فصل اول
فضائل رمضان میں
(۱) عَنْ سَلْمَانَؓ قَالَ خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ فِیْ اٰخِرِ یَوْمٍ مِّنْ شَعْبَانَ فَقَالَ یَا
اَیُّہَا النَّاسُ قَدْ اَظَلَّکُمْ شَہْرُ عَظِیْمُ مُبَارَکُ شَہْرُ فِیْہِ لَیْلَۃُ
خَیْرُ مَنْ اَلْفِ شَہْرٍ اَلْفِ شَہْرٍ۔شَہْرٍ۔ شَہْرُ جَعَلَ اللّٰہُ صِیَامَہٗ
فَرِیْضَۃً وَّ قِیَامُ لَیْلِہٖ تَطَوُّعَاً مَنْ تَقَرَّبَ فِیْہِ بِخَصْلَۃٍ
کَانَ کَمَنْ أَدّٰی فَرِیْضَۃً فِیْ مَا سِوَاہُ وَمَنْ اَدّٰی فَرِیْضَۃً
فِیْہِ کَانَ کَمَنْ اَدّٰی سَبْعِیْنَ فَرِیْضَۃً فِیْمَا سِوَاہُ وَہُوَ شَہْرُ
الصَّبْرِ وَ الصَّبْرُ ثَوَابُہُ الْجَنَّۃُ وَ شَہْرُ الْمُوَاسَاۃِ وَ شَہْرُ
یُزَادُ فِیْ رِزْقِ الْمُؤْمِنِ فِیْہِ مَنْ فَطَّرَ فِیْہِ صَائِمَاً کَانَ
مَغْفِرَۃً لِذُنُوْبِہٖ وَعِتْقَ رَقَبَتِہٖ مِنَ النَّارِ وَ کَانَ لَہُ مِثْلُ
اَجْرِہٖ مِنْ غَیْرِ أنْ یَّنْقُصَ مِنْ اَجْرِہٖ شَیُ قَالُوْ یَا رَسُوْلَ
اللّٰہِ لَیْسَ کُلَّنَا یَجِدُ مَا یُفَطِّرُ الصَّائِمَ فَقَالَ رَسُوْلُ
اللّٰہِﷺیُعْطِی اللّٰہُ ہَذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ
صَائِماً عَلَی تَمْرَۃٍ اَوْ شَرْبَۃِ ماَئٍ اَوْ مَذْقَۃِ لَبْنٍ وَہُوَ شَہْرُ اَوَّلُہٗ
رَحْمَۃُ
حضرت سلمان کہتے ہیں کہ نبی کریم
ﷺ نے شعبان کی آخر تاریخ میں ہم لوگوں کو وعظ فرمایا کہ تمہارے اوپر ایک مہینہ آ
رہا ہے جو بہت بڑا مہینہ ہے بہت مبارک مہینہ ہے اس میں ایک رات ہے ( شب قدر) جو
ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے اﷲ تعالی نے اس کے روزہ کو فرض فرمایا اور اس کے رات کے
قیام ( یعنی تراویح) کو ثواب کی چیز بنایا ہے جو شخص اس مہینہ میں کسی نیکی کے
ساتھ اﷲ کا قرب حاصل کرے ایسا ہے جیسا کہ غیر رمضان میں فرض کو ادا کیا اور جو شخص
اس مہینہ میں کسی فرض کو ادا کرے وہ ایسا ہے جیسا کہ غیر رمضان میں ستر فرض ادا
کرے یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے اور یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم
خواری کرنے کا ہے اس مہینہ میں مومن کارزق بڑھا دیا جاتا ہے جو شخص کسی روزہ دار
کا روزہ افطار کرائے اس کے لئے گناہوں معاف ہو نے ا ور آگ سے خلاصی کا سبب ہو گا
اور روزہ دار کے ثواب کی مانند
وَاَوْسَطُہٗ مَغْفِرَۃٌ وَ اٰخِرُہٗ عِتْقٌ
مِّنَ النَّارِ مَنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُوْکِہِ فِیْہِ غَفَرَ اللّٰہُ لَہٗ
وَاَعْتَقَہٗ مِنالنَّار وَاسْتَکْثِرُوْا فِیْہ مِنْ اَرْبَعِ خِصَالٍ خَصْلَتَیْنِ تُرْضُوْنَ بِہِمَا رَبَّکُمْ وَ
خَصْلَتَیْنِ لَا غِنَائَ بِکُمْ عَنْہُمَا فَاَمَّا الْخَصْلَتَانِ
اللَّتَانِتُرْضُوْنَ بِہِمَا رَبَّکُمْ فَشَہَادَۃُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلاَّ
اللّٰہُ وَتَسْتَغْفِرُوْنَہ وَاَمَّا الْخَصْلَتَانِ اللَّتَانِ لَا غِنَاء بِکُمْ عَنْہُمَا فَتَسْئَلُوْنَ اللّٰہَ
الْجَنَّۃَ وََتَعَوَّذُوْنَ بِہٖ مِنَ النَّارِ وَمَنْ سَقٰی صَائِماً سَقَاہُ
اللّٰہُ مِنْ حَوْضِیْ شَرْبَۃً لَا یَظْمَأُ حتَیَّ یَدْخُلَ الْجَنَّۃَ۔ (رواہ
ابن لخشیمۃ فی صحیحہ و قال ان صح الخبر ورواہ البیہقی و رواہ ابو الشیخ ابن حبان
فی الثواب باختصار عنہما وفی اسانیدہم علی بن زید بن جدعان و رواہ ابن خزیمہ ایضا
والبیہقی باختڈار عنہ من حدیث ابی ہریرۃ وفی اسنادہ کثیر بن زید کذا فی الترغیب
قلت علی بن زید ضعفہ جماعۃ وقال الترمذی صدہق و صحح لہ حدیثا فی الاسلام و حسن لہ
غیر ما حدیث و کذا کثیر ضعفہ النسائی و غیرہ قال ابن معین ثقۃ وقالابن عدی لم اربحدیثہ
باسا واخرج بحدیثہ ابن خزیمۃ فی صحیحہ کذا فی رجال المنذری ص ۴۔ ۷ لکن قال العینی الخبر منکر فتامل)
اس ثواب ہو گا مگر ا س روزہ دار کے
ثواب سے کچھ کم نہیں کیا جائیگا صحابہ نے عرص کیا کہ یا رسول اﷲہم میں سے ہر شخص
تو اتنی وقعت نہیں رکھتا کہ روزہ دار کو افطار کرائے تو آپ نے فرمایا کہ (پیٹ بھر
کھلانے پر موقوف نہیں) یہ تواب تو اﷲ جل شانہ ایک کھجور سے کوئی افطار کرا دے یا
ایک گھونٹ پانی پلادے یا ایک گھونٹ لسی پلادے اس پربھی مرحمت فرما دیتے ہیں یہ
ایسا مہینہ ہے کہ اس کا اول حصہ اﷲ کی رحمت ہے اور درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری
حصہ آگ سے آزادی ہے جو شخص اس مہینہ میں ہلکا کر دے اپنے غلام ( و خادم) کے بوجھ
کو حق تعالی شانہ اس کی مغفرت فرماتے ہیں اور آگ سے آزادی فرماتے ہیں اور چار
چیزوں کی اس میں کثرت رکھا کرو جن میں سے دو چیزیں اﷲ کی رضا کے واسطے اور دوچیزیں
ایسی ہیں کہ جن سے تمہیں چارہ کار نہیں پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی
کرو وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب
کرو اور آگ سے پناہ مانگوجو شخص کسی روزہ دار کو پانی پلائے حق تعالیٰ ( قیامت کے دن) میرے حوض سے اس
کوایسا پانی پلائیں گے جس کے بعد جنت میں داخل ہو نے تک پیاس نہیں لگے گی۔