مولف
شيخ الحديث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب نور اﷲ مرقدہ
تمہید
نَحمَدُہ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُولِہِ الکَرِیم حَامِدًا وَّ مُصَلِّیاً وَّ مُسَلِّمًا اَلحَمدُ لِلّٰہِ الَّذِی بِنِعمَتِہ تَتِمُّ الصّٰلِحٰتُ وَالصَّلوٰةُ عَلٰی سَیِّدِ المَوجُودَاتِ الَّذِی قَال اَنَا سَیِّد وُلدِاٰدَمَ وَلَا فَخرَ وَعَلٰی آلہ وَاَصحٰبِہ وَاَتبَاعِہ اِلٰی یَومِ الحَشرِ۔
اما بعد:۔ اللہ جل جلالہ ‘ عم نوالہ ‘ کے لطف وانعام اور محض اسکے فضل و احسان اور اسکے نیک بندوں کی شفقت اور توجہات سے اس ناکارہ ونابکار سیاہ کار کے قلم سے فضائل کے سلسلہ میں متعدد رسائل لکھے گئے جو نظام الدین کے تبلیغی سلسلہ کے نصاب میں بھی داخل ہیں اور احباب کے سینکڑوں خطوط سے ان کا بہت زیادہ نافع ہونا معلوم ہوتا رہا۔اس ناکارہ کا اس میں کوئی دخل نہیں اولاً محض اللہ جل شانہ کا انعام ثانیاً اس پاک رسول کے کلام کی برکت جس کے تراجم ان رسائل میں پیش کئے گئے ، ثالثا ان اللہ والوں کی برکتیں جن کے ارشادات سے یہ رسائل لکھے گئے ہیں یہ اللہ کا محض لطف و کرم ہے کہ ان ساری برکات میں اس ناپاک کی گندگی حائل نہ ہوئی۔
اللھم لک الحمد کلہ ولک الشکر کلہ اللھم لا احصی ثنآءعلیک انت کمآ اثنیت علی نفسک
اس سلسلہ کا سب سے پہلا رسالہ۸۴۳۱ھ میں فضائل قرآن کے نام سے حضرت اقدس شاہ محمد یٰسین صاحب نگینوں خلیفہ قطب عالم شیخ المشائخ حضرت گنگوہی قدس سرہ کی تعمیل حکم میں لکھا گیا تھا۔جیسا کہ اس رسالہ کے شروع میں تفصیل سے لکھا گیا ہے،حضرت شاہ صاحب نور اللہ مرقدہ کا وصال ۰۳ شوال ۰۶ ھ شب پنجشنبہ میں ہوا تھا۔نور اللہ مرقدہ،اعلی اللہ مراتبہ۔
حضرت شاہ صاحب کی ولادت ربیع الاول۸۵۲۱ھ ہوئی اس لحاظ سے ۵۷سال کی عمر میں وصال ہوا۔نہایت بزرگ نہایت متواضع نہایت کم گو صاحب کشف اور صاحب تصرفات بزرگ تھے۔اس ناکارہ پر بہت ہی شفقت فرماتے تھے۔حضرت ممدوح مدرسہ کے سالانہ جلسوں میں نہایت اہتمام سے تشریف لایا کرتے اور جلسہ سے فراغ پر کئی دن اس ناکارہ کے پاس قیام فرماتے بڑے اہتمام سے اس ناکارہ کے حدیث کے سبق میں بھی تشریف فرما ہوتے۔اس نابکار کی عادت اسباق میں ڈبیہ بٹوہ ساتھ لیجانے کی بھی تھی،ایک مرتبہ حضرت مرحوم نے یوں فرمایا کہ میں پان کھانے کو تو منع نہیں کرتا لیکن حدیث پاک کے سبق میں نہ کھایا کریں!اس وقت سے آج تک تقریبا ۵۳ سال ہو چکے ہیں بعض مرتبہ۵۔۶ گھنٹے مسلسل بھی سبق ہوا لیکن سبق میں کبھی پان کا خیال بھی نہیں آیا،یہ حضرت ہی کا تصرف تھا۔اس کے علاوہ اور بہت سے واقعات حضرت کی کرامتوں کے سننے میں آئے تھے،رفع اللہ درجاتہ‘۲۱۔
حضرت نے اپنے وصال کے وقت اپنے اجل خلیفہ مولانا الحاج عبد العزیز دعائ جو کے ذریعہ یہ پیام اور وصیت بھیجی کہ جس طرح فضائل قرآن لکھا گیا ہے میری خواہش ہے کہ اسی طرح فضائل درود بھی لکھ دے۔حضرت شاہ صاحب نور اللہ مرقدہ‘ کے وصال کے بعد مولانا عبد العزیز صاب بار بار اس وصیت کے یاد دہانی اور تکمیل پر اصرار کرتے رہے اور یہ ناکارہ بھی اپنی نا اہلیت کے باوجود دل سے خواہش کرتا رہا کہ یہ سعادت میسر ہو جائے۔شاہ صاحب نور اللہ مرقدہ‘ کے علاوہ اور بھی بہت سے حضرات کا اصرار ہوتا رہا مگر اس ناکارہ پر سید الکونین فخر الرسلﷺ کی جلالت شان کی کچھ ایسا رعب طاری رہا کہ جب بھی اس کا ارادہ کیا یہ خوف طاری ہوا کہ مبادا کوئی چیز شان عالی کے خلاف نہ لکھی جائے۔اسی لیت و لعل میں گذشتہ سال عزیزی مولانا محمد یوسف صاحبؒ کے اصرار پر تیسری مرتبہ حجاز کی حاضری میسر ہوئی اور اللہ کے فضل سے چوتھے حج کی سعادت حاصل ہوئی‘حج سے فراغ پر جب مدینہ پاک حاضری ہوئی تو وہاں پہنچ کر بار بار دل میں یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ فضائل درود نہ لکھنے کا کیا جواب ہے۔ہر چند کہ میں اپنے اعذار سوچتا تھا لیکن بار بار اس قلبی سوال پر یہ ناکارہ پختہ ارادہ کر کے آیا تھا کہ سفر سے واپسی پر انشاءاللہ اس مبارک رسالہ کی تکمیل کی کوشش کروں گا۔مگرجواب ”خوے بداربہانہ بسیار“ یہاں واپسی پر بھی امروز وفردا ہوتا رہا ۔ اس ماہ مبارک میں اس داعیہ نے پھر عود کیا تو آج ۵۲۔رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو جمعہ کی نماز کے بعد اللہ کے نام سے ابتداءتو کر ہی دی،اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے تکمیل کی توفیق عطا فرمائے اور اس سلسلہ میں اور اس سے پہلے جتنے رسائل لکھے گئے ہیں یا عربی کی کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں جو لغزشیں ہوئی ہوں محض اپنے لطف و کرم سے ان کو معاف فرمائیں۔
اس رسالہ کو چند فصول اور ایک خاتمہ پر لکھنے کا خیال ہے‘پہلی فصل میں فضائل درود شریف دوسری فصل میں خاص خاص درود شریف کے خاص فضائل۔تیسری فصل میں درود شریف نہ پڑھنے کی وعیدیں‘چوتھی فصل فوائد متفرقہ میں‘پانچویں فصل حکایات میں۔حق تعالی شانہ‘لوگوں کو زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑہنے کی توفیق عطا فرمائے۔اس رسالہ کے دیکھنے سے ہر شخص خود ہی محسوس کرلیگا کہ درود شریف کتنی بڑی دولت ہے اور اس میں کوتاہی کرنے والے کتنی بڑی سعادت سے محروم ہیں۔