Pages

مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی کا پیغام Khalil ur Rahman Sajjad Nomani


 مولانا خلیل الرحمن سجاد . نعمانی دامت برکاتہم  کا پیغام 
تمام اساتذہ مدارس کے نام.
                             
آج اتنا فرق پڑ گیا مادیت کے غلبہ کا کہ ہم اساتذہ اپنے طلبہ کووہ تقوی نہیں دے پاتے،ان کے اندر ایک طلب صحیح کو منتقل نہیں کر پاتے ،اس وجہ سے اتنی محنت اور اتنا سرمایہ لگنے کے باوجود پہلے جیسے علما ءتیار نہیں ہو پا رہے،تو ایک تویہ بھی گزارش ہے کہ اپنی زندگی کے اس خلا کو بھی پر کریں ،طلبہ پر اساتذہ کی باطنی کیفیت کا بہت زیادہ اثر پڑتا ہے ،ہم ہزار نصیحتیں کریں تقریریں کریں،قانون بنائیں، طلبہ پر اس کا اتنا اثر نہیں پڑتا جتنا ہمارے اندر کی سوزش کا،تپش کااثر ہوتا ہے ،اس لئے اس جانب توجہ بہت ضروری ہے ،اس رواج کو زندہ کیجئے ،اس شعبہ کو زندہ کیجئے ،یہی آواز اس درودیوار سے آ رہی ہے ،یہاں کی تو یہی پکار ہے۔ 

دوسری بات یہ کہ بہت شدید محنت کے ساتھ پڑھائیے،استاذ کو طالب علم سے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے ،تب وہ صحیح طور پر تدریس کا حق ادا کر پاتا ہے ،ہمارے یہاں اس دور میں اس کا رواج بھی بہت کم ہو گیا ،آپ صرف پڑھائیں،نحوپڑھائیں ،بلاغت پڑھائیں،ادب پڑھائیں ،آپ انشا پڑھائیں ،آپ جو مضمون چاہیں پڑھائیں لیکن بچوں کو گھول کر پلا دیں ،بہت تیار ہو کر آئیں ،از خود محنت کریں،بہت سے لوگ جنہوں نے طالب علمی کے زمانہ میں بہت شدید محنت نہیں کی اور قسمت ان کو مدرس بنا دیتی ہے تو وہ بھی مایوس نہ ہوں، بلکہ دوران تدریس وہ اس کمی کی تلافی کرلیں ،کیونکہ ہم کو اس وقت بہت ذی استعداد علما ءکی ضرورت ہے،چند طلبا تو ایسے نکلیں مدرسوں سے جو بہت ممتاز عالم کہے جائیں،سب تو نہیں بنیں گے،جتنا بھی ہوکافی ہے،ہمیں تو مساجد کے ائمہ کی ضرورت ہے گبھرائے نہ ،ہمیں تو گاؤں گاؤں ارتداد سے بچانے کے ہیں،ایسے لوگ بھی تو بے کار نہیں ہیں ، ہمیں تو  ناظرہ پڑھانے والوں کی بھی ضرورت ہے،بہت بڑی خدمت انجام دے رہا ہے مدرسہ اگر ایسےلوگ نکال لے ،یہ بھی کوئی معمولی کام نہیں ہے،اور ان پر خاص نظر رکھی جائے کہ یہ جو بچہ ہے اس میں بہت خصوصیات ہیں، اس کو کہاں بھیجا جائے ،اس کوکیسےپڑھایاجائے  ،لیکن دو چار ذہین طلبہ بھی ہوتے ہیں جن کے اندر اچھی استعداد ہوتی ہے ،ایک اچھا جوہر ہوتا ہے تو پھر ان کو تو اس لائق بنایا جائے ،تو الگ سے کچھ نہ کچھ ضرور آپس میں صلاح مشورہ  ہو اور خصوصی توجہ ایسے بچوں پر دیں ،کیونکہ جتنی تعداد میں اچھے علما ءکی ،ممتاز علماء کی امت کو ضرورت ہے اس دور میں نہیں مل پا رہے ہیں،جس زمانہ میں بہت بڑے علماء تیار ہوئے اس زمانہ میں اساتذہ بہت محنت کرنے والے ہوتے تھے،وہ صرف ملازمت نہیں کرتے تھے ،ان کو تو اندر سے ایک عجیب قسم کی لگن تھی،جنون تھا ،میرے ایک استاذ تھے حضرت مولانا نور الحسن قاسمی صاحب ندوہ میں وہ حضرت مولانا اعجاز علی صاحب کے شاگرد خاص تھے ،وہ سناتے تھے کہ میں نےحضرت مولانا اعجاز علی صاحب کی بڑی خوشامد کی کہ مجھے فلاں کتاب خارج میں پڑھا دیجئے ،تو انہوں نے فرمایا کہ دیکھو میرے سارے اوقات بالکل پر ہیں،بس اتنا ہو سکتا ہے کہ ڈھائی بجے میں تہجد کے لئے اٹھتا ہوں ،تم دو بجے آجاؤ،میں دو بجے اٹھ جاؤں گا،میں دو سے ڈھائی کے بیچ میں تمہیں پڑھا لوں گا پھر میں اپنے معمولات پورے کر لوں گا ،تو وہ کہتے تھے کہ جب میں دو بجے وہاں پہنچا تو پچیس طلبہ وہاں منتظر تھے ، معلوم ہوا کہ میں اکیلا نہیں ہوں ،عجیب کیفیت تھی ،آج اگر ہم سے کوئی درجہ کے باہر سوال کرتا ہےتو ہم ناراض ہو جاتے ہیں ،یہ سب سکول ،کالج کے ٹیچروں کو زیب دیتا ہے ،جو صرف تنخواہ کے لئے کام کرتے ہوں ،اللہ کے لئے کام کرنے والے کو تو ہر وقت ایسی کیفیت میں ہونا چاہئے کہ ان کو صرف ایک ہی لگن ہو کہ بس میں ان طلبہکوکچھ بنادوں ،جیسے ماں بچہ کو دودھ پلانے کے لئے ہر وقت بے چین رہتی ہے ،ان کی یہ نیت ہو کہ وہ میرے لئے ذخیرہ آخرت بنیں گے ،ہمارے محی السنۃ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب فرمایا کرتے تھے کہ اگر مدرس حضرات اخلاص اور درد دل کے ساتھ صرف تدریس کی ذمداری ادا کریں اور وہ پڑھانے کے لئے جاتے وقت تصحیح نیت کر لیں ،تجدیدِ نیت کر لیں ،صرف اتنا کر لیں اور کوئی خیانت نہ کریں ،مدرسہ کے اوقات میں ،مدرسہ کے اموال میں بہت ایمان داری کے ساتھ اپنا فرض ادا کریں ،مدرسین کے لئے ولایت کے حصول کے لئے اتنا ہی کافی ہے ،اسی لئے محی السنۃ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب مدرسین کو بہت زیادہ اذکار ووظائف نہیں بتاتے تھے ،وہ کہتے تھے کہ آپ کا سلوک یہ ہے کہ آپ جب صبح پڑھانے کے لئے نکلیں تو پہلے اللہ سے دعا مانگ لیں کہ اللہ مجھے اخلاص کے ساتھ پڑھانے کی توفیق دے ،آپ کی رضا کے لئے میں پڑھانے جا رہا ہوں میری مدد فرما ،میری نیت درست رکھ ،اور دن میں بار بار ان نیتوں کی تجدید کریں اور بہت محنت سے پڑھائیں، یکسو ہو کر پڑھائیں، انشاءاللہ اخلاص کی وجہ سے یہی عمل آپ کا سلوک بن جائے گا .