Below
article is part of an scholary discussion in the background of the criticism
of Fazaile Amaal. The scholar has discussed ruling of science of
Ahadith and what has been practice of salafus Salehin Ulema Karam and
Aimma of Hadith. This has been written by Maulana Abdullah Maroofi Damat
Barkatuhum Lecturer in hadith Darul Uloom Deoband.(Islamic University )U.P. India
This is being Reproduced here from http://www.ownislam.com/articles/urdu-articles/1529-fazail-amaal-par-aitrazat
This is also available on the official website of Darul Uloom Deoband
YEH MAZMOON URDU MEIN DARUL ULOOM DEOBAND KI WEBSITE APR BHI MAUJOOD HAI
http://www.darululoom-deoband.com/urdu/current/fazail1.htm
May
Allah help Ummat to have faith on Quran and Hadith as explained and
Practiced by Salafus Salehin Great Imams and Muhaddethin and help the
present day general muslim and Islamic Scholars mend their differences
of opinion in that light. Only Allah can help and solve the Problems of
Ummah.All are requested to PrayYEH MAZMOON URDU MEIN DARUL ULOOM DEOBAND KI WEBSITE APR BHI MAUJOOD HAI
http://www.darululoom-deoband.com/urdu/current/fazail1.htm
۷-حافظ ابن قیم الجوزیة
حدیثوں پر وضع کا حکم لگانے میں جو محدثین متشدد مانے جاتے ہیں
ان میں ایک نام حافظ ابن قیم کا ہے اس دعویٰ کا ثبوت ان کی کتاب ”المنار المنیف فی
الصحیح والضعیف“ جس میں انہوں نے چند ایک ابواب پر یہ کلی حکم لگایا ہے کہ اس باب
میں جو کچھ مروی ہے باطل ہے‘ تاہم اس میں شک نہیں کہ نقد حدیث میں ان کی حیثیت
مرجع وسند ہے۔
لیکن ان کا بھی حال یہ ہے کہ اپنی بعض تصنیفات مثلاً مدارج
السالکین‘ زاد المعاد وغیرہ میں کتنی ہی ضعیف اور منکر حدیثیں کوئی تبصرہ کے بغیر
بطور استدلال پیش کر ڈالتے ہیں‘ خاص طور سے اگر حدیث ان کے نظریہ کی تائید میں
ہوئی ہے تو اس کی تقویت میں بات مبالغہ کی حد تک پہنچ جاتی ہے‘ مثلاً زاد المعاد
۳/۵۴‘۵۷ میں وفد بنی المنتفق پر کلام کے ذیل میں ایک بہت لمبی حدیث ذکر کی ہے جس
میں یہ الفاظ بھی ہیں۔
”ثم تلبثون ما لبثتم‘ ثم تبعث الصائحة‘
فلعمرو الہک ما تدع فی ظہرہا شیئاً الامات تلبثون ما لبثتم ثم یوفی نبیکم
والملائکة الذین مع ربک فاصبع ربک عز وجل یطوف فی الارض وخلت علیہ البلاد․․․“
اس حدیث کو ثابت وصحیح قرار دینے میں ابن قیم نے پورا زور صرف
کیا ہے‘ چنانچہ فرماتے ہیں:
”ہذا حدیث جلیل تنادی جلالتہ وفخامتہ وعظمتہ
علی انہ قد خارج من مشکاة النبوة لا یعرف الا من حدیث عبد الرحمن بن المغیرة
المدنی“ ۔
پھر عبد الرحمن بن مغیرة کی توثیق اور ان کتابوں کے حوالوں کے
ذریعہ جن میں یہ حدیث تخریج کی گئی ہے لمبا کلام کیا‘ حالانکہ خود ان کے شاگرد
حافظ ابن کثیر نے ”البدایة والنہایة“ میں لکھا کہ:
”ہذا حدیث غریب جداً‘ والفاظہ فی بعضہا
نکارة“
یعنی یہ حدیث انتہائی اوپری ہے‘ اس کے بعض الفاظ میں نکارت ہے‘
حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں عاصم بن لقیط بن عامر بن المنتفق العقیلی کے
ترجمہ میں لکھا کہ: ” وہو حدیث غریب جداً“ جبکہ علامہ ابن قیم نے اس کی تائید میں
کسی کہنے والے کے اس قول تک کو نقل کرڈالا۔
”ولاینکر ہذا القول الاجاحد او جاہل او مخالف
للکتاب والسنة“ اھ
یہ چند نمونے ہیں جو مشتے نمونہ از خردار ے پیش کئے گئے اور یہ
بات اظہر من الشمس ہوگئی کہ بطور عمل متوارث حدیث ضعیف کا احترام ہوتا چلا آیا
ہے‘ اس کے خلاف کو موقف ”اتباع غیر سبیل المؤمنین“ (جماعت مسلمین کے راستہ کو
چھوڑنے کے مرادف ہے) خاص کر فضائل وغیرہ کے باب میں ضعیف حدیث کو بیان کرنا یا کسی
کتاب میں شامل کرنا جرم نہیں ہے‘ ایسا کرنے والوں کی یہ ایک لمبی قطار ہے‘ ہم تو
ان حضرات پر مکمل اعتماد کرتے ہیں‘ جو کچھ دینی وعلمی ورثہ ہم تک پہنچا وہ اسی
قدسی صفت جماعت کا احسان ہے‘ البتہ لوگوں کو ان کے طرز عمل پر اعتراض ہے وہ جانیں
کہ یہ لوگ مجرم ہیں یا نہیں؟شیخ نے بجا طور پر کہا اور کیا خوب کہا:
”اگر ان سب اکابر کی یہ ساری کتابیں غلط ہیں تو
پھر فضائل حج کے غلط ہونے کا اس ناکارہ کو بھی قلق نہیں۔ (کتب فضائل پر اشکالات
اور ان کے جوابات ص:۱۸۲)