Pages

Detail Knowledge about Sons and Daughters of Prophet Muhammad Sallallahu Alaihi Wasallam , Prophet children s detail information and Biography


حضورﷺ کی اولاد
مورخین اور محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ آپﷺکی چار لڑکیاں ہوئیں اور اکثر کی تحقیق یہ ہے کہ ان میں سب سے بڑی حضرت زینبؓ ہیں پھر حضرت رقیہؓ پھر ام کلثومؓ پھر حضرت سیّدہ فاطمہؓ ۔ لڑکوںمیں البتہ بہت اختلاف ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سب حضرات بچپن ہی میں انتقال فرما گئے تھے اور عرب میں اس زمانہ میں تاریخ کا اہتمام کچھ ایسا نہ تھا۔ صحابہؓ جیسے جاں نثار بھی اس وقت تک کثرت سے نہیں ہوئے تھے جو ہر بات پوری پوری محفوظ رہتی۔ اکثر کی تحقیق یہ ہے کہ تین لڑکے حضرت قاسمؓ، حضرت عبداللہؓ، حضرت ابراہیمؓ ہوئے۔ بعضوں نے کہا کہ چوتھے صاحبزادے حضرت طیبؓ اور پانچویں حضرت طاہرؓ تھے۔ اس طرح پانچ ہوئے،بعض کہتے ہیں کہ طیب اور طاہرؓ دونوں ایک ہی صاحبزادے کے نام ہیں، اس طرح چار ہوئے اور بعضوں نے دو لڑکے اور بھی بتائے۔ مطیبؓ اور مطہرؓ اور لکھا ہے کہ طیب ؓاور مطیب ؓایک ساتھ پید ا ہوئے اور طاہرؓ اور مطہرؓ ایک ساتھ پیدا ہوئے، اس طرح سات ہوئے لیکن اکثر کی تحقیق تین لڑکوں کی ہے اور حضورﷺ کی ساری اولاد حضرت ابرہیم ؓ کے سِوا حضرت خدیجہؓ ہی سے پیدا ہوئی۔ لڑکوں میں حضرت قاسمؓ سب سے پہلے پیدا ہوئے۔ لیکن اسمیں اختلاف ہے کہ حضرت زینبؓ ان سے بڑی تھیں یا چھوٹی حضرت قاسمؓ نے بچپن ہی میں انتقال فرمایا۔ دو سال کی عمر اکثر نے لکھی ہے اور بعضوں نے اس سے کم یا زیادہ بھی لکھی ہے۔ دوسرے صاحبزادے حضرت عبداللہؓ جو نبوت کے بعد پیدا ہوئے اور اسی وجہ سے ان کا نام طیبؓ اور طاہرؓ بھی پڑا اور بچپن ہی میں انتقال ہوا۔ ان کے انتقال پر بعضوں نے لکھاہے کہ حضرت قاسمؓ کے انتقال پر کفار بہت خوش ہوئے کہ آپ کی نسل منقطع ہو گئی جس پر سورۂ اِنَّا اَعْطَیْنَا نازل ہوئی اور کفار کے اس کہنے کا کہ ’’جب نسل ختم ہو گئی توکچھ دنوں میں نام مبارک بھی مٹ جائے گا‘‘ یہ جواب ملاکہ آج ساڑھے تیرہ سو برس بعد تک بھی حضورﷺ کے نام کے فدائی کروڑوں موجود ہیں۔ تیسرے صاحبزادے حضرت ابراہیمؓ تھے جو ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں با لا تفاق ط ۷ ھ؁ میں پیدا ہوئے۔ یہ حضورﷺ کی باندی حضرت ماریہؓ کے پیٹ سے پیدا ہوئے۔ اور حضورﷺ کی سب سے آخری اولاد ہیں۔ حضورﷺ نے ساتویں دن ان کا عقیقہ کیا اور( دو مینڈھے ذبح کئے )اور بالوں کے برابر چاندی صدقہ فرمائی اور بالوں کو دفن کرایا۔ ابو ہِندبَیاضیؓ نے سر کے بال اُتارے۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میںنے اپنے باپ حضرت ابراہیم ؑ کے نام پر نام رکھا ہے اور سولہ مہینے کی عمر میں ان صاحبزادہ نے بھی ۱۰ربیع الاوّل ۱۰ ھ؁ میں انتقال فرمایا بعضوں نے اٹھارہ مہینے کی عمر بتلائی ہے۔ حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ ابراہیمؓ کے لئے جنت میں دودھ پلانے والی تجویز ہو گئی۔ صاحبزادیوں میں سب سے بڑی حضرت زینبؓ ہیں اور جن مؤرّخین نے اس کے خلاف /spanspan style=mso-spacerun:yesspan style=span style=میں حضرت قاسمؓلکھا ہے غلط ہے۔ حضور اقدس ﷺ کے نکاح سے پانچ برس بعد جب کہ آپ ﷺکی عمر شریف تیس برس کی تھی پید ا ہوئیں اور اپنے والدین کے آغوشمیں جوان ہوئیں۔ مسلمان ہوئیں اور اپنے خالہ زاد بھائی ابو العاص بن ربیع سے نکاح ہوا۔ غزوۂ بدر کے بعد ہجرت کی جس میں مشرکیں کی ناپاک حرکتوں سے زخمی ہوئیں جس کا قصہ اسی باب کے نمبر ۲ پر گذر چکا ہے اور اسی بیماری کا سلسلہ اخیر تک چلتا رہا۔ یہاں تک کہ ۷ ھ؁ کے شروع میں انتقال فرمایا۔ ان کے خاوند بھی ۶ ھ؁ یا ۷ ھ؁ میں مسلمان ہو کر مدینہ منوّرہ پہنچ گئے تھے، اور انہی کے نکاح میںرہیں۔ ان سے دو بچّے ہوئے ایک لڑکا ایک لڑکی۔ لڑکے کا نام حضرت علیؓ تھا۔ جنہوں نے اپنی والدہ کے انتقال کے بعد بلوغ کے قریب حضورﷺ کی زندگی ہی میں انتقال فرمایا۔ فتح مکہ میںحضورﷺکے ساتھ اونٹنی پر جو سوارتھے وہ یہی حضرت علیؓ تھے۔ لڑکی کا نام حضرت اُمامہؓ تھا جن کے متعلق حدیث کی کتابوں میں کثرت سے قصہ آتا ہے کہ جب حضورﷺ نماز میں سجدہ کرتے تو یہ کمر پر سوار ہو جاتیں۔ یہ حضورﷺکے بعد تک زندہ رہیں۔ حضرت سیّدہ فاطمہؓ کے وصال کے بعد جو ان کی خالہ تھیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ان سے نکاح کیا اور ان کے وصال کے بعد مغیرہؓ بن نوفل سے نکاح ہوا۔ حضرت علیؓ کے کوئی اولاد ان سے نہیں ہوئی البتہ مغیرہؓ سے بعضوں نے ایک لڑکا یحییٰ لکھا ہے۔ اور بعضوں نے انکار کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہؓ نے خود وصیت فرمائی تھی کہ میرے بعد حضرت علیؓ کا نکاح بھانجی سے کر دیا جائے ان کا انتقال ۵۰ ھ؁ میں ہوا۔ حضورﷺ کی دوسری صاحبزادی حضرت رقیہؓ تھیں جو اپنی بہن زینبؓ سے تین برس بعد پیدا ہوئیں جب کہ حضورﷺ کی عمر شریف تینتیس برس کی تھی اور بعضوں نے حضرت رقیہ ؓ کو حضرت زینبؓ سے بڑا بتایا ہے لیکن صحیح یہی ہے کہ یہ حضرت زینبؓ سے چھوٹی تھیں حضورﷺ کے چچا ابو لہب کے بیٹے عتبہ سے نکاح ہوا تھا۔ جب سورۃ تبّت نازل ہوئی تو ا بو لہب نے ان سے اور ان کے دوسرے بھائی عتیبہ سے جس کے نکاح میں حضورﷺ کی تیسری صاحبزادی حضرت امِّ کلثومؓ تھیں، یہ کہا کہ میری ملاقات تم دونوں سے حرام ہے اگر تم محمد ﷺ کی بیٹیوں کو طلاق نہ دے دو اس پر دونوں نے طلاق دے دی۔ یہ دونوں نکاح بچپن میں ہوئے تھے رخصتی کی نوبت بھی نہیں آئی تھی ۔ اس کے بعدفتح مکہّ پر حضرت رقیّہؓ کے خاوند عُتبہ مسلمان ہو گئے تھے مگربیوی کو پہلے ہی طلاق دے چکے تھے اور حضرت رقیہؓ کا نکاح حضرت عثمانؓ سے عرصہ ہوا ہو چکا تھا حضرت عثمان ؓ اور حضرت رقیہؓ نے دونوں مرتبہ حبشہ کی ہجرت کی تھی جس کا بیان پہلے باب کے نمبر۱۰پر گزر چکا اس کے بعد جب حضورؐ نے یہ ارشاد فرمایا کہ مجھے بھی ہجرت کا حکم ہونے والا ہے اور میں مدینہ منورہ میری ہجرت کی جگہ ہو گی تو صحابہ ؓ نے مدینہ طیّبہ کی ہجرت شروع کر دی اسی سلسلہ میں حضورؐ سے پہلے ہی یہ دونوں حضرات بھی مدینہ طیّبہ پہنچ گئے تھے حضور ؐکی ہجرت کے بعد جب حضورؐ بدر کی لڑائی میں تشریف لے جانے لگے تو حضرت رقیّہؓ بیمار تھیں اسی لئے حضورؐ حضرت عثمان ؓ کو ان کی تیماداری کے واسطے مدینہ چھوڑ گئے ۔بدر کی فتح کی خوشخبری مدینہ طیبہ میں اس وقت پہنچی جب یہ حضرات حضرت رقیہؓ کو دفن کر کے آرہے تھے۔اسی وجہ سے حضور اقدس ﷺان کے دفن میں شرکت نہ فرما سکے۔حضرت رقیّہؓ کے پہلے خاوند کے یہاں رخصتی بھی نہیں ہو سکی تو اولادکا کیا ذکر البتہ حضرت عثمان ؓ سے ایک صاحبزادہ جن کا نام عبداللہ ؓ تھا ،حبشہ میںپیدا ہوئے تھے جو اپنی والدہ کے انتقال کے بعد تک زندہ رہے اور چھ ۶ سال کی عمر میں ۴ھ؁ میںانتقال فرمایا اور بعض نے لکھا ہے کہ اپنی والدہ سے ایک سال پہلے انتقال کیا ۔ ان کے علاوہ کوئی اور اولاد حضرت رقیہؓ سے نہیں ہوئی ۔ حضور اقدسﷺ کی تیسری صاحبزادی حضرت اُمِّ کلثومؓ تھیں اسمیں اختلاف ہے کہ ان میں اور حضرت فاطمہ ؓ میں سے کونسی بڑی تھیں اکثر کی رائے یہ ہے کہ حضرت اُمِّ کلثوم ؓ بڑی تھیں اوّل عُتیبہ بن ابی لہب سے نکاح ہوا مگر رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ سورۃ تبت کے نازل ہونے پر طلاق کی نوبت آئی جیسا کہ حضرت رقیہؓ کے بیان میں گذرا لیکن ان کے خاوند تو بعد میں مسلمان ہو گئے تھے جیسا کہ گذر چکا اور ان کے خاوند عتیبہ نے طلاق دی اور حضور ؐ کی خدمت اقدس میں آکر نہایت گستاخی، بے ادبی اور نامناسب الفاظ بھی زبان سے نکالے ۔حضورؐ نے بد دعا دی کہ یا اللہ اپنے کتوں میں سے ایک کتا اس پر مسلّط فرما۔ ابو طالب اس وقت موجود تھے ، باوجود مسلمان نہ ہونے کے سہم گئے اور کہا کہ اس کی بد دعا سے تجھے خلاصی نہیں چنانچہ عتیبہ ایک مرتبہ شام کے سفر میں جا رہا تھا اس کا باپ ابو طالب باوجود ساری عداوت اور دشمنی کے کہنے لگا کہ محمد ﷺ کی بد دعا کا فکر ہے قافلہ کے سب لوگ ہماری خبر رکھیں ایک منزل پر پہنچے وہاں شیر زیادہ تھے۔ رات کو تمام قافلہ کا سامان ایک جگہ جمع کیا اور اس کا ٹیلہ سا بنا کر اس پر عتیبہ کو سلایا اور قافلہ کے تمام آدمی چاروں طرف سوئے رات کو ایک شیر آیا اور سب کے منہ سونگھے۔ اس کے بعد ایک زقند لگائی اور اس ٹیلے پر پہنچ کر عتیبہ کا سر بدن سے جدا کر دیا اس نے ایک آواز دی مگر ساتھ ہی کام تمام ہو چکا تھا بعض مؤ رّخین نے لکھا ہے کہ مسلمان ہو گیا تھا اور یہ قصّہ پہلے بھائی کے ساتھ پیش آیا۔ بہر حال حضرت رقیہّؓ اور حضرت اُمِّ کلثوم ؓ کے پہلے شوہروں میں سے ایک مسلمان ہوئے ۔دوسرے کے ساتھ یہ عبرت کا واقعہ پیش آیا اسی واسطے اللہ والوں کی دشمنی سے ڈرایا جاتا۔ خود اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے۔مَنْ عَاٰد لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ اٰذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ (حدیث قدسی)(جو میرے کسی ولی کو ستائے میری طرف سے اس کو لڑائی کا اعلان ہے ) حضرت رقیہ ؓ کے انتقال کے بعد ربیع الاوّل ۳ھ؁ میں حضرت اُمِّ کلثوم ؓ کا نکاح بھی حضرت عثمان ؓ سے ہوا حضور ؓ کا ارشاد ہے کہ میں نے اُ مِّ کلثوم ؓکا نکاح آسمانی وحی کے حکم سے حضرت عثمان ؓ سے کیا، بعض روایات میں حضرت رُقیہؓ اور حضرت اُمِّ کلثوم ؓ دونوں کے متعلق یہی ارشاد فرمایا ۔ پہلے خاوند کے یہاں تو رخصتی بھی نہیں ہوئی تھی، اولاد کوئی حضرت عثمان ؓ سے بھی نہیں ہوئی ۔ اور شعبان ۹ھ؁ میں انتقال فرمایا حضورؐ نے ان کے انتقال کے بعد ارشاد رفرمایا کہ اگر میری سو۱۰۰لڑکیاں ہوتیں اور انتقال کرتیں تو اسی طرح ایک دوسری کے بعد سب کا نکاح عثمانؓ سے کرتا حضورؐ کی چوتھی صاحبزادی جنتی عورتوں کی سردار حضرت فاطمہؓ جو عمر میں اکثر مؤرّخین کے نزدیک سب سے چھوٹی ہیں نبوّت کے ایک سال بعدجب (حضورﷺکی عمر شریف اکتالیس برس کی تھی) پیدا ہوئیں اور بعض نے نبوّت سے پانچ سال پہلے پینتیس سال کی عمر میں لکھا ہے کہتے ہیں ان کا نام فاطمہ ؓ الہام یا وحی سے رکھا گیا فَطم کے معنی روکنے کے ہیں یعنی جہنم کی آگ سے محفوظ ہیں ۲ ھ؁ محرم یا صفر یا رجب یا رمضان میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے نکاح ہوا اور نکاح سے سات ماہ اور پندرہ دن بعد رخصتی ہوئی یہ نکاح بھی اللہ جل شانہ کے حکم سے ہوا کہتے ہیں کہ نکاح کے وقت آپ ؓکی عمر پندرہ سال پانچ ماہ کی تھی۔ اس سے بھی اکتالیسویں سال میں پیدائش یعنی پہلے قول کی تصدیق ہوتی ہے اور حضرت علی ؓ کی عمر اکیس سال پانچ ماہ یا چوبیس سال ڈیڑھ ماہ کی تھی ۔حضورﷺکو اپنی تمام صاحبزادیوں میں ان سے زیادہ محبت تھی جب/span حضورﷺسفر کو تشریف لے جاتے تو سب سے اخیر میں ان سے رخصت ہوتے اور جب سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے ان کے پاس تشریف لے جاتے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ابوجہل کی لڑکی سے دوسرے نکاح کا ارادہ فرمایا تو ان کو رنج ہوا حضور ﷺ سے شکایت کی حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ فاطمہ ؓ میرے بدن کا ٹکرا ہے جس نے اس کو رنج پہنچایا اس نے مجھے رنج پہنچایا۔ اس لئے حضرت علی ؓ نے ان کی زندگی میں کوئی نکاح نہیں کیا ۔ آپ کے وصال کے بعد آپ کی بھانجی امامہؓ سے نکاح کیا ۔ جس کا ذکر حضرت زینب ؓ کے بیان میںگذرا۔ نبی اکرمﷺ کے وصال کے چھ مہینے بعد حضرت فاطمہ ؓ بیمار ہوئیں اور ایک روز خادمہ سے فرمایا کہ میں غسل کروں گی ، پانی رکھ دو غسل فرمایا، نئے کپڑے پہنے پھر فرمایا کہ میرا بسترہ گھر کے بیچ میں کر دو ۔ اس پر تشریف لے گئیں اور قبلہ رُخ لیٹ کر داہنا ہاتھ رخسار کے نیچے رکھا اور فرمایا کہ بس اب میں مرتی ہوں ۔ یہ فرما کر وصال فرمایا حضور اکرم ﷺکی اولاد کا سلسلہ انہیں سے چلا اور انشاء اللہ قیامت تک چلتا رہے گا ۔ ان کی چھ اولاد تین لڑکے تین لڑکیاں ہوئیں سب سے اوّل حضرت حسن ؓ نکاح سے دوسرے سال میں پیدا ہوئے پھر حضرت حسین ؓ تیسرے سال میں یعنی ۴ ھ ؁میں ، پھر حضرت محسّن ؓ ( یہ س کی تشدید کے ساتھ ہے ) پیدا ہوئے جن کا انتقال بچپن میں ہو گیا ۔صاحبزادیوں میں سے حضرت رقیہ ؓ کا انتقال بچپن میں ہو گیا تھا اسی وجہ سے بعض مؤرّخین نے ان کو لکھا بھی نہیں دوسری صاحبزادی حضرت اُمِّ کلثوم ؓ کا پہلا نکاح حضرت عمر ؓ امیر المومنین سے ہوا جن سے ایک صاحبزادے زید ؓ اور ایک صاحبزادی رقیہؓ پیدا ہوئیں حضرت عمر ؓ کے وصال کے بعد اُمِّ کلثومؓ کا نکاح عون بن جعفر ؓ سے ہوا ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی ان کے انتقال کے بعد ان کے بھائی محمد بن جعفر ؓ سے ہوا ان سے ایک لڑکی پیدا ہوئی بچپن ہی میں انتقال کر گئیں ان کے انتقال کے بعد ان کے تیسرے بھائی عبداﷲ بن جعفر ؓ سے ہوا ان سے بھی کوئی اولاد نہیں ہوئی اور انہی کے نکاح میں حضرت اُمِّ کلثوم ؓ کا انتقال ہوا اور اس دن ان کے صاحبزادے زیدؓ کا بھی انتقال ہوا دونوں جنازے ساتھ ہی اٹھے اور کوئی سلسلہ اولاد کا ان سے نہیں چلا۔ یہ تینوں بھائی وہی عبدؓ اللہ اور عون ؓ اور محمد ؓ ہیں جن کا قصّہ چھٹے باب کے نمبر۱۱پر گذرا ہے ۔ یہ حضرت علی ؓ کے بھتیجے اور جعفر تیار ؓ کے صاحبزادے ہیں ۔حضرت فاطمہ ؓ کی تیسری صاحبزادی حضرت زینبؓ تھیں جن کا نکاح عبداللہ بن جعفرؓ سے ہوا اور دو صاحبزادے عبداللہ ؓ اور عون ؓ پیدا ہوئے اورا نھیں کے نکاح میں انتقال فرمایا ان کے انتقال کے بعد عبداللہ بن جعفر ؓ کا نکاح ان کی ہمشیرہ حضرت اُمِّ کلثومؓ سے ہوا تھا ۔یہ اولاد حضرت فاطمہ ؓ سے ہے ورنہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی دوسری بیویوں جو بعد میں ہوئیں اور بھی اولاد ہے مئورّخین نے حضرت علی ؓ کی تمام اولادبتیس لکھی ہے جن میں سولہ لڑکے سولہ لڑکیاں اور حضرت امام حسن ؓ کے پندرہ لڑکے آٹھ لڑکیاں اور حضرت امام حسین ؓ کے چھ لڑکے تین لڑکیاں ۔ رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہُمْ وَاَرْضَاہُمْ اَجْمَعِیْنَ وَجَعَلْنَا بِہَدِیْہِمْ مُتَّبِعِیْنَ وَاﷲُ اعَلَمُ وَعِلْمُہٗ اَتَمَّ ۔
ملخص من الخمیس والزرقانی علی المواہب والتلقیح والاصابۃ واسد الغابۃ