Pages

رمضان عید مبارک کا پیغام Ramzan O Eid Mubarak ka Paigham

Tamam Musalmanon Ko Eid e Saeed ki Purkhuloos Mubarakabad. Allah paak Hamre Rozon ko Qabool Kare Aur Gunaho ko Maaf kare.






‬: خادمانِ دین اور ملت کا فریضہ

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی 

جیسے جسم انسانی کا باقی رہنا روح پر موقوف ہے اور بظاہر جان کی حفاظت معالجین سے وابستہ ہے ، اسی طرح مسلمان سماج کی روح دین ہے اور دین کی حفاظت اور اس کی بقاء علماء اور دینی خدمت گزاروں پر موقوف ہے ، مساجد کے ائمہ اور مؤذنین نہ ہوں ، تو مسجدیں کیوں کر آباد رہیں گی ؟ خطباء و واعظین اور داعیان و مبلغین نہ ہوں ، تو کس طرح لوگوں کی زندگی میں دین باقی رہے گا ؟ 

اگر فتاویٰ دینے والے اہل افراد موجود نہ ہوں ، تو حلال و حرام کے بارے میں کس طرح امت کی رہنمائی ہو سکے گی ؟

 اگر مدارس و مکاتب کا نظام نہ ہوتا تو کیا یہ بات ممکن بھی تھی کہ مسلمانوں کی حکومت گم ہو جانے کے ڈیڑھ سو سال بعد بھی اس ملک میں مسلمان اپنے مذہبی تشخصات کے ساتھ باقی رہتے ؟ 

دینی جماعتیں اورتنظیمیں اگر موجود نہ ہوتیں تو بہت سے قومی و ملی کام کس طرح انجام پاسکتے تھے ؟ 

اگر اسلامی نقطۂ نظر کی ترجمانی کرنے والے علمی و تحقیقی ادارے ، تصنیفات و تالیفات اور رسائل و جرائد موجود نہ ہو تے تو کیسے اسلامی فکر کی اشاعت ہوتی 
اور کس طرح مخالفِ اسلام افکار و نظریات کی تردید کی خدمت انجام پاتی ؟ 

یہ تمام شخصیتیں ، درس گاہیں ، تحریکیں ، تنظیمیں و ادارے اور کا وشیں اسلام کی خدمت کا حصہ ہیں اور ان کے ذمہ داران و کار کنان دینی خدمت گذار ہیں ، جیسے کسی انسانی معاشرہ کے لئے ہسپتال اور اسکول ضروری ہیں ، اسی طرح کسی قوم اور ملت کی بقاء کے لئے ان اداروں اورشخصیتوں نے معمولی خس پوش عمارتوں میں بیٹھ کر وہ خدمات انجام دی ہیں جو ہمارے بادشاہوں اور امراء و رؤساء نے قصور و محلات میں رہ کر بھی انجام نہیں دیں ،

 کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ آج اس ملک میں نوجوانوں کے اندر اسلام سے جو وابستگی اور شعائر اسلام کی جو محبت اور اسلام کے لئے کٹ مرنے اور نثار ہو جانے کا جو جذبہ موجود ہے ، وہ مسلم سلطنتوں میں بھی موجود نہیں تھا ؟ ایوانِ اقتدار سے محرومی اور اسبابِ عیش و عشرت سے مہجوری کے اس دور میں اسلام کی اشاعت و حفاظت کی جو خدمت انجام پارہی ہے اور علم و تحقیق کا جو کام سامنے آرہا ہے ، مسلمان حکومتیں بھی اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں ، ہندوستان سے کئی عالمگیر اسلامی تحریکیں اٹھی ہیں ، آج مشرق سے مغرب تک چپہ چپہ پر اس کے نقوش موجود ہیں اور ان تحریکات نے پوری دنیا میں احیاء دین اور رجوع الی الاسلام کے ایک نئے جذبہ کو وجود بخشا ہے ، بلکہ ان جذبات کو شورش و تلاطم سے ہم کنار بھی کیا ہے ، مسلمانوں کے عہد ِحکومت میں اس خطہ 
سے ایسی فکری کشور کشائی اور جہاں بانی کی مثالیں نہیں دیکھی گئیں ۔ 

ظاہر ہے یہ سب بظاہر ان ہی دینی خدمت گزاروں اور مذہب و ملت کے وفا شعاروں کی سعی مسلسل اور کاوشِ بے غرض سے عبارت ہے ، یہ وہ لوگ ہیں جن کے معاشی وسائل محدود سے محدود تر اور کم سے کم تر ، بلکہ بعض اوقات کمترین ہوتے ہیں ، ان کے لئے شہر کے پر سکون اور بیش قیمت مقامات پر سکونت کا تصور کرنا بھی دشوار ہوتا ہے ، یہ اپنے بچوں کو ذہنی استعداد بہم پہنچنے کے باوجود اعلی عصری تعلیم کے بعض شعبوں میں داخل نہیں کرسکتے ، انھیں سادہ رہن سہن اور معمولی اسبابِ زندگی پر قناعت کرنا پڑتا ہے ، یہ بس اس لئے کہ وہ عام لوگوں کی طرح نہیں ہیں ، بلکہ ایک مشن اور تحریک کا حصہ ہیں ، یہ مشن ہے اسلام کی حفاظت واشاعت کا ،یہ مشن ہے دین کی سربلندی اور اعلاء کلمۃ اللہ کا ، یہ تحریک ہے اسلام کی بقاء اور اس کے احیاء کی اور یہ تحریک ہے نفس کی بندگی پر اللہ کی بندگی کو غالب رکھنے کی ۔ 

کیا ہم نے کبھی اس پر بھی غور کیا کہ اس طبقہ کے تئیں ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں ؟ ہمارا ان کے ساتھ کیا سلوک و رویہ ہونا چاہئے ؟ اور جو سلوک ہوناچاہئے کیا واقعی ہمارا عمل اس کے مطابق ہے ؟ باپ سے بڑا حق دینی خدمت گزاروں کی توقیر اور ان کا احترام و اکرام ہے ، 

حضرت ابو امامہ ص راوی ہیں ، رسول اللہا نے ارشاد فرمایا : 
تین اشخاص وہ ہیں کہ جن کے ساتھ منافق ہی استخفاف اور بے توقیری کے ساتھ پیش آسکتا ہے : بوڑھا مسلمان، عالم اور منصف مزاج امام۔ ( مجمع الزوائد : ۱؍ ۷۲۱ ، باب معرفۃ حق العالم ) 
’’منصف مزاج امام‘‘ (امام مقسط ) میں اداروں ، تنظیموں اور جماعتوں کے وہ ذمہ داران بھی شامل کئے جاسکتے ہیں جو انصاف اور دیانت پر قائم ہوں ۔
حضرت ابو امامہ باہلی ص کے واسطہ سے آپ ا کا ارشاد منقول ہے کہ جس نے کسی شخص کو قرآن کی ایک آیت بھی سکھا دی وہ اس کا مالک ہے ’’ من علم عبدا آیۃ من کتاب اﷲ فہو مولاہ‘‘ اب نہ اس کے لئے اس کی تحقیر کی کوئی گنجائش ہے اور نہ یہ کہ وہ دوسروں کو اس پر ترجیح دے ، ( مجمع الزوائد : بحوالہ طبرانی : ۱؍ ۸۲۱ ) 

ایک حدیث میں آپ ا نے عالم کو بہ چشم محبت دیکھنے کو بھی باعث ِاجر قرار دیا ، اس سے معلوم ہوا کہ علماء اور دینی کاموں کے ذمہ داروں کے بارے میں ہمارا رویہ توقیر و احترام اور جہاں تک ممکن ہو اعتبار و اعتماد کا ہونا چاہئے ۔ 
احترام میں یہ بات داخل ہے کہ کسی شرعی ضرورت کے بغیر ان کی غیبت اور ان کی کوتاہیوں کے اظہار و اشاعت سے بچا جائے ، کیوں کہ کوئی انسان غلطی سے پاک نہیں ، لیکن جو لوگ دین کی خدمت انجام دے رہے ہوں ، اگر ان کی کمزوریوں کو اچھالا جائے ، تو اس سے نہ صرف ان کا اعتماد مجروح ہوگا ، بلکہ خود دین پر لوگوں کا یقین متزلزل ہو جائے گا ، علامہ ابن عبد البرؒ نے حضرت علی ص کا ایک تفصیلی ارشاد نقل کیا ہے ، جس میں عالم کے حقوق بتائے گئے ، ان میں ایک یہ بھی ہے کہ انسان ان کی کمزوریوں کا متلاشی نہ رہے ، ’’ أن لا تطلب زلتہ ‘‘ ان کے راز کا افشاء نہ کرے اور نہ ان کی غیبت کرے ’’ و أن لا تفشی لہ سرا ۔۔۔ و أن تحفظہ شاہدا و غائبا‘‘ (کنز العمال ، حدیث : ۰۲۵۹۲ ) افسوس کہ آج کل دینی کام کرنے والوں پر بے اعتباری ، ان کے بارے میں افواہوں کا پھیلا نا اور بلا تحقیق تبصرے کرنا ، مسجد کی خدمت کرنے والوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنا اور اونٹ کو نگل جانے والے مصلیوں کا ان کے اندر تنکے تلاش کرنا ایک عام سماجی مرض ہو چکا ہے اور افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ بعض دینی کاموں میں لگے ہوئے لوگ بھی علماء اور دینی اداروں کے خدمت گزاروں کی غیبت کرنے ، بلا تحقیق تبصرے کرنے اور خوردہ گیری کرنے سے نہیں چوکتے ۔ و إلی اﷲ المشتکی ۔
ایک اہم مسئلہ دینی کام کرنے والوں کی معاشی ضروریات کا ہے ، ضروریات ہر انسان کے ساتھ ہیں ، یہ دنیا تمناؤں اور آرزوؤں سے سجائی ہوئی ہے ، اس سے کسی بھی شخص کو مفر نہیں ، اگر مرد زہد و قناعت کو اپنا شعار بنالے اور مادّیت کے خارزار سے دامن بچا کر نکلنے کی کوشش کرے ، تب بھی کیا گھر کی عورتوں اور بچوں سے یہ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ سب کے سب اسی رنگ میں رنگ جائیں گے ؟ ظاہر ہے کہ یہ ایک ناقابل عمل بات ہے ، اس لئے امت کا فریضہ ہے کہ وہ ان کی ضروریات کو اپنی ضرورت سمجھیں اور ان کی معاشی سطح کو اونچا اٹھانے کی کوشش کریں ، انھیں اس بات سے خوشی ہو کہ جو لوگ ان کی دینی خدمت انجام دینے والے ہیں ، وہ بہتر حالت میں ہیں ، ایسا نہ ہو کہ اگر انھوں نے کسی امام ، کسی دینی تنظیم یا جماعت کے سربراہ کو جو اچھے مکان میں رہتے ، اچھے لباس میں ملبوس اور اچھی گاڑی پر چلتے ہوئے دیکھے تو اسے گھٹن ہونے لگے اور دل خوش ہونے کے بجائے رنجیدہ ہو کہ کچھ سال پہلے تو اس کے پاس جھونپڑی بھی نہیں تھی اور آج یہ بہتر مکان میں ہیں ، کچھ دنوں پہلے سائیکل بھی میسر نہیں تھی اوراب آرام دہ کاریں ان کے قدموں میں ہیں ، جیسے انسان اپنے اعزہ اوراہل تعلق کے بارے میں نیک جذبات رکھتا ہے اور ان کو بہتر معاشی موقف میں دیکھنا چاہتا ہے ،علماء اور خادمین دین کے بارے میں بھی اس کے یہی جذبات ہونے چاہئیں ، حضرت علیؓ نے عالم کا ایک حق یہ بھی قرار دیا ہے کہ اگر اسے کوئی حاجت پیش آئے تو لوگ اس کی خدمت میں سبقت کرنے کی کوشش کریں ’’ وإن کانت لہ حاجۃ سبقت کل القوم إلی خدمتہ‘‘ ۔ ( کنز العمال ، حدیث نمبر : ۰۲۵۹۲ ) 
رسول اللہ ا نے ایک دینی خدمت گذار سے فرمایا کہ ہم پر اتنا واجب ہے کہ تمہارے خوردو نوش کا نظم ہو جائے ، رہائش کا انتظام ہو جائے ، تم شادی کرلو اور خادم رکھ لو ، اس سے معلوم ہوا کہ کسی بھی شخص کو اتنا حق المحنت ملنا چاہئے کہ خورد و نوش اور رہائش کا نظم کرسکے ، جو کام انسان خود نہ کرسکے اس کے لئے خادم کا نظم ہو ، خادم انسان بھی ہو سکتا ہے اور خدمت گذار مشینیں بھی ہو سکتی ہیں ، اور نکاح کرنے میں بیوی بچوں کے اخراجات اور ضروریات بھی شامل ہیں ، لیکن بنظر انصاف دیکھا جائے کہ آج مساجد میں ائمہ و مؤذنین کو ، مدارس و مکاتب میں اساتذہ و معلمین کو اور مختلف دینی جماعتوں میں خدام و کارکنان کو کیا تنخواہیں میسر ہیں ؟ پھر اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھا جائے کہ کیا ہم اپنی کم سے کم ضروریات معمولی سطح پر بھی اس قلیل و حقیر حق المحنت سے پوری کرسکتے ہیں ؟ 
اس کوتاہی میں مساجد و مدارس اور تنظیموں اور اداروں کے ذمہ داروں کا قصور کم ہے اور امت کے اصحابِ ثروت کا قصور زیادہ ہے ، ہمارا مزاج یہ بن گیا ہے کہ ہم مسجد کے پرشکوہ میناروں اور جاذبِ نظر گنبدوں کی تعمیر کے لئے تو پیسے دیتے ہیں ، جلسوں اور جلوسوں اور کانفرنسوں اورریلیوں کے لئے تو تعاون کرتے ہیں ، لیکن دین کی خدمت کرنے والے افراد و اشخاص جو ہمارے تعاون کے اصل مستحق ہیں ، ان پر خرچ کرنے اور ان کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے لئے تعاون کی توفیق نہیں ہوتی ، بلکہ بعض لوگ تو اسے مد ِفضول یا کم اجر والا کام خیال کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے انفاق کی خاص مد کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : 
… ان حاجت مندوں کے لئے جو اللہ کے راستہ میں گھرے ہوئے ہیں ، زمین میں آنا جانا نہیں کرسکتے ، نا واقف انھیں ان کی خود داری کی وجہ سے مالدار خیال کرتے ہیں ، تم انھیں ان کے چہرے کے نقوش سے سمجھ سکتے ہو ، وہ لوگوں سے گڑ گڑا کر نہیں مانگتے اور جو بھی تم خرچ کروگے ، اللہ اس سے خوب آگاہ ہیں ۔ (البقرہ : ۳۷۲ )
یہ اللہ کے راستے میں روکے ہو ئے کون لوگ ہیں ؟ ظاہر ہے کہ اس میں وہ دینی کام کرنے والے بھی شامل ہیں ، جو کاروبار اور معاشی تگ و دو کے لئے اپنے وقت کو خالی نہیں کرتے ، اور اللہ کی زمین میں دوڑ دھوپ نہیں کرسکتے ، اسی لئے فقہاء نے لکھا ہے کہ محتاج عالم پر صدقہ کرنے کا ثواب زیادہ ہے ’’ التصدق علی الفقیر العالم أفضل من التصدق إلی الجاہل‘‘ ( ہندیہ : ۱؍ ۷۸۱ ) اسی طرح مشہور فقیہ علامہ حصکفیؒ نے علماء کے ساتھ ساتھ زاہدوں کا بھی ذکر فرمایا ہے ۔ ( درّ مختار مع الرد : ۳ ؍ ۴۰۳ ) 
آج کل بعض حضرات یہ مہم چلا رہے ہیں کہ مدارس میں عام قسم کی ٹکنیکل تعلیم دی جانی چاہئے ، تاکہ ہنر مند علماء پیدا ہوں اوراس طرح ان کے معاشی حالات بہتر ہوں ، اس سے قطع نظر کہ اس کے بعد ہنر مند حفاظ و علماء آئندہ اپنے ہنر کی خدمت کریں گے یا دین کی ؟ اس پر کیوں توجہ نہیں دی جاتی کہ ہم اپنی قوم کو اس جانب متوجہ کریں کہ وہ اپنے علماء اور دینی خدمت کرنے والوں کے معاشی معیار کو بہتر بنائیں اور اس کیلئے حسب ضرورت قربانی دیں ؟ آخر میں حضرت ابو مالک اشعری صکی ایک روایت نقل کرنے کو جی چاہتا ہے کہ آپ انے ارشاد فرمایا :مجھے اپنی اُمت پر تین باتو ںکا خوف ہے ، ان میںسے تیسری بات یہ ہے کہ لوگ صاحب ِعلم کو دیکھیں گے ، اسے ضائع کردیں گے اور اس سے بے توجہی برتیں گے ، وأن یروا ذا علمہم فیضیعونہ ولا یبالون علیہ ۔( مجمع الزوائد : ۱ ؍ ۸۲۱ ) ضائع کرنے سے مراد ان کو اہمیت نہ دینا اور ان کی ضروریات سے بے توجہی برتنا ہے ۔بصیرت فیچرس)