۲۔ عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ
اللّٰہِﷺ اُعْطِیَتْ اُمَّتِیْ خَمْسَ خِصَالٍ فِیْ
رَمَضَانَ لَمْ تُعْطِہِنَّ اُمَّۃٌ قَبْلَہُمْ خُلُوْفُ فَمِ الصَّائِمِ اطْیَبُ
عِنْدَاللّٰہِ مِنْ رِیْحِ الْمِسْکِ وَ تَسْتَغْفِرْلَہُمْ الْحِیْتَانُ حَتَّی
یُفْطِرُوا وَ یَزَیِّنُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ کُلَّ یَوْمٍ جَنَّتَہٗ ثُمَّ
یَقُوْلُ یُوْشِکُ عِبَادِیَ الصَّالِحُوْنَ أَنْ یُلْقُوْا عَنْہُمُ
الْمَؤُنَۃَوَ یَصِیْرُوْا اِلَیْکَ وَتُصَفَّدُ فِیْہِ مَرَدۃُ الشَّیَاطِیْنِ
فَلَا یَخْلُصُوْا فِیْہِ اِلیٰ مَا کَانُوْا یَخْلُصُوْنَ اِلَیْہِ فِی غَیْرِہٖ
وَیُغْفَرُلَہُمْ فِیْ آخِرِ لَیْلَہٍ قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَہِیَ
لَیْلَۃُ الْقَدْرِ قَالَ لَا وَلَکِنَّ الْعَامِلَ اِنَّمَا یُوَفّٰی أجْرَہُ اِذَا قَضٰی عَمَلَہٗ۔ (رواہ احمد
والبزار والبیہقی ورواہ اباالشیض ابن حبان فی کتاب الثواب الا ان عندہ و تستغفرلہم
الملائکۃ بدل الحیتان۔ کذا فی الترغیب)
ابو ہریرۃ ؓ نے حضور اکرم ﷺ سے نقل کیا ہے کہ میری امت کو
رمضان شریف کے بارے میں پانچ چیزیں مخصوص طور پر دی گئیںہیں جو پہلی امتوں کو نہیں
ملیں ہیں (۱) یہ کہ ان کے منہ کی بدبو اللہ کے
نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے (۲) یہ کہ ان کیلئے دریا کی مچھلیاں
تک دعا کرتی ہیں اور افطار کے وقت تک کرتی رہتی ہیں (۳)جنت ہر روز ان کیلئے آراستہ کی
جاتی ہے پھر حق تعالیٰ شانہ فرماتے ہیں کہ قریب ہے کہ میرے نیک بندے (دنیا کی)
مشقتیں اپنے اوپر سے پھینک کر تیری طرف آویں (۴)اس میں سرکش شیاطین قید کر دیئے
جاتے ہیں کہ وہ رمضان میں ان برائیوں کی طرف نہیں پہنچ سکتے جن کی طرف غیر رمضان
میں پہنچ سکتے ہیں (۵) رمضان کی آخری رات میں روزہ
داروں کے لئے مغفرت کی جاتی ہے صحابہؓ نے کیا
کہ یہ شب مغفرت شب قدرہے فرمایا
نہیں بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو کام ختم ہونے کے وقت مزدوری دے دی جاتی ہے ۔
نبی کریم ﷺ نے اس حدیث پاک میں
پانچ خصوصیتیں ارشاد فرمائی ہیں جو اس امت کے لئے حق تعالیٰ شانہ کی طرف سے مخصوص
انعام ہوئیں اور پہلی امت کے روزہ داروں کو مرحمت نہیں ہوئیں کاش ہمیں اس نعمت کی
قدر ہوتی اور ان خصوصی عطایا کے حصول کی کوشش کرتے ۔
اوّل یہ کہ روزہ دار کے منہ کی
بدبو جو بھوک کی حالت میں ہو جاتی ہے حق تعالیٰ شانہ کے نزدیک مشک سے بھی زیادہ
پسندیدہ ہے ۔ شراح حدیث کے اس لفظ کے مطلب میں آٹھ قول ہیں جن کو موطا کی شرح میں
بندہ مفصل نقل کر چکا ہے مگر بندہ کے نزدیک ان میں سے تین قول راجح ہیں اول یہ کہ
حق تعالیٰ شانہ آخرت میں اس بد بو کا بدلہ اور ثواب خوشبو سے عطا فرمائیں گے جو مشک
سے زیادہ عمدہ اور دماغ پرور ہو گی یہ مطلب تو ظاہر ہے اور اس میں کچھ بعد بھی
نہیںنیز در منثور کی ایک روایت میں اس کی تصریح بھی ہے اس لئے یہ بمنزلہ متعین کے
ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ قیامت میں جب قبروں سے اٹھیں گے تو یہ علامت ہو گی کہ روزہ
دار کے منہ سے ایک خوشبو جو مشک سے بھی بہتر ہو گی آئے گی تیسرا مطلب جو بندہ کی
ناقص رائے ان دونوں سے اچھا ہے وہ یہ کہ دنیا ہی میں اللہ کے نزدیک اس بد بو کی
قدر مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے اور یہ امر باب المحبت سے ہے جس کو کسی سے محبت و
تعلق ہوتا ہے اس کی بد بو بھی فریفتہ کے لئے ہزار خوشبوئوں سے بہتر ہوا کرتی ہے ۔
اے حافظ مسکین چہ کنی مشک ختن را از گیسوئے حمد بستان عطر عدن را
مقصود روزہ دار کا کمال تقرب ہے
کہ بمنزلہ محبوب کے بن جاتا ہے روزہ حق تعالیٰ شانہ کی محبوب ترین عبادتوں میں سے
ہے اسی وجہ سے ارشاد ہے کہ ہر نیک عمل کا بدلہ ملائکہ دیتے ہیں مگر روزہ کا بدلہ
میں خود اد ا کرتا ہوں اس لئے کہ وہ خالص میرے لئے ہے بعض مشائخ سے منقول ہے کہ یہ
لفظ اجز بہٖ ہے یعنی اس کے بدلہ میں میں خود اپنے کو دیتا ہوں اور محبوب کے ملنے سے زیادہ
اونچا بدلہ اور کیا ہو سکتا ہے ۔ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ ساری عبادتوں کا دروازہ
روزہ ہے یعنی روزہ کی وجہ سے قلب منور ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے ہر عبادت کی رغبت
پیدہ ہوتی ہے مگر جب ہی کہ روزہ بھی روزہ ہو ،صرف بھوکا رہنا مراد نہیں ، بلکہ
آداب کی رعایت رکھ کر جن کا بیان حدیث نمبر ۹ کے ذیل میں مفصل آئے گا ۔
اس جگہ ایک ضروری مسئلہ قابل
تنبیہ یہ ہے کہ اس منہ کی بدبو والی حدیثوں کی بناء پر بعض ائمہ روزہ دار کو شام
کے وقت مسواک کرنے کو منع فرماتے ہیں حنفیہ کے نزدیک مسواک ہر وقت مستحب ہے اس لئے
کہ مسواک سے دانتوں کی بو زائل ہوتی ہے اور حدیث میں جس بو کا ذکر ہے وہ معدہ کے خالی
ہونے کی ہے نہ کہ دانتوں کی ۔ حنفیہ کے دلائل اپنے موقع پر کتب ِ فقہ وحدیث میں
موجود ہیں ۔
دوسری خصوصیت مچھلیوں کے استغفار
کرنے کی ہے اس سے مقصود کثرت سے دعا کرنے والوں کا بیان ہے ۔ متعدد روایات میں
مضمون وارد ہے بعض روایات میں ہے کہ ملائکہ اس کے لئے استغفار کرتے ہیں میرے چچا
جان کا ارشاد ہے کہ مچھلیوں کی خصوصیت بظاہر اس وجہ سے ہے کہ اللہ جل شانہ کا
ارشاد ہے { اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ وَعَمِلُو االصَّالِحَاتِ سَیَجْعَلُ
لَہُمُ الرَّحْمٰنُ وُدَّاً } (سورۂ مریم،آیہ۹۶) ’’ جو لوگ ایمان لائے اور اچھے
اعمال کیے حق تعالیٰ شانہ ان کے لئے دنیا ہی میں محبوبیت فرما دیں گے اور حدیث پاک
میں ارشاد ہے جب حق تعالیٰ شانہ کسی بندے سے محبت فرماتے ہیں تو جبرئیل سے ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھے
فلاں شخص پسند ہے تم بھی اس سے محبت کرو، وہ خود محبت کرنے لگتے ہیں اور آسمان پر
آواز دیتے ہیں کہ فلاں بندہ اللہ کا پسندیدہ ہے تم سب اس سے محبت کرو پس اس
آسمان والے اس سے محبت کرتے ہیں اور پھر اس کے لئے زمین پر قبولیت رکھ دی جاتی ہے
اور عام قاعدہ کی بات ہے کہ ہر شخص کی محبت اس کے پاس رہنے والوں کو ہوتی ہے لیکن
اس کی محبت اتنی عام ہوتی ہے کہ آس پاس رہنے والوں ہی کو نہیں بلکہ دریا کے رہنے
والے جانوروں کو بھی اس سے محبت ہوتی ہے کہ وہ بھی دعا کرتے ہیں اور گویا بر سے
متجاوز ہو کر بحر تک پہنچنا محبوبیت کی انتہا ہے ۔ نیز جنگل کے جانوروں کا دعا
کرنا بطریق اولیٰ معلوم ہو گیا ۔
تیسری خصوصیت جنت کا مزین ہونا
ہے۔ یہ بھی بہت سی روایات میں وارد ہوا ہے بعض روایات میں آیا ہے کہ سال کے شروع
ہی سے جنت کو آراستہ کرنا شروع کر دیا جاتاہے اور قاعدہ کی بات ہے کہ جس شخص کے
آنے کا جس قدر اہتمام ہو تا ہے اتنا ہی پہلے سے اس کا انتظام چوتھی خصوصیت سرکش
شیاطین کا قید ہو جانا ہے کہ جس کی وجہ سے معاصی کا زور کم ہو جاتا ہے رمضان
المبارک میں رحمت کے جوش اور عبادت کی کثرت کا مقتضی ٰیہ ہے کہ شیاطین بہکانے میں
بہت ہی انتھک کوشش کیا کرتے اور پائوں چوٹی کا زورختم کر دیتے اور اس وجہ سے
معاصی کی کثرت اس مہینہ میں اتنی ہو جاتی کہ حد سے زیادہ ۔ لیکن باوجود اس کے یہ
مشاہدہ ہے اور محقق کہ مجموعی طور سے گناہوں میں کمی آ جاتی ہے کتنے شرابی کبابی
ایسے ہیں کہ رمضان میں خصوصیت سے نہیں پیتے، اور اسی طرح گناہوں میں بھی کھلی کمی
آ جاتی ہے لیکن اس کے باوجود گناہ ہوتے ضرور ہیں مگر ان کے سر زد ہونے سے حدیث
پاک میں تو کوئی اشکال نہیں ، اس لئے کہ اس کا مضمون ہی یہ ہے کہ سرکش شیاطین قید
کر دیے جاتے ہیںاس بناء پر اگر وہ گناہ غیر سرکشوں کا اثر ہو تو کچھ خلجان نہیں
البتہ دوسری روایات میں سرکش کی قید مطلقاً شیاطین کے مقعد ہونے کا ارشاد
بھی موجود ہے پس اگر ان روایات سے بھی سرکش شیاطین کاہی قید ہونا مراد ہے کہ بعض
اوقات لفظ مطلق بولا جاتا ہے مگر دوسری جگہ سے اس کی قیودات معلوم ہو جاتی ہیں تب
بھی کوئی اشکال نہیں رہا البتہ اگر ان روایات سے سب شیاطین کا محبوس ہونا مراد ہو
تب بھی ان معاصی کے صادر ہونے سے کچھ خلجان نہ ہونا چاہیے کہ اگر چہ معاصی شیاطین
کے اثر سے ہوتے ہیں مگر سال بھی تک ان کے تلبس اور اختلاط اور زہریلے اثر کے جمائو
کی وجہ سے نفس ا ن کے ساتھ اس درجہ مانوس اور متاثر ہو جاتا ہے کہ تھوڑی بہت غیبت
محسوس نہیں ہو تی ، بلکہ وہی خیالات اپنی طبیعت بن جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بغیر
رمضان کے جن لوگوں سے گناہ زیادہ سر زد ہوتے ہیں، رمضان میں بھی انہی سے زیادہ تر
صدور ہوتے ہیں اور آدمی کا نفس چونکہ ساتھ رہتا ہے اسی لئے اس کا اثر ہے دوسری
بات ایک اور بھی ہے، نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب آدمی گناہ کرتا
ہے تو اس کے قلب میں ایک کالا نقطہ لگ جاتا ہے اگر وہ سچی توبہ کر لیتا ہے تو وہ
دھل جاتا ہے ورنہ لگا رہتا ہے اور اگر دوسری مرتبہ گناہ کرتا ہے تو دوسرا نقطہ لگ
جاتا ہے حتیٰ کہ اس کا قلب بالکل سیاہ ہو جاتا ہے پھر خیر کی بات اس کے قلب تک
نہیں پہنچتی۔ اسی کو حق تعالیٰ شانہ نے اپنے کلام پاک میں کلا بل ران علی قلوبھم سے ارشاد فرمایا ہے کہ ان کے
قلوب زنگ آلود ہو گئے ایسی صورت میں وہ قلوب ان گناہوں کی طرف خود متوجہ ہوتے
ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ ایک نوع کے گناہ کو بے تکلف کر لیتے ہیں لیکن اسی
جیسا کوئی دوسرا گناہ سامنے ہوتا ہے تو قلب کو اس سے انکار ہوتا ہے ۔ مثلاً جو لوگ
شراب پیتے ہیں ان کو اگر سؤر کھانے کو کہا جائے تو ان کی طبیت کو نفرت ہوتی ہے
حالانکہ معصیت میں دونوں برابر ہیں تو اسی طرح کہ غیر رمضان میں وہ ان گناہوں کو
کرتے رہتے ہیں تو دل ان کے ساتھ رنگے جاتے ہیں جس کی وجہ سے رمضان المبارک میں بھی
ان کے سرزد ہونے کے لئے شیاطین کی ضرورت نہیں رہتی بالجملہ اگر حدیث پاک سے سب
شیاطین کا مقید ہونا مراد ہے تب بھی رمضان المبارک میں گناہوں کے سرزد ہونے سے کچھ
اشکال نہیں ، اوراگر متمرد اور خبیث شیاطین کا مقید ہونا مراد ہو تب تو کوئی اشکال
ہے ہی نہیں، اور بندہ ناچیز کے نزدیک یہی توجیہ اولیٰ ہے اور ہر شخص اس پر غور کر
سکتا ہے اور تجربہ کر سکتا ہے کہ رمضان المبارک میں نیکی کرنے کے لئے یا کسی معصیت
سے بچنے کیلئے اتنے زور لگانے نہیں پڑتے جتنے کہ غیر رمضان میں پڑتے ہیں تھوڑی سی ہمت
اور توجہ کافی ہو جاتی ہے
حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق صاحب
ؒ کی رائے یہ ہے کہ یہ دونوں حدیثیں مختلف لوگوں کے اعتبار سے ہیں یعنی فساق کے حق
میں صرف متکبر شیاطین قید ہوتے ہیں اور صلحا کے حق میں مطلقاً ہر قسم کے شیاطین
محبوس ہو جاتے ہیں ۔
پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ رمضان
المبارک کی آخری رات میں سب روزہ داروں کی مغفرت کر دی جاتی ہے یہ مضمون پہلی
روایت میں بھی گزر چکا ہے چونکہ رمضان المبارک کی راتوں میں شب قدر سب سے افضل رات ہے اس
لئے صحابہ کرام ؓ نے خیال فرمایا کہ اتنی بڑی فضیلت اسی رات کے لئے ہو سکتی ہے مگر
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس کے فضائل مستقل علیحدہ چیز ہیں یہ انعام تو ختم
رمضان کا ہے ۔