Below
article is part of an scholary discussion in the background of the criticism
of Fazaile Amaal. The scholar has discussed ruling of science of
Ahadith and what has been practice of salafus Salehin Ulema Karam and
Aimma of Hadith. This has been written by Maulana Abdullah Maroofi Damat
Barkatuhum Lecturer in hadith Darul Uloom Deoband.(Islamic University )U.P. India
This is being Reproduced here from http://www.ownislam.com/articles/urdu-articles/1529-fazail-amaal-par-aitrazat
This is also available on the official website of Darul Uloom .
YEH MAZMOON URDU MEIN DARUL ULOOM DEOBAND KI WEBSITE APR BHI MAUJOOD HAI
http://www.darululoom-deoband.com/urdu/current/fazail1.htm
May
Allah help Ummat to have faith on Quran and Hadith as explained and
Practiced by Salafus Salehin Great Imams and Muhaddethin and help the
present day general muslim and Islamic Scholars mend their differences
of opinion in that light. Only Allah can help and solve the Problems of
Ummah.All are requested to PrayYEH MAZMOON URDU MEIN DARUL ULOOM DEOBAND KI WEBSITE APR BHI MAUJOOD HAI
http://www.darululoom-deoband.com/urdu/current/fazail1.htm
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا موقف
شیخ الاسلام ابن تیمیہ بھی فضائل وغیرہ میں ضعیف پر عمل کے
مسئلہ میں جمہور سے الگ نہیں ہوسکے‘ اس دعویٰ کا بین ثبوت ان کی کتاب ”الکلم
الطیب“ ہے، اس میں ضعیف حدیثوں کی تعداد کتنی ہے، اس کا جواب علامہ ناصر الدین
البانی دیں گے ،جنہوں نے ”صحیح الکلم الطیب“
اور” ضعیف الکلم الطیب“ میں خط امتیاز قائم کرنے کا کار نامہ انجام دیا ہے۔
(التحریف باوہام ۱/۱۰۳)
علامہ شوکانی کا موقف
اگرچہ علامہ شوکانی کی الفوائد المجموعہ (ص:۲۸۳) کی عبارت سے
پتہ چلتا ہے کہ ان کے نزدیک ضعیف حدیث مطلقاً ناقابل عمل ہے، لیکن ان کی اہم ترین
تصنیف ”نیل الاوطار“ (۳/۶۰) کی یہ عبارت ا س کی نفی کرتی ہے :
”والایات والاحادیث المذکورة فی الباب تدل
علی مشروعیة الاستکثار من الصلاة بین المغرب والعشاء والاحادیث وان کان اکثرہا
ضعیفاً فہی منتہضة لمجموعہا لاسیما فی فضائل الاعمال“۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ مغرب وعشاء کے درمیان نوافل کی کثرت سے
متعلق اکثر حدیثیں اگرچہ ضعیف ہیں لیکن مجموعی حیثیت سے مضبوط ہیں ،خاص کر فضائل
اعمال میں۔ نیز آپ کی کتاب ”تحفة الذاکرین“ کا مطالعہ کرنے والا شخص تو ہمت ہی
نہیں کرسکتا کہ ان کی طرف زیر بحث مسئلہ میں خلاف جمہور رائے کا انتساب کرے،
کیونکہ وہ تو ضعاف سے بھری پڑی ہے (ملاحظہ ہو التعریف)
ان معروضات سے یہ حقیقت آشکارا ہوگئی کہ ضعیف حدیث جبکہ موضوع
نہ ہو، باب احکام وعقائد کے علاوہ میں اجماعی طور سے پوری امت کے نزدیک قابل عمل
ہے‘ اور چونکہ فضائل‘ مناقب‘ ترغیب وترہیب سیر ومغازی کی احادیث کے ذریعہ غفلت سے
بیداری اور دین پر عمل کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، اس لئے پورے شد ومد سے ان کے خلاف
ہوا کھڑا کیا گیا ہے، تاکہ مذہبی احکام کی اہمیت کم سے کم تر ہوجائے ،پھر زیاں کے
بعد زیاں کا احساس تک باقی نہ رہے۔ یالیت قومی یعلمون۔
یہ چند نمونے ہیں جو مشتے نمونہ از خردار ے پیش کئے گئے اور یہ
بات اظہر من الشمس ہوگئی کہ بطور عمل متوارث حدیث ضعیف کا احترام ہوتا چلا آیا
ہے‘ اس کے خلاف کو موقف ”اتباع غیر سبیل المؤمنین“ (جماعت مسلمین کے راستہ کو
چھوڑنے کے مرادف ہے) خاص کر فضائل وغیرہ کے باب میں ضعیف حدیث کو بیان کرنا یا کسی
کتاب میں شامل کرنا جرم نہیں ہے‘ ایسا کرنے والوں کی یہ ایک لمبی قطار ہے‘ ہم تو
ان حضرات پر مکمل اعتماد کرتے ہیں‘ جو کچھ دینی وعلمی ورثہ ہم تک پہنچا وہ اسی
قدسی صفت جماعت کا احسان ہے‘ البتہ لوگوں کو ان کے طرز عمل پر اعتراض ہے وہ جانیں
کہ یہ لوگ مجرم ہیں یا نہیں؟شیخ نے بجا طور پر کہا اور کیا خوب کہا:
”اگر ان سب اکابر کی یہ ساری کتابیں غلط ہیں تو
پھر فضائل حج کے غلط ہونے کا اس ناکارہ کو بھی قلق نہیں۔ (کتب فضائل پر اشکالات
اور ان کے جوابات ص:۱۸۲)