھا کرتے
تھے، جبکہ ایک رکعت فی منٹ کے حساب اس طرح۳۳ گھنٹوں میں ممکن ہے، اور شب و روز میں کل ۲۴ گھنٹے ہوتے ہیں،
آخر مزید ۹گھنٹے کہاں سے آئے؟ جواب
کا منتظر رہوں
گا۔ مہتاب احمد
سلطنت عمان
ج… بسم
الله الرحمن الرحیم
الحمدلله
وسلام علی عبادہ الذین اصطفی!
تابش
مہدی کی یہ کتاب کئی سال پہلے نظر سے گزری تھی، اور بعض احباب کے اصرار پر یہ
داعیہ بھی اُس وقت پیدا ہوا تھا کہ اس کا جواب لکھا جائے، لیکن کتاب کے مطالعے کے
بعد معلوم ہوا کہ کتاب کا مصنف نہ تو علمِ حدیث کے فن سے واقف ہے، اور نہ دیگر
اسلامی علوم پر اس کی نظر ہے، اس بے چارے کے علم و فہم کا حدودِ اَربعہ کچھ اُردو
کتب و رسائل کا سطحی مطالعہ ہے، اور بس․․․! ایسے شخص کی تردید کے درپے ہونا محض
اضاعتِ وقت ہے۔
دُوسری
طرف حضرت شیخ نوّر اللہ مرقدہ کے رسائل
کو حق تعالیٰ شانہ نے ایسی مقبولیت عطا فرما رکھی ہے کہ دُنیا بھر کی مختلف زبانوں
میں ان رسائل کا مذاکرہ ہورہا ہے، اور دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں شاید ایک لمحہ
بھی ایسا نہ گزرتا ہوگا، جس میں دُنیا کے کسی نہ کسی خطے میں ان رسائل کے سننے
سنانے کا شغل جاری نہ رہتا ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ مقبولیت محض من جانب اللہ ہے، کسی
انسان کی سعی و کسب کا نتیجہ نہیں۔ پس جبکہ حضرت مصنف کے اِخلاص
و للہیت کی برکت سے حق تعالیٰ شانہ نے ان کتابوں کو ایسی خارقِ عادت مقبولیت عطا
فرما رکھی ہے تو تابش مہدی جیسے لوگوں کی سطحی تنقید سے ان کا کیا بگڑتا ہے؟
علاوہ
ازیں سنت اللہ اسی طرح جاری ہے کہ جس شخصیت کو من جانب اللہ شرفِ قبولیت کا جامہ
پہنایا جاتا ہے، کچھ لوگ ایسی شخصیت کی پوستین دری اور اس پر بے جا تنقید کو اپنا
محبوب مشغلہ بنالیتے ہیں، اس قانون سے اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام علیہم السلام
کو بھی مستثنیٰ نہیں فرمایا، جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے:
“وَکَذٰلِکَ
جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ
بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا، وَلَوْ شَآءَ رَبُّکَ مَا
فَعَلُوْہُ فَذَرْھُمْ وَمَا یَفْتَرُوْنَ۔”
(الأنعام:۱۱۲)
ترجمہ:…
“اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دُشمن بہت سے شیطان پیدا کئے، کچھ آدمی اور کچھ
جِنّ، جن میں سے بعضے دُوسرے بعضوں کو چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے تھے
تاکہ ان کو دھوکے میں ڈال دیں، اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو یہ ایسے کام نہ
کرسکتے، سو ان لوگوں اور جو کچھ یہ افترا پردازی کررہے ہیں اس کو آپ رہنے
دیجئے۔” (ترجمہ حضرت تھانوی)
اور
یہ چیز ان اکابر کے رفعِ درجات کا ذریعہ ہے، جیسا کہ شیعہ کے اتہامات آج تک حضرات
شیخین رضی اللہ عنہما کے رفعِ درجات کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ اس سنت اللہ کے مطابق
حضرت شیخ نوّر اللہ مرقدہ کے مقابلے
میں بھی تابش مہدی جیسے لوگوں کا وجود ضروری تھا، اب اگر تابش مہدی کے تمام
الزامات کا معقول اور مدلل جواب بھی لکھ دیا جائے تب بھی ان صاحب کو “رُجوع” کرنے
اور اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کی توفیق نہیں ہوگی، بلکہ شیطان ان کو نئے نئے نکتے
تلقین کرتا رہے گا۔
الغرض!
ان وجوہ و اسباب کی بنا پر تابش مہدی کے تنقیدی رسالے کا جواب لکھنا غیرضروری بلکہ
کارِ عبث معلوم ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ آنجناب کا گرامی نامہ بھی کئی مہینوں سے رکھا
ہے، لیکن اس کا جواب دینے کو جی نہ چاہا، آج آپ کی خاطر دِل پر جبر کرکے قلم ہاتھ
میں لیا ہے، کوشش کروں گا کہ آپ کے چار سوالوں کا جواب گو مختصر ہو، مگر شافی ہو
تاکہ آپ کی پریشانی دُور ہوجائے۔
۱:… تحریفِ قرآن کا الزام:
سورہ
قمر کی آیت:۲۲ “وَلَقَدْ
یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ” کا جو ترجمہ حضرتِ شیخ نوّر اللہ
مرقدہ نے “فضائلِ قرآن” میں کیا ہے، یعنی: “ہم نے کلامِ پاک کو حفظ
کرنے کے لئے سہل کر رکھا ہے، کوئی ہے حفظ کرنے والا؟”
تابش
مہدی اپنے محدود سطحی مطالعے کی بنا پر اس کے بارے میں تحریفِ قرآن کا “فتویٰ”
صادر فرماتے ہیں، کیونکہ یہ ترجمہ عام اُردو تراجم کے خلاف ہے، اگر ان کو مستند
عربی تفاسیر کے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہوتا تو انہیں معلوم ہوتا کہ حضرتِ شیخ نوّر
اللہ مرقدہ کا بیان کردہ بھی صحیح ہے اور یہ بھی سلف صالحین سے منقول
ہے، کیونکہ اس آیتِ کریمہ کے دو مفہوم بیان کئے گئے ہیں، اور اپنی جگہ دونوں صحیح
ہیں۔
ایک
یہ کہ: “ہم نے قرآن کو حفظ کے لئے آسان کردیا ہے۔”
اور
دُوسرا یہ کہ: “ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لئے آسان کردیا ہے۔”
بعض
اکابر نے دونوں مفہوم نقل کردئیے ہیں، اور بعض نے صرف ایک کو اختیار فرمایا ہے،
اور بعض نے دونوں کو ذکر کرکے ایک کو ترجیح دی ہے، جو مفہوم حضرتِ شیخ نوّر اللہ
مرقدہ نے اختیار کیا ہے، اس کے لئے چند تفاسیر کے حوالے ذکر کردینا
کافی ہے۔
۱:… تفسیر جلالین میں ہے:
“سھّلناہ
للحفظ أو ھیّاناہ للتذکر۔”
ترجمہ:…
“ہم نے اس کو آسان کردیا ہے حفظ کے لئے، یا مہیا کر رکھا ہے نصیحت حاصل کرنے کے
لئے۔”
۲:… تفسیر کشاف میں ہے:
“أی سھّلناہ للادّکار
والاتّعاظ ․․․․․ وقیل: ولقد
سھّلناہ للحفظ وأعنّا علیہ من أراد حفظہ، فھل من طالب لحفظ لیعان علیہ ․․․․ ویروی أن کتب
أھل الأدیان نحو التوراة والانجیل لا یتلوھا أھلھا الا نظرًا، ولا یحفظونھا ظاھراً
کما القرآن۔” (ج:۴ ص:۴۳۵)
ترجمہ:…
“ہم نے اس قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لئے آسان کر رکھا ہے ․․․․․ اور
کہا گیا ہے کہ ہم نے اس کو حفظ کرنے کے لئے آسان کر رکھا ہے، اور جو شخص اس کو حفظ
کرنا چاہے اس کی اعانت اپنے ذمے لے رکھی ہے، پس ہے کوئی اس کے حفظ کرنے والا کہ اس
کی مدد کی جائے؟ مروی ہے کہ پہلے ادیان کے لوگ اپنی کتابیں ناظرہ پڑھ سکتے تھے، قرآن
کی طرح حفظ نہیں پڑھ سکتے تھے۔”
۳:… اِمام ابنِ جوزی زاد
المسیر میں لکھتے ہیں:
“﴿وَلَقَدْ
یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ﴾ أی سھّلناہ ﴿لِلذِّکْرِ﴾ أی للحفظ والقرائة ﴿فَھَلْ مِنْ
مُّدَّکِرٍ﴾ أی من ذاکر یذکرہ ویقرأہ، والمعنی ھو الحث علٰی قرائتہ وتعلمہ، قال
سعید ابن جبیر: لیس من کتب الله کتاب یقرأ کلّہ ظاھرًا الا القرآن۔” (زاد
المسیر ج:۸ ص:۹۴،۹۵)
ترجمہ:…
“اور ہم نے آسان کردیا قرآن کو ذکر کرکے، یعنی حفظ و قرأت کے لئے، پس کیا ہے کوئی
یاد کرنے والا، جو اس کو یاد کرے اور پڑھے؟ اور مقصود قرآنِ کریم کی قرأت اور اس
کے سیکھنے کی ترغیب دِلانا ہے۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں
کہ: قرآنِ کریم کے سوا کتبِ اِلٰہیہ میں کوئی کتاب ایسی نہیں جو پوری کی پوری حفظ
پڑھی جاتی ہو۔”
اِمام
ابنِ جوزی نے صرف وہی مفہوم اختیار کیا ہے جو حضرتِ شیخ نوّر اللہ
مرقدہ نے “فضائلِ قرآن” میں ذکر فرمایا۔
۴:… تفسیر قرطبی میں ہے:
“أی
سھّلناہ للحفظ وأعنّا علیہ من أراد حفظہ فھل من طالب لحفظہ فیعان علیہ ․․․․ وقال سعید بن
جبیر: لیس من کتب الله کتاب یقرأ کلہ ظاھرًا الا القرآن۔” (ج:۱۷ ص:۱۳۴)
ترجمہ:…
“یعنی ہم نے اس کو حفظ کرنے کے لئے آسان کردیا ہے اور جو شخص اس کو حفظ کرنا چاہے
اس کی اعانت کی ہے، پس کیا کوئی اس کو حفظ کرنے کا طالب ہے کہ اس کی اعانت کی
جائے؟ سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ: کتبِ اِلٰہیہ میں قرآن کے سوا کوئی کتاب نہیں
جو پوری حفظ پڑھی جاتی ہو۔”
اِمام
قرطبی نے بھی صرف اسی مفہوم کو لیا ہے۔
۵:… تفسیر ابنِ کثیر میں ہے:
“أی
سھّلناہ لفظہ، ویسرنا معناہ لمن أراد لیتذکّر الناس ․․․․ قال مجاھد:
﴿وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ﴾ یعنی ھونّا قرائتہ، وقال السدّی:
یسرنا تلاوتہ علی الألسن، وقال الضحاک: قال ابن عباس رضی الله عنہ: لو لا أن الله
یسّرہ علٰی لسان الآدمیین ما استطاع أحد من الخلق أن یتکلم بکلام الله عزّ وجلّ
وقولہ: ﴿فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ﴾ أی فھل من متذکر بھٰذا القرآن الذی یسّر الله
حفظہ ومعناہ۔” (مختصر تفسیر ابن کثیر ج:۳ ص:۴۱۰)
ترجمہ:…
“یعنی جو شخص قرآن کو حاصل کرنا چاہے ہم نے اس کے لئے اس کے الفاظ کو سہل اور اس
کے معنی کو آسان کردیا ہے، تاکہ لوگ غور کریں ․․․․․ اِمامِ تفسیر مجاہد فرماتے
ہیں کہ: “ہم نے قرآن کو آسان کردیا ہے یاد کے لئے” یعنی اس کے پڑھنے کو آسان کردیا
ہے۔ سدی کہتے ہیں کہ: آیت کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اس کی تلاوت کو
زبانوں پر آسان کردیا ہے۔ اور ضحاک حضرت ابنِ
عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: “اگر اللہ تعالیٰ نے
آدمیوں کی زبانوں پر اس قرآن کو آسان نہ کردیا ہوتا تو مخلوق میں سے کوئی بھی
کلامِ اِلٰہی کو زبان سے ادا نہ کرسکتا۔” “فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ” یعنی کیا کوئی
اس قرآن کے ساتھ نصیحت حاصل کرنے والا ہے جس کے حفظ و معنی کو اللہ تعالیٰ نے آسان
کردیا ہے، (اور آگے ابنِ شوذب، مطر ورّاق اور قتادہ سے بھی
یہی مضمون نقل کیا ہے)۔”
مندرجہ
بالا عبارت سے واضح ہے کہ جو مفہوم حضرتِ شیخ نوّر اللہ مرقدہ نے ذکر
فرمایا، وہ ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اور تابعین میں
سے اِمام مجاہد، قتادہ، ضحاک، مطر ورّاق اور سدی رحمہم اللہ سے منقول ہے۔
۶:… تفسیر البحر المحیط میں ہے:
“أی
للادّکار والاتّعاظ ․․․․ وقیل: للذکر
للحفظ، أی سھّلناہ للحفظ ․․․․․ وقال ابن جبیر:
لم یستظھر شیء من الکتب الالٰھیة غیر القرآن۔”
ترجمہ:…
“یعنی ہم نے قرآن کو نصیحت کرنے کے لئے آسان کردیا ہے ․․․․․ اور کہا گیا
ہے کہ ذکر سے مراد حفظ ہے، یعنی ہم نے اس کو حفظ کے لئے آسان کردیا
ہے ․․․․․ ابنِ جبیر فرماتے
ہیں کہ: قرآن کے سوا کتبِ اِلٰہیہ میں سے کوئی کتاب حفظ نہیں کی گئی۔”
۷:… تفسیر رُوح المعانی میں ہے:
“للذکر
أی للتذکر والاتّعاظ ․․․․․ وقیل: المعنی
سھّلنا القرآن للحفظ ․․․․․ فھل من طالب
لحفظہ لیعان علیہ؟ ومن ھنا قال ابن جبیر: لم یستظھر شیء من الکتب الالٰھیة غیر
القرآن، وأخرج ابن المنذر وجماعة عن مجاھد أنہ قال: یسّرنا القرآن ھونّا قرائتہ۔”
ترجمہ:…
“ہم نے قرآن کو ذکر کے لئے یعنی نصیحت حاصل کرنے کے لئے آسان کردیا
ہے ․․․․․ اور کہا گیا ہے کہ: آیت کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے قرآن کو حفظ
کرنے کے لئے آسان کردیا ہے ․․․․․ پس کیا کوئی اس کے حفظ کرنے کا طالب ہے
کہ حفظ کرنے کے لئے اس کی اعانت کی جائے۔ اسی بنا پر سعید بن جبیر فرماتے
ہیں کہ: کتبِ اِلٰہیہ میں قرآن کے علاوہ کوئی کتاب حفظ نہیں کی گئی۔ ابنِ منذر اور ایک
جماعت نے حضرت مجاہد سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: ہم نے قرآن کو سہل کر
رکھا ہے، یعنی ہم نے اس کی قرأت کو آسان کر رکھا ہے۔”
۸:… تفسیر مظہری میں ہے:
“أی
للادّکار والاتّعاظ بأن ذکرنا فیہ أنواع المواعظ والعبر والوعید وأحوال الأمم
السابقة، والمعنی یسّرنا القرآن للحفظ بالاختصار وعذوبة اللفظ۔”
ترجمہ:…
“یعنی ہم نے قرآن کو آسان کردیا ہے نصیحت حاصل کرنے کے لئے بایں طور کہ ہم نے اس
میں انواع و اقسام کی نصیحتیں، عبرتیں، وعیدیں اور گزشتہ اُمتوں کے حالات ذکر
کردئیے ہیں، یا یہ معنی ہیں کہ ہم نے قرآن کو اِختصار اور الفاظ کی شیرینی کے
ذریعہ حفظ کرنے کے لئے آسان کردیا ہے۔”
۹:… تفسیر بغوی میں ہے:
“﴿وَلَقَدْ
یَسَّرْنَا﴾ سھّلنا ﴿الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ﴾ لیتذکر ویعتبر بہ، وقال سعید بن
جبیر: یسّرناہ للحفظ والقرائة، ولیس شیء من کتب الله یقرأ کلّہ ظاھرًا الا
القرآن۔”
ترجمہ:…
“اور ہم نے قرآن کو سہل کر رکھا ہے ذکر کے لئے، تاکہ اس کے ذریعہ نصیحت و عبرت
حاصل کی جائے، اور سعید بن جبیر فرماتے
ہیں کہ: ہم نے اس کو حفظ و قرأت کے لئے آسان کر رکھا ہے، اور کتبِ اِلٰہیہ میں
قرآنِ کریم کے علاوہ اور کوئی کتاب ایسی نہیں جس کو حفظ کیا جاتا ہو۔”
۱۰:… تفسیر کبیر میں ہے:
“ثم
قال تعالٰی: ﴿وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ﴾
وفیہ وجوہ، الأوّل: للحفظ، فیمکن حفظہ ویسھل، ولم یکن شیء من کتب الله تعالٰی یحفظ
علٰی ظھر القلب غیر القرآن، وقولہ تعالٰی: ﴿فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ﴾ أی ھل من
یحفظہ ویتلوہ؟”
ترجمہ:…
“پھر فرمایا: “اور ہم نے قرآن کو آسان کر رکھا ہے، پس کیا ہے کوئی یاد کرنے والا؟”
اس میں کئی وجوہ ہیں، اوّل یہ کہ ذکر کے لئے، سے مراد ہے: “حفظ کرنے کے لئے” پس اس
کا حفظ کرنا ممکن اور سہل ہے، اور کتبِ اِلٰہیہ میں قرآن کے سوا کوئی کتاب ایسی
نہیں جو زبانی حفظ کی جاتی ہو۔ اور ارشادِ خداوندی “فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ” کا
مطلب یہ ہے کہ ہے کوئی جو اس کو حفظ کرے اور اس کی تلاوت کرے؟”
مندرجہ
بالا حوالوں سے واضح ہوا ہوگا کہ حضرتِ شیخ نوّر اللہ مرقدہ کے ذکر
کردہ مفہوم کو نہ صرف یہ کہ اکابر مفسرین نے ذکر کیا ہے، بلکہ بہت سے اکابر نے تو
یہی مفہوم بیان فرمایا ہے، اور اس مفہوم کے بیان کرنے والوں میں نام آتے ہیں: حضرت
ترجمان القرآن عبداللہ بن عباس، حضرت سعید بن
جبیر، حضرت مجاہد، حضرت قتادہ اور مطر
ورّاق جیسے اکابر صحابہ و تابعین کے۔ لیکن
تابش مہدی صاحب کے نزدیک یہ مفہوم بیان کرنا قرآنِ کریم کی تحریف ہے، اِنَّا ِللهِ
وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ!
اس
وضاحت کے بعد تابش مہدی سے دریافت کیا جائے کہ کیا ان کو اپنی غلطی کا اعتراف کرنے
اور ایک جلیل القدر محدث اور عارفِ ربانی پر تحریف کا الزام واپس لینے کی توفیق
ہوگی؟ اور کیا ان کے خیال میں مندرجہ بالا اکابر مفسرین سب کے سب قرآن کی تحریف
کرنے والے تھے؟ نعوذ بالله من الجھل والغباوة!
۲:… اپنے والد کو حضراتِ صحابہ پر فوقیت
دینے کی تہمت
حضرتِ
شیخ نوّر اللہ مرقدہ نے حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بچپن کی
یادداشت کے جو واقعات لکھے ہیں، ان کے تحت یہ فائدہ درج فرمایا ہے:
“بچپن
کا زمانہ حافظے کی قوّت کا زمانہ ہوتا ہے، اس وقت کا یاد کیا ہوا کبھی بھی نہیں
بھولتا، ایسے وقت میں اگر قرآن پاک حفظ کرادیا جائے تو نہ کوئی دِقت ہو، نہ وقت
خرچ ہو۔”
اور
پھر اس فائدہ کی وضاحت کے لئے اپنے والد ماجد کا قصہ
ذکر فرمایا ہے، اس کے آخر میں لکھتے ہیں:
“یہ
پُرانے زمانے کا قصہ نہیں ہے، اسی صدی کا واقعہ ہے، لہٰذا یہ بھی نہیں کہا جاسکتا
کہ صحابہ جیسے قویٰ اور ہمتیں اب کہاں سے لائی جائیں؟”
اس
سے واضح ہوجاتا ہے کہ فائدہ میں جو بچپن کے اندر قرآنِ کریم حفظ کرانے کی ترغیب دی
گئی تھی کہ اس کی تائید کے لئے والد ماجد کا واقعہ
ذکر فرمایا ہے۔
“حکایاتِ
صحابہ” جب سے تألیف ہوئی ہے، اس کو بلامبالغہ کروڑوں انسانوں نے پڑھا
سنا ہوگا، لیکن اس واقعے کے سیاق و سباق سے یہ خبیث مضمون کبھی کسی کے ذہن میں
نہیں آیا، جو تابش مہدی نے اخذ کیا ہے، جو مضمون نہ مصنف کے ذہن میں ہو، نہ اس کی
سیاق و سباق سے اخذ کیا جاسکتا ہو، اور نہ اس کے لاکھوں قاریوں کے حاشیہٴ خیال میں
بھی گزرا ہو، اس کو مصنف کی طرف منسوب کرنا، آپ ہی فیصلہ کرسکتے ہیں کہ دیانت و
امانت کی کون سی قسم ہے؟
اور
حضرتِ شیخ کے والد ماجد کے واقعے
کا سیّدنا عیسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰة والسلام سے مقابلہ کرنا بھی حماقت و
غباوت کی حد ہے۔ حضرت عیسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰة والسلام کا واقعہ ولادت کے
ابتدائی اَیام کا ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے کہ پیدائش کے بعد حضرت مریم
رضی اللہ عنہا بچے کو اُٹھائے ہوئے قوم میں آئیں، لوگوں نے دیکھے ہی چہ میگوئیاں
شروع کیں اور حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے بارے میں ناشائستہ الفاظ کہے، ان کے جواب
میں حضرت مریم رضی اللہ عنہا نے بچے کی طرف اشارہ کردیا، تب حضرت عیسیٰ علیٰ نبینا
وعلیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا:
“اِنِّیْ
عَبْدُ اللهِ اٰتَانِیَ الْکِتٰبَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا، وَجَعَلَنِیْ مُبٰرَکًا
أَیْنَ مَا کُنْتُ وَأَوْصَانِیْ بِالصَّلٰوةِ وَالزَّکٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّا،
وَبَرًام بِوَالِدَتِیْ وَلَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا، وَالسَّلَامُ
عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَیَوْمَ أَمُوْتُ وَیَوْمَ أُبْعَثُ حَیًّا۔”
(مریم:۳۳)
ترجمہ:…
“وہ بچہ (خود ہی) بول اُٹھا کہ میں اللہ کا (خاص) بندہ ہوں، اس نے مجھ کو کتاب
(یعنی اِنجیل) دی اور اس نے مجھ کو نبی بنایا (یعنی بنادے گا) اور مجھ کو برکت
والا بنایا، میں جہاں کہیں بھی ہوں، اور اس نے مجھ کو نماز اور زکوٰة کا حکم دیا
جب تک میں (دُنیا میں) زندہ رہوں اور مجھ کو میری والدہ کا خدمت گزار بنایا اور اس
نے مجھ کو سرکش بدبخت نہیں بنایا، اور مجھ پر (اللہ کی جانب سے) سلام ہے جس روز
میں پیدا ہوا، اور جس روز مروں گا، اور جس روز (قیامت) میں زندہ کرکے اُٹھایا
جاوٴں
گا۔” (ترجمہ
حضرت تھانوی)
کہاں
طفل یک روزہ کا ایسی فصیح و بلیغ تقریر کرنا، اور کہاں دو سال کے بچے کا قرآنِ
کریم کی چند سورتیں یاد کرلینا! کیا ان دونوں کے درمیان کوئی مناسبت ہے․․․؟
تابش
مہدی جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں، لیکن اہلِ عقل جانتے ہیں کہ ڈیڑھ سال کا بچہ
عموماً بولنے لگتا ہے، اب اگر چھ مہینے کی طویل مدّت میں حضرتِ شیخ نوّر اللہ
مرقدہ کے والد ماجدنے پاوٴ پارہ یاد کرلیا تو اس میں تعجب کی کونسی بات ہے؟ اور
اس کا موازنہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزہٴ تکلم فی المہد سے کرنا تابش مہدی
جیسے غیرمعمولی “ذہین” لوگوں ہی کا کام ہوسکتا ہے، ورنہ کون عقل مند ہوگا جو دو
ڈھائی سالہ بچے کے چند چھوٹی سورتیں یاد کرلینے کو ایک خارقِ عادت واقعہ اور
معجزہٴ عیسوی سے بالاتر اُعجوبہ سمجھنے لگے․․․؟
۳:… حضرت ابنِ زبیر رضی اللہ عنہما کا
واقعہ
تیسرے
سوال کے تحت تابش مہدی نے جو کچھ لکھا ہے، اس کا تجزیہ کیا جائے تو دو بحثیں نکلتی
ہیں۔ اوّل یہ کہ ابنِ زبیر اور ملک بن سنان رضی اللہ عنہما کے جو واقعات حضرتِ شیخ
نوّر اللہ مرقدہ نے ذکر فرمائے ہیں، وہ مستند ہیں یا نہیں؟ دُوسری بحث یہ کہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فضلات کا کیا حکم ہے، وہ پاک ہیں یا ناپاک؟
جہاں
تک پہلی بحث کا تعلق ہے، اس سلسلے میں یہ گزارش ہے کہ یہ دونوں واقعے مستند ہیں،
اور حدیث کی کتابوں میں سند کے ساتھ روایت کئے گئے ہیں۔
چنانچہ
ابنِ زبیر رضی اللہ عنہ کا واقعہ متعدّد سندوں کے ساتھ متعدّد صحابہ کرام سے مروی
ہے، حوالے کے لئے درج ذیل کتابوں کی مراجعت کی جائے:
مستدرک
حاکم (ج:۳ ص:۵۵۴)، حلیة الاولیاء (ج:۱ ص:۳۳۰)، سننِ کبریٰ بیہقی (ج:۷ ص:۶۷)، کنز العمال بروایت ابنِ عساکر (ج:۱۳ ص:۶۴۹)،
مجمع الزوائد بروایت طبرانی و بزار (ج:۸ ص:۲۷۰)، الاصابہ بروایت ابویعلیٰ والبیہقی
فی الدلائل (ج:۲ص:۳۱۰)، سیر اعلام النبلاء للذہبی (ج:۳ ص:۳۶۶)، الخصائص الکبریٰ (ج:۲ ص:۲۵۲)۔
اب
اس واقعے کے ثبوت کے بارے میں چند اکابر محدثین کی آراء ملاحظہ فرمائیں۔
اِمام
بیہقی رحمہ اللہ سننِ کبریٰ (ج:۷ ص:۶۷) میں اس واقعے کو حضرت عبداللہ بن زبیر
رضی اللہ عنہما سے روایت کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
“قال
الشیخ رحمہ الله: وروی ذٰلک من وجہ آخر عن أسماء بنت أبی بکر وعن سلمان فی شرب ابن
الزبیر رضی الله عنہم دمہ۔”
ترجمہ:…
“حضرت ابنِ زبیر رضی اللہ عنہما کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خون پی جانے کا
واقعہ حضرت اسماء بنت ابی بکر اور حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہم سے بھی متعدّد
اسانید سے مروی ہے۔”
حافظ
نورالدین ہیثمی مجمع الزوائد (ج:۸ ص:۲۷۰) میں اس واقعے کو خصائصِ نبوی کے باب
میں درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
“رواہ
الطبرانی والبزّار ورجال البزّار رجال الصحیح غیر ھنید بن القاسم وھو ثقة۔”
ترجمہ:…
“یہ طبرانی اور بزار کی روایت ہے، اور بزار کے تمام راوی صحیح کے راوی ہیں، سوائے
ہنید بن القاسم کے، اور وہ بھی ثقہ ہیں۔”
حافظ
شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ نے تلخیص مستدرک (ج:۳ ص:۵۵۴) میں
اس پر سکوت کیا ہے، اور سیر اعلام النبلاء (ج:۳ ص:۳۶۶) میں
لکھتے ہیں:
“رواہ أبو یعلٰی فی
مسندہ وما علمت فی ھنید جرحةً۔”
ترجمہ:…
“یہ حدیث اِمام ابویعلیٰ نے اپنی مسند میں روایت کی ہے اور ہنید راوی کے بارے میں
کسی جرح کا علم نہیں۔”
کنز
العمال (ج:۱۳ ص:۴۶۹) میں اس کو ابنِ عساکر کے حوالے سے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:
“رجالہ ثقات” (اس کے تمام راوی ثقہ ہیں)۔
مالک
بن سنان کا واقعہ:
حضرت
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے والد ماجد حضرت مالک بن سنان رضی اللہ عنہ کا جو
واقعہ حضرتِ شیخ نوّر اللہ مرقدہ نے “قرة
العیون” کے حوالے سے نقل کیا ہے، الاصابہ (ج:۳ ص:۳۴۶) میں
یہ واقعہ ابنِ ابی عاصم، بغوی، صحیح ابن السکن اور سنن سعید بن منصور کے حوالے سے
نقل کیا ہے۔
تاریخ
خمیس اور قرة العیون تو تابش مہدی ایسے اہلِ علم کے نزدیک غیرمستند اور گمراہ کن
کتابیں ہیں، لیکن تابش مہدی سے دریافت کیجئے کہ حدیث کی مندرجہ بالا کتابیں اور یہ
اکابر محدثین، جن کا میں نے حوالہ دیا ہے، کیا وہ بھی ․․․نعوذ
باللہ․․․ غیرمستند اور گمراہ کن ہیں؟ اور یہ بھی دریافت کیجئے کہ تابش مہدی
اپنے جہل کی وجہ سے ان مشہور و معروف مآخذ سے ناواقف تھے یا ان کا رشتہ منکرینِ
حدیث سے استوار ہے؟ کہ نہ انہیں کتبِ حدیث پر اعتماد ہے، جن میں یہ واقعات متعدّد
اسانید کے ساتھ تخریج کئے گئے ہیں، اور نہ ان اکابر محدثین پر اعتماد
ہے جنھوں نے ان واقعات کی توثیق فرمائی ہے۔
دُوسری
بحث فضلاتِ نبوی کا حکم:
ایک
سوال کے جواب میں یہ مسئلہ ضروری تفصیل کے ساتھ ذکر کرچکا ہوں کہ مذاہبِ اَربعہ کے
محققین کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضلات پاک ہیں، اور اس کے لئے اِمام ابوحنیفہ، اِمام نووی، حافظ ابنِ حجر
عسقلانی، حافظ بدرالدین عینی، مُلَّا علی
قاری، علامہ ابنِ عابدین شامی، مولانا محمد
انور شاہ کشمیری اور مولانا محمد یوسف بنوری کے حوالے
ذکر کرچکا ہوں، یہ جواب “بینات” محرّم الحرام ۱۴۰۹ھ میں شائع ہوچکا ہے، آپ کی سہولت کے لئے اس کا اقتباس درج ذیل
ہے:
“ج…
میری گزشتہ تحریر کا خلاصہ یہ تھا کہ اوّل تو معلوم کیا جائے کہ یہ واقعہ کسی
مستند کتاب میں موجود ہے یا نہیں؟ دوم یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فضلات
کے بارے میں اہلِ علم و اکابر اَئمہ دِین کی تحقیق کیا ہے؟ ان دو باتوں کی تحقیق
کے بعد جو شبہات پیش آسکتے ہیں، ان کی توجیہ ہوسکتی ہے، اب ان دونوں نکتوں کی
وضاحت کرتا ہوں۔
اَمرِ
اوّل یہ کہ یہ واقعہ کسی مستند کتاب میں ہے یا نہیں؟ حافظ جلال الدین سیوطی کی کتاب
“خصائصِ کبریٰ” میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امتیازی خصوصیات جمع کی گئی ہیں،
اس کی دُوسری جلد کے صفحہ:۲۵۲ کا
فوٹو آپ کو بھیج رہا ہوں، جس کا عنوان ہے: “آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ
خصوصیت کہ آپ کا بول و براز پاک تھا” اس عنوان کے تحت انہوں نے احادیث نقل کی ہیں،
ان میں سے دو احادیث، جن کو میں نے نشان زد کردیا ہے، کا ترجمہ یہ ہے:
۱:… ابو یعلیٰ، حاکم، دارقطنی، طبرانی اور
ابونعیم نے سند کے ساتھ حضرت اُمِّ ایمن رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت مٹی کے پکے ہوئے ایک برتن میں پیشاب کیا، پس میں
رات کو اُٹھی، مجھے پیاس تھی، میں نے وہ پیالہ پی لیا، صبح ہوئی تو میں نے آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کو بتایا، پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: تجھے
پیٹ کی تکلیف کبھی نہ ہوگی۔ اور ابویعلیٰ کی روایت میں ہے کہ آج کے بعد تم پیٹ کی
تکلیف کی شکایت کبھی نہ کروگی۔
۲:… طبرانی اور بیہقی نے بسند صحیح حکیمہ
بنت اُمیمہ سے اور انہوں نے اپنی والدہ حضرت اُمیمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے
کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں لکڑی کا ایک پیالہ رہتا تھا، جس میں شب کو
گاہ و بے گاہ پیشاب کرلیا کرتے تھے اور اسے اپنی چارپائی کے نیچے رکھ دیتے تھے، آپ
ایک مرتبہ (صبح) اُٹھے، اس کو تلاش کیا تو وہاں نہیں ملا، اس کے بارے میں دریافت
فرمایا، تو بتایا گیا کہ اس کو برہ نامی حضرت اُمِّ سلمہ کی خادمہ
نے نوش کرلیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اس نے آگ سے بچاوٴ کے لئے
حصار بنالیا۔
یہ
دونوں روایتیں مستند ہیں اور محدثین کی ایک بڑی جماعت نے ان کی تخریج کی ہے، اور
اکابرِ اُمت نے ان واقعات کو بلانکیر نقل کیا ہے اور انہیں خصائصِ نبوی میں شمار
کیا ہے۔
اَمرِ
دوم:… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فضلات کے بارے میں اکابرِ اُمت کی تحقیق:
۱:… حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اللہ، فتح
الباری “باب الماء الذی یغسل بہ شعر الانسان” (ج:۱ ص:۲۷۲ مطبوعہ لاہور) میں لکھتے ہیں:
“وقد
تکاثرت الأدلة علٰی طھارة فضلاتہ، وعدّ الأئمة ذٰلک من خصائصہ فلا یلتف الٰی ما
وقع فی کتب کثیر من الشافعیة مما یخالف ذٰلک، فقد استقر الأمر بین أئمتھم علی
القول بالطھارة۔”
ترجمہ:…
“آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فضلات کے پاک ہونے کے دلائل حدِ کثرت کو پہنچے ہوئے
ہیں، اور اَئمہ نے اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں شمار کیا ہے، پس
بہت سے شافعیہ کی کتابوں میں جو اس کے خلاف پایا جاتا ہے، وہ لائقِ التفات نہیں،
کیونکہ ان کے اَئمہ کے درمیان طہارت کے قول ہی پر معاملہ آن ٹھہرا ہے۔”
۲:… حافظ بدرالدین عینی نے عمدة
القاری (ج:۲ ص:۳۵ مطبوعہ دارالفکر بیروت) میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
کے فضلات کی طہارت کو دلائل سے ثابت کیا ہے، اور شافعیہ میں سے جو لوگ اس کے خلاف
کے قائل ہیں، ان پر بلیغ رَدّ کیا ہے، اور جلد:۲ صفحہ:۷۹ میں
حضرت اِمام ابوحنیفہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بول اور باقی فضلات کی طہارت
کا قول نقل کیا ہے۔
۳:… اِمام نووی نے شرح
مہذب (ج:۱ ص:۲۳۴) میں بول اور دیگر فضلات کے بارے میں شافعیہ کے دونوں قول نقل
کرکے طہارت کے قول کو موجہ قرار دیا ہے، وہ لکھتے ہیں:
“حدیث
شرب المرأة البول صحیح، رواہ الدارقطنی، وقال: ھو حدیث صحیح، وھو کافٍ فی الاحتجاج
لکل الفضلات قیاسًا ․․․․ الخ۔”
ترجمہ:…
“عورت کے پیشاب پینے کا واقعہ صحیح ہے، اِمام دارقطنی نے اس کو
روایت کرکے صحیح کہا ہے، اور یہ حدیث تمام فضلات کی طہارت کے استدلال کے لئے کافی
ہے۔”
۴:… علامہ ابنِ عابدین شامی لکھتے
ہیں:
“صحّح
بعض أئمة الشافعیة طھارة بولہ صلی الله علیہ وسلم وسائر فضلااتہ، وبہ قال أبو
حنیفة کما نقلہ فی “المواھب اللدنیة” عن شرح البخاری للعینی۔” (ردّ المحتار ج:۱ ص:۲۱۸، مطبوعہ کراچی)
ترجمہ:…
“بعض اَئمہ شافعیہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بول اور باقی فضلات کی طہارت کو
صحیح قرار دیا ہے، اِمام ابوحنیفہ بھی اسی
کے قائل ہیں جیسا کہ مواہب لدنیہ میں علامہ عینی کی شرحِ
بخاری سے نقل کیا ہے۔”
۵:… مُلَّا علی قاری “جمع
الوسائل شرح الشمائل” (ج:۲ ص:۲ مطبوعہ مصر ۱۳۱۷ھ) میں اس پر طویل کلام کے بعد لکھتے
ہیں:
“قال
ابن حجر: وبھٰذا استدل جمع من أئمتنا المتقدمین وغیرھم علٰی طھارة فضلااتہ صلی
الله علیہ وسلم وھو المختار وفاقًا لجمع من المتأخرین فقد تکاثرت الأدلة علیہ وعدة
الأئمة من خصائصہ صلی الله علیہ وسلم۔”
(جمع الوسائل شرح الشمائل ج:۲ ص:۲، مصر ۱۳۱۷ھ)
ترجمہ:…
“ابنِ حجر کہتے ہیں کہ: ہمارے اَئمہ متقدمین کی ایک جماعت اور دیگر
حضرات نے ان احادیث سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فضلات کی طہارت پر استدلال
کیا ہے، متأخرین کی جماعت کی موافقت میں بھی مختار ہے، کیونکہ اس پر دلائل بہ کثرت
ہیں اور اَئمہ نے اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں شمار کیا ہے۔”
۶:… اِمام العصر مولانا محمد انور شاہ
کشمیری فرماتے ہیں:
“ثم
مسألة طھارة فضلات الأنبیاء توجد فی کتب المذاھب الأربعة۔” (فیض
الباری ج:۱ ص:۲۵۰)
ترجمہ:…
“فضلاتِ انبیاء کی طہارت کا مسئلہ مذاہبِ اَربعہ کی کتابوں میں موجود ہے۔”
۷:… محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف
بنوری لکھتے ہیں:
“وقد
صرّح أھل المذاھب الأربعة بطھارة فضلات الأنبیاء ․․․․ الخ۔” (معارف
السنن ج:۱ ص:۹۸)
ترجمہ:…
“مذاہبِ اَربعہ کے حضرات نے فضلاتِ انبیاء کے پاک ہونے کی تصریح کی ہے۔”
الحمدللہ!
ان دونوں نکتوں کی وضاحت تو بقدرِ ضرورت ہوچکی، یہ واقعہ مستند ہے، اور مذاہبِ
اَربعہ کے اَئمہ فقہاء نے ان احادیث کو تسلیم کرتے ہوئے فضلاتِ انبیاء علیہم السلام
کی طہارت کا قول نقل کیا ہے، اس کے بعد اگر اعتراض کیا جائے تو اس کو ضعفِ ایمان
ہی کہا جاسکتا ہے۔
اب
ایک نکتہ محض تبرّعاً لکھتا ہوں، جس سے یہ مسئلہ قریب الفہم ہوجائے گا۔ حق تعالیٰ
شانہ کے اپنی مخلوق میں عجائبات ہیں، جن کا ادراک بھی ہم لوگوں کے لئے مشکل ہے، اس
نے اپنی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے بعض اَجسام میں ایسی محیر العقول خصوصیات
رکھی ہیں جو دُوسرے اجسام میں نہیں پائی جاتیں۔ وہ ایک کیڑے کے لعاب سے ریشم پیدا
کرتا ہے، شہد کی مکھی کے فضلات سے شہد جیسی نعمت ایجاد کرتا ہے، اور پہاڑی بکرے کے
خون کو نافہ میں جمع کرکے مشک بنادیتا ہے، اگر اس نے اپنی قدرت سے حضراتِ انبیاء
کرام علیہم السلام کے اجسامِ مقدّسہ میں بھی ایسی خصوصیات رکھی ہوں کہ غذا ان کے
اَبدانِ طیبہ میں تحلیل ہونے کے بعد بھی نجس نہ ہو بلکہ اس سے جو فضلات ان کے
اَبدان میں پیدا ہوں وہ پاک ہوں، تو کچھ جائے تعجب نہیں، اہلِ جنت کے بارے میں
سبھی جانتے ہیں کہ کھانے پینے کے بعد ان کو بول و براز کی ضرورت نہ ہوگی، خوشبودار
ڈکار سے سب کھایا پیا ہضم ہوجائے گا، اور بدن کے فضلات خوشبودار پسینے میں تحلیل
ہوجائیں گے، جو خصوصیت کہ اہلِ جنت کے اَجسام کو وہاں حاصل ہوگی، اگر حق تعالیٰ
شانہ حضراتِ انبیائے کرام علیہم الصلوٰت والتسلیمات کے پاک اَجسام کو وہ خاصیت
دُنیا ہی میں عطا کردیں تو بجا ہے، پھر جبکہ احادیث میں اس کے دلائل بہ کثرت موجود
ہیں، جیسا کہ اُوپر حافظ ابنِ حجر کے کلام
میں گزرچکا ہے، تو انبیائے کرام علیہم السلام کے اَجسام کو اپنے اُوپر قیاس کرکے
ان کا انکار کردینا، یا ان کے تسلیم کرنے میں تأمل صحیح نہیں۔”
اور
اس پر چند مزید حوالوں کا اضافہ کرتا ہوں:
۱:… اِمام بیہقی نے سننِ
کبریٰ میں کتاب النکاح کے ذیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چند خصائص ذکر کئے
ہیں، اسی سلسلے میں ایک باب کا عنون ہے:
“باب
ترکہ الانکار علٰی من شرب بولہ ودمہ۔”
ترجمہ:…
“جن حضرات نے آپ کا بول و دَم پیا، ان پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار نہ
کرنا۔”
اور
اس کے تحت تین واقعات سند کے ساتھ ذکر کئے ہیں، حضرت اُمیمہ کا واقعہ،
حضرت عبداللہ بن زبیر کا واقعہ اور حضرت سفینہ کا واقعہ۔
۲:… اُوپر ذکر کرچکا ہوں کہ اِمام حافظ
نورالدین ہیثمی نے بھی مجمع الزوائد میں ان واقعات کو خصائصِ نبوی میں ذکر
کیا ہے۔
۳:… اور حافظ جلال الدین سیوطی نے خصائصِ
کبریٰ میں یہ واقعات درج ذیل عنوان کے تحت ذکر فرمائے ہیں:
“باب
اختصاصہ صلی الله علیہ وسلم بطھارة دمہ وبولہ وغائطہ۔”
ترجمہ:…
“آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خصوصیت کا بیان کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے
فضلات پاک تھے۔”
۴:… فقہِ شافعی کی کتاب “نہایة المحتاج” (ج:۱ ص:۲۴۲) میں ہے:
“وشمل
کلامہ نجاسة الفضلات من رسول الله صلی الله علیہ وسلم وھو ما صححاہ وحمل القائل
بذٰلک الأخبار التی یدل ظاھرھا للطھارة کعدم انکارہ صلی الله علیہ وسلم شرب أمّ
أیمن بولہ علی التداوی، لٰکن جزم البغوی وغیرہ بطھارتھا، وصححہ القاضی وغیرہ،
ونقلہ العمرانی عن الخراسانیین، وصححہ السبکی والبارزی والزرکشی، وقال ابن الرفعة:
انہ الذی اعتقدہ وألقی الله بہ، وقال البلقینی: ان بہ الفتویٰ، وصححہ القایانی،
وقال: انہ الحق، وقال الحافظ بن حجر: تکاثرت الأدلة علٰی ذٰلک وعدّہ الأئمة فی
خصائصہ، فلا یلتفت الٰی خلافہ، وان وقع فی کتب کثیر من الشافعیة، فقد استقر الأمر
من أئمتھم علی القول بالطھارة، انتھٰی، وأفتٰی بہ الوالد رحمہ الله تعالٰی وھو
المعتمد۔” (نہایة
المحتاج ج:۱ ص:۲۴۲)
ترجمہ:…
“اور مصنف کا کلام شامل ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فضلات کو،
اور دونوں حضرات (یعنی رافعی اور نووی) نے اس قول کی
تصحیح کی ہے، اور جو لوگ اس کے قائل ہیں انہوں نے ان احادیث کو جو بظاہر طہارت پر
دلالت کرتی ہیں، جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمِّ ایمن کے شربِ بولِ پر
نکیر نہ کرنا، ان کو علاج پر محمول کیا ہے، لیکن اِمام بغوی وغیرہ نے
قطعیت کے ساتھ فضلاتِ نبوی کو پاک قرار دیا ہے، اور قاضی وغیرہ نے اسی کو صحیح کہا
ہے، اور عمرانی نے خراسانیوں سے اس کو نقل کرکے صحیح قرار دیا ہے، اور اِمام سبکی، بارزی اور زرکشی
نے اسی کو صحیح قرار دیا، ابنِ رفعہ فرماتے
ہیں کہ: میں یہی عقیدہ رکھتا ہوں اور اسی پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوں
گا، علامہ بلقینی فرماتے ہیں کہ: اسی پر فتویٰ ہے، اور قایانی نے اسی کو
صحیح کہا ہے اور فرمایا ہے کہ: یہی حق ہے، اور حافظ ابنِ حجر فرماتے
ہیں کہ: اس پر دلائل بہ کثرت ہیں، اور اَئمہ نے اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
کی خصوصیات میں شمار کیا ہے، پس اس کے خلاف کا قول لائقِ التفات نہیں، اگرچہ وہ
بہت سے شافعیہ کی کتابوں میں درج ہوا ہے، کیونکہ اَئمہ شافعیہ کے نزدیک معاملہ
طہارت کے قول پر آٹھہرا ہے۔ میرے والد ماجد (شیخ شہاب الدین رملی) رحمہ اللہ
تعالیٰ نے اسی پر فتویٰ دیا ہے اور یہی لائقِ اعتماد ہے۔”
۵:… اور فقہِ شافعی کی کتاب “مغنی
المحتاج” (ج:۱ ص:۷۹) میں ہے:
“وھٰذہ
الفضلات من النبی صلی الله علیہ وسلم طاھرة کما جزم بہ البغوی وغیرہ، وصححہ القاضی
وغیرہ، وأفتٰی بہ شیخی خلافًا لما فی الشرح الصغیر، والتحقیق من النجاسة لأن برکة
الحبشیة شربت بولہ صلی الله علیہ وسلم، فقال: “لن تلج النار بطنک” صححہ الدارقطنی،
وقال أبو جعفر الترمذی: دم النبی صلی الله علیہ وسلم طاھر، لأن أبا طیبة شربہ وفعل
مثل ذٰلک ابن الزبیر وھو غلام حین أعطاہ النبی صلی الله علیہ وسلم دم حجامتہ
لیدفنہ فشربہ، فقال لہ النبی صلی الله علیہ وسلم: من خالط دمہ دمی لم تمسّہ
النار۔” (مغنی
المحتاج ج:۱ ص:۷۹)
ترجمہ:…
“اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ فضلات پاک تھے، جیسا کہ اِمام بغوی وغیرہ نے
قطعیت کے ساتھ یہ فیصلہ فرمایا ہے، اور قاضی وغیرہ نے
اسی کو صحیح قرار دیا ہے، اور میرے شیخ (شہاب رملی) نے اسی پر
فتویٰ دیا ہے، بخلاف اس کے جو شرح صغیر اور تحقیق میں نجاست کا قول ذکر کیا ہے، کیونکہ
برکہ حبشیہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بول نوش کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا کہ: “تیرا پیٹ آگ میں داخل نہ ہوگا” اس حدیث کو اِمام دارقطنی نے صحیح
کہا ہے، ابوجعفر ترمذی فرماتے
ہیں کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خون پاک تھا، کیونکہ ابوطیبہ رضی اللہ عنہ
نے اس کو نوش کیا اور حضرت ابنِ زبیر نے بھی
یہی کیا جبکہ وہ نوعمر لڑکے تھے، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگیاں لگواکر
ان کو وہ خون دفن کرنے کے لئے دیا تو انہوں نے پی لیا، اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم نے ان کو فرمایا: جس کے خون میں میرا خون مل گیا اس کو آتشِ دوزخ نہیں پہنچے
گی۔”
۶:… فقہِ مالکی کی کتاب “منح الجلیل شرح
مختصر الخلیل” (ج:۱ ص:۵۴) میں ہے:
“اِلَّا
الأنبیاء علیھم الصلاة والسلام فضلتھم طاھرة ولو قبل بعثتھم لاصطفائھم واستنجائھم
کان للتنظیف والتشریع۔”
ترجمہ:…
“(آدمی کے فضلات ناپاک ہیں) سوائے انبیائے کرام علیہم الصلوٰة والسلام کے، کہ ان
کے فضلات پاک ہیں، خواہ ان کی بعثت سے قبل ہو، بوجہ ان کے برگزیدہ ہونے کے، اور ان
کا اِستنجا کرنا تنظیف و تشریع کے لئے تھا۔”
اکابرِ
اُمت کی اس قسم کی تصریحات بے شمار ہیں، ان کے مقابلے میں تابش مہدی جیسے لوگوں کی
رائے کی کیا قیمت ہے؟ اس کا فیصلہ ہر شخص کرسکتا ہے․․․!
اور
جب یہ معلوم ہوچکا کہ طہارتِ فضلات، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی خصوصیت ہے
جس پر بقول حافظ الدنیا ابنِ حجر “بہ کثرت
دلائل جمع ہیں” اور مذاہبِ اَربعہ کے اَئمہ و محققین اس کے قائل ہیں، تو اس مسئلے
پر عمومات سے استدلال کرنا صحیح نہیں، بلکہ قادیانیوں کی سی جہل آمیز حرکت ہے، وہ
لوگ بھی عمومات سے استدلال کرکے حضرت عیسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ والصلوٰة والسلام کی
خصوصیت، بن باپ پیدائش اور رفعِ آسمانی کا انکار کیا کرتے ہیں۔ افسوس ہے کہ تابش
مہدی بھی بزعمِ خود قرآن سے استدلال کرتے ہوئے جہلِ مرکب کے اسی گڑھے میں گر رہے
ہیں، جس میں ان سے پہلے بہت لوگ گرچکے ہیں۔
۴:… ہزار رکعت پڑھنے کا واقعہ:
حضرتِ
شیخ نوّر اللہ مرقدہ نے ایک بزرگ کا واقعہ نقل کیا ہے کہ وہ ایک ہزار رکعت کھڑے
ہوکر اور ایک ہزار رکعت بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے۔ تابش مہدی ہمیں منٹوں کا حساب
لگاکر بتاتے ہیں کہ چوبیس گھنٹے کے محدود وقت میں یہ کیونکر ممکن ہے؟
اس
کا جواب یہ ہے کہ حضراتِ انبیاء علیہم السلام کے معجزات اور حضراتِ اولیاء اللہ کی
کرامات کے واقعات کو محض عقلی ڈھکوسلوں اور ریاضی کے حسابات کے ذریعہ جھٹلانا عقل
مندی نہیں، بلکہ عقلیت کا ہیضہ ہے۔
مسلمان
جس طرح انبیائے کرام علیہم السلام کے معجزات کو برحق مانتے ہیں، اسی طرح ان کا یہ
بھی عقیدہ ہے کہ:
“کرامات
الأولیاء حق۔”
ترجمہ:…”اولیاء
اللہ کی کرامات برحق ہیں۔”
جو
خارقِ عادت اَمر کسی نبیٴ برحق کے ہاتھ پر ظاہر ہو، وہ “معجزہ” کہلاتا ہے، اور جو
کسی ولی اللہ کے ہاتھ پر ظاہر ہو اسے “کرامت” کہا جاتا ہے۔
اِمامِ
اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ “الفقہ الاکبر” میں فرماتے ہیں:
“والآیات
للأنبیاء والکرامات للأولیاء حق۔”
ترجمہ:…
“انبیائے کرام علیہم السلام کے معجزات و نشانات اور اولیاء کی کرامتیں برحق ہیں۔”
شیخ
علی قاری اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
“والآیات
أی خوارق العادات المسمّاة بالمعجزات للأنبیاء والکرامات للأولیاء حَقٌّ أی ثابت
بالکتاب والسُّنّة ولا عبرة بمخالفة المعتزلة وأھل البدعة فی انکار الکرامة،
والفرق بینھما أن المعجزة أمر خارق للعادة کاحیاء میّت واعدام جیل علٰی وفق
التحدّی وھو دعوی الرسالة ․․․․ والکرامة خارق
للعادة اِلَّا أنّھا غیر مقرونة بالتحدّی وھو کرامة للولی وعلامة لصدق النبی فان
کرامة التابع کرامة المتبوع۔”
(شرح
فقہ اکبر ص:۹۵، مطبوعہ مجتبائی دہلی، ۱۳۴۸ھ)
ترجمہ:…
“انبیاء علیہم السلام کی آیات یعنی وہ خارقِ عادت اُمور جن کو معجزات کہا جاتا ہے
اور اولیاء کی کرامات برحق ہیں، اور معتزلہ اور اہلِ بدعت جو کرامت کے منکر ہیں،
ان کی مخالفت کا کوئی اعتبار نہیں اور معجزہ و کرامت کے درمیان فرق یہ ہے کہ
“معجزہ” وہ خارقِ عادت اَمر ہے جو بطور تحدی یعنی دعوائے رسالت و نبوّت کے ساتھ
ہو، جیسے کسی مردے کو زندہ کردینا، یا کسی جماعت کو ہلاک کردینا، اور “کرامت”
خارقِ عادت اَمر کو کہتے ہیں، مگر وہ تحدی کے ساتھ مقرون نہیں ہوتی اور (ایسا
خارقِ عادت، جو کسی ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہو) وہ ولی کی کرامت ہے اور اس کے متبوع
نبی کے سچا ہونے کی علامت ہے، کیونکہ جو چیز تابع کے لئے موجبِ شرف و کرامت ہو، وہ
اس کے متبوع کے لئے بھی شرف و کرامت ہے۔”
اِمام
طحاوی اپنے عقیدہ میں (جو تمام اہلِ سنت کے یہاں مُسلَّم ہے) لکھتے
ہیں:
“ونوٴمن
بما جاء من کرامتھم وصح عن الثقات من روایتھم۔”
ترجمہ:…
“اور اولیاء اللہ کی کرامت کے جو واقعات منقول ہیں، اور ثقہ راویوں کی روایات سے
صحیح ثابت ہیں، ہم ان پر ایمان رکھتے ہیں۔”
اس
کے حاشیہ میں شیخ محمد بن مانع لکھتے ہیں:
“کرامات
الأولیاء حق ثابتة بالکتاب والسُّنّة وھی متواترة لا ینکرھا اِلَّا أھل البدع
کالمعتزلة ومن نحا نحوھم من المتکلمین، وقد ضلّل أھل الحق من أنکرھا، لأنہ بانکارہ
صادم الکتاب والسُّنّة ومن عارضھما وصادمھما برأیہ الفاسد وعقلہ الکاسد فھو ضالٌّ
مبتدع۔”
(العقیدة
الطحاویة ص:۲۴، مطبوعہ دائرة المعارف الاسلامیة،
آسیاآباد، بلوچستان)
ترجمہ:…
“اولیاء اللہ کی کرامتیں برحق ہیں، کتاب و سنت سے ثابت ہیں، اور یہ متواتر ہیں، ان
کے منکر صرف اہلِ بدعت ہیں جیسے معتزلہ قسم کے متکلمین، اور اہلِ حق منکرِ کرامات
کو گمراہ قرار دیتے ہیں، کیونکہ وہ اپنے اس انکار سے کتاب و سنت سے ٹکراتا ہے، اور
جو شخص اپنی فاسد رائے اور کھوٹی عقل کے ذریعہ کتاب و سنت سے ٹکراوٴ اور مقابلہ
کرے، وہ گمراہ اور مبتدع ہے۔”
عقیدہ
نسفیہ میں اولیاء اللہ کی کرامات کی مثالیں ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:
“وکرامات
الأولیاء حق فتظھر الکرامة علٰی طریق نقض العادة للرلی من قطع المسافة البعیدة فی
المدة القلیلة وظھور الطعام والشراب واللباس عند الحاجة والمشی علی الماء والطیران
فی الھواء وکلام الجماد والعجماء واندفاع المتوجہ من البلاء وکفایة المھم عن
الأعداء وغیر ذٰلک من الأشیاء۔”
(شرح
عقائد نسفی ص:۱۴۴، وما بعد)
ترجمہ:…
“اور اولیاء اللہ کی کرامات برحق ہیں، پس ولی کے لئے بطور خرقِ عادت کے کرامت ظاہر
ہوتی ہے، مثلاً: قلیل مدّت میں طویل مسافت طے کرلینا، بوقتِ حاجت غیب سے کھانے،
پانی اور لباس کا ظاہر ہوجانا، پانی پر چلنا، ہوا میں اُڑنا، جمادات و حیوانات کا
گفتگو کرنا، آنے والی مصیبت کا ٹل جانا، دُشمنوں کے مقابلے میں مہمات کی کفایت
ہونا وغیرہ وغیرہ۔”
معجزہ
و کرامت کی ایک صورت یہ ہے کہ معمولی کھانا یا پانی بہت سے لوگوں کو کافی ہوجائے،
احادیث میں اس کے متعدّد واقعات مذکور ہیں، اور اولیاء اللہ کے سوانح میں بھی یہ
چیز تواتر کے ساتھ منقول ہے، اور جس طرح معجزہ و کرامت کے طور پر کھانے پینے کی
چیز میں خارقِ عادت برکت ہوجاتی ہے، اسی طرح وقت میں بھی ایسی خارقِ عادت برکت
ہوجاتی ہے کہ عقل و قیاس کے تمام پیمانے ٹوٹ جاتے ہیں، ایسی خارق عادت برکت کی ایک
مثال معراج شریف کا واقعہ ہے۔
چنانچہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب معراج پر تشریف لے گئے تو طویل مسافت طے کرکے پہلے
مکہ مکرّمہ سے بیت المقدس پہنچے، وہاں انبیائے کرام علیہم السلام کی اِمامت
فرمائی، پھر وہاں سے آسمانوں پر تشریف لے گئے اور آسمانوں سے بھی اُوپر لامکاں تک
پہنچے، جنت و دوزخ کی سیر فرمائی، اب اگر ان تمام اُمور کو عقل و قیاس کے پیمانوں
سے ناپا جائے تو ان واقعاتِ معراج کے لئے اربوں کھربوں سال کا عرصہ درکار ہے، لیکن
قدرتِ خداوندی سے یہ سب کچھ رات کے ایک حصے میں ہوا، اسی طرح اگر بطور خرقِ عادت اللہ
تعالیٰ نے کسی مقبول بندے کے اوقات میں غیرمعمولی برکت فرمادی ہو اور اس نے محدود
وقت میں دو ہزار رکعتیں پڑھ لی ہوں، تو محض عقلی موشگافیوں کے ذریعے انکار وہی شخص
کرسکتا ہے جو انبیائے کرام علیہم السلام کے معجزات کا اور حضراتِ اولیاء اللہ
رحمہم اللہ کی کرامات کا منکر ہے، اور جیسا کہ اُوپر معلوم ہوا ایسا شخص زمرہٴ
اہلِ سنت سے خارج ہے۔
جناب
تابش مہدی صاحب بزعمِ خود جرح و تعدیل کے اسلحے سے مسلح ہوکر حضرتِ شیخ نوّر اللہ
مرقدہ کے خلاف نبرد آزمائی کے لئے نکلے تھے، لیکن حضرتِ شیخ نوّر
اللہ مرقدہ کی کرامت دیکھئے کہ وہ راہ بھول کر اہلِ باطل اور اہلِ بدعت
کی صف میں جاکھڑے ہوئے:
وہ
شیفتہ کہ دُھوم تھی حضرت کے زُہد کی!
میں
کیا کہوں کہ رات مجھے کس کے گھر ملے؟
حضرت
اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور دیگر بہت سے اکابر کے کثرتِ عبادت کے واقعات تواتر
کے ساتھ منقول ہیں، لیکن بہت سے عقلیت گزیدہ حضرات تابش مہدی کی طرح ان کو محض
اپنی عقل کے زور سے رَدّ کیا کرتے ہیں، اور شاید یہ بیچارے اپنی ذہنی و فکری پرواز
کے لحاظ سے معذور بھی ہیں، کیونکہ:
“فکر
ہر کس بقدرِ ہمت اوست”
شپرہ
چشم اگر آفتاب کے وجود کا انکار کرے تو اس کو معذور سمجھنا چاہئے، لیکن جن لوگوں
کو معلوم ہے کہ حق تعالیٰ شانہ کا معاملہ ان کے خاص بندوں کے ساتھ وہ نہیں ہوتا،
جو ہم جیسوں کے ساتھ ہوا کرتا ہے، وہ ایسے واقعات کے اِنکار کی جرأت نہیں کرتے․․․!
تبلیغی جماعت کا فیضان، ایک سوال کا جواب
س… آپ
کی خدمتِ اقدس میں ایک پرچہ بنام “تبلیغی جماعت، احادیث کی روشنی میں” جو طیبہ
مسجد کے مولانا نے کسی شخص ریاض احمد کے نام سے بٹوایا ہے، پیشِ خدمت ہے، اس میں
من جملہ اور باتوں کے تیسری حدیث میں تحریر کیا ہے: “انہیں جہاں پانا قتل کردینا
کہ قیامت کے دن ان کے قاتل کے لئے بڑا اَجر و ثواب ہے۔” (بخاری جلد:۲ ص:۱۰۲۴) ایک بات عرضِ خدمت ہے کہ
واقعی بعض حضرات اس جماعت کے بہت جلد مشتعل ہوجاتے ہیں اور بجائے کسی اعتراض اور
سوال کے جواب دینے کے یا قائل کرنے کے ہاتھا پائی اور حد یہ ہے کہ گالی گلوچ پر
بھی اُتر آتے ہیں۔ دُوسرے یہ کہ لوگ کافی حد تک صرف کتاب پڑھنا اَوّلین فرض سمجھتے
ہیں، مگر عملی زندگی میں اِکرامِ مسلم وغیرہ سے تعلق نہیں، یہ سنی سنائی بات نہیں
بلکہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ لوگ برسہا برس لگالیں گے مگر
چھ نکات سے آگے نہیں نکلتے، اور صرف تبلیغی نصاب ہی پڑھتے ہیں، قرآنِ پاک سے
استفادہ نہیں کرتے، جبکہ مسلمان کے لئے قرآنِ کریم ہی سب کچھ ہے، جس کی تشریحات
احادیثِ نبوی سے ملتی ہیں، ان سے جب قرآن پاک کا ذکر کرو تو کہتے ہیں کہ: “صحابہ
کرام نے
پہلے ایمان سیکھا، پھر قرآن” اور یہ لوگ برسہا برس لگانے کے بعد بھی ایمان ہی
سکھاتے رہتے ہیں، قرآن پر کبھی نہیں آتے، بلکہ کئی لوگ اس پر مشتعل ہوگئے اور لڑنے
لگے۔ گو میں تبلیغی جماعت سے تقریباً دس سال سے منسلک ہوں، مگر کچھ عرصے سے میرا
دِل اس جماعت سے ہٹ سا گیا ہے، خصوصاً اب اس پرچے کی روشنی میں بالکل دوراہے پر
کھڑا ہوں۔ براہِ کرم رہنمائی فرمائیں، اس پر تفصیلی روشنی ڈالیں تاکہ میں فیصلہ
کرسکوں کہ کونسا راستہ ٹھیک ہے اور یہ احادیث کن لوگوں کے لئے ہیں؟
ج… تبلیغی جماعت کے
بارے میں جناب ریاض احمد صاحب کا جو اِشتہار آپ نے بھیجا ہے، اس قسم کی چیزیں تو
میری نظر سے پہلے بھی گزرتی رہی ہیں، ان کا تو براہِ راست تبلیغی جماعت پر نہیں
بلکہ علمائے دیوبند پر اعتراض ہے، جس کو وہ “دیوبندی فتنہ” سے تعبیر کرتے ہیں،
نعوذ باللہ! حالانکہ حضراتِ علمائے دیوبند سے اللہ تعالیٰ نے دِینی خدمات کا جو
کام گزشتہ صدی میں لیا ہے وہ ہر آنکھوں والے کے سامنے ہے۔ جو احادیث شریفہ ریاض
احمد صاحب نے نقل کی ہیں، شراحِ حدیث کا اتفاق ہے کہ وہ ان خوارج کے متعلق ہیں
جنھوں نے حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کے زمانے میں ان کے خلاف خروج کیا تھا اور وہ
حضرت عثمان، حضرت علی اور دیگر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نعوذ باللہ بُرے
الفاظ سے یاد کرتے تھے۔ علمائے دیوبند کا یا تبلیغی جماعت کا ان سے رشتہ جوڑنا،
اور خوارج کے بارے میں جو اَحادیث وارِد ہیں ان کو نہ صرف عام مسلمانوں پر، بلکہ
اکابر اولیاء اللہ (حضرت قطب العالم مولانا رشید احمد گنگوہی،
حجةالاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی،
حکیم الاُمت مولانا اشرف علی تھانوی،
حضرتِ اقدس مولانا خلیل احمد سہارنپوری،
حضرتِ اقدس مولانا سیّد حسین احمد مدنی،شیخ الاسلام مولانا شبیر
احمد عثمانی، حضرتِ
اقدس مولانا مفتی محمد شفیع،حضرتِ
اقدس مولانا سیّد محمد یوسف بنوری،
حضرتِ شیخ مولانا محمد زکریا مہاجرِ مدنی وغیرہم)
پر چسپاں کرنا، نہایت ظلم ہے۔ ان اکابر کی زندگیاں علومِ نبوّت کی نشر و اِشاعت
اور ذکرِ اِلٰہی کو قلوب میں راسخ کرنے میں گزریں، تمام فتنوں کے مقابلے میں یہ
حضرات سینہ سپر رہے اور دِین میں کسی ادنیٰ تحریف کو انہوں نے کبھی برداشت نہیں
کیا۔ یہ حضرات خود اِتباعِ سنت کے پتلے تھے اور اپنے متعلقین کو رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و آداب پر مرمٹنے کی تعلیم دیتے تھے۔ جن لوگوں کو ان
اکابر کی
خدمت میں حاضری کی کبھی توفیق نہیں ہوئی، وہ تو بے چارے جو چاہیں کہتے پھریں، لیکن
جن لوگوں کو خود برسہا برس تک ان اکابر کی
خفی و جلی محفلوں میں حاضری میسر آئی ہو، وہ ان کے تمام اَحوال و کوائف کے چشم دید
گواہ ہیں، ان کو معلوم ہے کہ یہ حضرات کیا تھا ؟ بہرحال کفار و منافقین کے بارے
میں جو آیات و احادیث آئی ہیں، ان کو اولیاء اللہ پر چسپاں کرنا ظلمِ عظیم ہے اور
یہ ظلم ان اکابر پر
نہیں، کہ وہ تو جس ذاتِ عالی کی رضا پر مرمٹے تھے اس کی بارگاہ میں پہنچ چکے ہیں،
ان کو اَب کسی کی مدح و ذم کا کوئی فائدہ یا نقصان نہیں، جو لوگ ان اکابر پر
طعن کرتے ہیں وہ خود اپنی عاقبت خراب کرتے ہیں اور اپنی جان پر ظلم کرتے ہیں۔ حضرت
صدیقِ اکبر اور حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہما کو لوگ کیا کیا نہیں کہتے؟ مگر
لوگوں کی بدگوئی کا ان اکابر کو
کیا نقصان ہے؟ یہ دونوں اکابر آج
تک صحبتِ نبوی کے مزے لوٹ رہے ہیں، لیکن بدگوئی کرنے والوں کو اس سے بھی عبرت نہیں
ہوتی۔ یہی سنت اکابرِ دیوبند میں بھی جاری ہوئی، یہ اکابر حق
تعالیٰ شانہ کی رضا و رحمت کی آغوش میں جاچکے ہیں، اور ان کی بدگوئی کرنے والے مفت
میں اپنا ایمان برباد کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے حال پر رحم فرمائیں۔
رہا آپ
کا یہ ارشاد کہ: “تبلیغ والے کسی سوال کا جواب دینے کے بجائے ہاتھا پائی یا گالی
گلوچ پر اُتر آتے ہیں” ممکن ہے آپ کو ایسے لوگوں سے سابقہ پڑا ہو، لیکن اس ناکارہ
کو قریباً چالیس برس سے اکابرِ تبلیغ کو دیکھنے اور ان کے پاس بیٹھنے اور ان کی
باتیں سننے کا موقع مل رہا ہے، میرے سامنے تو کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا۔
اور آپ
کا یہ ارشاد کہ: “تبلیغ والے چھ نمبروں سے نکلتے اور دِین کی دُوسری مہمات کی طرف
توجہ نہیں دیتے” یہ بھی کم از کم میرے مشاہدے کے تو خلاف ہے، ہزاروں مثالیں تو
میرے سامنے ہیں کہ تبلیغ میں لگنے سے پہلے وہ بالکل آزاد تھے، اور تبلیغ میں لگنے
کے بعد انہوں نے نہ صرف خود قرآنِ کریم پڑھا، بلکہ اپنی اولاد کو بھی قرآن مجید
حفظ کرایا اور انگریزی پڑھانے کے بجائے انہیں دِینی تعلیم میں لگایا، دِینی مدارس
قائم کئے، مسجدیں آباد کیں، حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی ان کے دِل میں فکر
پیدا ہوئی، اور وہ ہر چھوٹی بڑی بات میں دِینی مسائل دریافت کرنے لگے۔ بہت ممکن ہے
کہ بعض کچے قسم کے لوگوں سے کوتاہیاں ہوتی ہوں، لیکن اس کی ذمہ داری تبلیغ پر ڈال
دینا، ایسا ہی ہوگا کہ مسلمانوں کی بدعملیوں کی ذمہ داری اسلام پر ڈال کر نعوذ
باللہ اسلام ہی کو بدنام کیا جانے لگے۔ جس طرح ایک مسلمان کی بدعملی یا کوتاہی
اسلام پر صحیح عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہے، نہ کہ نعوذ باللہ اسلام کی وجہ سے، اسی
طرح کسی تبلیغ والے کی کوتاہی یا بدعملی بھی تبلیغ کے کام کو پوری طرح ہضم نہ کرنے
کی وجہ سے ہوسکتی ہے، نہ کہ خود تبلیغی کام کی وجہ سے، اور لائقِ ملامت اگر ہے تو
وہ فرد ہے، نہ کہ تبلیغ۔
آپ نے
لکھا ہے کہ آپ تقریباً دس سال سے تبلیغ سے منسلک ہیں، مگر اب آپ کا دِل اس سے ہٹ
گیا ہے، یہ تو معلوم نہیں کہ دس سال تک آپ نے تبلیغ میں کتنا وقت لگایا؟ تاہم دِل
ہٹ جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ تبلیغ جیسے اُونچے کام کے لئے اُصولوں اور
آداب کی رعایت کی ضرورت ہے، وہ آپ سے نہیں ہوسکی، اس صورت میں آپ کو اَپنی کوتاہی
پر توبہ و اِستغفار کرنا چاہئے اور یہ دُعا بہت ہی اِلحاح و زاری کے ساتھ پڑھنی
چاہئے:
“اَللّٰھُمَّ
اِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ عَنِ الْحُوْرِ بَعْدَ الْکُوْرِ، رَبَّنَا لَا تُزِغْ
قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَةً
اِنَّکَ أَنْتَ الْوَھَّابُ۔”