شيخ الحديث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب نور اﷲ مرقدہ
اس میں سب سے اہم اور سب سے مقدم تو خود حق تعالیٰ شانہ‘جل جلالہ‘عم نوالہ کا پاک ارشاد اور حکم ہے‘چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہے۔
١: اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہ یُصَلُّونَ عَلی النَّبِیِّ یَآ اَیُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُو صَلُّو عَلَیہِ وَسَلِّمُوا تَسلَیمًا (پ۲۲ع۳)
بیشک اللہ تعالی اور اسکے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں۔ان پیغمبرﷺ پر۔ اے ایمان والو!تم بھی آپ ﷺ پر رحمت بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو (بیان القرآن)
ف:حق تعالیٰ شانہ‘نے قرآن پاک میں بہت سے احکامات ارشاد فرمائے، نماز، روزہ، حج،وغیرہ اور بہت سے انبیاءکرام کی توصیفیں اور تعریفیں بھی فرمائیں ان کے بہت سے اعزاز و اکرام بھی فرمائے۔حضرت آدم علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام کو پیدا فرمایا تو فرشتوں کو حکم فرمایا کہ ان کو سجدہ کیا جائے۔ليکن کسی حکم یا کسی اعزاز و اکرام میں یہ نہیں فرمایا کہ میں بھی یہ کام کرتا ہوں تم بھی کرو۔یہ اعزاز صرف سید الکونین فخر عالمﷺہی کےلئے ہے کہ اللہ جل شانہ‘ نے صلوٰة کی نسبت اولا اپنی طرف اسکے بعد اپنے پاک فرشتوں کی طرف کرنے کے بعد مسلمانوں کو حکم فرمایا کہ اللہ اور اسکے فرشتے درود بھیجتے ہیں‘اے مومنو تم بھی درود بھیجو۔اس سے بڑھ کر اور کیا فضیلت ہو گی کہ اس عمل میں اللہ اور اسکے فرشتوں کے ساتھ مومنین کی شرکت ہے۔پھر عربی داں حضرات جانتے ہیں کہ آیت شریفہ کو لفظ اِنّ کے ساتھ شروع فرمایا جو نہایت تاکید پر دلالت کرتا ہے اور صیغہ مضارع کے ساتھ ذکر فرمایا جو استمرار اور دوام پر دلالت کرتا ہے یعنی یہ قطعی چیز ہے کہ اللہ اور اسکے فرشتے ہمیشہ درود بھیجتے رہتے ہیں نبیﷺ پر علامہ سخاوی رحمہ اﷲلکھتے ہیں کہ آیت شریفہ مضارع کے صیغہ کے ساتھ جو دلالت کرنے والا ہے استمرار اور دوام پر دلالت کرتی ہے اس بات پر کہ اللہ اور اسکے فرشتے ہمیشہ درود بھیجتے رہتے ہیں نبی اکرم ﷺپر۔صاحب روح البیان رحمہ اﷲلکھتے ہیں بعض علماءنے لکھا ہے کہ اللہ کے درود بھیجنے کا مطلب حضور اقدسﷺکو مقام محمود تک پہنچانا ہے اور وہ مقام شفاعت ہے اور ملائکہ کے درود کا مطلب ان کی دعا ہے۔حضور اقدس ﷺ کی زیادتی مرتبہ کےلئے اور حضورﷺکی امت کےلئے استغفار اور مومنین کے درود کا مطلب حضور ﷺکا اتباع اور حضور اقدسﷺ کے ساتھ محبت اور حضورﷺکے اوصاف جمیلہ کا تذکرہ اور تعریف،یہ بھی لکھا ہے کہ یہ اعزاز و اکرام جو اللہ جل شانہ نے حضورﷺکو عطا فرمایا ہے اس اعزاز سے بہت بڑھا ہوا ہے جو حضرت آدم علیہ الصلوٰة والسلام کو فرشتوں سے سجدہ کراکر عطا فرمایا تھااسلئے کہ حضور اقدس ﷺ کے اس اعزازواکرام میں اللہ جل شانہ خود بھی شریک ہیں، بخلاف حضرت آدم کے اعزاز کے کہ وہاں صرف فرشتوں کو حکم فرمایا۔
عقل دور اندیش میدانہ کے تشریفے چنیں ----- ہیچ د یں
پرورندیدہ ہیچ پیغمبر نیافت
یُصَلّی عَلَیہِ اللّٰہ جَلَّ جَلَالُہ ------ بِھٰذَ بَدَا لِلعَالَمِینَ کَمَا لُہ
علماءنے لکھا ہے کہ آیت شریفہ میں حضورﷺکو نبی کے لفظ کے ساتھ تعبیر کیا محمدﷺ کے لفظ سے تعبیر نہیں کیا جیسا کہ اور انبیاءکو ان کے اسماءکے ساتھ ذکر فرمایاہے
یہ حضور اقدس ﷺ کی غایت عظمت اور غایت شرافت کی وجہ سے ہے ۔اور ایک جگہ جب حضورﷺ کا ذکر حضرت ابراہیم علی بنینا وعلیہ الصلوٰة والسلام کے ساتھ آیا تو ان کے تو نام کے ساتھ ذکر کیا اور آپﷺ کو نبی کے لفظ سے جیسا کہ:۔اِنَّ اَولَی النَّاسِ بِاِبرَاھِیمَ لَلَّذِین اتَّبَعُوہُ وَ ھٰذَا النَّبِیُّ میں ہے اور جہاں کہیں نام لیا گیا ہے وہ خصوصی مصلحت کی وجہ سے لیا گیا ہے۔علامہ سخاوی رحمتہ اللہ علیہنے اس مضمون کو تفصیل سے لکھا ہے۔
یہاں ایک بات قابل غور یہ ہے کہ صلوة کا لفظ جو آیت شریفہ میں وارد ہوا ہے اور اسکی نسبت اللہ جل شانہ‘ کی طرف اور اسکے فرشتوں کی طرف اور مومنین کی طرف کی گئی ہے وہ ایک مشترک لفظ ہے جو کئی معنی میں مستعمل ہوتا ہے اورکئی مقاصد اس سے حاصل ہوتے ہیں جیسا کہ صاحب روح البیان کے کلام میں بھی گذر چکا۔علماءنے اس جگہ صلوٰة کے بہت سے معنی لکھے ہیں،ہر جگہ جو معنی اللہ تعالیٰ شانہ،اور فرشتوں اور مومنین کے حال کے مناسب ہوں گے وہ مراد ہونگ،بعض علماءنے لکھا ہے کہ صلوٰة علی النبی کا مطلب نبی کی ثناءتعظیم رحمت و عطوفت کے ساتھ ہے پھر جسکی طرف یہ صلوٰة منسوب ہو گی اسی کے شان و مرتبہ کے لائق ثناءو تعظیم مراد لی جائے گی،جیسا کہ کہتے ہیں کہ باپ بیٹے پر،بیٹا باپ،بھائی بھائی پر مہربان ہے تو ظاہر ہے کہ جس طرح کی مہربانی باپ کی بیٹے پر ہے‘اس نوع کی بیٹے کی باپ پر نہیں اور بھائی کی بھائی پر دونوں سے جدا ہے۔اسی طرح یہاں بھی اللہ جل شانہ بھی نبی کریمﷺ پر صلوٰة بھیجتا ہے،یعنی رحمت و شفقت کےساتھ آپ کی ثناءواعزاز و اکرام کرتا ہے اور فرشتے بھی بھیجتے ہیں،مگر ہر ایک کی صلوٰة اور رحمت وتکریم اپنی شان و مرتبے کے موافق ہو گی۔آگے مومنین کو حکم ہے کہ تم بھی صلوٰة و رحمت بھیجو ۔امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے ابو العالیہ سے نقل کیا ہے کہ اللہ کے درود کا مطلب اسکا آپکی تعریف کرنا ہے۔فرشتوں کے سامنے اور فرشتوں کا درود ان کا دعا کرنا ہے۔حضرت ابن عباسؓ سے یُصَلُّونَ کی تفسیر یُبَرِّکُون نقل کی گئی ہے۔یعنی برکت کی دعا کرتے ہیں۔حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں یہ قول ابو العالیہ رحمتہ اللہ علیہ کے موافق ہے البتہ اس سے خاص ہے،حافظ رحمتہ اللہ علیہ نے دوسری جگہ صلوٰة کے کئی معنی لکھ کہ لکھا ہے کہ ابو العالیہ رحمتہ اللہ علیہ کا قول میرے نزدیک زیادہ اولیٰ ہے کہ اللہ کی صلوٰة سے مراد اللہ کی تعریف ہے‘حضورپر اور ملائکہ وغیرہ کی صلوٰة اس کی اللہ سے طلب ہے اور طلب سے مراد زیادتی کی طلب ہے نہ کہ اصل کی طلب حدیث میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ!سلام کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہو چکا یعنی التحیات میں جو پڑھا جاتا ہے۔
اَلسَّلَام عَلَیکَ اَیُّھَا النِّبِیُّ وَرَحمَةُ اللّٰہ وَبَرَکَتُہ
صلوٰة کا طریقہ بھی ارشاد فرما دیجئے ُآپ نے یہ درود شریف ارشاد فرمایا اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدً الخ فصل ثانی کی حدیث نمبر ۱ پر یہ درود مفصل آرہا ہے‘یعنی اللہ جل شانہ ‘نے مومنین کو حکم دیا تھا کہ تم بھی نبی پر صلوٰةبھیجو۔نبی ﷺنے اس کا طریقہ بتادیا کہ تمہارا بھیجنا یہی ہے کہ تم اللہ ہی سے درخواست کرو کہ وہ اپنی بیش از بیش رحمتیں ابدا لآباد تک نبی پر نازل فرماتا رہے، کیونکہ اسکی رحمتوں کی کوئی حدونہایت نہیں۔یہ بھی اللہ کی رحمت ہے کہ اس درخواست پر جو مزید رحمتیں نازل فرمائے وہ ہم عاجز و ناچیز بندوں کی طرف منسوب کردی جائیں،گویا ہم نے بھیجی ہیں حالانکہ ہر حال میں رحمت بھیجنے والا وہی اکیلا ہے کسی بندے کی کیا طاقت تھی کہ سید الانبیاءکی بارگاہ میں انکے رتبے کے لائق تحفہ پیش کر سکتا۔حضرت شاہ عبد القادر صاحب نور اللہ مرقدہ‘لکھتے ہیں”اللہ سے رحمت مانگنی اپنے پیغمبر پر اور ان کے ساتھ ان کے گھرانہ پر بڑی قبولیت رکھتی ہے“ ان پر ان کے لائق رحمت اترتی ہے اور ایک دفعہ مانگنے سے دس بار رحمتیں اترتی ہیں مانگنے والے پر اب جس کا جتنا بھی جی چاہے ۱ تناحاصل کرلے ا ھ مختصراً یہ حدیث جس کی طرف شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے اشارہ فرمایا عنقریب نمبر۳ پر آرہی ہے،اس مضمون سے يہ بھی معلوم ہو گیا کہ بعض جاہلوں کا یہ اعتراض کہ آیت شریفہ میں مسلمانوں کو حضورپرصلوٰةبھیجنے کا حکم ہے اور اس پر مسلمانوں کا اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ اے اللہ تو درود بھیج محمد ﷺپر مضحکہ خیز ہے۔یعنی جس چیز کا حکم دیا تھا اللہ نے بندوں کو وہی چیز اللہ تعالی شانہ ‘کی طرف لوٹادی بندوں نے چونکہ اول تو خود حضور اقدسﷺنے آيت شريفہ کے نازل ہونے پر جب صحابہؓ نے اس کی تعميل کی صورت دریافت کی تو یہی تعلیم فرمایا جیسا کہ اوپر گذرا۔نیز جیسا کہ فصل ثانی کی حدیث نمبر1پر مفصل آرہا ہے۔ دوسرا اس وجہ سے کہ ہماری یہ درخواست کرنا اللہ جل شانہ‘ سے کہ تو اپنی رحمت خاص نازل کر یہ اس سے بہت ہی زیادہ اونچا ہے کہ ہم اپنی طرف سے کوئی ہدیہ حضورﷺ کی خدمت میں بھیجیں۔ علامہ سخاوی رحمتہ اللہ علیہ قول بدیع میں تحریر فرماتے ہیں،فائدہ مہمہ امیر مصطفیٰ ترکمانی حنفی کی کتاب میں لکھا ہے کہ اگر یہ کہا جائے کہ اس میں کیا حکمت ہے کہ اللہ نے ہمیں درود کا حکم فرمایا ہے کہ ہم یوں کہہ کر کہ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ خود اللہ جل شانہ ‘سے الٹا سوال کریں کہ وہ درود بھیجے یعنی نماز میں ہم اُصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کی جگہ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ پڑھیں اسکا جواب یہ ہے کہ حضور اقدسﷺ کی پاک ذات میں کوئی عیب نہیں اور ہم سراپا عیوب و نقائص ہیں پس جس شخص میں بہت عیب ہوں وہ ایسے شخص کی کیا ثناءکرے جو پاک ہے اسلئے ہم اللہ ہی سے درخواست کرتے ہیں کہ وہی حضورﷺپر صلوٰة بھیجے تاکہ رب طاہر کی طرف سے نبیﷺطاہر پر صلوٰة ہو ۔ایسے ہی علامہ نیشاپوری رحمتہ اللہ علیہ سے بھی نقل کیا ہے کہ ان کی کتاب لطائف وحکم میں لکھا ہے کہ آدمی کو نماز میں صَلِّیتُ عَلٰی مُحَمَّدٍ نہ پڑھنا چاہئے۔ اس واسطے کہ بندہ کا مرتبہ اس سے قاصر ہے اسلئے اپنے رب ہی سے سوال کرے کہ وہ حضورﷺ پر صلوٰة بھیجے تو اس صورت میں رحمت بھیجنے والا تو حقیقت میں اللہ جل شانہ ہی ہے اور ہمارے طرف اسکی نسبت مجازاً بحیثیت دعا کے ہے،ابن ابی حجلہ رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اسی قسم کی بات فرمائی ہے وہ کہتے ہیں کہ جب اللہ جل شانہ‘ نے ہمیں درود کا حکم فرمایا اور ہمارا درود حق واجب تک نہیں پہنچ سکتا تھا اسلئے ہم نے اللہ جل شانہ‘ہی سے درخواست کی کہ وہی زیادہ واقف ہے اس بات سے کہ حضورﷺکے درجہ کے موافق کیا چیز ہے۔یہ ایسا ہی ہے۔جیسا دوسری جگہ لَآ اُحصَی ثَنَآئً عَلَیکَ اَنتَ کَمَآ اثنَیتَ عَلٰ نَفسِکَ حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ یا اللہ میں آپ کی تعریف کرنے سے قاصر ہوں، آپ ایسے ہی ہیں جیسا کہ آپ نے اپنی خود ثنا فرمائی ہے۔علامہ سخاوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب یہ بات معلوم ہو گئی تو جس طرح حضورﷺنے تلقین فرمایا ہے اسی طرح تیرا درود ہونا چاہئے کہ اسی سے تیرا مرتبہ بلند ہو گا اورنہایت کثرت سے درود شریف پڑھنا چاہیے اور ا سکا بہت اہتمام اور اس پر مد اومت چاہیے اسلئے کہ کثرت درود محبت کی علامات میں سے ہے۔ فَمَن اَحَبَّ شَیئًا اَکثَرَ مِن ذِکرِہ جس کو کسی سے محبت ہوتی ہے اسکا ذکر بہت کثرت سے کیا کرتا ہے۔ ا ھ مختصراً علامہ سخاوی رحمتہ اللہ علیہ نے امام زین العابدین رحمتہ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ حضور اقدسﷺپر کثرت سے درود بھیجنا اہل سنت ہونے کی علامت ہے(یعنی سنی ہونے کی)