۳۔ عَنْ کَعْبِ بْنِ عُجْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ
اللّٰہِ ﷺَ احْضُرُوْا الْمِنْبَرَ
فَحَضَرْنَا فَلَمَّا ارْتَقٰی دَرَجَۃً قَالَ اٰمِیْنَ فَلَمَّا ارْتَقَی
الدَّرَجَۃَ الثَّانِیَۃَ قَالَ اٰمِیْنَ فَلَمَّا ارْتَقَی الدَّرَجَۃَ
الثَّالِثَۃَ قَالَ اٰمِیْنَ فَلَمَّا نَزَلَ قُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ لَقَدْ
سَمِعْنَا مِنْکَ الْیَوْمَ شَیْئًا مَّا کُنَّا نَسْمَعُہٗ قَالَ اِنَّ
جِبْرَئِیْلَ عَرَضَ لِیْ فَقَالَ بَعُدَ مَنْ اَدْرَکَ رَمَضَانَ فَلَمْ یُغْفَرْ
لَہٗ قُلْتُ اٰمِیْنَ فَلَمَّا رَقِیْتُ
الثَّانِیَۃَ قَالَ بَعُدَ مَنْ ذُکِرْتَ عِنْدَہٗ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیْکَ قُلْتُ
اٰمِیْنَ فَلَمَّا رَقِیْتُ الثَّالِثَۃُ قَالَ بَعُدَ مَنْ اَدْرَکَ اَبَوَیْہِ
الْکِبَرُ عِنْدَہٗ اَوْ اَحَدَھُمَا فَلَمْ یُدْخِلَاہُ الْجَنَّۃَ قُلْتُ
اٰمِیْنَ۔ (رواہ الحاکم و قال صحیح الاسناد کذا فی الترغیب و قال السخاوی رواہ ابن حبان فی ثقتہو صححہ و الطبرانی فی
الکبیر والبخاری فی بر الوالدین لہ و البیھقی فی الشعب و غیرھم و رجالہ ثقات و بسط
طرقہ و روی الترمذی عن ابی ہریرۃ بمعناہ وقال ابن حجرطرقہ کثیرۃ
کما فی المرقاۃ)
کعبؓ بن عجیرہ کہتے ہیں کہ ایک
مرتبہ نبیء کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ منبر کے قریب ہو جائو ہم لوگ حاضر ہو گئے جب
حضورﷺ نے منبر کے پہلے درجہ پر قدم مبارک رکھا تو فرمایا آمین ۔جب دوسرے پر درجہ
پر قدم مبارک رکھا توپھر فرمایا آمین۔ جب تیسرے درجہ پر قدم مبارک رکھا توپھر
فرمایا آمین۔ جب آپ ﷺخطبہ سے فارغ ہو کر نیچے اترے تو ہم نے عرض کیا کہ ہم نے
آج آپ سے (منبر پر چڑھتے ہوئے ) ایسی بات سنی جو پہلے کبھی نہیں سنی تھی آپﷺ نے
ارشاد فرمایا کہ اس وقت جبرئیلںمیرے سامنے آئے تھے جب پہلے درجہ پر میں نے قدم
رکھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہوجائے وہ شخص جسنے رمضان کا مبارک مہینہ پایا اور پھر
بھی اس کی مغفرت نہیں ہوئی میں نے کہا آمین، پھر جب میں دوسرے درجہ پر چڑھا تو
انہوں نے کہا ہلاک ہو جائے وہ شخص جسکے سامنے آپکا ذکر مبارک ہو اور وہ درود نہ
بھیجے میں نے کہا:آمین،جب میں تیسرے درجہ پر چڑھا
تو انہوں نے کہا ہلاک ہو وہ شخص
جس کے سامنے ا سکے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پاوے اور وہ اس
کو جنت میں داخل نہ کرائیں ۔۔ میں نے کہا :آمین ۔
ف: اس حدیث میں حضرت جبرئیل ںنے تین
بد دعائیں دی ہیں اور حضور اقدسﷺ نے ان تینوں پر آمین فرمائی ۔ اول تو حضرت
جبرئیل جیسے مقرب فرشتے کی بد دعا ہی کیا کم تھی اور پھرحضورر اقدس ﷺ کی
آمین نے تو جتنی سخت بد دعا بنا دی وہ ظاہر ہے اللہ ہی اپنے فضل سے ہم لوگوں کوان
تینوں چیزوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائیں اور ان برائیوں سے محفوظ رکھیں، ورنہ
ہلاکت میں کیا تردد ہے در منثور کی بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خود حضرت
جبرئیل نے حضور ﷺسے کہا کہ آمین کہو۔تو حضور ﷺ نے فرمایا آمین ، جس سے اور بھی
اہتمام معلوم ہوتا ہے ۔
تیسرے وہ شخص جس کے بوڑھے والدین
میں سے دونوں یا ایک موجود ہوں اور وہ ان کی اس قدر خدمت نہ کر سکے کہ جس کی وجہ
سے جنت کا مستحق ہو جائے ۔ والدین کے حقوق کی بھی بہت سی احادیث میں تاکید فرمائی
ہے ۔ علماء نے ان کے حقوق میں لکھا ہے کہ مباح امور میں ان کی اطاعت ضروری ہے نیز
یہ بھی لکھا ہے کہ ان کی بے ادبی نہ کرے ، تکبر سے پیش نہ آئے اگر چہ وہ مشرک ہوں
اپنی آواز کہ ان کی آواز سے اونچی نہ کرے ان کا نام لے کر نہ پکارے ، کسی کام
میں ان کی پیش قدمی نہ کرے ،امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں نرمی کرے اگر قبول
نہ کریں تو سلوک کرتا رہے اور ہدایت کی دعا کرتا رہے غرض ہر بات میں ان کا احترام
ملحوظ رکھے ایک روایات میں آیا ہے کہ جنت کے بہترین دروازوں میں سے ایک دروازہ باپ ہے تیرا جی چاہے اس کی حفاظت
کر یا ضائع کر دے ۔ایک صحابی ؓ نے حضور ﷺسے دریافت کیا کہ والدین کا کیا حق ہے ۔
آپ ؐ نے فرمایا کہ وہ تیری جنت ہیں یا جہنم یعنی ان کی رضا جنت ہے اور ان کی
ناراضگی جہنم ہے ایک حدیث میں آیا ہے کہ مطیع بیٹے کی محبت اور شفقت سے ایک نگاہ
والد کی طرف ایک مقبول حج کا ثواب رکھتی ہے ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ شرک کے سوا
تمام گناہوں کو جس قدر دل چاہے اللہ معاف فرما دیتے ہیں مگر والدین کی نافرمانی کا
مرنے سے قبل دنیا میں بھی وبال پہنچاتے ہیں ۔ ایک صحابیؓ نے عرض کیا کہ میں جہاد
میں جانے کا ارادہ کرتا ہوں حضور ﷺ نے دریافت فرمایا کیا تیری ماں بھی زندہ ہے۔
انہوں نے عرض کیا کہ ہیں ۔ حضور ﷺنے فرمایا کہ ان کی خدمت کر کہ ان کے قدموں کے
نیچے تیرے لئے جنت ہے ۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ اللہ کی رضا باپ کی رضا میں ہے
اور اللہ کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے اور بھی بہت سی روایات میں اس کا
اہتمام اور فضل وارد ہوا ہے ۔ جو لوگ کسی غفلت سے اس میں کوتاہی کر چکے ہیں اور اب
ان کے والدین موجود نہیں۔ شریعت مطہرہ میں ان کی تلافی بھی موجود ہے۔ ایک حدیث میں
ارشاد ہے کہ جس کے والدین اس حالت میں مر گئے ہوں کہ وہ ان کی نافرمانی کرتا ہو تو
ان کے لئے کثرت سے دعا اور استغفار کرنے سے مطیع شمار ہوجاتا ہے ۔ ایک دوسری حدیث
میں وارد ہے کہ بہترین بھلائی باپ کے بعد اس کے ملنے والوں سے حسن سلوک ہے۔