Pages

Imprisonment of Iblees Shaitan in Ramzan and Sins in Ramzan


چوتھی خصوصیت سرکش شیاطین کا قید ہو جانا ہے کہ جس کی وجہ سے معاصی کا زور کم ہو جاتا ہے رمضان المبارک میں رحمت کے جوش اور عبادت کی کثرت کا مقتضی ٰیہ ہے کہ شیاطین بہکانے میں بہت ہی انتھک کوشش کیا کرتے اور پائوں چوٹی کا زورختم کر دیتے اور اس وجہ سے معاصی کی کثرت اس مہینہ میں اتنی ہو جاتی کہ حد سے زیادہ ۔ لیکن باوجود اس کے یہ مشاہدہ ہے اور محقق کہ مجموعی طور سے گناہوں میں کمی آ جاتی ہے کتنے شرابی کبابی ایسے ہیں کہ رمضان میں خصوصیت سے نہیں پیتے، اور اسی طرح گناہوں میں بھی کھلی کمی آ جاتی ہے لیکن اس کے باوجود گناہ ہوتے ضرور ہیں مگر ان کے سر زد ہونے سے حدیث پاک میں تو کوئی اشکال نہیں ، اس لئے کہ اس کا مضمون ہی یہ ہے کہ سرکش شیاطین قید کر دیے جاتے ہیںاس بناء پر اگر وہ گناہ غیر سرکشوں کا اثر ہو تو کچھ خلجان نہیں البتہ دوسری روایات میں سرکش کی قید مطلقاً شیاطین کے مقعد ہونے کا ارشاد بھی موجود ہے پس اگر ان روایات سے بھی سرکش شیاطین کاہی قید ہونا مراد ہے کہ بعض اوقات لفظ مطلق بولا جاتا ہے مگر دوسری جگہ سے اس کی قیودات معلوم ہو جاتی ہیں تب بھی کوئی اشکال نہیں رہا البتہ اگر ان روایات سے سب شیاطین کا محبوس ہونا مراد ہو تب بھی ان معاصی کے صادر ہونے سے کچھ خلجان نہ ہونا چاہیے کہ اگر چہ معاصی شیاطین کے اثر سے ہوتے ہیں مگر سال بھی تک ان کے تلبس اور اختلاط اور زہریلے اثر کے جمائو کی وجہ سے نفس ا ن کے ساتھ اس درجہ مانوس اور متاثر ہو جاتا ہے کہ تھوڑی بہت غیبت محسوس نہیں ہو تی ، بلکہ وہی خیالات اپنی طبیعت بن جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بغیر رمضان کے جن لوگوں سے گناہ زیادہ سر زد ہوتے ہیں، رمضان میں بھی انہی سے زیادہ تر صدور ہوتے ہیں اور آدمی کا نفس چونکہ ساتھ رہتا ہے اسی لئے اس کا اثر ہے دوسری بات ایک اور بھی ہے، نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب آدمی گناہ کرتا ہے تو اس کے قلب میں ایک کالا نقطہ لگ جاتا ہے اگر وہ سچی توبہ کر لیتا ہے تو وہ دھل جاتا ہے ورنہ لگا رہتا ہے اور اگر دوسری مرتبہ گناہ کرتا ہے تو دوسرا نقطہ لگ جاتا ہے حتیٰ کہ اس کا قلب بالکل سیاہ ہو جاتا ہے پھر خیر کی بات اس کے قلب تک نہیں پہنچتی۔ اسی کو حق تعالیٰ شانہ نے اپنے کلام پاک میں کلا بل ران علی قلوبھم سے ارشاد فرمایا ہے کہ ان کے قلوب زنگ آلود ہو گئے ایسی صورت میں وہ قلوب ان گناہوں کی طرف خود متوجہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ ایک نوع کے گناہ کو بے تکلف کر لیتے ہیں لیکن اسی جیسا کوئی دوسرا گناہ سامنے ہوتا ہے تو قلب کو اس سے انکار ہوتا ہے ۔ مثلاً جو لوگ شراب پیتے ہیں ان کو اگر سؤر کھانے کو کہا جائے تو ان کی طبیت کو نفرت ہوتی ہے حالانکہ معصیت میں دونوں برابر ہیں تو اسی طرح کہ غیر رمضان میں وہ ان گناہوں کو کرتے رہتے ہیں تو دل ان کے ساتھ رنگے جاتے ہیں جس کی وجہ سے رمضان المبارک میں بھی ان کے سرزد ہونے کے لئے شیاطین کی ضرورت نہیں رہتی بالجملہ اگر حدیث پاک سے سب شیاطین کا مقید ہونا مراد ہے تب بھی رمضان المبارک میں گناہوں کے سرزد ہونے سے کچھ اشکال نہیں ، اوراگر متمرد اور خبیث شیاطین کا مقید ہونا مراد ہو تب تو کوئی اشکال ہے ہی نہیں، اور بندہ ناچیز کے نزدیک یہی توجیہ اولیٰ ہے اور ہر شخص اس پر غور کر سکتا ہے اور تجربہ کر سکتا ہے کہ رمضان المبارک میں نیکی کرنے کے لئے یا کسی معصیت سے بچنے کیلئے اتنے زور لگانے نہیں پڑتے جتنے کہ غیر رمضان میں پڑتے ہیں تھوڑی سی ہمت اور توجہ کافی ہو جاتی ہے
حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق صاحب ؒ کی رائے یہ ہے کہ یہ دونوں حدیثیں مختلف لوگوں کے اعتبار سے ہیں یعنی فساق کے حق میں صرف متکبر شیاطین قید ہوتے ہیں اور صلحا کے حق میں مطلقاً ہر قسم کے شیاطین محبوس ہو جاتے ہیں