Pages

مسجد امام ائمۂ نمازکا مقام فضیلت کی حدیث الامام ضامن کی بےتوقیری

اماموں کی بےتوقیری ایک لمحۂ فکریہ

از:حضرت مولانا  فضیل احمدناصری القاسمی دامت برکاتھم
استاذحدیث جامعہ امام محمدانورشاہ، دیوبند

اس حقیقت سےتقریباًسبھی مذھبی مسلمان آشناھیں کہ "نماز "دین کااھم ستون ھے، جس نےنمازقائم کی، اس نےدین کاستون تھامےرکھااورجس نےنمازترک کردی، اس دین کی بنیادڈھادی-جب نمازدین کااھم ترین ستون ھےتواسی سےسمجھ لیناچاھیےکہ ائمۂ نمازکاکیامقام ھے؟ امام صاحب کی فضیلت سےمتعلق متعدداحادیث مروی ھیں، ترمذی شریف کی حدیث ھےکہ سب سےبھتروہ امام ھے جس سےمقتدی خوش ھوں، ایساامام حضورعلیہ السلام کی بارگاہ سےبڑی فضیلتوں کامستحق ھے-ایک جگہ ارشادھے: الامام ضامن-یعنی امام مقتدیوں کاذمہ دارھوتاھے، باجماعت نمازکےدوران مقتدیوں سےکتنی ھی بھول چوک ھو، امام صاحب ٹھیک ھیں توسب کی نمازٹھیک ٹھاک اداھوجاتی ھے، اس کےعلی الرغم مقتدیان اصول وآداب کی پوری رعایت کریں مگرامام صاحب بھول چوک کےباوجودسجدۂ سھونہ کرسکیں توسارےاصول وآداب بےقیمت ھوجائیں گے-احادیث میں امام کےپڑھنےکومقتدی کاپڑھنابتایاگیاھے، حدیث کےالفاظ ھیں: من کان لہ امام فقراءۃ الامام لہ قراءۃ-یعنی نمازمیں امام کاقرآن پڑھنامقتدی کاپڑھناھے، مقتدی کوالگ سےپڑھنےکی ضرورت نھیں-امام نمازیوں کاوکیل اورترجمان ھوتاھے،

 امامت  بہت نازک ذمہ داری ھے، جب تک پیغمبرعلیہ السلام کائنات فانی میں موجودرھے، خودنمازپڑھائی-جہاں صحابہ امام تھےتوانھیں تاکیدتھی: یسراولاتعسرا، بشراولاتنفرا-امام صاحب نمازاس طرح پڑھائیں کہ لوگوں میں نمازکی رغبت پیداھو، نہ کہ نفرت-نمازمیں مقتدیوں کی سہولت پیش نظررکھی جاے، امامت ایسامنصب ھےجس کےلیےباقاعدہ ترتیب بھی مقررکردی گئی، ارشادھوا: کہ جوصاحب قرآن کے بھترین عالم ھوں، انھیں آگےبڑھایاجاے، وہ نہ ھوں توان سےکم ترکو-وغیرہ-امامت انتہاسےزیادہ نازک ذمہ داری ھے، شیطان کاسارازورامام کوبھول چوک دلانےپررھتاھے، اسی لیےمسجدکی وہ جگہ "محراب "کہلاتی ھے، جہاں امام کھڑاھوتاھے، یعنی جھگڑے کی جگہ-امام کااتنابڑامقام ھےمگرصدافسوس کہ وھی نمازکامقیم جسےاحادیث میں بلندرتبےسےنوازاگیا،  معاشرےمیں اسی مقیم الصلوٰۃ کی کوئی اھمیت نھیں -مقتدیوں میں اس قدربےزاری ھےکہ امام سےشایدوبایدھی ملاقات کرتےھیں -ان کی حیثیت اتنی گری ھوئی ھےکہ گھرمیں ناچاقی ھوئی توسارانزلہ غریب امام پرگرادیا-امام کس نمی پرسدکی ایسی تصویرکہ جوچاھتاھے اسےگری ھوئی نظروں سےدیکھتاھے-پھرتن خواہ حددرجہ کم-اتنی کم کہ اس سےگزارےکی کوئی صورت نھیں، مھنگائی عروج پرھے، لازمی اشیاءکی قیمتیں آسمان سےباتیں کررھی ھیں مگرامام بےچاراوھی تین چارھزارروپیوں کےپھیرمیں ھے-مقتدیوں کےاندازسےمعلوم ھوتاھےکہ وہ ایک روپیہ دینےکےبھی روادارنھیں،امام کی تنخواہ ایک بھیک منگےکی روزانہ آمدنی کابھی مقابلہ نھیں کرسکتی-نتیجہ ظاھرھے: امام کسب معاش کےدیگرذرائع ڈھونڈتاھے، امامت کےدوران وہ خشوع وخضوع نھیں پایاجاتاجس کانمازسےمطالبہ کیاجاتاھے، امام نمازسےکچھ لمحےپہلےمسجدمیں آتاھےاورنمازسےفارغ ھوتےھی سائیکل تھام لیتاھے، ٹیوشن اوردوسرےراستےکی طرف یہ جاوہ جاھوجاتاھے-یہ خطرناک رجحان ھے، 

حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ امام اورمؤذن کاحددرجہ خیال کیاکرتےتھے-بڑی بڑی خدمتیں ان کی طرف سےھوتی تھیں-ھم سنت صحابہ کواپنانےکی بات توکرتےھیں لیکن امام صاحب کی ضروریات کی طرف کوئی دھیان نھیں دیتے-اتنی معمولی تنخواہ امام کودینااس کااعزازنھیں، مذاق ھے-

موجودہ دورکےحساب سےامام کاوظیفہ کم ازکم پندرہ ھزارروپےھونےچاھییں اوراگرامام صاحب کثیرالعیال ھوں توبیس ھزارروپے-امام خوش ھوں گےتونمازبھی دلجمعی کےساتھ پڑھائیں گے، ورنہ جیسی روح ویسافرشتہ والامعاملہ ھوگا، نہ حضورقلب، نہ رجوع وانابت-بالکل بےنمک، بےذائقہ نماز-صفیں کج، دل پریشاں، سجدہ بےذوق ھوگاکیوں کہ جذب اندروں کوباقی رھنےنھیں دیاگیا-میں ٹرسٹیان مساجدسےدرخواست کرتاھوں کہ آپ مسجدکی رقمیں جہاں دیگرضروریات میں صرف کرتےھیں، امام کی ضروریات میں بھی ذوق وشوق سےصرف کریں-تن خواہ کےعلاوہ ذاتی ملاقات میں بھی ھدیہ تحفہ کاسلسلہ جاری رھے، یہ بےچارہ آپ کےلیےاتنابڑارسک لیتاھے، آپ اس کےلیےاتنابھی نھیں کرسکتے؟