Pages

مولانا طارق جمیل شیعہ سنی دیوبندی بریلوی

میں تھی زیدی شیعہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: زینب عرف زینی
جی ہاں میں ہوں زینب عرف زینی!
پرسوں سے فیس بک پر مولانا طارق جمیل کے عمران خان کی دعوت افطار پر اس کے گھر جانے پر جو میں دھما چوکڑی دیکھ رہی ہوں، قسم خدا کی دماغ کی دہی بن گئی ہے۔ اور جب میرا دماغ چکراتا ہےناں تو میں کافی خطرناک ہو جاتی ہوں۔۔۔۔ سو اسی جذباتی کیفیت میں آج میں ایک راز کھولنے جا رہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بھی آپی فاطمہ سے مشورہ کیے بغیر۔
خوب غور سے پڑھنا.... جیسا کہ آپ کو میرے نام کے ساتھ زیدی کے لاحقے سے معلوم ہو گیا ہو گا کہ ہم زیدی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زیدی شیعہ۔
تو یہ جو تم سب مولانا جمیل صاحب کو اچھل اچھل کر اسلام سکھا رہے ہو نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان پر شیعہ ہونے کی بات کر رہے ہو تو سن لو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج انہی کی وجہ سے ہم دونوں بہنیں سنی مسلک کے قریب ہوئی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں گریجویشن کر رھی ہوں اور آپی پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اتنے مطالعے کے بعد بھی ہمیں کبھی اپنے فرقہ اور اس میں موجود کمزوریوں کا دھیان نہ ہو سکا۔۔۔۔۔۔۔ ہم بھی تمام لوگوں کی طرح اپنے آپ کو ہی درست سمجھتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ سب کام کرتے تھے جو اب مجھے معلوم ہے کہ بھت بڑا گناہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ نے اگر زیدیوں کے بارے میں پڑھا ہو تو معلوم ہو گا کہ ہم امامیہ شیعہ کی طرح تو نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔ مگر پھر بھی بڑے غلط عقائد ہیں ہمارے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب سے بڑی بات یہ کہ ہم بھی برگزیدہ شخصیات کو کافر نہ سہی ظالم وغیرہ جیسے نامناسب الفاظ کہتے رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ہوا یہ کہ کالج میں ایک سہیلی نور نے مجھے تمہارے ان مولانا طارق جمیل کے بیانات سنوائے۔۔۔۔۔۔۔ میں شروع ہی سے دینی کتابیں پڑھتی رہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔ اس لیے دلچسپی سے ان کے کربلا والے بیانات سنے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں زندگی میں پہلی بار حیران رہ گئی کہ کیا ہم لوگوں سے بھی زیادہ سنی اہل بیت سے محبت کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا جیسے بیان میں بے اختیار روئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ہمارے ذاکروں سے بالکل برعکس تھا۔۔۔۔۔۔۔ ان کے بول بول میں محبت تھی، پیار تھا، عقیدت تھی۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں تو ماں کی گود سے یہی بتایا گیا تھا کہ یہ سنی سارے اہل بیت کے دشمن ہیں۔۔۔۔ مگر پہلی بار ایک سنی عالم سے اہل بیت کے فضائل سنے تو میں سچ میں حیران رہ گئی۔
دل کے سنگھاسن میں سجا کفر کا بت کچھ ٹوٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر آج آپ کو ایک عجیب بات اور بتاتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کم ازکم میرا تو یہی مشاہدہ ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ یہ کہ ہم لوگوں کو ماں کی گود میں ہی یہ لوری کے طور پر سنایا جاتا ہے کہ خلیفہ اول ظالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خلیفہ دوم ظالم۔۔۔۔۔ یہ باتیں ہمارے دل میں کچھ ایسی اتر جاتی ہیں کہ تو بڑے ہو کر ہم کتنا بھی پڑھ لیں،،، سوچ لیں۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات دل سے نکلتی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب تک اللہ کا خاص کرم کسی پر نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لیے بے شمار بیانات اور مطالعے کے باوجود یہ بات دل میں نہیں اترتی تھی۔۔۔۔۔۔۔
مگر دوسری طرف ایسا ہوا کہ جمیل صاحب کے بیانات سن سن کر غیر محسوس طریقے سے میں ان تمام برگزیدہ شخصیات سے مانوس ہوتی چلی گئی جن کا نام بھی ہمارےہاں لینا جرم عظیم سمجھا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
اور ایک دن ایک بیان میں جمیل صاحب نے ایک ایسی کہی کہ میرا دل حق کے لیے کھل گیا۔۔۔۔۔۔ کہنے لگے کہ نبی کی قبر جنت کا باغ ہوتی ہے اور اسی جنت میں، اسی حجرے میں آپ کے دونوں پیارے ساتھی بھی، آپ کے ساتھ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس یہ بات میرے دل میں بس گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں وہ اگر غلط ہوتے تو نبی مکرم کے ساتھ جنت میں بھلا کیسے ہوتے؟
اس کے بعد میں روز بروز اپنے ہاں کی رسوم سے بیزار آتی چلی گئی اور آپی بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ البتہ ہے کہ ابھی بھی ہم اپنے خاندان سے جڑے ہوئے ہیں لیکن ہم پر کوئی زبردستی نہیں کر سکتا کیوں کہ ہم خود مختار ہیں۔۔۔۔ اپنا کماتے ہیں، اپنا کھاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اب میں پرسوں سے حیران ہوں کہ تم لوگ عجیب گھٹیا لوگ ہو، ایسی پیاری شخصیت سے نفرت کر رہے ھو۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ شیعہ کو سنی کر رھے ہیں اور تم انہیں شیعہ کیے دے رھے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ سنو کیا تم جانتے ہو کہ پوری دنیامیں سب سے زیادہ متعصب شیعہ کہاں پائے جاتے ہیں؟
گلگت میں،،،
وہاں ایسے شیعہ ہیں کہ جس طرح تم دیوبندی بریلوی آپس میں ایک دوسرے کو مشرک اور کافر کہتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی طرح ہم زیدیوں کے نزدیک گلگت والے کافر ہیں۔۔۔۔۔۔۔
اسی گلگت میں تین سال پہلے چودہ خاندان شیعہ سے سنی ہوئے ہیں،،،
کیسے؟۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا کا قافلہ گیا تھا وہاں۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی محنت اور بیان سے۔۔۔۔۔۔۔۔ میں یقین سے لکھ رہی ہوں کہ یہ جو تم کافر کافر کے نعرے لگاتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ اپنی فقہ کے حساب سے درست ہو مگر یہ نوٹ کر لو کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے شیعہ عوام کبھی قریب نہیں آئے گی تمہارے۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی سوچا کہ اس شیعہ لڑکے یا لڑکی کا کیا قصور ہے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
⭕آفرین ہے مولانا طارق جمیل صاحب پر ⭕


نو دس سال پہلے کی بات ہے رمضان المبارک میں دادا جی نے ختم قرآن پر مولانا طارق جمیل صاحب سے بیان کی درخواست کی ۔ دادا جی سے عقیدت کی بناء پر شاید مولانا صاحب انکار نہ کرسکے چنانچہ انہوں نے آنے کی ہامی بھر لی ۔ طے یہ ہوا کہ مولانا صاحب صرف بیان نہیں کریں گے بلکہ افطاری بھی ہمارے گھر ہی کریں گے ۔ پورے گاؤں میں ایک عید کا سا سماں بن گیا، یوں تو میزبان صرف ہم تھے لیکن گاؤں کے بہت سے گھرانوں کے دلوں میں خواہش پیدا ہوئی کہ مولانا صاحب انکے گھر سے بھی کچھ نہ کچھ ضرور کھائیں ، دادا جی نے سب کو خوش کرنے کے لیے کہہ دیا کہ آپ لوگ بھی ایک آدھ ڈش تیار کرکے اس ضیافت میں شامل ہوسکتے ہیں ۔ سب نے خوشی خوشی سعاد ت سمجھتے ہوئے اپنے ذمہ کچھ نہ کچھ لے لیا۔

 میرا ابھی بچپن ہی تھا لیکن میں نے مولانا صاحب کا نام اور بیان بہت سنے تھے اور مجھے ان سے بہت عقیدت تھی ۔
گاؤں میں کسی عورت کو یہ کہتے سنا کہ علماء ممبر پر کچھ اور ہوتے ہیں اور عام زندگی میں کچھ اور۔ مجھے بہت حیرت ہوئی اور میں نے سوچ لیا کہ میں دیکھوں گی کہ مولانا طارق جمیل صاحب عام زندگی میں کیسے ہیں ۔ خیر ختم قران کا دن بھی آگیا ، میں عصر کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئی ہی تھی کہ مولانا صاحب کے آنے کا شور مچ گیا۔دادا جی کو پتہ تھا کہ مولانا صاحب کسی لمبے سفر سےسیدھے ہماری طرف ہی آرہے ہیں اس لیے مہمان خانے میں انکے لیٹنے کا انتظام کیا تھا۔ میں نے بھی اندر جھانکنے کے لیے ایک کھڑکی پر نظر رکھ لی تھی ۔ مولانا صاحب تشریف لائے اور میں نے کھڑکی سنبھال لی ۔جماعت چونکہ ہوچکی تھی اس لیے مولانا نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ جماعت سے نماز ادا کی اور پھر دادا جی کے اصرار پر لیٹ گئے ۔ کچھ لوگ انکے پاؤں دبانے لگ گئے، ابھی لیٹے ہوئے چند لمحے ہی ہوئے تھے کہ مولانا صاحب ایک دم اٹھے اور فرمانے لگے کہ سفر کی وجہ سے میری تلاوت باقی ہے اس لیے قرآن شریف لا دیں ۔ انہیں قرآن شریف دیا گیا تو انہوں نے تلاوت کرنا شروع کردی جو مغرب تک جاری رہی۔ دوسری طرف افطاری کے لیے کھانا لگایا جارہا تھا ۔ ہمارے ہاں تو کچھ خاص اہتمام نہیں کیا گیا تھا لیکن دوسرے گھرانوں کی شمولیت کی وجہ سے دسترخوان پر کئی قسم کے کھانے اور پھل نظر آرہے تھے ۔
سب کی خواہش تھی کہ مولانا صاحب انکے گھر کی بنی ہوئی چیز ضرور چکھیں ۔ مغرب کی اذان ہوئی تو مولانا صاحب نے ایک آم اٹھایا اور گھر کی پکی ہوئی ایک روٹی اٹھائی ، روٹی کا ایک لقمہ لیتے اور آم چوس لیتے اس طرح انہوں نے ایک روٹی اور تین آم کھائے ۔ پانی صرف سادہ پیا اس کے علاوہ ہر چیز سے منع کرتے رہے۔ میں نے بہت سے لوگوں کو سادہ کھانا کھاتے دیکھا تھا لیکن مولانا صاحب کی سادگی دیکھ کر حیران رہ گئی ۔ افطاری کے بعد مولانا صاحب مسجد میں چلے گئے اور باجماعت نماز ادا کی پھر گھر آکر اوابین کے نوافل میں مشغول ہوگئے اور ایک تیز پتی چائے کے لیے کہا ۔
نوافل سے فارغ ہوکرجائے نماز پر بیٹھے دیر تک کوئی وظیفہ کرتے رہے۔ اسکے بعد چائے پینے لگے اور لوگوں کے ساتھ گفتگو میں مشغول ہوگئے ۔ کچھ دیر بعد عشاء کی اذان ہوئی تو نماز ادا کرنے مسجد میں تشریف لے گئے ۔ نماز کے بعد مولانا صاحب نے فرمایا کہ چونکہ سفر کی وجہ سے انکے لیے ایک جگہ ٹھہر کر قران سننا ممکن نہیں ہوتا اس لیے وہ اپنے ساتھ ایک حافظ رکھتے ہیں اور تراویح کی نماز الگ پڑھتے ہیں ۔ چنانچہ انکے لیے مہمان خانے کی چھت پر تراویح کا انتظام کیا گیا ۔ کچھ مقامی لوگ بھی شوق شوق میں انکے ساتھ کھڑے ہوئے ۔ تھوڑی دیر بعد جب پتہ چلا کہ مولانا صاحب روزانہ تین پارے سنتے ہیں تو کچھ لوگوں کی ہمت جواب دے گئے ۔
رات گیارہ بجے تک تراویح پڑھی پھر اس کے بعد بیان کیا اور ایک بجے کے قریب دعا کروا ئی اور پھر مہمان خانے آکر تہجد پڑھنے لگ گئے۔دادا جی نے سحری تیار کروانے کا پوچھا تو فرمانے لگے کہ نہیں صبح نماز کے بعد کسی جگہ ضروری پہنچنا ہے اس لیے ابھی روانہ ہونگے ۔ تہجد سے فارغ ہوتے ہی دادا جی سے اجازت طلب کی اور اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے ۔
میں آج بھی سوچتی ہوں کہ کتنے بدقسمت ہے وہ لوگ جو ان پر انگلیاں اٹھاتے ہیں ۔ شاید وہ مولانا صاحب کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ، مولانا صاحب وہ شخصیت ہیں جنہیں کئی سال سے ہر سال روضہ رسول پر سلام کرنے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سےسلام کا جواب آتا ہے۔ اور یہ جواب انہیں نہیں ملتا ، کسی اور شخص کو ہی خواب میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ طارق جمیل کو میرا سلام کہہ دینا ۔
الحمدللہ میں نے انکی ذاتی زندگی کو بھی قریب سے دیکھا ہے ، انکی قول کو بھی سنا ہے اور فعل کو بھی دیکھا ہے ، انکی عبادت بھی دیکھی ہے وہ واقعی اللہ کے ولی ہیں ۔ کچھ لوگ ان پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ وہ صرف امیروں کو ہی کیوں ملتے ہیں غریبوں کو کیوں نہیں ملتے تو انکی یہ سوچ بھی غلط ہے وہ امیر غریب سب کو ملتے ہیں ۔ جب اپنے گاؤں ہوتے ہیں تو قریب وجوار کے گاؤں کے لوگوں کی اپنے گھر افطاری ضرور کرواتے ہیں ۔میں اس بات کی گواہ ہوں کہ بہت سے بے گھروں کو انہوں نے گھر لے کردیے ہیں بہت سے نادار گھرانوں کی ماہانہ بنیادوں پر مدد کرتے ہیں ،
بہت سے لوگوں کو حج عمرہ کروا چکے ہیں یہاں تک کے تلمبہ بازار حسن کی ایک تائب طوائف اور اسکی بوڑھی ماں کو انکی خواہش پر عمرہ کے لیے بھیجا لیکن وہ ان چیزوں کی 
نمائش نہیں کرتے ۔ یہ جو انکی تصاویر آتی ہیں یہ بھی انکی خواہش پر نہیں آتی ۔ مولانا 
صاحب محبت بانٹتے ہیں امت کو جوڑتے ہیں۔ ہمارے گاؤں کے قریب ایک گاؤں میں مولانا کے 
مخالف مسلک کے پیر صاحب رہتے تھے مولانا صاحب خود کئی بار خود چل کر ان سےملنے 
گئے جس پر وہ بہت خوش ہوتے اور مولانا صاحب سے بہت محبت فرماتے اسی محبت کی وجہ سے انہوں نے اپنے تمام مریدوں کو حکم دیا تھا کہ اپنی مساجد میں جماعت کو آنے سے نہ روکیں ۔

میں یہ مضمون کبھی بھی نہ لکھتی لیکن چند دن سےمولانا کے اپنے لوگوں کے طرف سے ہی ان پر انگلیاں اٹھانے نے مجبور کردیا کہ انکے بارے میں پہلی اور آخری بار کچھ لکھوں ۔ کوئی کچھ بھی کہے میرے لیے مولانا طارق جمیل صاحب اللہ کے ولی ہیں۔ اللہ انکا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے آمین۔ 
تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حوریہ ذیشان

shukria ke sath un logon ne ise shae karne ke liye forward kiya. Jazakallah o khair