Pages

Detail Knowledge and Biography of Wives of Prophet Muhammad Sallallahu Alaihi Wasallam, Ummul Momineen, Mothers of the believers حضور کی بیبیاں اور اولاد


حضور ﷺ کی بیبیاں اور اولاد
اپنے آقا اور دو جہاں کے سردار حضوراقدسﷺ کی بیبیوں اور اولاد کا حال معلوم کرنے کا اشتیاق ہوا کرتا ہے اور ہر مسلمان کو ہونا بھی چاہئے۔ اس لئے مختصر حال ان کا لکھا جایا ہے کہ تفصیلی حالات کے لئے تو بڑی ضخیم کتاب چاہئیے۔ حضور اقدس ﷺ کا نکاح جن پر محدثین اور مورخین کا اتفاق ہے، گیارہ عورتوں سے ہوا۔ اس سے زیادہ میں اختلاف ہے۔ اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ ان میں سب سے پہلا نکاح حضرت خدیجہؓ سے ہوا، جو بیوہ تھیں۔ حضورﷺکی عمر شریف اس وقت پچیس برس کی تھی اور حضرت خدیجہؓ کی عمر چالیس برس کی تھی۔ حضورﷺ کی اولاد بھی بجز حضرت ابراہیمؓ کے سب انہیں سے ہوئی۔ جن کا بیا ن بعد میں آئے گا۔ حضرت خدیجہ ؓ کے نکاح کی سب سے اوّل تجویز ورقہ بن نوفل سے ہوئی تھی مگر نکاح کی نوبت نہیں آئی۔ اس کے بعد دو شخصوںسے نکاح ہوا۔ اہل تاریخ کا اس میں اختلاف ہے کہ ان دونوں میں پہلے کس سے ہوا۔ اکثر کی رائے یہ ہے کہ پہلے عتیق بن عائذسے ہوا جن سے ایک لڑکی پیدا ہوئی جن کا نام ہند تھا اور وہ بڑی ہو کر مسلمان ہوئیں اورصاحب اولاد بھی۔ اور بعضوں نے لکھا ہے کہ عتیق سے ایک لڑکا بھی ہوا جس کا نام عبداللہ یا عبد مناف تھا۔ عتیق کے بعد پھر خدیجہؓ کا نکاح ابو ہالۃ سے ہوا جن سے ہنداور ہالہ دو اولادہوئیں۔ اکثروں نے کہاہے کہ دونوں لڑکے تھے اور بعضوں نے لکھاہے کہ ہند لڑکا ہے اور ہالہ لڑکی۔ ہند حضرت علیؓ سے زمانہ خلافت تک زندہ رہے۔ ابو ہالہ کے انتقال کے بعد حضور اقدس ﷺ سے نکاح ہوا۔ جس وقت کہ حضرت خدیجہؓ کہ عمر چالیس برس کی تھی۔ نکاح کے بعد پچیس برس حضورﷺ کے نکاح میں رہیں اور رمضان ۱۰ ؁ نبوی میں پینسٹھ برس کی عمر میں انتقال فرمایا۔ حضور اقدس ﷺ کو ان سے بے حد محبت تھی اور ان کی زندگی میں کوئی دوسرا نکاح نہیںکیا۔ ان کا لقب اسلام سے پہلے ہی سے طاہرہ تھا۔ اسی وجہ سے ان کی اولاد جو دوسرے خاوندوں سے ہے وہ بھی بنو الطّاہرہ کہلاتی ہے۔ان کے فضائل حدیث کی کتابوں میں کثرت سے ہیں۔ ان کے انتقال پر حضور اقدس ﷺ نے خود قبر مبارک میں اُتر کر اُن کو دفن فرمایا تھا۔ نماز جنازہ اس وقت تک مشروع نہیں ہوئی تھی۔ اُن کے بعد اسی سال شوال میںحضرت عائشہؓ اور حضرت سودہؓ سے نکاح ہوا ۔ اس میں بھی اختلاف ہے کہ ان دونوں میں پہلے کس کا نکاح ہوا۔ بعض مؤرّخین نے حضرت عائشہؓ سے نکاح پہلے ہونا لکھا ہے اور بعضوں کی رائے یہ ہے کہ حضرت سَودہؓ سے پہلے ہوا بعد میں حضرت عائشہؓ سے۔ حضرت سَودہؓ بھی بیوہ تھیں۔ اُن کے والد کا نام زمعہ بن قیس ہے۔ پہلے سے اپنے چچا زاد بھائی سکران بن عمرو کے نکاح میں تھیں۔ دونوں مسلمان ہوئے اور ہجرت فرما کر حَبشہ تشریف لے گئے اور حَبشہ میں سکران کا انتقال ہو گیا۔ بعض مؤرّخین نے لکھا ہے کہ مکہ واپس آ کر انتقال فرمایا۔ ان کے انتقال کے بعد ۱۰ ؁ نبوی میں حضرت خدیجہؓ کے انتقال کے کچھ دنوں بعد ان سے نکاح ہوااور رخصتی حضرت عائشہؓ کی رخصتی سے سب کے نزدیک پہلے ہی ہوئی۔ حضورﷺکی عادت شریفہ تو کثرت سے نماز میں مشغول رہنا تھی ہی۔ ایک مرتبہ حضورﷺ سے انہوں نے عرض کیا کہ رات آپ نے اتنا لمبا رکوع کیا کہ مجھے اپنی ناک سے نکسیر نکلنے کا ڈر ہو گیا(یہ بھی حضورﷺ کے پیچھے نماز پڑھ رہی تھیں، چونکہ بدن کی بھاری تھیں اس وجہ سے اور بھی مشقت ہوئی ہو گی) ایک مرتبہ حضورﷺ نے ان کہ طلاق دینے کا ارادہ فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ مجھے خاوند کی خواہش نہیں مگر یہ تمنا ہے کہ جنت میں حضورﷺ کی بیویوں میںداخل رہوں اس لئے مجھے آپ طلاق نہ دیں میں اپنی باری کا دن حضرت عائشہؓ کو دیتی ہوں۔ اس کو حضورﷺ نے قبول فرمالیا اور اس وجہ سے ان کی باری کا دن حضرت عائشہؓ کے حصہ میں آیا تھا۔ ۵۴ھ؁ یا ۵۵ ھ ؁ میں اور بعض نے لکھا ہے کہ حضرت عمر ؓ کے اخیر زمانہ خلافت میں وفات پائی۔ ان کے علاوہ ایک سَودہ اور بھی ہیں جو قریش ہی کی ہیں، حضورﷺ نے ان سے نکا ح کا ارادہ فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا کہ مجھے ساری دنیا میں سب سے زیادہ محبوب آپﷺ ہیں۔ مگر میرے پانچ چھ بچے ہیں، مجھے یہ بات گراں ہے کہ وہ آپ کے سرہانے روئیں چلائیں۔ حضورﷺ نے ان کی بات کو پسند فرمایا۔ تعریف کی اور نکاح کا ارادہ ملتوی فرما دیا۔ حضرت عائشہؓ سے بھی نکاح مکہ مکرمہ میں ہجرت سے پہلے شوال ۱۰ ؁ نبوی میں ہوا۔ جس وقت ان کی عمر چھ سال کی تھی۔ حضورﷺ کی بیویوں میں صرف یہی ایک ایسی ہیں جن سے کنوارے پن میں نکاح ہوا اور باقی سب سے نکاح بیوگی کی حالت میں ہوا۔ نبوت سے چار سال بعد یہ پیدا ہوئیں اور ہجرت کے بعد جب کہ ان کہ عمر کو نواں برس تھا رخصتی ہوئی اور اٹھارہ سال کی عمر میں حضورﷺ کا وصال ہوا، اور چھیاسٹھ سال کی عمر میں ۱۷ رمضان ۵۷ھ؁ کو منگل کی شب میں ان کا وصال ہوا۔ خود ہی وصیت فرمائی تھی کہ مجھے عام قبرستان میں جہاں اور بیبیاں دفن کی گئی ہیں دفن کیا جائے، حضورﷺ کے قریب حجرہ شریفہ میں نہ دفن کیا جائے، چنانچہ بقیع میں دفن کی گئیں۔ عرب میں یہ مشہور تھاکہ شوال کے مہینہ میں نکاح نامبارک ہوتا ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میرا نکاح بھی شوال میں ہوا، رخصتی بھی شوال میں ہوئی۔ حضورﷺ کی بیویوں میںکونسی مجھ سے زیادہ نصیبہ ور اور حضورﷺ کی محبوبہ تھی۔ حضرت خدیجہؓ کے انتقال کے بعد خَوؓلہ حکیم کی بیٹی حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا، یا رسول اللہؐ! آپ نکاح نہیں کرتے۔ حضورﷺ نے فرمایا ، کس سے۔ عرض کیا، کنواری بھی ہے ، بیوہ بھی ہے جو منظور ہو۔ حضورﷺ نے دریافت فرمایا تو عرض کیا کہ کنواری تو آپ کے سب سے زیادہ دوست ابو بکرؓ کی لڑکی عائشہؓ ہے اور بیوہ سودہؓ بنت زمعہ۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایاکہ اچھا تذکرہ کر کے دیکھ لو۔ وہاں سے حضرت ابو بکرؓ کے گھر آئیں اور حضرت عائشہؓ کی والدہ اُم رومانؓ سے عرض کیا کہ میں ایک بڑی خیروبرکت لے کر آئی ہوں ۔ دریافت کرنے پر کہا کہ حضورﷺ نے مجھے عائشہؓ سے منگنی کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ اُم رومانؓ نے کہا کہ وہ تو اُن کی بھتیجی ہے۔ اس سے کیسے نکاح ہو سکتا ہے؟ اچھا ابو بکرؓ کو آنے دو۔حضرت ابو بکرؓاس وقت گھر پر موجود نہ تھے۔ان کے تشریف لانے پر ان سے بھی ذکر کیا۔ انہوں نے بھی یہی جواب دیاکہ وہ تو حضورﷺ کی بھتیجی ہے، حضورﷺسے کیسے نکاح ہو سکتا ہے۔ خولہؓ نے جا کر حضورﷺ سے عرض کیا۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہ میرے اسلامی بھائی ہیں ان کی لڑکی سے میرا نکاح جائز ہے۔ حولہؓ واپس ہوئیںاور حضرت ابو بکر ؓکو جواب سنایا۔ وہاں کیا دیر تھی، کہا بلا لائو۔ حضورﷺ تشریف لے گئے اور نکاح ہو گیا۔ ہجرت کے چند مہینے گذرجانے پر حضرت ابو بکر صدّیق نے دریافت کیا کہ آپؐ اپنی بیوی عائشہؓ کو کیوں نہیں بلا لیتے۔حضوراقدسﷺ نے سامان مہیّا نہ ہونے کا عذر فرمایا۔ حضرت ابو بکرصدیقؓ نے نذرانہ پیش کیا۔ جس سے تیاری ہوئی اور شوال ۱ ھ ؁ میں یا ۲ ھ ؁ میں چاشت کے وقت حضرت ابو بکر صدیقؓ ہی کے دولت کدہ پر بِنا یعنی رخصتی ہوئی۔ یہ تین نکاح حضورﷺ کے ہجرت سے پہلے ہوئے۔ اس کے بعد جتنے نکاح ہوئے وہ ہجرت کے بعد ہوئے۔ حضرت عائشہؓ کے بعد حضرت عمرؓ کی صاحبزادی حضرت حفصہؓ سے نکاح ہوا۔ حضرت حفصہؓ نبوت سے پانچ برس قبل مکہ میں پیدا ہوئیں۔ پہلا نکاح مکہ ہی میں حُنیسؓ بن حُذافہ سے ہوا۔ یہ بھی پُرانے مسلمان ہیں۔ جنہوں نے حبشہ کی ہجرت کی پھر مدینہ طیبہ کی ہجرت کی بدر میں بھی شریک ہوئے اور اسی لڑائی میں یا احد کی لڑائی میں ان کے ایسا زخم آیا جس سے اچھے نہ ہوئے اور ۲ ھ؁ یا ۳ ھ؁ میں انتقال فرمایا۔ حضرت حفصہؓ بھی اپنے خاوند کے ساتھ ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ ہی آ گئیں تھیں، جب بیوہ ہو گئیں تو حضرت عمرؓ نے اوّل حضرت ابو بکرصدیقؓ سے درخواست کی کہ میں حفصہؓ کا نکاح تم سے کرنا چاہتا ہوں، انہوں نے سکوت فرمایا۔ اس کے بعد حضرت عثمانؓ کی اہلیہ حضورﷺ کی صاحبزادی رقیہؓ کا جب انتقال ہوا تو حضرت عثمانؓ سے ذکر فرمایا۔ انہوں نے فرما دیا کہ میرا تو اس وقت نکاح کا ارادہ نہیں۔ حضورﷺ سے حضرت عمرؓ نے اس کی شکایت کی توحضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں حفصہؓ کے لئے عثمانؓ سے بہتر خاوند اور عثمانؓ کے لئے حفصہؓ سے بہتر بیوی بتاتا ہوں۔ اس کے بعد حضرت حَفصہؓ سے ۲ ھ؁ یا ۳ ھ ؁ میں خود نکاح کیا اور حضرت عثمانؓ کا نکاح اپنی صاحبزادی حضرت اُم کلثومؓ سے کر دیا۔ ان کے پہلے خاوند کے انتقال میں مؤرّخین کا اختلاف ہے کہ بدر کے زخم سے شہید ہوئے یا اُحُدکے۔ بدر ۲ ھ؁ میں ہے اور اُحُد ۳ ھ؁ میں ۔ اسی وجہ سے ان کے نکاح میں بھی اختلاف ہے۔ اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیقؓ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا کہ جب تم نے حَفصہؓ کے نکاح کا ذکر کیا تھا اور میں نے سکوت کیا تھا تمہیں اس وقت ناگواری ہوئی ہو گی۔ مگر چونکہ حضوراقدسمجھ سے نکاح کا تذکرہ فرما چکے تھے اس لئے نہ تو میں قبول کر سکتا تھا اور نہ حضور کے راز کو ظاہر کر سکتا تھااس لئے سکوت کیا تھا۔ اگر حضور ارادہ ملتوی فرما دیتے تو میں ضرور کر لیتا۔ حضرت عمرؓ فرماتےہیں کہ مجھے ابو بکر ؓ کے سکوت کا حضرت عثمانؓ کے انکار سے بھی زیادہ رنج تھا۔ حضرت حفصہؓ بڑی عابدہ ، زاہدہ تھیں ۔ رات کو اکثر جاگتی تھیں اور دن میں کثرت سے روزہ رکھتی تھیں۔ کسی وجہ سے حضوراقدس نے اُن کو ایک طلاق بھی دی تھی جس کی وجہ سے حضرت عمرؓ کو بہت رنج ہوااور ہونا بھی چاہئے تھا۔ حضرت جبرئیلں تشریف لائے اور عرض کیا، اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے کہ حفصہؓ سے رجوع کر لو۔ یہ بڑی شب بیدار اور کثرت سے روزہ رکھنے والی ہیں اور عمرؓ کی خاطربھی منظور ہے۔ اس لئے حضورنے رُجوع فرما لیا۔ ت ۴۵ ھ؁ میں جب ان کی عمر تقریباً تریسٹھ برس کی تھی مدینہ طیبہ میں انتقال فرمایا۔ بعض نے ان کا انتقال ۴۱ ھ؁ میں اور عمر ساٹھ برس کی لکھی ہے۔ ان کے بعد حضورﷺ کا نکاح حضرت زینبؓ سے ہوا۔ حضرت زینبؓ خزیمہ کی بیٹی جن کے پہلے نکاح میں اختلاف ہے۔ بعض نے لکھا ہے کہ پہلے عبداللہ بن جحشؓ سے نکاح ہواتھا۔ جب وہ غزوۂ احد میں شہید ہوئے جن کا قصہ باب نمبر۷ کی پہلی حدیث میں گذرا۔ تو حضورﷺ نے نکاح کیا۔ اور بعض نے لکھا کہ ان کا پہلا نکاح طفیل بن حارث سے ہوا تھا۔ ان کے طلاق دینے کے بعد اُن کے بھائی عبیدؓہ بن الحارِث سے ہوا جو بدر میں شہید ہوئے۔ اس کے بعد حضور اقدسﷺ سے ہجرت کے اکتیس مہینے بعد رمضان ۳ ھ؁ میں ہوا۔ آٹھ مہینے حضورﷺکے نکاح میں رہیں اور رَبِیع الآخر ۴ ھ؁میں انتقال فرمایا۔ حضورﷺ کی بیویوں میں حضرت خدیجہ ؓ اور زینبؓ دو ہی بیبیاں ایسی ہیں جن کا وصال حضورﷺکے سامنے ہوا۔ باقی نو حضورﷺ کے وصال کے وقت زندہ تھیں جن کا بعد میں انتقال ہوا۔ حضرت زینبؓ بڑی سخی تھیں۔ اسی وجہ سے ان کا نام اسلام سے پہلے بھی اُم المساکین (مسکینوں کی ماں ) تھا۔ ان کے بعدحضوراقدسﷺ کا نکاح حضرت اُم سلمہؓ سے ہوا، حضرت اُمِّ سلمہؓ ابو اُمَیَّہ کی بیٹی تھیںجن کا پہلا نکاح اپنے چچا زاد بھائی ابو سلمہؓ سے ہوا تھا جن کا نام عبداللہ بن عبدالاسدؓ تھا۔ دونوں میاں بیوی ابتدائی مسلمانوں میں ہیں۔ کفار کے ہاتھ سے تنگ آ کر اوّل دونوں نے حبشہ کی ہجرت کی۔ وہاں جا کر ایک لڑکا پیدا ہوا۔ جن کا نام سلمہؓ تھا۔ حبشہ سے واپسی کے بعد مدینہ طیبہ کی ہجرت کی۔ جس کا قصہ اسی باب کے نمبر ۵ پر مفصل گذر چکا ہے۔ مدینہ منورہ پہنچ کر ایک لڑکا عمرؓ اور دو لڑکیاں درہ اور زینب پیدا ہوئیں۔ ابو سلمہ دس آدمیوں کے بعد مسلمان ہوئے تھے۔ بدر اوراحدکی لڑائی میں شریک ہوئے تھے۔اُحُد کی لڑائی میں ایک زخم آگیا تھاجس کی وجہ سے بہت تکلیف اُٹھائی۔ اس کے بعد صفر ۴ ھ؁ میں ایک سریہ میں تشریف لے گئے تو واپسی پر وہ زخم پھر ہراہو گیااور اسی میں آ ٹھی۴ ھ ؁ میں انتقال کیا ۔ حضرت اُم سلمہؓ اس وقت حاملہ تھیںاور زینبؓ پیٹ میں تھیں۔ جب وہ پیدا ہوئیں تو عدت پوری ہوئی۔ حضرت ابو بکرصدیق ؓ نے نکاح کی خواہش کی تو انہوں نے عذر کر دیا۔ اس سے بعد حضور اقدس ﷺ نے ارادہ فرمایا۔ انہوں نے عرض کیاکہ میرے بچے بھی ہیں اور میرے مزاج میں غیرت کا مضمون بہت ہے اور میرا کوئی ولی یہاں ہے نہیں۔ حضورﷺنے ارشاد فرمایاکہ بچوں کا اللہ محافظ ہے اور یہ غیرت بھی انشاء اللہ جاتی رہے گی اور کوئی ولی اس کو ناپسند نہیں کرے گا۔ تو انہوں نے اپنے بیٹے سَلمہؓ سے کہا کہ حضورﷺ سے میرا نکاح کر دو۔ اخیر شوال ۴ ھ؁ میںحضورﷺ سے نکاح ہوا۔ بعض نے ۳ھ ؁ اور بعض نے ۲ ھ؁ میں لکھا ہے ۔ اُم سلمہؓ کہتی ہیں کہ میںنے حضورﷺ سے سُناتھا کہ جس شخص کو کوئی مصیبت پہنچے اور وہ یہ دعا کرے ’’اَللّٰھُمَّ اَجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتَیْ وَاخْلُفْنِیْ خَیْرًامِّنْھَا ‘‘ اے اللہ مجھے اس مصیبت میں اجر عطا فرما اور اس کا نعم البدل نصیب فرما تواللہ جل شانہٗ بہترین بدل عطا فرماتے ہیں۔ ابو سلمہؓ کے مرنے پر میں یہ دعا تو پڑھ لیتی مگر یہ سوچتی کہ ابو سلمہؓ سے بہتر کون ہو سکتا ہے۔ اللہ جل شانہ نے حضورﷺ سے نکاح کرا دیا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اُن سے حسن کہ بہت شہرت تھی۔ جب نکاح ہو گیا تو میں نے چھپ کر حیلہ سے جا کر دیکھا تو جیسا سُنا تھا اس سے زیادہ پایا۔ میں نے حفصہؓ سے اس کا ذکر کیا ۔ انہوں نے کہا، نہیں ایسی حسین نہیں ہیں جتنی شہرت ہے۔ اُمہات المومنین میں سب سے اخیر میں حضرت ام سلمہؓ کا انتقا ل ۵۹ھ؁ یا ۶۲ ھ؁ میں ہوا۔ اس وقت چوراسی سال کی عمر تھی۔ اس لحاظ سے نبوت سے تقریباً نوبرس پہلے پیدا ہوئیں۔ حضرت زینبؓ بنت خزیمہ کے انتقال کے بعد ان سے نکاح ہوا اور حضرت زینبؓ کے مکانمیں مقیم ہوئیں۔ انہوں نے وہاں دیکھا کہ ایک مٹکے میں جو رکھے ہیں اور ایک چکی اور ہانڈی بھی۔ انہوں نے جو خود پیسے اور چکنائی ڈال کر ملیدہ تیار کیا اور پہلے ہی دن حضورﷺ کو وہ ملیدہ کھلایا جو نکاح کے دن اپنے ہی ہاتھ سے وہ پکایا تھا۔ ان کے بعد حضور اقدس ﷺ کا نکاح زینبؓ بنت جحش سے ہوا۔ یہ حضوراقدسﷺ کی پھوپھی زاد بہن ہیں۔ ان کا پہلا نکاح حضورﷺ نے اپنے مُتبَنّٰی حضرت زَید بن حارؓثہ سے کیا تھا۔ ان کے طلاق دینے کے بعد اللہ جل شانہ نے خود ان کا نکاح حضورﷺ سے کر دیا جس کا قصہ سورۂ اَحزاب میں بھی ہے اس وقت ان کی عمر پینتیس سال کی تھی۔ مشہور قول کے موافق ذیقعدہ ۵ ھ؁ میں نکاح ہوا۔ بعض نے ۳ھ؁ میں لکھا ہے ، مگر صحیح ۵ ھ؁ ہے۔ اور اس حساب سے نبوّت سے گویا سترہ سال قبل ان کی پیدائش ہوئی۔ ان کو اس بات پر فخر تھا کہ سب عورتوں کا نکاح ان کے اَولیا نے کیا اور ان کا نکاح اللہ جل شانہ نے کیا۔ حضرت زَیدؓ نے جب ان کو طلاق دی اور عدت پوری ہو گئی تو حضورﷺ نے ان کے پاس پیام بھیجا۔ انہوں نے جواب میں عرض کیا کہمیں اس وقت تک کچھ نہیں کہہ سکتی جب تک اپنے اللہ سے مشورہ نہ کر لوں اور یہ کہہ کر وضو کیا اور نماز کی نیّت باندھ لی اور یہ دعا کی کہ یا اللہ تیرے رسول ﷺمجھ سے نکاح کرنا چاہتے ہیں، اگرمیں ان کے قابل ہوں تو میرا نکاح ان سے فرما دے۔ ادھرحضورﷺ پر قرآن شریف کی آیت فَلَمَّا قَضٰی زَیْدٌ مِّنْھَا وَطَرًا زَوَّجْنَا کَھَا نازل ہوئی تو حضورﷺ نے خوشخبری بھیجی۔ حضرت زینبؓ خوشی کی وجہ سے سجدہ میں گر گئیں۔حضور اقدس ﷺ نے ان کے نکاح کا ولیمہ بڑی شان سے کیا۔ بکری ذبح کی اور گوشت روٹی کی دعوت فرمائی۔ ایک ایک جماعت کو بلایا جاتا تھا اور جب وہ فارغ ہو جاتی تھی تو دوسری جماعت اسی طرح بلائی جاتی حتیٰ کہ سب ہی لوگوں نے پیٹ بھر کر کھایا۔ حضرت زینبؓ بڑی سخی تھیں اور بڑی محنتی۔ اپنے ہاتھ سے محنت کرتیں اور جو حاصل ہوتا وہ صدقہ کر دیتیں۔ ان ہی کؤ بارہ  میں حضورﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ مجھ سے سب سے پہلے مرنے کے بعد وہ ملے گی جس کا ہاتھ لمبا ہو گا۔ بیبیاں ظاہری لمبائی سمجھیں۔ اس لئے لکڑی لے کر سب کے ہاتھ ناپنے شروع کر دیئے۔ دیکھنے میں حضرت سودہؓ کا ہاتھ سب سے لمبا ملا۔ مگر جب حضرت زینب ؓ کا انتقال سب سے پہلے ہوا جب سمجھیں کہ ہاتھ کی لمبائی سے مراد صدقہ کی کثرت تھی۔ روزے بھی بہت زیادہ رکھتی تھیں۔ ۲۰ھ؁ میں انتقال فرمایا۔ حضرت عمرؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ پچاس برس کی عمر تھی۔ ان کا قصہ اسی باب کے نمبر ۱۰ پر بھی گذراہے۔ ا ن کے بعد آپﷺ کا نکاح حضرت جویریہؓبنت الحارث بن اَبی ضرار سے ہوا۔ یہ غزوۂ مریسیع میں قید ہو کر آئیں تھیں اور غنیمت میں حضرت ثابت بن قیسؓ کے حصہ میں آئیں۔ قید ہونے سے پہلے مسافع بن صفوان کے نکاح میں تھیں ۔ حضرت ثابتؓ نے ان کو نواَوقیَّہ سونے پر مکاتب کر دیا۔ مکاتب اس غلام یا باندی کو کہتے ہیں جس سے یہ مقرر کر لیا جاوے کہ اتنے دام تم اگر دے دو، تو تم آزاد۔ ایک اُوقِیَّہ چالیس درہم کا ہوتا ہے اور ایک درہم تقریباً ساڑھے تین آنے کا۔ اس حساب سے نو ’۹‘ اَوقِیَّہ کی قیمت (پیسہ۱۲۔۷۸روپے) ہوئی اورچار آنے کا اگر درہم ہو تو(۹۰ روپے) ہوئی۔ یہ حضورﷺ کی خدمت میں آئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ میں اپنی قوم کے سردار حارث کی بیٹی جویریہ ہوں۔ جو مصیبت مجھ پر نازل ہوئی آپ کو معلوم ہے اب اتنی مقدارپر میں مکاتب ہوئی ہوں اور یہ مقدار میری طاقت سے باہر ہے۔ آپ ﷺکی امید پر آئی ہوں۔ حضورﷺ نے فرمایاکہ میں تجھے اس سے بہتر راستہ بتائوں کہ تجھے مال ادا کر کے آزاد کرا دوں اور تجھ سے نکاح کرلوں۔ ان کے لئے اس سے بہتر کیا تھا۔ بخوشی منظور کر لیا اور ۵ ھ؁ میں مشہور قول کے موافق اور بعضوں نے ۶ ھ؁ میں اس قصہ کو بتایا ہے ، نکاح ہو گیا۔ صحابہؓ نے جب سنا،کہ بنو المصطلق حضورﷺ کی سسرال بن گئی، تو انہوں نے بھی اس رشتہ کے اعزاز میں اپنے اپنے غلام آزاد کر دیئے۔ کہتے ہیں کہ ایک حضرت جویریہ ؓ کی وجہ سے سو گھرانے آزاد ہوئے جن میں تقریباً سات سو آدمی تھے۔ اس قسم کی مصلحتیں حضورﷺکے ان سب نکاحوں میں تھیں۔ حضر ت جویریہؓ نہایت حسین تھیں، چہرے پر ملاحت تھی۔ کہتے ہیں کہ جو نگاہ پڑ جاتی تھی اُٹھتی نہ تھی۔ حضرت جویریہؓ نے اُس لڑائی سے تین دن پہلے ایک خواب دیکھا تھا کہ یثرت سے ایک چاند چلا اور میری گود میں آگیا۔ کہتی ہیں کہ جب  میں قید ہوئی تو مجھے اپنے خواب کی تعبیر کی اُمید بندھی۔ اس وقت ان کی عمر بیس سا ل کی تھی اور ربیع الاول۵۰ ھ؁ میں صحیح قول کے موافق پینسٹھ برس کی عمر میں مدینہ طیبہ میں انتقال فرمایا۔ اور بعضوں نے ان کا انتقال ۵۶ ھ؁ میں ستر برس کی عمر میں لکھا ہے۔ اُم المومنین حضرت اُم حبیبہؓ ، ابو سفیان کی صاحبزادی ان کے نام میں اختلاف ہے۔ اکثروں نے مرملہ اور بعضوں نے ہند بتایا ہے۔ ان کا پہلا نکاح عبیداللہ بن جحش ؓسے مکہ مکرمہ میں ہوا تھا۔ دونوں میاں بیوی مسلمان ہو گئے تھے۔ کفار کی تکالیف کی بدولت وطن چھوڑنا پڑا اور حبشہ کی ہجرت دونوں نے کی، وہاں جا کر خاوند نصرانی ہو گیا۔ یہ اسلام پر باقی رہیں۔ انہوں نے اسی رات اپنے خاوند کو خواب میں نہایت بری شکل میں دیکھا۔ صبح کو معلوم ہوا کہ وہ نصرانی ہو گیا ہے۔ اس تنہائی میں اس حالت میں ان پر کیا گذری ہو گی۔ اللہ ہی کو معلوم ہے۔ لیکن حق تعالیٰ شانہ نے اس کا نعم البدل یہ عطا فرمایا کہ حضورﷺ کے نکاح میں آ گئیں۔ حضورﷺ نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس پیام بھیجا کہ ان کا نکاح مجھ سے کر دو۔ چنانچہ نجاشی نے ایک عورت ابرہہ کو ان کے پاس اس کی خبر کے کئے بھیجا۔ انہوں نے خوشی میں اپنے دونوں کنگن جو پہن رہی تھیں اس کو عطا کر دیئے اور پاؤںکے چھلے کڑے وغیرہ متعدد چیزیں دیں۔ نجاشی نے نکاح کیا اور اپنے پاس سے چار سو دینار مہر کے ادا کئے اور بہت کچھ سامان دیا۔ جو لوگ مجلس نکاح میں موجود تھے ان کو بھی دینار دیئے اور کھانا کھلایا ۔ اس میں اختلاف ہے کہ یہ نکاح ۷ ھ؁ میں ہوا جیسا کہ اکثر کا قول ہے یا ۶ ھ؁ میں جیسا کہ بعض نے کہا ہے۔ صاحب تاریخ خمیس نے لکھا ہے کہ ان کا نکاح ۶ ھ؁ میں ہوا اور رخصتی ۷ ھ؁ میں ۔ جب یہ مدینہ طیبہ پہنچیں، نجاشی نے بہت سی خوشبو اور سامان جہیز وغیرہ دے کر ان کو نکاح کے بعد حضورﷺ کی خدمت میں بھیج دیا۔ بعض کتب تواریخ اور احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ ان کے باپ نے نکا ح کیا۔ مگر یہ صحیح نہیں ہے۔ اس لئے کہ ان کے باپ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، وہ اس قصہ کے بعد مسلمان ہوئے ہیں۔ ان کا ایک قصہ اسی باب کے نمبر ۹ پر گذر چکا ہے۔ ان کے انتقال میں بہت اختلاف ہے۔ اکثر نے ۴۴ ھ؁ بتایاہے اور اس کے علاوہ ۴۲ ھ ؁ اور ۵۵ ھ؁ اور ۵۰ ھ؁ وغیرہ اقوال بھی ہیں۔ اُم المومنین حضرت صفیہؓ حیی کی بیٹی حضرت موسیٰ ں کے بھائی حضرت ہارون ں کی اولاد میں ہیں۔ اوّل سلّام بن مشکم کے نکاح میں تھیں اس کے بعد کِنانہ بن ابی حقیق کے نکاح میں آئیں۔ اس سے نکاح اس زمانہ میں ہوا تھا کہ خیبر کی لڑائی شروع ہو گئی تھی۔ ان کا خاوند قتل ہو گیا تھا۔ خیبر کی لڑائی میں وحیہ کلبیؓ ایک صحابی تھے۔ انہوں نے حضورﷺ سے ایک باندی مانگی، حضورﷺ نے ان کو مرحمت فرما دیا۔ چونکہ مدینہ میں بھی دو قبیلے قریظہ اور نضیر آباد تھے اور یہ سردار کی بیٹی تھیں، اس لئے لوگوں نے عرض کیا کہ یہ بات بہت سے لوگوں کو ناگوار ہو گی۔ صفیّہؓ کو اگر حضورﷺ اپنے نکاح میں لے لیں تو بہت سے لوگوں کی دلداری ہے اس لئے حضورﷺ نے دِحیہؓ کو خاطر خواہ عوض دے کر ان کو لے لیا اور ان کو آزاد فرما کر نکاح کر لیا اور خیبر سے واپسی میں ایک منزل پر ان کی رخصتی ہوئی۔ صبح کو حضورﷺ نے ارشاد فرمایا جس کے پاس جو کھانے کی چیز ہو وہ لے آئے۔ صحابہؓ کے پاس متفرق چیزیں کھجور، پنیر، گھی وغیرہ جو تھا وہ لے آئے ایک چمڑے کا دستر خوان بچھادیا اور اس پر وہ سب ڈال دیاگیا اور سب نے شریک ہو کر کھا لیا یہی ولیمہ تھا۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ حضورﷺ نے ان کو اختیار دے دیا تھا کہ اگر تم اپنی قوم اور اپنے ملک میں رہنا چاہو تو آزاد ہو چلی جاؤ اور میر ے پاس میرے نکاح میں رہنا چاہو تو رہو، انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ میں شرک کی حالت میں حضورﷺ کی تمنا کرتی تھی اب مسلمان ہو کر کیسے جا سکتی ہوں۔ اس سے مراد غالباً ان کا خواب ہے جو انہوں نے مسلمان ہونے سے پہلے دیکھا تھا کہ ایک چاند کا ٹکڑا میری گود میں ہے۔ اس خواب کو انہوں نے اپنے خاوند کنانہ سے کہا اُس نے ایک طمانچہ اس زور سے منہ پر مارا کہ آنکھ پر اس کا نشان پڑ گیا اور یہ کہا کہ تو یثرب کے بادشاہ کے نکاح کی تمنا کرتی ہے۔ ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ آفتاب ان کے سینہ پر ہے، خاوند سے اس کو بھی ذکر کیا۔ اُس نے اس پر بھی یہی کہا کہ تو یہ چاہتی ہے کہ یثرب کے بادشاہ کے نکاح میں جائے۔ ایک مرتبہ انہوں نے چاند کو گود میں دیکھا تو اپنے باپ سے ذکر کیا۔ اس نے بھی ایک طمانچہ مارا اور کہا کہ تیری نگاہ یژب کے بادشاہ پر جاتی ہے۔ ممکن ہے کہ چاند کا وہی ایک خواب خاوند اور باپ دونوں سے کہا ہو یا چاند دو مرتبہ دیکھا ہو۔ رمضان ۵۰ ھ؁ میں صحیح قول کے موافق انتقال ہوا اور تقریباً ساٹھ برس کی عمر پائی، خود کہتی ہیں کہ جب میں حضورﷺ کے نکاح میں آئی تو میری عمر سترہ سال کی نہیں ہوئی تھی ۔ ام المومنین حضرت میمونہؓ ، حارث بن حزن کی بیٹی ان کا اصل نام بَرَّہ تھا ۔ حضورﷺ نے بدل کر میمونہؓ رکھا پہلے سے ابو رحم بن عبد العزی کے نکاح میں تھیں۔ اکثر مؤرخین کایہی قول ہے اور بہت سے اقوال ان کے پہلے خاوند کے نام میں ہیں، بعض نے لکھا ہے کہ حضورﷺ سے پہلے بھی دو نکاح ہوئے تھے۔ بیوہ ہو جانے کے بعد ذیقعدہ ۷ ھ؁ میں جب حضور اقدسﷺ عمرہ کے لئے مکہ تشریف لے جار ہے تھے، موضع سَرِف میں نکاح ہوا ۔ حضورﷺنے ارادہ فرمایا کہ عمرہ سے فراغت کے بعد مکہ میں رخصتی ہو جائے، مگر مکہ والوں نے قیا م کی اجازت نہ دی ۔ اس لئے واپسی میں سرف ہی میں رخصتی ہوئی اور سَرِف ہی میں خاص اسی جگہ جہاں رخصتی کا خیمہ تھا ۵۱ ھ؁ میں صحیح قول کے موافق انتقال ہوا اور بعض نے ۱ ۶ ھ؁ میں لکھا ہے۔ اس وقت ان کی عمر اکیاسی برس کی تھی اور اسی جگہ قبر بنی۔ یہ بھی عبرت کا مقام ہے اور تاریخ کا عجیبہ ہے کہ ایک سفر میں وہا ں نکاح ہوا اور دوسرے سفر میں وہاں رخصتی اور عرصہ کے بعد اُسی جگہ قبر بنی۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میمونہؓ ہم سب سے زیادہ متقی اور صلہ رحمی والی تھیں۔ یزید بن اَصمؓ کہتے ہیں کہ ان کا مشغلہ ہر وقت نماز تھا یا گھرکا کام۔ اگر دونوں سے فراغت ہوتی تو مسواک کرتی رہتی تھیں۔ جن عورتوں کے نکاح پر محدثین و مؤرخین کا اتفاق ہے ، ان میںحضرت میمونہؓ کا نکاح سب سے آخری نکاح ہے۔ ان کی درمیانی ترتیب میں البتہ اختلاف ہے جس کی وجہ سے ان نکاحوں کی تاریخ کا اختلاف ہے جیسا کہ مختصر طور پر معلوم ہوا ان گیارہ بیویوں میں سے دو کا وصال حضور کے سامنے ہو چکا تھا۔( حضرت خدیجہؓ اور حضرت زینبؓ بنت خزیمہ کا) باقی نو بیبیاں حضور کے وصال کے وقت موجود تھیں۔ ان کے علاوہ اور بھی بعض نکاح بعض محدثین و مورخین نے لکھے ہیں جن کے ہونے میں اختلاف ہے اس لئے انہیں بیبیوں کا ذکر لکھا ہے جن پر اتفاق ہے۔
Taken from book Hikayat e sahaba chapter 10 stories of female sahabyat